عبداللہ حسین کا ’’اُداس نسلیں‘‘پچاس برس کا ہوگیا
اس ناول کی خاص بات یہ ہے کہ قارئین سے ہٹ کرادب کا گہرا فہم رکھنے والوں نے بھی اسے بیحد سراہا۔
عبداللہ حسین کے ''اداس نسلیں'' کی اشاعت کورواں برس پچاس برس بیت گئے ۔اس عرصے میں یہ ناول ادبی منظرنامے کا مستقل حصہ رہا۔تین نسلوں کے قارئین نے اس ناول کوذوق وشوق سے پڑھا اور اس قدر پذیرائی اردو کے بہت کم ناولوںکے حصے میں آئی۔
اس ناول کی خاص بات یہ ہے کہ قارئین سے ہٹ کرادب کا گہرا فہم رکھنے والوں نے بھی اسے بیحد سراہا۔اشاعت سے قبل جن تین اصحاب نے پڑھ کر گواہی دی کہ اردو میںبڑے فن پارے کا ظہورہوا ہے، وہ ادب کے پارکھ تھے۔ناول چھپاتو کرشن چندرنے داددی ۔آل احمد سرور کو یہ متاثرکرگیا۔سکھوں کے بارے میں مصنف کی معلومات نے راجندرسنگھ بیدی کو حیرت میں ڈالا۔ابھی گذشتہ ماہ ''آج''میں اجمل کمال کے قلم سے معروف مارکسٹ نقاد اعجازاحمدکے مضمون کا ترجمہ شائع ہوا تواس میں بھی سکھوں کے بارے میں عبداللہ حسین کے بیانیے کی تعریف ان الفاظ میںموجود پائی '' مصنف سکھ کسانوں کی روزمرہ زندگی کے زیروبم کا بھی خاصاعمدہ داخلی شعور رکھتا ہے، جو بلونت سنگھ بلکہ راجندرسنگھ بیدی کے درجے کا ہے۔''ممتازنقاد شمیم حنفی ناول کے مرکزی کردارنعیم کو اردو فکشن کے بہترین کرداروں میں گنتے ہیں۔
شمس الرحمٰن فاروقی جنھوں نے تنقیدوتحقیق میں سکہ جمانے کے بعد ''کئی چاند تھے سرآسماں''جیسا بے مثال ناول لکھا ،فکشن کی طرف متوجہ ہونے سے قبل جن ادیبوں کا لکھا فکشن پڑھ کررشک کرتے، ان میں عبداللہ حسین بھی شامل ہیں۔انورشعورغزل کے نہایت عمدہ شاعرتو ہیں مگرفکشن سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں، ''اداس نسلیں ''ان کا بھی فیورٹ ناول ہے۔دلی میں مقیم اردوکے معروف فکشن نگارخالد جاویدجوعالمی ادب کے باذوق قاری ہیں، انھوں نے''ایکسپریس''کو انٹرویومیں ''اداس نسلیں'' کو اپنا پسندیدہ ناول قراردیا۔حال ہی میں معروف ناول نگاراورصحافی محمد حنیف نے بھی ناول کو سراہا ہے۔ان حوالوںکا مقصد ناول کی تحسین کرنے والوں کی فہرست سازی نہیں بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ اس ناول کوتخلیقی جوہر سے معمور ان حضرات کی تحسین بھی ملی جن کے پیش نظراچھے ناول کا معیاربھی تھا۔اس ناول کو جہاں اس قدرپذیرائی ملی ادھرکچھ اعتراض بھی ہوئے، سب سے بڑھ کرناول کی زبان پرسوال اٹھائے گئے۔
معروف نقادمظفرعلی سید نے رائے دی کہ مصنف کو ناول لکھنے سے قبل اردو سیکھ لینی چاہیے تھی۔اس طرح عبداللہ حسین ان اردو ادیبوں کی صف میں شامل ہوگئے، جن کی زبان اعتراضات کی زد میں آئی۔ ابھی کل کی بات ہے، معروف شاعرظفراقبال نے ممتازادیب انتظار حسین کی زبان سے غلطیاں نکال کردکھا دی تھیں،مگراس سے ان کی ادبی شان میں کوئی کسرنہیں آئی، اور خود انتظارحسین نے راجندرسنگھ بیدی کے بارے میں کہہ رکھا ہے کہ ان کا فقرہ اٹھنے سے پہلے بیٹھ جاتا ہے، جبکہ ایک زمانہ بیدی کی نثرکا قائل ہے۔ حال ہی میں ہندوستانی نقاد ومحقق شمس الحق عثمانی نے منٹوکی زبان درست کرنے کا فریضہ انجام دیا ہے۔فکشن میں زبان اگرکسی مقام پربیانیہ سے ہم آہنگ نہیں، یا فضاکا ساتھ نہیں دے پارہی تب تو بات ہے، مگرزبان وبیان کی غلطیوں کو پکڑنا، یا تحریر میںپنجابی الفاظ کی موجودگی کے باعث زبان پراعتراض کی کوئی تک نہیں۔عبداللہ حسین نے ناول لکھنے تک کا سارا عرصہ پنجاب میں گزارا،اس لیے بیانیے میں اگر کہیں پنجابی زبان کا اثردرآیاتو اس میں پریشانی کی کون سی بات ہے،علامہ اقبال پرایسا اعتراض ہوا تو انھوں نے یوں جواب دیا تھا''تعجب ہے میز، کمرہ،کچہری،نیلام وغیرہ اورفارسی اور انگریزی کے محاورات کے لفظی ترجمے کوبلاتکلف استعمال کرو۔
