یوم عاشور کا پیغام
یوم عاشور ملت اسلامیہ سمیت اہل پاکستان کو حسینیت کے پیغام اور اس کے تاریخ ساز کردار کی یاد دلاتا ہے۔
کربلا میں نواسہ رسول ؐ ' حضرت امام حسین ؓ اور ان کے ساتھیوں کی لازوال قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے آج پاکستان میں عاشورہ محرم الحرام عقیدت و احترام سے منایا جا رہا ہے۔
سید الشہداء حضرت امام حسینؓ اور شہدائے کربلا کے سیرت و کردار پر سیمینار ہوں گے' اسوہ اہل بیت پر روشنی ڈالی جائے گی۔ امام عالی مقام نے باطل قوتوں کے سامنے ڈٹ جانے کا جو غیر متزلزل فلسفہ عالم اسلام بلکہ دنیا بھر کی اقوام کو دیا' اسے آج مسلمانوں کے تمام مسالک پیغام حسینیت کہتے ہیں۔
امام عالی مقام نے اپنے خاندان اور جانثارساتھیوں کی جانوں کی قربانی دے کر خلافت و ملوکیت کا فرق شہدا کے مقدس خون کی لکیر کھینچ کر واضح کر دیا۔ اگر امام عالی مقام اس وقت مصلحت اندیشی کا شکار ہو کر خاموشی اختیار کر لیتے تو ملوکیت ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کا مقدر بن جاتی۔
ممتاز علمائے کرام نے اپنی تقاریر اور پیغامات میں بولہبی کے خلاف عالم اسلام کو سینہ سپر ہونے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔مجالس میں شہدائے کربلا کی ان قربانیوں کی یاد دلائی جاتی ہے جو رسم شبیری کے عظیم روایات سے عبارت ہیں۔ امام حسینؓ اور ان کے جانثار ساتھیوں کی ناموس رسالت کی خاطر عظیم قربانی عالم اسلام ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے لیے مشعل راہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یوم عاشور ملت اسلامیہ سمیت اہل پاکستان کو حسینیت کے پیغام اور اس کے تاریخ ساز کردار کی یاد دلاتا ہے' شہید ان کربلا نے اپنے قول و فعل سے حق و صداقت کی راہ میں جانثاری کی عظیم تاریخ رقم کی' یہ وہی تاریخ ہے جس کے اوراق کی روشنی میں عالم اسلام اور اہل وطن کو اپنے گمشدہ آدرش اور ملی نشاۃ ثانیہ کی بازیافت کرنی ہے' امام عالی مقام کی تعلیمات عمل پیرا ہو کر ہی عالم اسلام تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔
اسلام نے باطل قوتوں کی شکست و ذلت کو کربلا کے باب میں حقانیت کے درس کی صورت پیش کر دیا ہے' اسلام کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے والے اہل بیت نے ایک جابر حکمراں کو چیلنج کیا' یہ حکومت و اقتدار کی جنگ نہ تھی' اصولوں کی بقا اور حق کی سربلندی کے لیے سر کٹانے کا فیصلہ تھا۔
امام حسینؓ نے فاسق حکمران کی بیعت کرنے سے انکار کی جس روایت کی بنا ڈالی ہے' عالم انسانیت کا فرض ہے کہ وہ کسی ظالم اور جابر و فاسق کو حق کے ساتھ کھلواڑ کی اجازت نہ دے' اس سے ستیزہ کاری کی وہ روایت قائم کرے کہ رہتی دنیا تک بربریت' ظلم و ستم اور نا انصافی و باطل حکمرانی کو کبھی داء میت نصیب نہ ہو بلکہ حق کے سامنے اسے ہمیشہ شکست و ذلت کا سامنا ہو۔ باطل قوتوں کے لیے حسینیت ہمیشہ صدائے مستمانہ کی صورت فضائے آسمانی میں سر بلند ہو۔ بلاشبہ ان شعروں میں ابدی حقیقت آج بھی جھلکتی ہے۔
اے کربلا کی خاک اس احسان کو نہ بھول
تڑپی ہے تجھ لاش جگر گوشہ بتول
اسلام کے لہو سے تیری پیاس بجھ گئی
سیراب کر گیا تجھے خون رگ رسول
معرکہ کربلا کے اسباب و اعلل پر غور اور تحقیق کی جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ معرکہ دراصل حق اور ناحق اور ظلم و جبر کے درمیان تھا۔ یزید محض ایک حکمران ہی نہیں تھا بلکہ اس کردار کو ایک نظریے اور فکر کے طور پر لینا چاہیے ' ایسا نظریہ جو خدائی منشور کے برعکس دنیاوی قوت اور جاہ و حشمت کو پروان چڑھاتا ہے۔
دین اسلام میں مسلمانوں پر حکمرانی کا حق کس کو حاصل ہو گا'اس کے اصول و ضوابط اور کردار و سیرت قرآن پاک اورخاتم النبین آنحضرت ؐ کی حیات مبارکہ میں واضح کر دیے گئے ہیں ۔ امام حسینؓ اور ان کے ساتھی اسی نظریے اور منشور کے علمبردار تھے اور انھوں نے بلاخوف و خطر ملوکیت کو اسلام کے اصولوں کے منافی قرار دیا اوراسلامی خلافت کی عملی تفسیر اپنی اور اپنے جانثاروں کی شہادت پیش کر کے بیان کر دی۔
شہدائے کربلا کی تعلیمات قوم کو اس بات کا یقین دلاتی ہیں کہ پاکستان باقی رہنے کے لیے قائم ہوا ہے' اہل بیت کا اہل وطن پر فرض ہے کہ وہ جمہوریت کو انسانیت سے متصادم نہ ہونے دیں' حکمراں حق و صداقت کا حسینی معیار قائم کریں۔ ظالم و بے انصافی کا ہر دروازہ بند کریں' ریاست مدینہ سے کمٹمنٹ کی ہے تو اس کو اس کی روح کے مطابق پورا کریں' یہی حسینیت کا پیغام ہے۔
سید الشہداء حضرت امام حسینؓ اور شہدائے کربلا کے سیرت و کردار پر سیمینار ہوں گے' اسوہ اہل بیت پر روشنی ڈالی جائے گی۔ امام عالی مقام نے باطل قوتوں کے سامنے ڈٹ جانے کا جو غیر متزلزل فلسفہ عالم اسلام بلکہ دنیا بھر کی اقوام کو دیا' اسے آج مسلمانوں کے تمام مسالک پیغام حسینیت کہتے ہیں۔
امام عالی مقام نے اپنے خاندان اور جانثارساتھیوں کی جانوں کی قربانی دے کر خلافت و ملوکیت کا فرق شہدا کے مقدس خون کی لکیر کھینچ کر واضح کر دیا۔ اگر امام عالی مقام اس وقت مصلحت اندیشی کا شکار ہو کر خاموشی اختیار کر لیتے تو ملوکیت ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کا مقدر بن جاتی۔
ممتاز علمائے کرام نے اپنی تقاریر اور پیغامات میں بولہبی کے خلاف عالم اسلام کو سینہ سپر ہونے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔مجالس میں شہدائے کربلا کی ان قربانیوں کی یاد دلائی جاتی ہے جو رسم شبیری کے عظیم روایات سے عبارت ہیں۔ امام حسینؓ اور ان کے جانثار ساتھیوں کی ناموس رسالت کی خاطر عظیم قربانی عالم اسلام ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے لیے مشعل راہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یوم عاشور ملت اسلامیہ سمیت اہل پاکستان کو حسینیت کے پیغام اور اس کے تاریخ ساز کردار کی یاد دلاتا ہے' شہید ان کربلا نے اپنے قول و فعل سے حق و صداقت کی راہ میں جانثاری کی عظیم تاریخ رقم کی' یہ وہی تاریخ ہے جس کے اوراق کی روشنی میں عالم اسلام اور اہل وطن کو اپنے گمشدہ آدرش اور ملی نشاۃ ثانیہ کی بازیافت کرنی ہے' امام عالی مقام کی تعلیمات عمل پیرا ہو کر ہی عالم اسلام تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔
اسلام نے باطل قوتوں کی شکست و ذلت کو کربلا کے باب میں حقانیت کے درس کی صورت پیش کر دیا ہے' اسلام کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے والے اہل بیت نے ایک جابر حکمراں کو چیلنج کیا' یہ حکومت و اقتدار کی جنگ نہ تھی' اصولوں کی بقا اور حق کی سربلندی کے لیے سر کٹانے کا فیصلہ تھا۔
امام حسینؓ نے فاسق حکمران کی بیعت کرنے سے انکار کی جس روایت کی بنا ڈالی ہے' عالم انسانیت کا فرض ہے کہ وہ کسی ظالم اور جابر و فاسق کو حق کے ساتھ کھلواڑ کی اجازت نہ دے' اس سے ستیزہ کاری کی وہ روایت قائم کرے کہ رہتی دنیا تک بربریت' ظلم و ستم اور نا انصافی و باطل حکمرانی کو کبھی داء میت نصیب نہ ہو بلکہ حق کے سامنے اسے ہمیشہ شکست و ذلت کا سامنا ہو۔ باطل قوتوں کے لیے حسینیت ہمیشہ صدائے مستمانہ کی صورت فضائے آسمانی میں سر بلند ہو۔ بلاشبہ ان شعروں میں ابدی حقیقت آج بھی جھلکتی ہے۔
اے کربلا کی خاک اس احسان کو نہ بھول
تڑپی ہے تجھ لاش جگر گوشہ بتول
اسلام کے لہو سے تیری پیاس بجھ گئی
سیراب کر گیا تجھے خون رگ رسول
معرکہ کربلا کے اسباب و اعلل پر غور اور تحقیق کی جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ معرکہ دراصل حق اور ناحق اور ظلم و جبر کے درمیان تھا۔ یزید محض ایک حکمران ہی نہیں تھا بلکہ اس کردار کو ایک نظریے اور فکر کے طور پر لینا چاہیے ' ایسا نظریہ جو خدائی منشور کے برعکس دنیاوی قوت اور جاہ و حشمت کو پروان چڑھاتا ہے۔
دین اسلام میں مسلمانوں پر حکمرانی کا حق کس کو حاصل ہو گا'اس کے اصول و ضوابط اور کردار و سیرت قرآن پاک اورخاتم النبین آنحضرت ؐ کی حیات مبارکہ میں واضح کر دیے گئے ہیں ۔ امام حسینؓ اور ان کے ساتھی اسی نظریے اور منشور کے علمبردار تھے اور انھوں نے بلاخوف و خطر ملوکیت کو اسلام کے اصولوں کے منافی قرار دیا اوراسلامی خلافت کی عملی تفسیر اپنی اور اپنے جانثاروں کی شہادت پیش کر کے بیان کر دی۔
شہدائے کربلا کی تعلیمات قوم کو اس بات کا یقین دلاتی ہیں کہ پاکستان باقی رہنے کے لیے قائم ہوا ہے' اہل بیت کا اہل وطن پر فرض ہے کہ وہ جمہوریت کو انسانیت سے متصادم نہ ہونے دیں' حکمراں حق و صداقت کا حسینی معیار قائم کریں۔ ظالم و بے انصافی کا ہر دروازہ بند کریں' ریاست مدینہ سے کمٹمنٹ کی ہے تو اس کو اس کی روح کے مطابق پورا کریں' یہی حسینیت کا پیغام ہے۔