فیٹف سے این آر او

حکومت ’جھانسے‘ میں نہیں آئی، بلکہ ٹویٹر پر آئی اور فیٹف کی ہیڈنگ تلے بھی ’’این آر او نہیں دوں گا‘‘ کی ٹویٹ کی


منصور ریاض August 31, 2020
خیال تھا کہ ایکسٹینشن والے معاملے کی طرح ’افہام و تفہیم‘ سے معاملہ سلجھا لیا جائے گا۔ (فوٹو: فائل)

FATF اور NRO کا آپس میں نہ کوئی حرف ملتا ہے اور نہ مصرف۔ پھر بھی پاکستانی سرحد ٹاپتے ٹاپتے فیٹف، جس کا ہیڈ کوارٹر پیرس میں ہے، گرگٹ کی طرح NRO رنگ میں بدل رہا ہے۔

فیٹف ایک اور تیزی سے پھیلتی ہوئی عالمی تنظیموں میں سے ایک تنظیم ہے، جو نہ صرف پیسے کی غلط اور مشکوک ریل پیل پر نظر رکھتی ہے، بلکہ حسبِ طاقت 'کڑکی' بھی لگا سکتی ہے۔ جب سے معاملات اور سیاست علاقائی سے عالمی طرز اختیار کرگئے ہیں، اور دنیا اب پہلی بار اگرچہ ڈھیلے ڈھالے لیکن ایک عالمی انتظام کے تحت چل رہی ہے، تو ایسی بہت سی 'فرنچائز' تنظیمیں وجود میں آچکی ہیں۔ اس نظام کو اگرچہ اقوام متحدہ کی چھتری تلے چلنا چاہیے تھا، لیکن اس چھتری میں اتنے چھید ہیں کہ اس کو جگہ جگہ پیوند لگانے پڑتے ہیں۔ اس 'پیوندی نظام' کا انتظام بااثر اور مضبوط ممالک ہی مل جل کر کرتے ہیں۔ فیٹف ایسی ہی ایک تنظیم ہے، جو 'عالمی دہشت گردی' میں استعمال ہونے والے پیسے کی روک تھام کےلیے بنائی گئی، اور رفتہ رفتہ اس کا دائرہ وسیع ہوتا گیا۔ لیکن پاکستانی سیاست میں آکر اس کا دائرہ بنیادی نقطے فائنانشل دہشت گردی سے ہٹتا ہوا 'اپوزیشن منی لانڈرنگ' اور این آر او میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔

گلوبل انتظام کے تحت دنیا کی عالمی لیب میں اب ممالک کا 'لٹمس ٹیسٹ' کیا جاتا ہے، جس میں ان کی 'شرافت' کا تعین کیا جاتا ہے۔ فیٹف کے لٹمس پیپر میں دو رنگ ہیں: کالا اور سفید۔ مالی محلول میں ڈالنے پر اگر کلر کالا نکل آئے، تو اس ملک کے مالی معاملات 'تیزابی' سمجھے جاتے ہیں۔

جس طرح کیمسٹری لیب میں طاقتور تیزاب اور کمزور تیزاب کے فرق کو جانچنے کےلیے کلر چارٹ سے میچ کیا جاتا ہے، اسی طرح فیٹف کے کلر چارٹ میں 'تیزابی ممالک' کےلیے بلیک کے ہلکے شیڈز دستیاب ہیں۔ آخری ہونے والی 'ڈبکی' میں پاکستان ابھی 'گرے' میں ہے؛ یعنی مشکوک۔ پاکستان کوئی ایران یا شمالی کوریا تو ہے نہیں جو مشکوک سمجھے جانے کی پرواہ نہ کرے۔ فیٹف کے کلر شیڈز ہوں یا موڈیز کی رینکنگ، پاکستان جیسے انحصاری ملک کےلیے بہت اہمیت کے حامل ہوگئے ہیں۔ اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستانی ریاست اگلے تجربے میں 'کالا' ہونے سے بچنے کےلیے مختلف پالیسیز اور حکومت پارلیمنٹ سے قوانین پاس کروا رہی ہے، تاکہ اگلی بار جو لیب ٹیسٹ ہو تو کوا سفید نکل آئے۔

NRO: نیشنل ری کنسیلیشن آرڈر، جسے اصطلاح میں 'عام معافی' بھی کہتے ہیں، مشرف کے آہنی قلم سے جاری ہوا۔ ظاہر ہے مشرف آئین کو سائیڈ پر رکھنے اور ایمرجنسی پلس کے بعد ضرورت پڑنے پر عام معافی دینے کےلیے بھی قادر تھے، لیکن جسٹس افتحار چوہدری اور ججز کے بحال ہوتے ہی اس کو کالعدم قرار دیا گیا۔ اس قانون میں کرپشن سے لے کر قتل، بھتہ خوری اور منی لانڈرنگ کے مقدمات معاف کردیے گئے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایک عالمی واچ ڈاگ اور ایک 'ڈکٹیٹر کا آرڈر' کیسے پاکستان میں ایک بن گیا کہ فیٹف کا ذکر آتے ہی این آر او، این آر او کی گردان شروع؟

اقتدار میں آنے سے پہلے بھی تحریک انصاف اور عمران خان کا موقف تھا کہ این آر او نے نہ صرف ماضی کی کرپشن معاف کی، بلکہ 'جدید' کرپشن کا دروازہ بھی کھولا۔ ظاہر ہے کہ انہوں نے این آر او کے خالق اور دوسری عام معافیوں سے سیاست اور پاور پالیٹکس کےلیے صرف نظر کیا۔ این آر او بظاہر مشرف اور بے نظیر میں براہِ راست معاہدہ تھا، لیکن عمران خان کے نزدیک شریف فیملی اس سے زیادہ مستفید ہوئی، کیونکہ تحریک انصاف کے پاپولر بیانیے کے مطابق دنیا کی تو کیا، خلا پر بھی مستقبل میں ہونے والی منی لانڈرنگ کا کُھرا جاتی عمرہ تک جاتا ہے۔ جبکہ اقتدار میں آنے کے بعد تحریک انصاف اور عمران خان کے مطابق این آر او 2 ان کے نزدیک ماضی کے حکمران 'مجرموں' کو نہ صرف معافی دلانے بلکہ ان کی جگہ دوبارہ اقتدار میں بھی لاسکتا ہے۔

اسی مخالفانہ طرز میں فیٹف جیسے قومی مسئلے کےلیے جب حکومت اور اپوزیشن بشمول مسلم لیگ ن 'ایک پیج' پر آئے یا لائے گئے اور قوانین کےلیے سلسلہ جنبانی شروع ہوا اور بظاہر ان قوانین پر مفاہمت ہوئی، تو حکومت وقت نے ان ملاقاتوں کا احوال طشت از بام کرنا شروع کیا کہ مفاہمت کے نام پر اصل میں یہ اپوزیشن کی منافقت اور قوانین کو منی لانڈرنگ سے صرف نظر کرنے اور نیب کا مکوّ ٹھپنے کی کوشش تھی۔ حکومت 'جھانسے' میں نہیں آئی، بلکہ ٹویٹر پر آئی اور فیٹف کی ہیڈنگ تلے بھی ''این آر او نہیں دوں گا'' کی ٹویٹ کی۔

دوسری طرف مسلم لیگ ن 'اصلی' کھاتے میں ڈان لیکس بننے والی میٹنگ کے وقوع پذیر ہونے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کو 'رام' کرنے میں مصروف رہی ہے۔ اپنے وزیروں کی سبکدوشی سے لے کر ایکسٹینشن کو قانونی بنانے، اور فیٹف پر حکومت کو جی آیا نوں اسی 'لڑکھڑاتے' تسلسل کا حصہ تھے۔ لیکن ایسا کیا ہوا کہ جب فیٹف پر سر، دھڑ ٹانگیں نکل چکی تھیں، تو سینٹ میں اپوزیشن نے دُم پھنسالی؟

دو بل جو پاس نہیں ہوئے، ان میں سے ایک بِل تو منی لانڈرنگ والا ہے، اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے تو وزیراعظم عمران خان کی پوزیشن تو سب کو پتہ ہے کہ شریف فیملی نے لانڈری میں اتنے پیسے 'دھوئے' ہیں کہ دھوبی اتنے کپڑے نہیں دھوتا۔ اور پھر حسب خواہش وزیراعظم اور حکومتی مشینری نے فیٹف پر مفاہمت کو این آر او سے نتھی کردیا۔ جبکہ قریب کی کوڑی لانے والوں کے مطابق اس بل میں جھگڑا ایک لفظ پر ہے: cognizable offence یعنی بغیر وارنٹ گرفتاری۔ اپوزیشن کی سلیس زبان میں نیب کی چیل جو جب چاہے، جہاں چاہے، مخالف کو چوچے کی طرح پکڑ لیتی ہے، کم سے کم اس 'تراہ' سے تو نجات ملے۔

خیال تھا کہ ایکسٹینشن والے معاملے کی طرح 'افہام و تفہیم' سے معاملہ سلجھا لیا جائے گا۔ جہاں حکومت این آر او اور اپنے کیسز سے جان چھڑانے کا الزام لگارہی ہے، وہیں اپوزیشن حکومت کو سینیٹ میں مشرف کے سابق ساتھی اور سینیٹ میں نئے قائد ایوان ڈاکٹر شہزاد وسیم کے ذریعے اشتعال دلانے اور 'پھڑو' کے 'کالے قانون' کا الزام لگارہی ہے۔ سیاست دونوں طرف سے ہورہی ہے؛ حکومت جو کورونا بحالی ریٹ، مرمریں اپوزیشن اور کچھ اقتصادی اعشاریوں کو مثبت اور مائنس ون کو صفر کرنے کے بعد حاوی ہے، اس نے اپوزیشن کو این آر او کے طعنے پیچھے ایک اور پنچ، جبکہ اپوزیشن خاص کر مسلم لیگ ن نے 'ٹھوکر پر ٹھوکر' دینے کے بعد قوانین کو کم سے کم جوائنٹ سیشن میں لانے کا زور لگایا ہے، تاکہ حکومت کو کم سے کم کچھ نہیں تو 'رگڑا' تو لگایا جاسکے۔

پیپلز پارٹی کا سینیٹ میں اب 'سنجرانی ماڈل' کی طرح پیچھے ہٹنا ممکن نظر نہیں آرہا اور مقابلہ پارلیمنٹ کے جوائنٹ سیشن میں جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ تو جوائنٹ سیشن میں ہوجائے مقابلہ: اپوزیشن کا رگڑا v حکومتی تگڑا۔ بظاہر تگڑا قوانین پاس کروا لے گا اور ریاست دودھ کی طرح ایسے سفید نکلے گی کہ شاید نظر اتارنے کےلیے تِل لگانا پڑے۔ اپنے حافظ سعید تو جیل کی حفاظتی تحویل میں ہیں ناں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