دین پناہ ہست حسینؓ

آپ ؐ نے فرمایا: ’’حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں۔‘‘


Shaista Zaidi August 30, 2020
آپ ؐ نے فرمایا: ’’حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں۔‘‘ فوٹو: سوشل میڈیا

قرآن مجید میں ارشاد ہوا، مفہوم: ''اے ایمان والو! اﷲ اور اس کے پیغمبرؐ کی دعوت کو قبول کرو، وہ تمہیں ایسی چیز کی طرف بلاتے ہیں جو تمہیں زندہ کرنے والی ہے۔'' (سورۃ الانفال)

درود بے پایاں پیغمبر گرامیؐ کی ذات اقدس پر جن کا تعارف خدا نے اس خوب صورت پیرائے میں کرایا ہے اور ہمارے سلام ہوں آپؐ کے اہل بیتؓ پر اور خصوصا آپؐ کے اس نواسے پر جس کے لیے آپ ؐ نے فرمایا: ''حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں۔''

اسی جان رسولؐ اور جگر گوشہ بتولؓ کی عظیم شہادت کی ہم ان دنوں یاد مناتے ہیں۔ کسی یاد کو منانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہم اس واقعے سے وابستہ پیغام کو یاد کریں۔ ہم رسولؐ کی اس دعوت حیات کو یاد کریں جو امام عالی مقامؓ نے میدان کربلا میں عالم انسانیت کو دی۔ مذکورہ حدیث بڑی معنی خیز ہے حدیث کا اولین حصہ حسینؓ مجھ سے ہے، سمجھنا آسان ہے اس لیے کہ ہر اولاد اپنے بزرگوں کی طرف منسوب ہوتی ہے لیکن دوسرے حصے میں حسینؓ سے ہوں، بہت غیر معمولی اور قابل غور ہے۔

کسی نانا نے کہا ہوگا کہ میں اپنے نواسے سے ہوں؟ ہم اس کا یہ مفہوم سمجھتے ہیں کہ حضورؐ یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ایک زمانے تک حسینؓ کی پہچان میں ہوں۔ حسینؓ مجھ سے ہے اور پھر میں حسینؓ سے ہوں یعنی حسینؓ میری پہچان بن جائے گا، زندگی کی آواز بن جائے گا، حق و باطل کی کسوٹی بن جائے گا۔ جس زمانے میں عدل و احسان کے حیات بخش پیغام پر انسان دشمن ملوکیت اور شہنشاہیت کی یلغار ہوگی تو حسینؓ رسول اﷲ ﷺ کی تعلیمات کی آواز بن جائے گا۔ آپؐ نے اپنی حیات طیبہ میں ان زمانوں کی پیشن گوئی فرما دی تھی۔

ہر ظلم کے تین پہلو ہوتے ہیں۔ ظلم انسانوں کو غلام بھی بناتا ہے۔ غلام بنانے کا یہی مفہوم نہیں کہ کسی کو پیسوں سے خرید لیا جائے۔ جب کسی کو اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی نہ ہو، وہ دوسروں کا ذہن، دوسروں کی زبان اور دوسروں کا تابع بن جائے تو اسی کو غلامی کہتے ہیں۔

ظلم کا دوسرا مظہر معاشی استحصال ہے جس کی وجہ سے معاشرے کی اس صورت حال کے خلاف احتجاج کی قوت سلب ہوجاتی ہے اور خدا نے تمام نوع انسانی کی بقاء کے لیے جو نعمتیں پیدا کی ہیں وہ ظالم طبقہ دوسروں کو محروم کرکے اپنے لیے مخصوص کرلیتا ہے اور سب سے زیادہ خطرناک حربہ جو انسانیت کے خلاف استعمال ہوتا ہے وہ لوگوں کی اس طرح برین واشنگ ہے کہ ان کے ذہن اس ظلم پر راضی ہوجائیں اور عوام قوت احساس اور جرأت اظہار کھو دیں۔

اسلام میں بھی ایک وقت جب معاشرہ طبقات میں تقسیم ہوگیا، یہ تو معاشی استحصال کا عالم تھا۔ اﷲ کے بندوں کو غلام بنانے کا یہ بدترین مظہر سامنے آیا کہ صحابہ رسولؐ تک کو آزادی اظہار پر سزاؤں اور تشدد کا نشانہ بننا پڑا۔ ظالم اور جابر، اولی الامر ہونے کا دعویٰ کرنے لگے اور عوام النّاس نے اپنی ذلّت اور پس ماندگی کو اﷲ کا فیصلہ اور اﷲ کی رضا سمجھ کر قبول کرلیا۔ نمازیں ہورہی تھیں، مسجدیں آباد تھیں لیکن منبر فتویٰ فروشوں کا مرکز اور ملوکیت کے ڈھنڈوچی بن گئے تھے۔

