بُک شیلف
’’ جب تم کسی ایسے آدمی کو دیکھو جو دنیا سے نفرت کرتاہے تو اس کا قرب حاصل کرو، وہ تمھیں حکمت بتائے گا۔‘‘(ابن ماجہ)
پدر... جانِ پسر
مصنف: محمد الیاس کھوکھر(ایڈووکیٹ) ۔۔۔ قیمت: 300روپے
ناشر: مکتبہ فروغ فکر اقبال، 970 نظام بلاک ،اقبال ٹاؤن ،لاہور، 03328076918
کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ صحت اور خوش حالی کے ساتھ ایک طویل عمر گزاریں؟
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
''جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اس کی عمر دراز ہو اور اس کے رزق میں اضافہ ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرے اور ان پر صلہ رحمی کرے''۔
حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا:
'' بیٹا ! جو اپنے ماں باپ کو راضی رکھتا ہے، وہ اللہ کو راضی رکھتاہے اور جو انھیں ناراض کرتاہے ، وہ حقیقت میں رحمان کو ناراض کرتاہے۔ بیٹا ! یاد رکھو!! والدین جنت کا دروازہ ہیں۔ اگر وہ راضی ہیں تو تم اس دروازے سے داخل ہوسکو گے وگرنہ روک لئے جاؤ گے''۔
یعنی دنیا و مافیہا کی کامیابیوں کی بنیاد والدین کو خوش رکھنے میں ہے۔ زیرنظر کتاب ایسے ایک فرد کی لکھی گئی ہے جس نے اپنے والدین کی شفقت سمیٹی اور پھر انھیں احترام دیا، انھیں راضی رکھا۔ مصنف نے پورے درد دل سے اس کتاب کے ذریعے نئی نسل کو احترام والدین سکھانے کی نہایت پرتاثیر کوشش کی ہے۔ وہ اپنے والدین کے بارے میں لکھتے ہیں:
'' میرے والد اور والدہ صبح ناشتہ میں رات کے بچے کھچے کھانے کو ترجیح دیا کرتے تھے، ایک دن جس دن کے بعد آج تک میرا ایمان ہے کہ اس گھر میں کبھی بھی رزق کی کمی نہ ہوسکے گی، وہ ایک روشن دن کی صبح تھی، میری ماں میرے باپ سے کہہ رہی تھی' رات کی تین روٹیاں بچی ہوئی ہیں، انھیں مل کر ہم دونوں کھالیں گے اور گھر میں کام کرنے والی خاتون کے لئے ایک تازہ روٹی الگ سے پکا لیتی ہوں، خوانِ تروتازہ گھر میں کام کرنے والی کے پیٹ میں اترنے سے جو طمانیت اس روز میرے والد کو حاصل ہوئی، ان کے چہرے کی دمک سے صاف عیاں تھی''۔
یہ کتاب پڑھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر والدین چاہتے ہیں کہ ان کی اولاد ان کی تابع و فرمانبردار بنے، ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنے تو وہ یہ کتاب ضرور انھیں پڑھائیں۔ اس کے بعد چند ہی دنوں میں آپ ان کے رویے میں ایک بڑی تبدیلی دیکھیں گے۔
تذکرۃ الاولیا
مصنف: حضرت شیخ فریدالدین محمد عطار نیشا پوری
ترجمہ، ترتیب و اضافہ : رئیس احمد جعفری
قیمت: 1200روپے۔۔۔ ناشر: بک کارنر،جہلم، 054-4278051
