بریسٹ کینسر
پاکستان میں یہ مرض تشویش ناک حد تک بڑھ چکا ہے
21 ویں صدی میں تمام تر جدید ٹیکنالوجی کے باوجود پوری دنیا میں کینسر کے پھیلاؤ کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق دنیا بھر میں چھے میں سے ایک موت سرطان کی وجہ سے ہوتی ہے یعنی ہر دن تقریباً 26 ہزار افراد اس کا شکار ہوتے ہیں۔ 2018 میں کینسر سے 9.6ملین اموات ہوئیں ۔
سرطان ایک جان لیوا مرض ہے۔ پہلے نمبر پر دل کی بیماریوں سے اموات اور دوسرے نمبر پر پوری دنیا میں زیادہ تر اموات کا سبب سرطان ہے۔
ہر سال امریکا میں تقریباً 600,000 لاکھ افراد کینسر کا شکار ہوئے اور تقریباً کینیڈا میں 80,000 ہزار افراد جان کی بازی ہارگئے ۔ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی شرح اموات کی صورت حال یہی ہے۔ڈبلیو ایچ او کے مطابق کم آمدنی والے ممالک میں اندازاً 70 فی صد اموات سرطان سے ہوئیں گویا یہاں ہر 10 اموات میں سے سات کینسر کی وجہ سے ہوئیں۔
کینسر کی سو سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں جو جسم کے کسی بھی حصے کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں لیکن ان میں سب سے زیادہ خطرناک اور صدمے سے دوچار کرنے والی قسم چھاتی کا سرطان ہے اور عورتوں میں شادی سے پہلے اگر اس کینسر کی تشخیص ہو تو یہ ان کی شادی میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔
شادی کے بعد اگر اس مرض کی تشخیص ہو تو یہ گھریلو اور ازدواجی زندگی کے لیے بھی مسئلہ بن جاتا ہے۔ ایک جانب بیماری اور اس کے علاج کے لیے اخراجات اور دوسری طرف دنیا میں موجود خواتین جو پڑھی لکھی ہوں یا ان پڑھ، ان میں احساسَ کم تری، شرم، جھجھک اور شدید نوعیت کے ذہنی مسائل جنم لیتے ہیں اور اس کا ان کی ازدواجی اور سماجی زندگی پر بھی گہرا اثر پڑتا ہے۔
چھاتی کا سرطان ہر سال 2.1 ملین خواتین کو متاثر کرتا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق 2018 میں 627,000 خواتین چھاتی کے کینسر کی وجہ سے موت کا شکار ہو گئیں جو دیگر کینسر کی اقسام سے ہونے والی موت کا تقریباً 15 فی صد ہے جب کہ ترقی پذیر ممالک میں جہاں مسائل وسائل سے زیادہ ہیں، ذرائع آمدنی کم ہے، وہاں اس میں ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا۔
ایشیا میں، پاکستان میں چھاتی کے سرطان کے حوالے اعداد و شمار تشویش ناک ہیں اور یہاں خواتین میں اموات کی دوسری بڑی وجہ چھاتی کا کینسر ہے۔
محتاط اندازے کے مطابق ماہانہ 83,000 کیسز رپورٹ ہوتے ہیں اور اس کی وجہ سے 40,000 اموات ہو رہی ہیں جو کہ تشویش ناک ہے۔ اگر ہم اس کی وضاحت کریں تو ہر 9 میں سے ایک پاکستانی عورت کینسر کی مریض ہے۔
چھاتی کا کینسر خواتین میں مردوں کی نسبت کیوں بڑھ رہا ہے؟ یہ سوال حیران کن ہے کیونکہ مردوں میں چھاتی کا کینسر غیرمعمولی نوعیت کا معاملہ ہے۔ امریکی کینسر سوسائٹی کے اعدادوشمار کے مطابق مردوں میں چھاتی کے تقریباً 2600,2 کیسز تشخیص ہوئے اور اس سے 440 اموات رپورٹ ہوئیں۔
اس کے مقابلے میں ہر سال چھاتی کے کینسر سے000, 40 کی موت ہوئی ۔ ان اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ مردوں کی نسبت خواتین میں چھاتی کا کینسر سو گنا زیادہ ہے۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خواتین میں مردوں کے مقابلے میں چھاتی کے سیل (cell ) زیادہ ہوتے ہیں جو بریسٹ کینسر کا باعث بنتے ہیں کیوں کہ ان میں چھاتی کے خلیات مسلسل ہارمونز، ایسٹروجن اور پروجیسٹرون کے نمو کو بڑھاوا دیتے ہیں۔
پاکستانی خواتین خودتشخیصی اور چھاتی میں کسی قسم کی تبدیلی کو محسوس کرنے کے حوالے سے شعور اور آگاہی نہ رکھنے کے باعث بیماری کو بڑھا لیتی ہیں، جب کہ ڈاکٹر کے پاس بروقت جانے سے کئی پیچیدگیوں سے بچا جاسکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق جو دس فی صد خواتین ایسے کسی مسئلے کی صورت میں چیک اپ کرواتی ہیں ان میں بھی بیماری دوسری یا تیسری اسٹیج تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ 75فی صد خواتین علاج نہیں کرواتیں اور پانچ سال کے اندر اندر موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔
پاکستان میں چھاتی کا سرطان خواتین میں عام ہے اور اگر خیبرپختونخوا کی بات کی جائے تو باقی صوبوں کی نسبت کینسر کی شرح یہاں سب سے زیادہ ہے۔
ہمارے سماجی المیوں میں سے ایک المیہ قدامت پسندی بھی ہے۔ اس کے بارے میں ہمارے معاشرے میں انتہا درجے کی بے حسی اور پسماندہ سوچ پائی جاتی ہے۔ ایک طرف تشخیص و علاج کی سہولیات ناکافی ہیں تو دوسری جانب خواتین کی جھجھک، شرم و حیا اس بیماری سے متعلق لب کشائی کو مشکل بنا دیتی ہے اور انھیں لگتا ہے کہ اس پر بات کرنے سے خدانخواستہ وہ بے پردگی کی مرتکب ہو رہی ہیں۔
خیبرپختونخوا میں خواتین کا زیادہ تر تعلق دوردراز کے قصبوں، دیہات سے ہوتا ہے جہاں پر ایسی باتوں کو نہایت معیوب اور شرم و حیا کا مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ رحم کا کینسر ہو یا بریسٹ کا کینسر، حساس جگہ کا کینسر سمجھا جاتا ہے اور خواتین کے لیے اس پر بات کرنا آج بھی چیلنج سے کم نہیں ۔ اگر یہ کہا جائے تو کیا غلط ہو گا کہ اکثر غیرشادی شدہ لڑکیاں بھی اپنی ماں سے ایسی بات کرنے اورکسی قسم کی جسمانی تبدیلی کے بارے میں بتانے یا تکلیف کا اظہار کرنے سے گریز ہی کرتی ہیں اور اس وقت بات کی جاتی ہے جب معاملہ سنگین اور تشویش ناک ہو جائے۔
سرطان ایک ایسی مہلک بیماری ہے جو معاشی طور پر کم زور خاندانوں کے مالی اور سماجی مسائل میں اضافہ کر رہا ہے۔ پاکستان چونکہ ترقی پذیر ملک ہے اور آبادی کا زیادہ تر حصہ دیہی علاقوں میں رہتا ہے جہاں بنیادی صحت کے صرف مراکز قائم تو ہیں لیکن طبی عملے، اور طبی سہولیات سے خالی ہیں۔ اس کے علاوہ ناخواندگی اور بے روزگاری کی وجہ سے بھی خواتین بروقت بڑے شہروں میں جا کر علاج کروانے سے قاصر ہیں۔
دیہی کے ساتھ ساتھ شہری علاقوں کی خواتین کے لیے بھی اسکریننگ مراکز میں مختلف قسم کے کینسر کی تشخیص کی سہولت میسر نہیں۔ میموگرافی جو بیماری کا پتا لگانے میں مددگار اور موثر ہے مگر غریب اور متوسط طبقہ اس پر اٹھنے والی لاگت برداشت نہیں کر سکتا کیوں کہ یہ بہت مہنگا ٹیسٹ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر خواتین بے بسی سے خود کو ہر دن موت کے قریب جاتا دیکھتی ہیں مگر کچھ بھی نہیں کر پاتیں۔
ہمارے سماج میں اگر خواتین پڑھی لکھی بھی ہے تو بھی اپنے جسم کے پوشیدہ حصوں سے متعلق بات کرنا اس کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ہمارے ہاں صحت سے متعلق خواتین میں شعور کا فقدان ہے۔ بروقت ڈاکٹر کے پاس جانے کا رواج کم ہی ہے۔ جسم میں تکلیف ہو تو ازخود علاج کا سہارا لیا جاتا ہے، تھوڑا آرام آگیا تو لوگ مطمئن ہو جاتے ہیں۔ اگر دوبارہ تکلیف ہو تو ذہن میں نظر لگنے سے لے کر جادو ٹونے تک سوچ کے گھوڑے ضرور دوڑائے جاتے ہیں مگر ڈاکٹر اور بروقت تشخیص کی طرف دھیان نہیں دیں گے۔
چوںکہ اس بیماری میں چھاتی میں گلٹی محسوس ہوتی ہے اور درد خاص نہیں ہوتا ، مریض روٹین کے کام بغیر رکاوٹ کے آسانی سے کرتا ہے ، لہذا بہتر یہی سمجھا جاتا ہے کہ پہلے دم کروالیا جائے، آرام نہ آنے کی صورت میں پھر حکیم، گلی محلے میں کھلے اتائی ڈاکٹر کے کلینک سے مکمل ''ـفیضیاب'' ہونے کے بعد جب ہوش آتا ہے تو پھر وہ اسپتال کی طرف دوڑ لگاتے ہیں، لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔مزید بدقسمتی کہہ لیجیے کہ توہم پرستی کی بنا پر اب تک ایسی بیماریوں کو قابلِ توجہ سمجھا ہی نہیں جاتا جو بظاہر نظر نہ آرہی ہوں انھیں وہم سمجھا جاتا ہے جو صرف ایک دم اور پھونک کی مار ہے۔
لیکن جب بیماری گلٹی کی صورت میں نظر آنے لگے اور تکلیف کے ساتھ جب زندگی کے معمولات پر اثر پڑنے لگے تو پھر ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں لیکن میل ڈاکٹر سے چیک اپ کی بات آتی ہے تو خواتین گھبرا جاتی ہیں ایسے میں گھر کے افراد ہی مریضہ کو اعتماد دے سکتے ہیں۔ اسے ذہنی طور پر آمادہ کر سکتے ہیں اگر گھر والے سپورٹ نہیں کریں گے تو مریض علاج کروانے سے انکار کر سکتا ہے اور مکمل مایوس ہوجاتا ہے۔
پاکستان میں بریسٹ کینسر سرجن فی میل ڈاکٹر کی کمی ہے۔ خواتین اس شعبے میں کم ہی آتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ میل ڈاکٹر سے علاج کروانے کی ہمت پیدا کرنے میں اتنا وقت ضائع ہو جاتا ہے کہ بیماری پہلی اسٹیج سے نکل جاتی ہے اور آخری اسٹیج میں بیماری کو ہینڈل کرنا مشکل اور وقت طلب ہوتا ہے ۔چناںچہ حکومتی سطح پر فی میل ڈاکٹرز کو اس شعبے کی طرف راغب کرنے کی مناسب منصوبہ بندی کی جانی چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ خواتین اس شعبے میں قدم رکھ سکیں اور ان عورتوں کو بچا سکیں جو اپنی فطری شرم وحیا، جھجھک کی وجہ سے موت کے منہ میں جانے کو زیادہ ترجیح دیتی ہیں۔