امام عالی مقامؓ وقت کی ضرورت سمجھتے ہیں کہ اسلام کے پردے میں نمازوں کے پردے میں مسجدوں میں منبروں پر جو اسلام کو قتل کیا جا رہا ہے، یہ سازش اب بے نقاب ہونی چاہیے۔ خاص طور پر اسلام کو جب اسلام کی تلوار سے قتل کیا جاتا ہے تو صورت حال بڑی ہول ناک ہوجاتی ہے۔ امام چاہتے ہیں کہ اسلام اور ملوکیت میں فرق قائم کیا جائے ورنہ اسلام کی پہچان ہی ختم ہوجائے گی۔

یزید کو امام سے بیعت پر اسی لیے اصرار تھا کہ آپؓ بیعت کرلیں گے تو سچائیوں پر ہمیشہ کے لیے پردہ پڑا رہے گا۔ یزید خود کو رسولؐ کی تعلیمات اور دین کا سچا نمائندہ بھی ثابت کرنا چاہتا تھا اور ایسے ظالم اور فاسق و فاجر کو بیعت کے ذریعے رسولؐ کا نمائندہ تسلیم کرنے کا مطلب یہ تھا کہ رسولؐ کی سنّت کی پہچان ختم ہوجائے۔

رجب 60 کی آخری تاریخیں تھیں، یزید تخت نشین ہوچکا تھا۔ تخت حکومت پر قبضہ کرنے کے بعد اس نے پہلا کام یہ کیا کہ گورنر مدینہ ولید بن عقبہ بن ابوسفیان کو حکم نامہ بھیجا کہ جن لوگوں نے ابھی تک بیعت نہیں کی ہے ان سے بیعت لی جائے۔ محض چار افراد تھے جنہوں نے بیعت یزید سے علی الاعلان انکار کیا تھا۔ عبداﷲ بن زبیرؓ، عبداﷲ بن عمرؓ، عبدالرحمٰن بن ابُوبکرؓ اور امام عالی مقامؓ۔ خط کے ساتھ ایک چھوٹے سے پرچے پر یہ حکم بھی درج تھا کہ حسینؓ اگر بیعت سے انکار کریں تو ان کا سر کاٹ کر دربار میں بھیج دیا جائے۔

نواسۂ رسولؐ حاکم مدینہ کے پاس تشریف لے گئے۔ امیر مدینہ نے یزید کے مطالبہ بیعت کا ذکر کیا۔ اس مطالبہ بیعت کے جواب میں امام ؓ نے جو فرمایا وہ واقعہ کربلا کا خلاصہ ہے۔

''ہم اہل بیت نبوت اور معدن رسالتؐ ہیں۔ اسلام ہمارے گھر سے شروع ہوا اور ہمارا گھر ہمیشہ اسلام کے ساتھ رہے گا اور یزید ایک فاسق و فاجر شخص اور بے گناہوں کا قاتل ہے جس نے اﷲ کے احکام کو پامال کیا۔ مجھ جیسا شخص اس جیسے کی کیسے بیعت کرسکتا ہے۔''

آپؓ نے یہ نہیں فرمایا کہ ہم نبیؐ کے گھر والے ہیں۔ بل کہ فرماتے ہیں ہم اہل بیت نبوتؐ ہیں۔ آپؓ نے یہ نہیں کہا کہ ہم رسولؐ کی اولاد ہیں بل کہ معدن رسالت کے الفاظ استعمال کیے۔ اس الفاظ کے پُرمعنی انتخاب سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ آپ یہ فرما رہے ہیں کہ ہم رسولؐ کی صلبی اولاد ہی نہیں بل کہ ان کے پیغام نبوت کے نمائندے ہیں، ہم رسالت کا خزانہ ہیں، ہم جتنا غور کریں ان الفاظ کے معنی پھیلتے چلے جاتے ہیں، حضرت خاتم الانبیاءؐ اس پیغام کی تکمیل کرنے والے ہیں، جسے تمام انبیائؑ لے کر آتے رہے اور حسینؓ، خاتم الانبیاء ﷺ کے نمائندے ہونے کی حیثیت سے تمام انبیائؑ کی تعلیمات کے وارث ہیں اور یزید اس پیغام کا باغی ہے۔ وہ فاسق و فاجر اور بے گناہوں کا قاتل ہے۔ وہ ہر انسانی اور اسلامی قدر کا دشمن ہے۔

