ٹرمپ کا عجب سیاسی کھیل

ٹرمپ امریکا کے صدر تو بن گئے مگر ان کی کاروباری ذہنیت اب بھی ان پر غالب نظر آتی ہے۔


عثمان دموہی August 30, 2020
[email protected]

جب کسی شخص کو خود اس کے گھر والے جھوٹا اور دھوکے باز قرار دے دیں تو پھر اس شخص کے کردار کے بارے میں کسی اور کی گواہی کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

ٹرمپ امریکا کے صدر تو بن گئے مگر ان کی کاروباری ذہنیت اب بھی ان پر غالب نظر آتی ہے۔ انھیں بہرحال امریکی صدارت سے رخصت ہونے کے بعد اپنے کاروبار کی طرف واپس لوٹنا ہے۔

یہودی دنیا میں کاروبار کے معاملے میں سب سے زیادہ کامیاب واقع ہوئے ہیں عالمی تجارت کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں ان کا عمل دخل نہ ہو چنانچہ جہاں دیدہ ٹرمپ یہودیوں سے قربت کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ وہ ان کی اکلوتی ریاست اسرائیل کے سب سے زیادہ خیرخواہ ہیں اور اس کی ناجائز خواہشات کو پورا کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کر رہے ہیں۔وہ یہودیوں کی مدد سے ہی گزشتہ الیکشن جیتے تھے اور انھیں اگلے الیکشن بھی ان کی مدد کے بغیر جیتنا محال نظر آتا ہے۔

کوئی سابق امریکی صدر بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالخلافہ تسلیم کرنے کی ہمت نہ کرسکا مگر ٹرمپ نے نہ صرف بیت المقدس کو اسرائیل کا کیپٹل تسلیم کرلیا بلکہ فلسطینیوں کے علاقوں پر اسرائیلی قبضے کو درست قرار دیدیا۔ اب وہ غرب اردن پر بھی اسرائیل کو قابض کرانیوالے ہیں مگر یہ کام ایک خاص مقصد کے تحت کچھ عرصے کے لیے معطل کردیا ہے۔

نومبر کے مہینے میں امریکی صدارتی انتخاب منعقد ہونے والا ہے اور پورے امریکا میں ان کی پوزیشن انتہائی خراب ہے۔ انھوں نے گزشتہ الیکشن میں عوام سے جو وعدے کیے تھے ان میں سے کوئی بھی پورا نہیں ہو سکا۔ اس وقت امریکا سخت معاشی مشکلات میں مبتلا ہے۔

مہنگائی اور بیروزگاری کی شرح اتنی بلند ہے کہ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا پھر انتظامی طور پر بھی ٹرمپ بالکل ناکام ثابت ہوئے ہیں ملک میں کورونا نے تباہی مچا رکھی ہے وہ اس بیماری کی روک تھام کرنے کے بجائے سیاسی کھیل کھیل رہے ہیں امریکا میں تیزی سے پھیلتے ہوئے کورونا کی وجہ چین کو قرار دے رہے ہیں گویا کہ وہ اس بیماری کا ذمے دار چین کو قرار دے کر خود کو اس سے بری الذمہ سمجھتے ہیں عوام ان کی منطق سے سخت نالاں ہیں۔

ادھر ملک میں نسل پرستی عروج پر ہے کالوں سے سخت نفرت کا پرچار اب ان کے اپنے گلے پڑ گیا ہے امریکی پولیس نے کچھ ہی عرصے میں تین کالے نوجوانوں کو بغیر کسی قصور کے ہلاک کر ڈالا ہے۔ پولیس کے ہاتھوں پہلا قتل جارج فلوئیڈ نامی نوجوان کا ہوا تھا جسے بڑی سفاکی سے مارا گیا تھا۔

پولیس کی اس سفاکی پر پورے امریکا میں کئی ماہ تک ٹرمپ کے خلاف مظاہرے ہوئے تھے ابھی ایک نئے کالے کی ہلاکت پر پھر مظاہرے شروع ہوگئے ہیں دراصل ٹرمپ نے اقتدار سنبھالتے ہی کئی غیر دانشمندانہ فیصلے کیے تھے جن میں تارکین وطن کے خلاف سخت قوانین کا نفاذ بھی شامل تھا ان قوانین کے نفاذ سے مقامی لوگ بھی ان کے خلاف ہوگئے تھے، انھوں نے اپنی صدارت کے پورے چار سال مسلم دشمنی اور جنگجویانہ پرچار سے پوری دنیا کو تیسری عالمی جنگ کے قریب کر دیا ہے۔ چین کو انھوں نے خاص نشانے پر لیا ہوا ہے۔ اسے جنگ کرنے کے لیے اشتعال دلاتے رہتے ہیں۔

ٹرمپ اپنی جنگجویانہ مہم جوئی سے امریکی عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ وہ امریکا کے کتنے وفادار ہیں جب کہ امریکی عوام ان کی اس روش سے سخت بیزار ہیں اور چین کو خوامخواہ امریکا کا دشمن بنانے پر سخت ناراض ہیں دراصل ٹرمپ دنیا کو جنگ میں جھونک کر اپنا اگلا الیکشن جیتنا اور یہودیوں کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ نے اس وقت بھارت کو قربانی کا بکرا بنا رکھا ہے وہ اسے چین کے خلاف لڑانے کے لیے اس کی پیٹ ٹھونک رہے ہیں اور بیوقوف مودی ٹرمپ کی چال میں پھنس کر خود کو مغرب کے قریب ہونے پر پھولا نہیں سما رہا ہے۔

ٹرمپ چین اور ایران کا ہوا کھڑا کرکے بھارت اور عربوں کو اپنے ہتھیار فروخت کرنے کے ساتھ ساتھ اسرائیلی اسلحہ بھی بکوا رہے ہیں۔ ٹرمپ کے مقابلے میں اس وقت ان کے حریف جوبائیڈن کی عوام میں مقبولیت دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ایک حالیہ سروے کے مطابق اس وقت ٹرمپ کی مقبولیت صرف 12 فیصد رہ گئی ہے جب کہ جوبائیڈن کی عوامی مقبولیت 52 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ ایسے حالات میں ٹرمپ امریکی عوام میں اپنی ساکھ بہتر بنانے کے لیے اسرائیل کو خلیجی ممالک سے تسلیم کرانے کا کارنامہ انجام دینا چاہتے ہیں۔

اس سلسلے میں ٹرمپ کے یہودی داماد مسٹر کرائسز اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس وقت ٹرمپ کو اپنے داماد کے ذریعے ایک بڑی کامیابی متحدہ عرب امارات سے اسرائیل کو تسلیم کراکے ملی ہے جس کا اعلان انھوں نے خود واشنگٹن سے کیا ہے۔ متحدہ عرب امارات کا کہنا ہے کہ اس نے اسرائیل کو اس کی اس یقین دہانی پر تسلیم کیا ہے کہ وہ مزید فلسطینی علاقوں پر قبضہ نہیں کریگا مگر اسرائیلی وزیر اعظم نے معاہدے کے فوراً بعد اس شرط کو ماننے سے صاف انکار کردیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ فلسطینی زمین کے حقوق سے انھیں کوئی دست بردار نہیں کرسکتا۔

اس طرح اسرائیل کو فلسطینی علاقوں پر قبضہ کرنے سے روکنا ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اسرائیل معاہدے کے بعد سے ہی فلسطینیوں پر جنگی جہازوں سے روز ہی حملے کر رہا ہے۔ ادھر فلسطینی انتظامیہ نے اس معاہدے کو جعلی اور دھوکا قرار دیکر رد کردیا ہے۔ ادھر سعودی حکومت نے اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کرکے ٹرمپ کے الیکشن جیتنے اور اسرائیل کو خوش کرنے کے سازشی منصوبے کو ناکام بنا دیا ہے۔

سعودی حکومت نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ وہ متحدہ عرب امارات کی پیروی نہیں کریگی وہ اس وقت تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کریگی جب تک فلسطینیوں اور اسرائیلی حکومت کے درمیان دو ریاستی فارمولے کے تحت امن معاہدہ طے نہیں ہو جاتا۔ سعودی حکومت نے دراصل یہ فیصلہ اپنی عالمی ذمے داریوں کو سامنے رکھ کر کیا ہے پھر وہ عالم اسلام کے قائد کا کردار بھی ادا کر رہا ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے اس کی او آئی سی کی قیادت پر بھی حرف آ سکتا تھا اور او آئی سی بھی بکھر سکتی تھی۔

کشمیریوں اور فلسطینیوں کو بھارتی اوراسرائیلی غلامی سے نکالنا او آئی سی کی ذمے داری ہے سعودی حکومت کشمیریوں کی آزادی کی اب بھی علمبردار ہے۔ عربوں کو اسرائیل اور بھارت پر کسی صورت میں اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔ جہاں تک متحدہ عرب امارات کا تعلق ہے اسے اسرائیل کو تسلیم کرانے کے لیے مجبور کرنیوالا امریکا ہے۔ امریکی حکومت نے لگتا ہے اسے F-35جدید اسٹیلتھ طیارے دینے کا لالچ دیکر منایا ہے۔

بھارت کے حکمرانوں کا خیال تھا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد وہ عرب دشمنی ترک کردیگا مگر اس نے متحدہ عرب امارات کو F-35 طیاروں کو دینے کی سخت مخالف کی ہے جس نے ثابت کردیا ہے کہ وہ اب بھی اپنی عرب دشمنی پر قائم ہے۔ اس سے برہم ہوکر محمد بن زید نے نیتن یاہو سے ملاقات کرنے سے انکار کردیا ہے۔ لگتا ہے متحدہ عرب امارات کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے۔ اس طرح دونوں کے درمیان امن معاہدہ کسی وقت بھی ردی کی ٹوکری کی زینت بن سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