میانوالی۔۔۔۔پنجاب کا ’’خیبرپختونخواہ‘‘ 

 یہ ضلع پنجابی، سرائیکی اور پختون ثقافت کا حسین امتزاج ہے


 یہ ضلع پنجابی، سرائیکی اور پختون ثقافت کا حسین امتزاج ہے

صوبہ پنجاب کے شمال مغربی سِرّے پر واقع ضلع میانوالی کو اگر ''پنجاب کا خیبرپختونخواہ'' کہا جائے تو یہ غلط نہ ہوگا۔ وہ اس لیے کہ ضلع کے شمال میں بڑی تعداد میں پختون آباد ہیں اور یہ تعداد پنجاب کے کسی بھی ضلع میں سب سے زیادہ ہے۔

پنجاب اور خیبر پختونخواہ میںگِھرے میاںوالی کے جنوب میں ضلع بھکر، مشرق میں ضلع خوشاب اور چکوال، شمال میں اٹک، کوہاٹ اور کرک کے اضلاع جب کہ مغرب میں خیبرپختونخواہ کے اضلاع لکی مروت اور ڈیرہ اسماعیل خان واقع ہیں۔ اپنے اِسی محلِ وقوع کی بدولت یہ ضلع پنجابی، سرائیکی اور پختون ثقافت کا ایک حسین امتزاج ہے۔

میانوالی شہر ''میاں سلطان زکریا'' کے نام پر میانوالی کہلاتا ہے۔ جنوبی ایشیا کے تمام حکم رانوں نے اپنے اپنے وقت میں یہاں حکومت کی۔ سلطان محمود غزنوی نے راجا جے پال کو شکست دے کر یہاں پہلی اسلامی حکومت قائم کی، جب کہ مُغلیہ خاندان نے تین سو سال اس علاقے میں حکومت کی۔

مغلوں کے زوال کے بعد یہ علاقہ رنجیت سنگھ کے تسلط میں آیا اور اس کے بعد انگریز یہاں قیامِ پاکستان تک حکومت کرتے رہے۔ قیامِ پاکستان کے وقت میانوالی صوبہ سرحد کا حِصہ تھا جسے بعد میں پنجاب میں شامل کر کے سرگودھا ڈویژن کا حِصہ بنا دیا گیا۔

5،840 مربع کلومیٹر رقبے پر محیط اس ضلع کی آبادی لگ بھگ 16 لاکھ کے قریب ہے۔ میانوالی کی تین تحصیلوں میں، عیسیٰ خیل، پِپلاں اور میانوالی شامل ہیں۔ طبعی خدوخال کے لحاظ سے ضلع کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

شمال اور مشرق کا کچھ حِصہ، سطح مرتفع پوٹھوار اور کوہِ نمک کا تسلسل ہے، جہاں کے پہاڑوں میں بھرپور معدنی دولت کے ساتھ ساتھ ''نمل جھیل'' جیسا پُرفضا مقام آباد ہے۔ نمل جھیل میانوالی کے مشرقی کونے میں وادی نمل کے قصبے ''رِکّھی'' کے قریب واقع ہے۔

یہ جھیل جس کے دو طرف پوٹھوہار کی پہاڑیاں اور بقیہ دو جانب زرعی اراضی ہے، 1913 میں بنائے گئے نمل ڈیم کے بعد وجود میں آئی۔ نمل ڈیم کو انگریز حکومت نے علاقے میں آبپاشی اور پینے کے پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے بنایا تھا۔

ضلع کا جنوبی حِصہ ''صحرائے تھل'' پر مشتمل ہے۔ دریائے جہلم اور سندھ کے بیچ پنجاب کے 6 ضلعوں تک پھیلا صحرائے تھل، شمالاً جنوباً 190 میل لمبا اور شرقاً غرباً 70 میل تک چوڑا ہے۔ یہ چولستان کے بعد پنجاب کا دوسرا بڑا صحرا ہے۔ پِپلاں تھل کے قریب واقع ہے۔

ضلع کا مغربی اور وسطی حصہ ''سندھ ساگر دوآب'' کا زرخیز علاقہ ہے جہاں دریائے سندھ شمال سے جنوب کی سمت بہتا ہے۔ شمال میں ماڑی انڈس اور کالا باغ کے بیچ دریائے سندھ پر ''جناح بیراج'' بنایا گیا ہے۔ ''تھل پراجیکٹ'' کے تحت اس بیراج کو 1939 سے 1946 کے بیچ تعمیر کیا گیا۔

اس بیراج سے نکالی جانے والی 52 کلومیٹر لمبی ''گریٹر تھل کینال''، اپنی 3،362 کلومیٹر لمبی اضافی نہروں اور معاون شاخوں کے ذریعے میانوالی سمیت بھکر، لیہ، خوشاب اور مظفرگڑھ تک کے علاقوں کو سیراب کرتی ہے۔ یہ منصوبہ صحرائے تھل کو آباد اور کاشت کرنے کا سب سے بڑا منصوبہ ہے۔

جناح بیراج سے 56 کلومیٹر جنوب میں کندیاں کے قریب چشمہ کے مقام پر 1971 میں ''چشمہ بیراج'' بنایا گیا جہاں پاکستان میں پہلی بار ''بلب ٹربائن'' سے بجلی پیدا کرنے کا کام یاب تجربہ کیا گیا۔

اس کے ساتھ ہی چشمہ کے مقام پر پاکستان کا دوسرا ''ایٹمی بجلی گھر'' بھی لگایا گیا جہاں یورینیئم کی افزودگی سے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ دریائے سندھ کا پانی جہلم میں پہنچانے کے لیے چشمہ بیراج سے ''چشمہ- جہلم لنک کینال'' نکالی گئی ہے جو صحرائے تھل سے گزرتی ہے۔ میانوالی کے مغرب میں عیسیٰ خیل کے قریب ''دریائے کْرّم'' دریائے سندھ میں شامل ہوجاتا ہے۔

ضلع میانوالی کی آب و ہوا شدید قسم کی ہے۔ گرمیوں میں درجۂ حرارت 32 سے 51 تک چلا جاتا ہے جب کہ سردیوں میں پارہ 2 تک گِرجاتا ہے۔ اوسطاً سالانہ بارش 200 سے 250 ملی میٹر تک ہوتی ہے۔

تھل پراجیکٹ کی بدولت ضلع کا بیشتر رقبہ قابلِ کاشت ہے جہاں گندم، گنا، مکئی، چنا، مونگ پھلی، جوار اور باجرہ اگایا جاتا ہے۔ یہاں آٹے کی 7 ملیں موجود ہیں۔ ضلع کے40،019 ایکڑ رقبے پر مختلف جنگلات لگائے گئے ہیں، جب کہ علاقے میں سفیدے، سنبل، بکائن اور پاپولر کے درختوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ صنعتی لحاظ سے میانوالی زیادہ مشہور تو نہیں ہے لیکن یہاں کھاد اور سیمنٹ بنانے، کپاس بیلنے، کھیس دریاں بنانے اور مٹی کے برتن بنانے کے کارخانے موجود ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے ضلع میانوالی کو بے شمار معدنی دولت سے نوازا ہے۔ مکڑوال کی کوئلے کی کانیں ضلع کے شمال مغرب میں واقع ہیں۔ کوئلے کے علاوہ یہاں جپسم، آتشی مٹی، ڈولومائیٹ، معدنی نمک، چکنی مٹی، سیلیکا اور چونے کا پتھر بھی بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ ضلع میں سیمنٹ بنانے کی ایک فیکٹری بھی کام کر رہی ہے جب کہ کوئلے سے چلنے والے ایک بجلی گھرکا منصوبہ ابھی زیرِغور ہے۔

اب آتے ہیں اس ضلع کی ثقافت اور بودوباش کی طرف۔ میانوالی کا سب سے بڑا قبیلہ ''نیازی'' ہے۔ اس قبیلے نے پاکستان کو نہ صرف سیاست داں بلکہ کرکٹر، شاعر اور گلوکار بھی دیئے ہیں جن میں مولانا کوثر نیازی، عمران خان نیازی، مصباح الحق، عطا اللہ خان نیازی اور عبدالستار خان نیازی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچ، خٹک، عیسیٰ خیل اور اعوان قبیلوں سے تعلق رکھنے والوں کی بھی ایک بڑی تعداد یہاں آباد ہے۔

سرائیکی ضلع کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے جس کے بعد پنجابی، پشتو اور اردو کا نمبر آتا ہے۔ میانوالی کے لوگوں میں جہاں پنجابی ثقافت کی خوبیاں محنت، فنونِ لطیفہ سے محبت اور جِدت پائی جاتی ہیں وہیں ان کی آزاد طبیعت، قبائلی نظام، مہمان نوازی اور بہادری و شجاعت میں پختون ثقافت کا عکس جھلکتا ہے۔ چناںچہ یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ میانوالی کی ثقافت پاکستان کے دو صوبوں کی الگ الگ ثقافتوں کا ایک ''کامل اور خوب صورت مرکب'' ہے۔

ضلع کے مشہور علاقوں میں کندیاں، چشمہ، داؤدخیل، ماڑی انڈس، کالا باغ، موسیٰ خیل، روکھڑی، پائی خیل، مکڑوال اور منڈا خیل شامل ہیں۔

ضلع میانوالی کی مشہور ادبی، سماجی و سیاسی شخصیات میں تلوک چند (شاعر)، جگّن ناتھ آزاد (شاعر)، مولانا کوثر نیازی (سابق وفاقی وزیر)، خواجہ خورشید انور (فلمسار، رائٹر)، ملک امیر محمد خان نواب آف کالا باغ (سابقہ گورنر مغربی پاکستان)، عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی (صدارتی ایوارڈ یافتہ موسیقار و گلوکار)، مصباح الحق (کرکٹر)، شیرافگن نیازی (سابقہ وزیرِقانون)، طارق نیازی (اولمپک گولڈ میڈلسٹ) اور عمران خان نیازی (کرکٹر، چیئرمین پاکستان تحریکِ انصاف) شامل ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