اور اس پس منظر میں آپؓ کا فیصلہ ہے: ''مجھ جیسا شخص اس جیسے کی کیسے بیعت کرسکتا ہے'' یعنی وہ یزید جیسے فرعون صفت شخص کو کیسے اولی الامر تسلیم کرسکتا ہے۔ یہاں آپؓ نے اپنے انکار بیعت کو ایک اصول بتادیا یعنی انبیائؑ کے راستے پر چلنے والا کبھی ظالموں سے تعاون نہیں کرسکتا۔ یا بہ الفاظ دیگر ظالموں کو انسانی معاشروں پر حکومت کرنے کا حق نہیں دیا جاسکتا کہ یہی انبیائؑ کی سنّت ہے، یہی تعلیمات قرآنی کا تقاضا ہے اور یہ ایسا اصول ہے جس کی ہر زمانے اور ہر قوم کو ضرورت رہتی ہے۔ اور ان الفاظ کے ساتھ یہ اصول ولید کے محل سے نکل کر سارے زمانوں پر پھیل جاتا ہے۔

حج کا موقع ہے آپؓ کو اطلاع مل چکی ہے کہ کچھ لوگ حاجیوں کے بھیس میں آپ کے قتل کے ارادے سے مکہ معظمہ آئے ہوئے ہیں۔ خانہ خدا کی حرمت کے پیش نظر آپ حج کو عمرے سے بدل کر روانہ ہونے والے ہیں۔ آپؓ کے اقرباء اور آپ کے خیر خواہ آپ کو اس سفر سے روکنا چاہتے ہیں۔ ابن عباس مشورہ دے رہے ہیں: ''آپ یہاں کے سیّد سردار ہیں، کوفہ والوں کے خطوط کے جواب میں آپ ان سے کہیے کہ پہلے وہ یزید کے گورنر کو نکال دیں تاکہ آپ کو مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے، جب وہ یزید کے گورنر کو نکال دیں تب آپ تشریف لے جائیں۔'' کوفہ والوں کے خطوط تو اس خبر کے بعد آتے ہیں کہ آپؓ نے بیعت یزید سے انکار کردیا ہے۔

پہلا خط دس رمضان کو پہنچا تھا جب کہ سفر شہادت تو 28 رجب 20 سے شروع ہوچکا تھا۔ آپ کے بھائی محمد حنفیہؓ کا مشورہ تھا کہ آپ ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل ہوتے رہیے تاکہ آپ یزید کی دست رس سے بچے رہیں۔ محمد حنفیہؓ نے یمن جانے کا مشورہ بھی دیا، جہاں حاتم طائی کا قبیلہ رہتا تھا جہاں آپ کو کوئی گزند نہیں پہنچ سکتی تھی۔

ان تمام مشوروں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امام عالی مقامؓ مع اپنے اہل خانہ انکار بیعت کے باوجود ایک محفوظ زندگی گزار سکتے تھے، ابھی زندہ رہنے کے راستے کھلے ہوئے تھے۔ لیکن امام کا فیصلہ 7 اور 8 ذوالحجہ 60 کی درمیانی شب تمام عازمین حج کے سامنے خطبہ ارشاد فرما رہے ہیں: ''میرے لیے ایک قتل گاہ پسند کرلی گئی ہے، ہمارے ساتھ محض وہ آئیں جو اﷲ کی رضا کی خاطر شہادت کی موت مرنا چاہیں۔'' آپ زندگی خاموشی سے گزار سکتے تھے لیکن اگر حسینؓ ابن علی خاموش ہوجاتے ہیں تو احتجاج کون کرتا؟ اور آپ کا احتجاج وقت کی ضرورت ہے اسلام کی ضرورت ہے، انسان کی ضرورت ہے۔

لوگ حیران ہیں کہ جب فرزند رسولؐ مرنے کا عزم کرچکے ہیں تو عورتوں اور چھوٹے بچوں کو ان درندوں میں کیوں لے جارہے ہیں۔ آپ یہ خطرہ محسوس کررہے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک گم نام صحرا میں آپ کی شہادت کے بعد حکومت اپنے اس پروپیگنڈے میں کام یاب ہوجائے کہ کسی خارجی نے خروج کیا تھا۔

آپؓ یہ انتظام فرما رہے ہیں کہ آپ کی آواز خاموش ہونے کے بعد یہ محترم خواتین اور کم سن بچے حسینؓ کی آواز بن جائیں۔ رسولؐ کی آواز بن جائیں، زندگی کی آواز بن جائیں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں