کاش کراچی میں بھی کوئی حکومت ہوتی
کراچی کے موجودہ حالات کو دیکھا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہاں حکومت نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے
KARACHI:
کاش! کراچی کو بھی پاکستان کے ساتھ ضم کردیا جاتا۔ جس سے یہ فائدہ ہوتا کہ وہاں ایک انتظامیہ ہوتی، وہاں ادارے قائم ہوتے، وہاں سرکاری محکمے بنتے، جو وہاں کا انتظام بہتر طریقے سے چلاتے۔ کاش! کبھی کراچی میں انتخابات ہوئے ہوتے تو وہاں کے عوام اپنے لیے نمائندے منتخب کرتے، جو ان کے درد کا مداوا کرتے۔ ان کی مجبوریوں اور پریشانیوں میں ان کا دکھ بانٹتے، بلکہ انہیں پریشانی کی حالت تک پہنچنے ہی نہ دیتے۔ وہاں ایم این اے ہوتے جو قومی اسمبلی میں ان کی نمائندگی کرتے اور ان کے حقوق کےلیے آواز بلند کرتے۔ صوبائی اسمبلی میں نمائندگی کےلیے ایم پی اے ہوتے جو وہاں سے انہیں ان کا حق دلاتے۔ کچھ بلدیاتی نمائندے ہوتے جو مقامی سطح پر کراچی کے عوام کی بات سنتے اور اسے آگے پہنچاتے، ان کے مسائل حل کرتے۔
درج بالا تحریر سے شاید کوئی بھی شخص اتفاق نہیں کرے گا، کیونکہ کراچی میں تو انتظامیہ بھی ہے، وہاں سرکاری ادارے اور محکمے بھی قائم ہیں، وہاں ہمیشہ انتخابات بھی ہوتے ہیں، کراچی کے عوام کے نمائندے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں بھی جاتے ہیں، وہ اپنے لیے بلدیاتی نمائندے بھی منتخب کرتے ہیں۔ لہٰذا میری اس خواہش کا کیا مقصد ہے؟
اگر کراچی کے موجودہ حالات کو دیکھا جائے تو کیا ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ یہاں حکومت نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ نہ تو وہاں کبھی انتخابات ہوئے اور نہ ہی کبھی کوئی حکومت قائم ہوئی ہے۔ ان کا کوئی نمائندہ ہی نہیں ہے جو ان کے حق میں آواز بلند کرسکے، جو ان کے حقوق کی جنگ لڑے، انہیں ان کے حقوق دلائے۔ اپنی جیب سے نہیں ان کے ٹیکسوں کا پیسہ انہی پر لگائے۔ ان کے نمائندے تو بالکل ایسے خاموش ہیں جیسے ان کا کراچی کے ساتھ کبھی کوئی تعلق ہی نہیں رہا۔ گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم نے ''میئر تو اپنا ہی ہونا چاہیے'' کا نعرہ لگا کر عوام سے خوب ووٹ حاصل کرکے اپنا میئر بنالیا۔ لیکن انھوں نے کیا کیا؟ اپنی مدت مکمل ہونے سے چند روز قبل کچھ علاقوں کا دورہ کرلیا، بس یہی ان کی کارکردگی تھی۔ سندھ حکومت کی طرف سے جو اربوں روپے ترقیاتی کاموں کےلیے ملے وہ کہاں لگائے؟ یہ کوئی نہیں پوچھے گا۔
ذرا سی بارش ہوتی ہے تو کراچی ڈوبنے لگتا ہے۔ نکاسی آب کا انتظام انتہائی ناقص بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ کراچی کا ایک بہت بڑا علاقہ زیر آب آنے سے لاکھوں رہائشیوں کے جان و مال بلکہ ہر چیز کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔ جبکہ بہت سے لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ہر بارش میں بجلی کے ننگے تاروں سے کرنٹ لگنے سے متعدد افراد جانیں گنوا بیٹھتے ہیں۔ ندی نالوں کی صفائی نہ ہونے کی وجہ سے ان کا پانی شہری آبادیوں میں داخل ہوجاتا ہے۔ جہاں سیوریج کا ناقص انتظام ہونے کی وجہ سے بارش اور گٹروں کا پانی مل کر گلیوں اور سڑکوں پر بہنے لگتا ہے۔ یہ پانی اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ لوگ آدھے آدھے اس میں ڈوب جاتے ہیں۔ لوگوں کے گھروں میں پانی داخل ہوجاتا ہے اور یہ پانی کئی کئی دن تک کھڑا رہتا ہے، جس سے عمارتوں کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔
حالیہ بارشوں میں تو حالات بہت زیادہ خراب ہوچکے ہیں۔ لوگ گھروں میں بلکہ گھروں کی چھتوں پر پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ سڑکیں تالاب کا منظر پیش کررہی ہیں۔ ایک ویڈیو میں تو دیکھا جارہا ہے کہ چند افراد دوسری یا تیسری منزل سے پانی میں چھلانگیں لگا کر تیراکی کررہے۔ اس سے پانی کی گہرائی کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ کئی مکانات گرچکے ہیں، جن کے ملبے تلے دب کر کئی قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ سڑکوں پر کنٹینر تک تیر رہے ہیں۔ انڈرپاسز پانی سے بھر چکے ہیں۔ لوگوں کے گھروں میں پانی داخل ہوچکا ہے، گلیوں میں بھی پانی کا راج ہے۔ نتیجتاً لوگ گھروں میں محصور ہوگئے ہیں۔ کئی علاقے تو بجلی کی سہولت سے بھی محروم ہیں۔ عورتیں، بچے، بزرگ بھوکے پیاسے امداد کے منتظر ہیں۔ کچھ فلاحی تنظیمیں لوگوں کو کھانے پینے کا سامان فراہم کررہی ہیں، لیکن یہ مجموعی ضرورت کو پورا کرنے کےلیے ناکافی ہے۔
موسم کی حالت یہ ہے کہ ایک بارش کا پانی اترنے نہیں پاتا کہ دوبارہ بارش ہوجاتی ہے، جس سے صورتحال مزید خراب ہورہی ہے۔ شہروں میں گلیاں نالوں کی شکل اختیار کرجاتی ہیں۔ جس کی وجہ سے عوام کےلیے محفوظ مقامات پر منتقل ہونا اور امدادی ٹیموں کےلیے امدادی سرگرمیاں جاری رکھنا دشوار ہوجاتا ہے۔
ہمارے سیاستدانوں کا یہ حال ہے کہ وہ اس گمبھیر صورتحال میں بھی اپنی سیاست چمکانے سے باز نہیں آرہے۔ کراچی میں تین سیاسی جماعتوں کی نمائندگی ہے۔ سب سے زیادہ نشستیں تحریک انصاف کے پاس ہیں اور اس کی مرکز میں حکومت ہے۔ کچھ نشستیں پیپلز پارٹی کے پاس ہیں جس کی سندھ میں حکومت ہے۔ جبکہ باقی اکثریتی نشستیں ایم کیو ایم کے پاس ہیں اور میئر کراچی کا تعلق بھی اسی جماعت سے ہے۔
تینوں جماعتیں کراچی کے عوامی مسائل پر خوب جم کر سیاست کرتی ہیں اور ایک دوسرے پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔ تینوں جماعتوں کے رہنما کراچی کے مسائل کا ذمے دار ایک دوسرے کو ٹھہراتے ہیں۔ وفاقی وزرا صوبائی جبکہ صوبائی وزرا وفاقی حکومت کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ کوئی بھی کراچی کے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ کسی کے پاس ان مسائل کے حل کےلیے کوئی تجویز نہیں۔ بس ان کے بیانات الزام تراشی تک ہی ہوتے ہیں، جن سے غیر سنجیدگی اور ناتجربہ کاری چھلکتی ہے۔
اب تو عوامی نمائندے خدا کا خوف کریں اور مل بیٹھ کر سنجیدگی کے ساتھ ان مسائل کے حل کی فکر کریں۔ ماہرین سے رائے لیں اور ان کی روشنی میں ان مسائل کے حل کےلیے کام شروع کریں۔ کہیں نالوں کی مرمت کی ضرورت ہے تو وہ کرائیں، کہیں سڑکیں پلان کے مطابق نہیں بنی ہوئیں تو انہیں درست کرائیں، بجلی کے ننگے تاروں کا مناسب انتظام کریں۔ الغرض تمام مسائل کی فہرست بنائیں اور ماہرین کی آرا میں متعلقہ محکموں کو متحرک کریں اور ملازمین کو کام پر لگائیں تاکہ کراچی میں بھی ایسا محسوس ہو کہ یہاں بھی کوئی حکومت قائم ہے، یہاں بھی انتخابات ہوتے ہیں، یہاں بھی عوامی نمائندے موجود ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کاش! کراچی کو بھی پاکستان کے ساتھ ضم کردیا جاتا۔ جس سے یہ فائدہ ہوتا کہ وہاں ایک انتظامیہ ہوتی، وہاں ادارے قائم ہوتے، وہاں سرکاری محکمے بنتے، جو وہاں کا انتظام بہتر طریقے سے چلاتے۔ کاش! کبھی کراچی میں انتخابات ہوئے ہوتے تو وہاں کے عوام اپنے لیے نمائندے منتخب کرتے، جو ان کے درد کا مداوا کرتے۔ ان کی مجبوریوں اور پریشانیوں میں ان کا دکھ بانٹتے، بلکہ انہیں پریشانی کی حالت تک پہنچنے ہی نہ دیتے۔ وہاں ایم این اے ہوتے جو قومی اسمبلی میں ان کی نمائندگی کرتے اور ان کے حقوق کےلیے آواز بلند کرتے۔ صوبائی اسمبلی میں نمائندگی کےلیے ایم پی اے ہوتے جو وہاں سے انہیں ان کا حق دلاتے۔ کچھ بلدیاتی نمائندے ہوتے جو مقامی سطح پر کراچی کے عوام کی بات سنتے اور اسے آگے پہنچاتے، ان کے مسائل حل کرتے۔
درج بالا تحریر سے شاید کوئی بھی شخص اتفاق نہیں کرے گا، کیونکہ کراچی میں تو انتظامیہ بھی ہے، وہاں سرکاری ادارے اور محکمے بھی قائم ہیں، وہاں ہمیشہ انتخابات بھی ہوتے ہیں، کراچی کے عوام کے نمائندے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں بھی جاتے ہیں، وہ اپنے لیے بلدیاتی نمائندے بھی منتخب کرتے ہیں۔ لہٰذا میری اس خواہش کا کیا مقصد ہے؟
اگر کراچی کے موجودہ حالات کو دیکھا جائے تو کیا ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ یہاں حکومت نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ نہ تو وہاں کبھی انتخابات ہوئے اور نہ ہی کبھی کوئی حکومت قائم ہوئی ہے۔ ان کا کوئی نمائندہ ہی نہیں ہے جو ان کے حق میں آواز بلند کرسکے، جو ان کے حقوق کی جنگ لڑے، انہیں ان کے حقوق دلائے۔ اپنی جیب سے نہیں ان کے ٹیکسوں کا پیسہ انہی پر لگائے۔ ان کے نمائندے تو بالکل ایسے خاموش ہیں جیسے ان کا کراچی کے ساتھ کبھی کوئی تعلق ہی نہیں رہا۔ گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم نے ''میئر تو اپنا ہی ہونا چاہیے'' کا نعرہ لگا کر عوام سے خوب ووٹ حاصل کرکے اپنا میئر بنالیا۔ لیکن انھوں نے کیا کیا؟ اپنی مدت مکمل ہونے سے چند روز قبل کچھ علاقوں کا دورہ کرلیا، بس یہی ان کی کارکردگی تھی۔ سندھ حکومت کی طرف سے جو اربوں روپے ترقیاتی کاموں کےلیے ملے وہ کہاں لگائے؟ یہ کوئی نہیں پوچھے گا۔
ذرا سی بارش ہوتی ہے تو کراچی ڈوبنے لگتا ہے۔ نکاسی آب کا انتظام انتہائی ناقص بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ کراچی کا ایک بہت بڑا علاقہ زیر آب آنے سے لاکھوں رہائشیوں کے جان و مال بلکہ ہر چیز کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔ جبکہ بہت سے لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ہر بارش میں بجلی کے ننگے تاروں سے کرنٹ لگنے سے متعدد افراد جانیں گنوا بیٹھتے ہیں۔ ندی نالوں کی صفائی نہ ہونے کی وجہ سے ان کا پانی شہری آبادیوں میں داخل ہوجاتا ہے۔ جہاں سیوریج کا ناقص انتظام ہونے کی وجہ سے بارش اور گٹروں کا پانی مل کر گلیوں اور سڑکوں پر بہنے لگتا ہے۔ یہ پانی اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ لوگ آدھے آدھے اس میں ڈوب جاتے ہیں۔ لوگوں کے گھروں میں پانی داخل ہوجاتا ہے اور یہ پانی کئی کئی دن تک کھڑا رہتا ہے، جس سے عمارتوں کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔
حالیہ بارشوں میں تو حالات بہت زیادہ خراب ہوچکے ہیں۔ لوگ گھروں میں بلکہ گھروں کی چھتوں پر پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ سڑکیں تالاب کا منظر پیش کررہی ہیں۔ ایک ویڈیو میں تو دیکھا جارہا ہے کہ چند افراد دوسری یا تیسری منزل سے پانی میں چھلانگیں لگا کر تیراکی کررہے۔ اس سے پانی کی گہرائی کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ کئی مکانات گرچکے ہیں، جن کے ملبے تلے دب کر کئی قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ سڑکوں پر کنٹینر تک تیر رہے ہیں۔ انڈرپاسز پانی سے بھر چکے ہیں۔ لوگوں کے گھروں میں پانی داخل ہوچکا ہے، گلیوں میں بھی پانی کا راج ہے۔ نتیجتاً لوگ گھروں میں محصور ہوگئے ہیں۔ کئی علاقے تو بجلی کی سہولت سے بھی محروم ہیں۔ عورتیں، بچے، بزرگ بھوکے پیاسے امداد کے منتظر ہیں۔ کچھ فلاحی تنظیمیں لوگوں کو کھانے پینے کا سامان فراہم کررہی ہیں، لیکن یہ مجموعی ضرورت کو پورا کرنے کےلیے ناکافی ہے۔
موسم کی حالت یہ ہے کہ ایک بارش کا پانی اترنے نہیں پاتا کہ دوبارہ بارش ہوجاتی ہے، جس سے صورتحال مزید خراب ہورہی ہے۔ شہروں میں گلیاں نالوں کی شکل اختیار کرجاتی ہیں۔ جس کی وجہ سے عوام کےلیے محفوظ مقامات پر منتقل ہونا اور امدادی ٹیموں کےلیے امدادی سرگرمیاں جاری رکھنا دشوار ہوجاتا ہے۔
ہمارے سیاستدانوں کا یہ حال ہے کہ وہ اس گمبھیر صورتحال میں بھی اپنی سیاست چمکانے سے باز نہیں آرہے۔ کراچی میں تین سیاسی جماعتوں کی نمائندگی ہے۔ سب سے زیادہ نشستیں تحریک انصاف کے پاس ہیں اور اس کی مرکز میں حکومت ہے۔ کچھ نشستیں پیپلز پارٹی کے پاس ہیں جس کی سندھ میں حکومت ہے۔ جبکہ باقی اکثریتی نشستیں ایم کیو ایم کے پاس ہیں اور میئر کراچی کا تعلق بھی اسی جماعت سے ہے۔
تینوں جماعتیں کراچی کے عوامی مسائل پر خوب جم کر سیاست کرتی ہیں اور ایک دوسرے پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔ تینوں جماعتوں کے رہنما کراچی کے مسائل کا ذمے دار ایک دوسرے کو ٹھہراتے ہیں۔ وفاقی وزرا صوبائی جبکہ صوبائی وزرا وفاقی حکومت کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ کوئی بھی کراچی کے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ کسی کے پاس ان مسائل کے حل کےلیے کوئی تجویز نہیں۔ بس ان کے بیانات الزام تراشی تک ہی ہوتے ہیں، جن سے غیر سنجیدگی اور ناتجربہ کاری چھلکتی ہے۔
اب تو عوامی نمائندے خدا کا خوف کریں اور مل بیٹھ کر سنجیدگی کے ساتھ ان مسائل کے حل کی فکر کریں۔ ماہرین سے رائے لیں اور ان کی روشنی میں ان مسائل کے حل کےلیے کام شروع کریں۔ کہیں نالوں کی مرمت کی ضرورت ہے تو وہ کرائیں، کہیں سڑکیں پلان کے مطابق نہیں بنی ہوئیں تو انہیں درست کرائیں، بجلی کے ننگے تاروں کا مناسب انتظام کریں۔ الغرض تمام مسائل کی فہرست بنائیں اور ماہرین کی آرا میں متعلقہ محکموں کو متحرک کریں اور ملازمین کو کام پر لگائیں تاکہ کراچی میں بھی ایسا محسوس ہو کہ یہاں بھی کوئی حکومت قائم ہے، یہاں بھی انتخابات ہوتے ہیں، یہاں بھی عوامی نمائندے موجود ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