تصوف کیا ہے؟ یہ ایک اہم ترین سوال ہے، اس کا ایک تو سیدھا سادا جواب ہے کہ حب دنیا سے دوری، دنیا کی چمک دمک سے بے نیازی، جاہ اور نمائش کو زندگی میں داخل نہ ہونے دینا، صرف خدا کی طرف متوجہ ہونا، زندگی کے ہر مرحلہ پر اسی سے لَو لگانا، یہ تصوف ہے۔ رسول اکرم ﷺ دن اور رات کا بڑا حصہ لوگوں سے الگ دنیا سے دور، غارحرا کی تنہائیوں میں بسر کرتے تھے۔
اسی طرح آپ ﷺ کے اصحاب کرام بھی خشوع وخضوع سے عبادت، مجاہدہ نفس کرتے، دنیا کی چمک دمک سے دور رہتے۔، وہ شیطان کے دشمن تھے اور جہاد فی سبیل اللہ کے شائق اور جویا۔ یہی طرزعمل تابعین، تبع تابعین اور بعد کے لوگوں نے بھی اختیار کیا۔ وہ تصوف کی راہ پر چلتے ہوئے تنقیہ نفس اور تصفیہ قلب کرتے تھے۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ایک حدیث قدسی کے ذریعے ارشاد فرمایا:
'' میں نے جو کچھ فرض کیا ہے اس پر عمل کرکے بندہ مجھ سے قریب ہوسکتا ہے، نوافل کی پابندی کرکے بندہ مجھ سے قریب اور میرا محبوب ہوسکتاہے، جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو جو کچھ وہ سنتا ہے، میں سنتاہوں، جو کچھ وہ دیکھتاہے، میں دیکھتاہوں، میں اس کے ہاتھ سے پکڑتا اور پاؤں سے چلتاہوں۔ اگر وہ کچھ مجھ سے مانگتاہے میں اسے دیتاہوں۔ اگر وہ مجھ سے پناہ مانگتاہے تو میں اسے پناہ دیتاہوں''۔
اور ایسے ہی لوگوں کے بارے میں رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
'' جب تم کسی ایسے آدمی کو دیکھو جو دنیا سے نفرت کرتاہے تو اس کا قرب حاصل کرو، وہ تمھیں حکمت بتائے گا۔''(ابن ماجہ)
نبی مہربان ﷺ، صحابہ کرام ؓ کے بعد عام مسلمانوں کا ایک حصہ دنیا کی محبت میں مبتلا ہونے لگا تو اس کے مقابل ایک بڑا گروہ اٹھ کھڑا ہوا۔اس نے ایک بار پھر فقر و غنا کی زندگی کی طر ف لوگوں کو بلانا شروع کردیا۔
یہی اہل تصوف تھے۔ زیرنظرکتاب ایسے ہی بیسیوں لوگوں کے تذکروں پر مشتمل ہے جن کے کردار اور سیرت کے واقعات دوسروں کی زندگی کو بناتے اور عمل کو سنوارتے ہیں۔ انہی لوگوں کی زندگی سے روشنی حاصل کرکے ہم بھی ویسے ہی بندے بن سکتے ہیں جنھیں رب پسند کرتاہے اور جن پر اللہ کی رحمتوں اور نعمتوںکا نزول ہرلمحہ ہوتاہے۔
چک پیراں کا جسّا (ناول)
ناول نگار: بلونت سنگھ
قیمت: 900روپے۔۔۔ ناشر: بک کارنر، جہلم: (054)4278051
'' جسّو کا جُوڑا بگّی کی مٹھی میں تھا اور وہ ہوا میں لٹک رہاتھا...بگا سنگھ کسی چالاک مداری کی طرح اپنا بڑا سا منہ کھولے کھڑا تھا۔ وہ خود بھی خوش ہورہاتھا اور دوسروں کو بھی خوش کررہاتھا۔قہقہوں کا شور کم ہوا تو اس نے بھاری آواز میں کہا:
' پلاّ چاہے کتے کا ہو یا آدمی کا، اس کی قوت برداشت کی جانچ کرنے کا یہی ایک طریقہ ہے...'
بگا سنگھ نے ہوا میں ہی اپنی مٹھی کھول دی اور جسّو یوں نیچے کو آیا، جیسے ناریل کے پیڑ سے ناریل نیچے گرتا ہے۔ مزے کی بات یہ تھی کہ نیچے گرتے ہی جسّو پل بھر میں اٹھ کر کھونٹے کی طرح سیدھا ہوگیا...''