اس بیماری سے متعلق آگاہی پروگرام صرف اکتوبر میں ہی نہیں بلکہ ہر ماہ مختلف اداروں کے تعاون سے میڈیا کے ذریعے نشر کیے جائیں تاکہ دیہی علاقے کی خواتین باشعور ہونے کے ساتھ ساتھ پُراعتماد بھی ہو سکیں۔
سرطان ایک جان لیوا مرض ہے۔ پہلے نمبر پر دل کی بیماریوں سے اموات اور دوسرے نمبر پر پوری دنیا میں زیادہ تر اموات کا سبب سرطان ہے۔
ہر سال امریکا میں تقریباً 600,000 لاکھ افراد کینسر کا شکار ہوئے اور تقریباً کینیڈا میں 80,000 ہزار افراد جان کی بازی ہارگئے ۔ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی شرح اموات کی صورت حال یہی ہے۔ڈبلیو ایچ او کے مطابق کم آمدنی والے ممالک میں اندازاً 70 فی صد اموات سرطان سے ہوئیں گویا یہاں ہر 10 اموات میں سے سات کینسر کی وجہ سے ہوئیں۔
کینسر کی سو سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں جو جسم کے کسی بھی حصے کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں لیکن ان میں سب سے زیادہ خطرناک اور صدمے سے دوچار کرنے والی قسم چھاتی کا سرطان ہے اور عورتوں میں شادی سے پہلے اگر اس کینسر کی تشخیص ہو تو یہ ان کی شادی میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔
شادی کے بعد اگر اس مرض کی تشخیص ہو تو یہ گھریلو اور ازدواجی زندگی کے لیے بھی مسئلہ بن جاتا ہے۔ ایک جانب بیماری اور اس کے علاج کے لیے اخراجات اور دوسری طرف دنیا میں موجود خواتین جو پڑھی لکھی ہوں یا ان پڑھ، ان میں احساسَ کم تری، شرم، جھجھک اور شدید نوعیت کے ذہنی مسائل جنم لیتے ہیں اور اس کا ان کی ازدواجی اور سماجی زندگی پر بھی گہرا اثر پڑتا ہے۔
چھاتی کا سرطان ہر سال 2.1 ملین خواتین کو متاثر کرتا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق 2018 میں 627,000 خواتین چھاتی کے کینسر کی وجہ سے موت کا شکار ہو گئیں جو دیگر کینسر کی اقسام سے ہونے والی موت کا تقریباً 15 فی صد ہے جب کہ ترقی پذیر ممالک میں جہاں مسائل وسائل سے زیادہ ہیں، ذرائع آمدنی کم ہے، وہاں اس میں ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا۔
ایشیا میں، پاکستان میں چھاتی کے سرطان کے حوالے اعداد و شمار تشویش ناک ہیں اور یہاں خواتین میں اموات کی دوسری بڑی وجہ چھاتی کا کینسر ہے۔
محتاط اندازے کے مطابق ماہانہ 83,000 کیسز رپورٹ ہوتے ہیں اور اس کی وجہ سے 40,000 اموات ہو رہی ہیں جو کہ تشویش ناک ہے۔ اگر ہم اس کی وضاحت کریں تو ہر 9 میں سے ایک پاکستانی عورت کینسر کی مریض ہے۔
چھاتی کا کینسر خواتین میں مردوں کی نسبت کیوں بڑھ رہا ہے؟ یہ سوال حیران کن ہے کیونکہ مردوں میں چھاتی کا کینسر غیرمعمولی نوعیت کا معاملہ ہے۔ امریکی کینسر سوسائٹی کے اعدادوشمار کے مطابق مردوں میں چھاتی کے تقریباً 2600,2 کیسز تشخیص ہوئے اور اس سے 440 اموات رپورٹ ہوئیں۔
اس کے مقابلے میں ہر سال چھاتی کے کینسر سے000, 40 کی موت ہوئی ۔ ان اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ مردوں کی نسبت خواتین میں چھاتی کا کینسر سو گنا زیادہ ہے۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خواتین میں مردوں کے مقابلے میں چھاتی کے سیل (cell ) زیادہ ہوتے ہیں جو بریسٹ کینسر کا باعث بنتے ہیں کیوں کہ ان میں چھاتی کے خلیات مسلسل ہارمونز، ایسٹروجن اور پروجیسٹرون کے نمو کو بڑھاوا دیتے ہیں۔
پاکستانی خواتین خودتشخیصی اور چھاتی میں کسی قسم کی تبدیلی کو محسوس کرنے کے حوالے سے شعور اور آگاہی نہ رکھنے کے باعث بیماری کو بڑھا لیتی ہیں، جب کہ ڈاکٹر کے پاس بروقت جانے سے کئی پیچیدگیوں سے بچا جاسکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق جو دس فی صد خواتین ایسے کسی مسئلے کی صورت میں چیک اپ کرواتی ہیں ان میں بھی بیماری دوسری یا تیسری اسٹیج تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ 75فی صد خواتین علاج نہیں کرواتیں اور پانچ سال کے اندر اندر موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔
پاکستان میں چھاتی کا سرطان خواتین میں عام ہے اور اگر خیبرپختونخوا کی بات کی جائے تو باقی صوبوں کی نسبت کینسر کی شرح یہاں سب سے زیادہ ہے۔
ہمارے سماجی المیوں میں سے ایک المیہ قدامت پسندی بھی ہے۔ اس کے بارے میں ہمارے معاشرے میں انتہا درجے کی بے حسی اور پسماندہ سوچ پائی جاتی ہے۔ ایک طرف تشخیص و علاج کی سہولیات ناکافی ہیں تو دوسری جانب خواتین کی جھجھک، شرم و حیا اس بیماری سے متعلق لب کشائی کو مشکل بنا دیتی ہے اور انھیں لگتا ہے کہ اس پر بات کرنے سے خدانخواستہ وہ بے پردگی کی مرتکب ہو رہی ہیں۔
خیبرپختونخوا میں خواتین کا زیادہ تر تعلق دوردراز کے قصبوں، دیہات سے ہوتا ہے جہاں پر ایسی باتوں کو نہایت معیوب اور شرم و حیا کا مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ رحم کا کینسر ہو یا بریسٹ کا کینسر، حساس جگہ کا کینسر سمجھا جاتا ہے اور خواتین کے لیے اس پر بات کرنا آج بھی چیلنج سے کم نہیں ۔ اگر یہ کہا جائے تو کیا غلط ہو گا کہ اکثر غیرشادی شدہ لڑکیاں بھی اپنی ماں سے ایسی بات کرنے اورکسی قسم کی جسمانی تبدیلی کے بارے میں بتانے یا تکلیف کا اظہار کرنے سے گریز ہی کرتی ہیں اور اس وقت بات کی جاتی ہے جب معاملہ سنگین اور تشویش ناک ہو جائے۔
سرطان ایک ایسی مہلک بیماری ہے جو معاشی طور پر کم زور خاندانوں کے مالی اور سماجی مسائل میں اضافہ کر رہا ہے۔ پاکستان چونکہ ترقی پذیر ملک ہے اور آبادی کا زیادہ تر حصہ دیہی علاقوں میں رہتا ہے جہاں بنیادی صحت کے صرف مراکز قائم تو ہیں لیکن طبی عملے، اور طبی سہولیات سے خالی ہیں۔ اس کے علاوہ ناخواندگی اور بے روزگاری کی وجہ سے بھی خواتین بروقت بڑے شہروں میں جا کر علاج کروانے سے قاصر ہیں۔
دیہی کے ساتھ ساتھ شہری علاقوں کی خواتین کے لیے بھی اسکریننگ مراکز میں مختلف قسم کے کینسر کی تشخیص کی سہولت میسر نہیں۔ میموگرافی جو بیماری کا پتا لگانے میں مددگار اور موثر ہے مگر غریب اور متوسط طبقہ اس پر اٹھنے والی لاگت برداشت نہیں کر سکتا کیوں کہ یہ بہت مہنگا ٹیسٹ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر خواتین بے بسی سے خود کو ہر دن موت کے قریب جاتا دیکھتی ہیں مگر کچھ بھی نہیں کر پاتیں۔
