جدید دور کے تقاضے دھوبی گھاٹ کی جگہ واشنگ اور ڈرائی مشین نے لے لی

پوش علاقوں میں رہنے والے افراد کی بڑی تعداد اب بھی ڈرائی کلینرز سے کپڑے دھلوانے اور استری کرانے کو ترجیح دیتی ہے،

ڈرائی کلین کی دکان پرایک دھوبی رسید بنارہا ہے جبکہ کاریگر دھلے ہوئے کپڑوں پر استری کررہا ہے ۔فوٹو : ایکسپریس

کراچی میں قدیم ترین دھوبی کے پیشے سے منسلک افراد نے اپنے کاروبار کو دور جدید کے تقاضوں کے مطابق تبدیل کردیا ہے اور اب دھوبی گھاٹ پر کپڑے دھونے والوں نے شہر کے مختلف علاقوں میں ڈرائی کلینرز کی جدید ترین دکانیں کھول لی ہیں۔


مہنگائی کے باعث متوسط طبقے کے بجائے پوش علاقوں میں رہنے والے افراد کی بڑی تعداد ڈرائی کلینرز سے کپڑے دھلوانے اور استری کرانے کو ترجیح دیتی ہے، دھوبی گھاٹ پر کپڑے دھونے والے کئی قدیم خاندانوں کی اولادیں اپنے آبائی پیشے کو خیر آباد کہہ کر مختلف شعبوں یا کاروبار سے منسلک ہو رہی ہیں، کراچی میں امن وامان کی مخدوش صورتحال اور مہنگائی کے سبب ڈرائی کلینرز کی دکانوں کی تعداد ماضی کی نسبت کم ہو کر اب 18 ہزار کے بجائے 15 ہزاراور دھوبی گھاٹوں میں کارخانوں کی تعداد کم ہوکر3 ہزار تک محدود ہو گئی ہے، اب شہر میں 1200 سے 1500 ماہر دھوبی موجود ہیں جبکہ اس پیشے سے وابستہ افراد کی تعداد 80 ہزار کے لگ بھگ ہے۔

ایکسپریس نے دھوبی کے پیشے کے حوالے سے تفصیلی سروے کیا، سرجانی ٹاؤن کے رہائشی اور خاندانی دھوبی محمد عرفان کھوکھر نے ایکسپریس کو بتایا کہ ماضی میں30 علاقوں میں دھوبی گھاٹ ہوتے تھے، یہاں 3 فٹ چوڑے،3 فٹ لمبے اور 3 فٹ گہرے اینٹوں کی مدد سے پکے حوض بنائے جاتے تھے، آہستہ آہستہ دھوبی گھاٹوں کی تعداد کم ہوتی گئی، اب شہر میں بڑے دھوبی گھاٹ دستگیر، غریب آباد، ناظم آباد، پاک کالونی، تین ہٹی، لائنز ایریا، سرجانی ٹاؤن، گارڈن، اورنگی ٹاؤن، لانڈھی، ملیر اور دیگر علاقوں میں واقع ہیں، انھوں نے بتایا کہ دھوبی گھاٹ پر پکے رہائشی مکانات میں کھلے صحن میں بڑی واشنگ مشین نصب کی جاتی ہے،جس میں بیک وقت 100کپڑے دھل سکتے ہیں، انھوں نے بتایا کہ مہنگائی کے باعث اب کپڑے کے فی جوڑے کی دھلائی پر 5 سے 8 روپے اور استری پر 5 روپے کی بچت ہوتی ہے۔
Load Next Story