یہ ہے وہ جسّا سنگھ جو زیرنظر ناول کا مرکزی لیکن عجیب وغریب کردار ہے۔ سیدھا سادا لیکن قوی اور جری ایسا کہ مخالف سب جوانوں کی چالاکیاں اور سازشیں دھول چاٹنے لگتی تھیں۔ اس کا چچا بگا سنگھ اپنی بے وقوفیوں کے ہاتھوں کہیں کا نہ رہا۔ اس کہانی میں ایک رام پیاری بھی تھی۔ والہانہ انداز کی عورت جس کے کردار میں اتنی طاقت تھی کہ گاؤں کی ساکت زندگی میں ایک ایسا دھماکا ہوتا کہ عام زندگی بھی ایک بار چٹخ کر ٹوٹ جاتی۔
ایک کردار گوردیپ تھی قیامت خیز حسن کا ایسا استعارہ جس کا ہر زاویہ بولتا ہے، وہ اپنے روایتی لباس سرخ اوڑھنی، پیلا کرتا اور بینگنی رنگ کی شلوار میں ایک ایسی الہڑ دوشیزہ ہے جس کے حسن کو آنکھ بھر کے دیکھنا ممکن نہیں۔ جسّا سنگھ کا لباس کھدر کا کرتا، کرتے کے نیچے میلا کمربند، سخت سردی کے باوجود اس کے تن پر ایک پھٹا ہوا کھیس، لیکن گوردیپ جسّا سنگھ کو ٹوٹ کر چاہتی ہے۔ ناول میں اور بھی بہت سے کردار ہیں لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ کوئی ایک کردار بھی ایسا نہیں جو زوردار نہ ہو۔
جناب محمد حامد سراج نے بلونت سنگھ کے بارے میں کیا خوب تبصرہ کیا:''بلونت سنگھ کا انداز نگارش اپنا ہے اور منفرد ہے۔ وہ پنجاب کی مٹی میں وہاں کے کلچر کو گوندھ کر چاک پر چڑھاتے ہیں۔ سکھ جاتی تہذیب، رسم و رواج، بول چال محاورہ، گالی، میلے ٹھیلوں کے ساتھ وہ سکھوں کے رہن سہن، انداز زندگی، روز مرہ کی بول چال کو خاص سکھ اندازمیں پینٹ کرتے ہیں۔ بلونت سنگھ کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ سکھوں کی معاشرتی زندگی ، گھریلو جھگڑے اور محبتیں اپنے قلم سے امر کردیتے ہیں۔ آپ ناول کا مطالعہ کیجئے، اس کے کردار سینہ ٹھوک کر آپ سے زندہ انسانوں کی طرح اپنی زبان میں بات کریں گے۔
''چک پیراں کا جسّا'' ایک کلاسیک ناول ہے۔'بک کارنر' نے اسے اس کے شایان شان خوبصورت سرورق، بہترین پیپر، عمدہ طباعت دی، ویسے میں یہ روایتی الفاظ عموماً اپنے تبصروں میں شامل نہیں کرتا لیکن یہ ناول ہے ہی ایسا کہ مجھے لکھنا پڑ رہے ہیں۔آپ بھی پڑھیں گے تو اش اش کراٹھیں گے۔
مصنف: محمد الیاس کھوکھر(ایڈووکیٹ) ۔۔۔ قیمت: 300روپے
ناشر: مکتبہ فروغ فکر اقبال، 970 نظام بلاک ،اقبال ٹاؤن ،لاہور، 03328076918
کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ صحت اور خوش حالی کے ساتھ ایک طویل عمر گزاریں؟
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
''جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اس کی عمر دراز ہو اور اس کے رزق میں اضافہ ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرے اور ان پر صلہ رحمی کرے''۔
حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا:
'' بیٹا ! جو اپنے ماں باپ کو راضی رکھتا ہے، وہ اللہ کو راضی رکھتاہے اور جو انھیں ناراض کرتاہے ، وہ حقیقت میں رحمان کو ناراض کرتاہے۔ بیٹا ! یاد رکھو!! والدین جنت کا دروازہ ہیں۔ اگر وہ راضی ہیں تو تم اس دروازے سے داخل ہوسکو گے وگرنہ روک لئے جاؤ گے''۔
یعنی دنیا و مافیہا کی کامیابیوں کی بنیاد والدین کو خوش رکھنے میں ہے۔ زیرنظر کتاب ایسے ایک فرد کی لکھی گئی ہے جس نے اپنے والدین کی شفقت سمیٹی اور پھر انھیں احترام دیا، انھیں راضی رکھا۔ مصنف نے پورے درد دل سے اس کتاب کے ذریعے نئی نسل کو احترام والدین سکھانے کی نہایت پرتاثیر کوشش کی ہے۔ وہ اپنے والدین کے بارے میں لکھتے ہیں:
'' میرے والد اور والدہ صبح ناشتہ میں رات کے بچے کھچے کھانے کو ترجیح دیا کرتے تھے، ایک دن جس دن کے بعد آج تک میرا ایمان ہے کہ اس گھر میں کبھی بھی رزق کی کمی نہ ہوسکے گی، وہ ایک روشن دن کی صبح تھی، میری ماں میرے باپ سے کہہ رہی تھی' رات کی تین روٹیاں بچی ہوئی ہیں، انھیں مل کر ہم دونوں کھالیں گے اور گھر میں کام کرنے والی خاتون کے لئے ایک تازہ روٹی الگ سے پکا لیتی ہوں، خوانِ تروتازہ گھر میں کام کرنے والی کے پیٹ میں اترنے سے جو طمانیت اس روز میرے والد کو حاصل ہوئی، ان کے چہرے کی دمک سے صاف عیاں تھی''۔
یہ کتاب پڑھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر والدین چاہتے ہیں کہ ان کی اولاد ان کی تابع و فرمانبردار بنے، ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنے تو وہ یہ کتاب ضرور انھیں پڑھائیں۔ اس کے بعد چند ہی دنوں میں آپ ان کے رویے میں ایک بڑی تبدیلی دیکھیں گے۔
تذکرۃ الاولیا
مصنف: حضرت شیخ فریدالدین محمد عطار نیشا پوری
ترجمہ، ترتیب و اضافہ : رئیس احمد جعفری
قیمت: 1200روپے۔۔۔ ناشر: بک کارنر،جہلم، 054-4278051
تصوف کیا ہے؟ یہ ایک اہم ترین سوال ہے، اس کا ایک تو سیدھا سادا جواب ہے کہ حب دنیا سے دوری، دنیا کی چمک دمک سے بے نیازی، جاہ اور نمائش کو زندگی میں داخل نہ ہونے دینا، صرف خدا کی طرف متوجہ ہونا، زندگی کے ہر مرحلہ پر اسی سے لَو لگانا، یہ تصوف ہے۔ رسول اکرم ﷺ دن اور رات کا بڑا حصہ لوگوں سے الگ دنیا سے دور، غارحرا کی تنہائیوں میں بسر کرتے تھے۔
اسی طرح آپ ﷺ کے اصحاب کرام بھی خشوع وخضوع سے عبادت، مجاہدہ نفس کرتے، دنیا کی چمک دمک سے دور رہتے۔، وہ شیطان کے دشمن تھے اور جہاد فی سبیل اللہ کے شائق اور جویا۔ یہی طرزعمل تابعین، تبع تابعین اور بعد کے لوگوں نے بھی اختیار کیا۔ وہ تصوف کی راہ پر چلتے ہوئے تنقیہ نفس اور تصفیہ قلب کرتے تھے۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ایک حدیث قدسی کے ذریعے ارشاد فرمایا:
'' میں نے جو کچھ فرض کیا ہے اس پر عمل کرکے بندہ مجھ سے قریب ہوسکتا ہے، نوافل کی پابندی کرکے بندہ مجھ سے قریب اور میرا محبوب ہوسکتاہے، جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو جو کچھ وہ سنتا ہے، میں سنتاہوں، جو کچھ وہ دیکھتاہے، میں دیکھتاہوں، میں اس کے ہاتھ سے پکڑتا اور پاؤں سے چلتاہوں۔ اگر وہ کچھ مجھ سے مانگتاہے میں اسے دیتاہوں۔ اگر وہ مجھ سے پناہ مانگتاہے تو میں اسے پناہ دیتاہوں''۔
اور ایسے ہی لوگوں کے بارے میں رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
'' جب تم کسی ایسے آدمی کو دیکھو جو دنیا سے نفرت کرتاہے تو اس کا قرب حاصل کرو، وہ تمھیں حکمت بتائے گا۔''(ابن ماجہ)
نبی مہربان ﷺ، صحابہ کرام ؓ کے بعد عام مسلمانوں کا ایک حصہ دنیا کی محبت میں مبتلا ہونے لگا تو اس کے مقابل ایک بڑا گروہ اٹھ کھڑا ہوا۔اس نے ایک بار پھر فقر و غنا کی زندگی کی طر ف لوگوں کو بلانا شروع کردیا۔
یہی اہل تصوف تھے۔ زیرنظرکتاب ایسے ہی بیسیوں لوگوں کے تذکروں پر مشتمل ہے جن کے کردار اور سیرت کے واقعات دوسروں کی زندگی کو بناتے اور عمل کو سنوارتے ہیں۔ انہی لوگوں کی زندگی سے روشنی حاصل کرکے ہم بھی ویسے ہی بندے بن سکتے ہیں جنھیں رب پسند کرتاہے اور جن پر اللہ کی رحمتوں اور نعمتوںکا نزول ہرلمحہ ہوتاہے۔
چک پیراں کا جسّا (ناول)
ناول نگار: بلونت سنگھ
قیمت: 900روپے۔۔۔ ناشر: بک کارنر، جہلم: (054)4278051
'' جسّو کا جُوڑا بگّی کی مٹھی میں تھا اور وہ ہوا میں لٹک رہاتھا...بگا سنگھ کسی چالاک مداری کی طرح اپنا بڑا سا منہ کھولے کھڑا تھا۔ وہ خود بھی خوش ہورہاتھا اور دوسروں کو بھی خوش کررہاتھا۔قہقہوں کا شور کم ہوا تو اس نے بھاری آواز میں کہا:
' پلاّ چاہے کتے کا ہو یا آدمی کا، اس کی قوت برداشت کی جانچ کرنے کا یہی ایک طریقہ ہے...'