ہمارے سماج میں اگر خواتین پڑھی لکھی بھی ہے تو بھی اپنے جسم کے پوشیدہ حصوں سے متعلق بات کرنا اس کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ہمارے ہاں صحت سے متعلق خواتین میں شعور کا فقدان ہے۔ بروقت ڈاکٹر کے پاس جانے کا رواج کم ہی ہے۔ جسم میں تکلیف ہو تو ازخود علاج کا سہارا لیا جاتا ہے، تھوڑا آرام آگیا تو لوگ مطمئن ہو جاتے ہیں۔ اگر دوبارہ تکلیف ہو تو ذہن میں نظر لگنے سے لے کر جادو ٹونے تک سوچ کے گھوڑے ضرور دوڑائے جاتے ہیں مگر ڈاکٹر اور بروقت تشخیص کی طرف دھیان نہیں دیں گے۔
چوںکہ اس بیماری میں چھاتی میں گلٹی محسوس ہوتی ہے اور درد خاص نہیں ہوتا ، مریض روٹین کے کام بغیر رکاوٹ کے آسانی سے کرتا ہے ، لہذا بہتر یہی سمجھا جاتا ہے کہ پہلے دم کروالیا جائے، آرام نہ آنے کی صورت میں پھر حکیم، گلی محلے میں کھلے اتائی ڈاکٹر کے کلینک سے مکمل ''ـفیضیاب'' ہونے کے بعد جب ہوش آتا ہے تو پھر وہ اسپتال کی طرف دوڑ لگاتے ہیں، لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔مزید بدقسمتی کہہ لیجیے کہ توہم پرستی کی بنا پر اب تک ایسی بیماریوں کو قابلِ توجہ سمجھا ہی نہیں جاتا جو بظاہر نظر نہ آرہی ہوں انھیں وہم سمجھا جاتا ہے جو صرف ایک دم اور پھونک کی مار ہے۔
لیکن جب بیماری گلٹی کی صورت میں نظر آنے لگے اور تکلیف کے ساتھ جب زندگی کے معمولات پر اثر پڑنے لگے تو پھر ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں لیکن میل ڈاکٹر سے چیک اپ کی بات آتی ہے تو خواتین گھبرا جاتی ہیں ایسے میں گھر کے افراد ہی مریضہ کو اعتماد دے سکتے ہیں۔ اسے ذہنی طور پر آمادہ کر سکتے ہیں اگر گھر والے سپورٹ نہیں کریں گے تو مریض علاج کروانے سے انکار کر سکتا ہے اور مکمل مایوس ہوجاتا ہے۔
پاکستان میں بریسٹ کینسر سرجن فی میل ڈاکٹر کی کمی ہے۔ خواتین اس شعبے میں کم ہی آتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ میل ڈاکٹر سے علاج کروانے کی ہمت پیدا کرنے میں اتنا وقت ضائع ہو جاتا ہے کہ بیماری پہلی اسٹیج سے نکل جاتی ہے اور آخری اسٹیج میں بیماری کو ہینڈل کرنا مشکل اور وقت طلب ہوتا ہے ۔چناںچہ حکومتی سطح پر فی میل ڈاکٹرز کو اس شعبے کی طرف راغب کرنے کی مناسب منصوبہ بندی کی جانی چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ خواتین اس شعبے میں قدم رکھ سکیں اور ان عورتوں کو بچا سکیں جو اپنی فطری شرم وحیا، جھجھک کی وجہ سے موت کے منہ میں جانے کو زیادہ ترجیح دیتی ہیں۔
اس بیماری سے متعلق آگاہی پروگرام صرف اکتوبر میں ہی نہیں بلکہ ہر ماہ مختلف اداروں کے تعاون سے میڈیا کے ذریعے نشر کیے جائیں تاکہ دیہی علاقے کی خواتین باشعور ہونے کے ساتھ ساتھ پُراعتماد بھی ہو سکیں۔