بگا سنگھ نے ہوا میں ہی اپنی مٹھی کھول دی اور جسّو یوں نیچے کو آیا، جیسے ناریل کے پیڑ سے ناریل نیچے گرتا ہے۔ مزے کی بات یہ تھی کہ نیچے گرتے ہی جسّو پل بھر میں اٹھ کر کھونٹے کی طرح سیدھا ہوگیا...''
یہ ہے وہ جسّا سنگھ جو زیرنظر ناول کا مرکزی لیکن عجیب وغریب کردار ہے۔ سیدھا سادا لیکن قوی اور جری ایسا کہ مخالف سب جوانوں کی چالاکیاں اور سازشیں دھول چاٹنے لگتی تھیں۔ اس کا چچا بگا سنگھ اپنی بے وقوفیوں کے ہاتھوں کہیں کا نہ رہا۔ اس کہانی میں ایک رام پیاری بھی تھی۔ والہانہ انداز کی عورت جس کے کردار میں اتنی طاقت تھی کہ گاؤں کی ساکت زندگی میں ایک ایسا دھماکا ہوتا کہ عام زندگی بھی ایک بار چٹخ کر ٹوٹ جاتی۔
ایک کردار گوردیپ تھی قیامت خیز حسن کا ایسا استعارہ جس کا ہر زاویہ بولتا ہے، وہ اپنے روایتی لباس سرخ اوڑھنی، پیلا کرتا اور بینگنی رنگ کی شلوار میں ایک ایسی الہڑ دوشیزہ ہے جس کے حسن کو آنکھ بھر کے دیکھنا ممکن نہیں۔ جسّا سنگھ کا لباس کھدر کا کرتا، کرتے کے نیچے میلا کمربند، سخت سردی کے باوجود اس کے تن پر ایک پھٹا ہوا کھیس، لیکن گوردیپ جسّا سنگھ کو ٹوٹ کر چاہتی ہے۔ ناول میں اور بھی بہت سے کردار ہیں لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ کوئی ایک کردار بھی ایسا نہیں جو زوردار نہ ہو۔
جناب محمد حامد سراج نے بلونت سنگھ کے بارے میں کیا خوب تبصرہ کیا:''بلونت سنگھ کا انداز نگارش اپنا ہے اور منفرد ہے۔ وہ پنجاب کی مٹی میں وہاں کے کلچر کو گوندھ کر چاک پر چڑھاتے ہیں۔ سکھ جاتی تہذیب، رسم و رواج، بول چال محاورہ، گالی، میلے ٹھیلوں کے ساتھ وہ سکھوں کے رہن سہن، انداز زندگی، روز مرہ کی بول چال کو خاص سکھ اندازمیں پینٹ کرتے ہیں۔ بلونت سنگھ کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ سکھوں کی معاشرتی زندگی ، گھریلو جھگڑے اور محبتیں اپنے قلم سے امر کردیتے ہیں۔ آپ ناول کا مطالعہ کیجئے، اس کے کردار سینہ ٹھوک کر آپ سے زندہ انسانوں کی طرح اپنی زبان میں بات کریں گے۔
''چک پیراں کا جسّا'' ایک کلاسیک ناول ہے۔'بک کارنر' نے اسے اس کے شایان شان خوبصورت سرورق، بہترین پیپر، عمدہ طباعت دی، ویسے میں یہ روایتی الفاظ عموماً اپنے تبصروں میں شامل نہیں کرتا لیکن یہ ناول ہے ہی ایسا کہ مجھے لکھنا پڑ رہے ہیں۔آپ بھی پڑھیں گے تو اش اش کراٹھیں گے۔