لیکن اگرکوئی شخص اپنی اردو تحریرمیں کسی پنجابی محاورے کا لفظی ترجمہ یا کوئی پرمعنی لفظ استعمال کردے تواس کو کفروشرک کا مرتکب سمجھو۔۔۔یہ قید ایسی قید ہے کہ علم زبان کے اصول کی صریح مخالف ہے، اور جس کا قائم ومحفوظ رکھنا فردوبشرکے امکان میں نہیں ہیں۔'' دیکھنا تو یہ چاہیے کہ زبان کا تخلیقی استعمال ہوا یا نہیں۔اورسچی بات ہے ''اداس نسلیں'' کے سلسلے میں تو ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ کتاب پچاس سال سے مقبول ہے، اورجتنی پاکستان میں مقبول ہے، اتنی ہی ہندوستان میں ۔ ادھر ہونے والے ایک سروے میں اس کو اردو کا بہترین ناول مانا گیا۔اب پچاس برس ہونے پراس کو یاد بھی ہم سے پہلے ادھرکیا گیا۔''اداس نسلیں'' پراعتراض کرنے والے شاید وہ حضرات ہوں گے، جو زبان کا سوفیسٹیکٹیڈ تصور رکھتے ہیں،جو اردو کے حق میں بالکل نہیں۔
اس رجحان کے بارے میں مایہ نازفکشن نگارنیرمسعود نے اپنی تشویش یوں ظاہر کی تھی '' اردو کے ساتھ شہری تہذیب اور Sophisticationکا تصورلگ گیا کہ جتنی sophisticatedاردو بولیں گے اتنا ہی اچھاہے یعنی کسی طرح کیroughnessیا دیہاتی پن نہ جھلکنے پائے۔توزبان کا سب سےsophisticatedروپ تو شاعری ہی میں ہے، اور شاعری میں بھی غزل میں۔تویہ خیال پہلے کے وقت سے لے کرآج تک عام ہے لکھنے والوں میں کہ زبان جتنی شاعری سے قریب یا شاعرانہ ہوگی، اتنی ہی اچھی ہوگی۔اس نے نثرکونقصان پہنچایا۔''عبداللہ حسین نے ہم سے گفتگو میں زبان کے بارے میں اپنے نقطہ نظرکی وضاحت یوں کی ''میں نے جب ناول لکھنا شروع کیا تو مجھے اردو نہیں آتی تھی، الٹی سیدھی زبان لکھی اور مجھے اعتماد بھی نہیں تھا کہ اسے پذیرائی ملے گی لیکن میری خوش قسمتی رہی کہ لوگ پرانی زبان سے، جس میں بڑا لچھے دار بیانیہ ہوتا تنگ آئے ہوئے تھے،اس لیے انھیں میری زبان Accessible محسوس ہوئی اور انھوں نے اسے سراہا۔''''اداس نسلیں''پرایک اعتراض بلکہ الزام ممتاز ناول نگار قرۃ العین حیدر کی طرف سے آیا۔
وہ اپنی خودنوشت ''کارجہاں دراز ہے'' میں لکھتی ہیں:''برسبیل تذکرہ ''اداس نسلیں''کے متعلق انٹرویو میں مصنف نے ارشادکیا کہ وہ عاجزہ کوایک قابل ذکرناولسٹ نہیں سمجھتے۔اس بیان کی روشنی میں یہ بات تعجب خیز معلوم ہوتی ہے کہ ''اداس نسلیں''کے متعدد ابواب میں ،میرے بھی صنم خانے،سفینہ غم دل،آگ کا دریااور شیشے کے گھر،کے چند افسانوں کے اسٹائل کا گہراچربہ اتارا گیا ہے۔ خفیف سے ردو بدل کے ساتھ پورے پورے جملے اور پیراگراف تک وہی ہیں لیکن آج تک سوائے پاکستانی طنزنگارمحمد خالد اخترکے کسی پاکستانی یا ہندوستانی نقادکی نظراس طرف نہیں گئی۔نہ کسی نے اشارہ کیا نہ اس کا ذکرکیا۔کیایہmale chauvinismنہیں ہے؟''
اس کوتاہی میں male chauvinismکو دخل نہیں بلکہ اس الزام میںشاید دم ہی نہیں تھا وگرنہ ہمارے محققین اور ناقدین کو ''موازنہ انیس ودبیر'' تو بہت بھاتا ہے۔''اس ناول کی مختلف تعبیریں ہوتی رہی ہیں،اس کو تاریخی شعور کا حامل قرار دیا گیا، اور بھی کئی طرح کی باتیں اس ناول کے باب میں ہوتی رہیں۔ جب یہ ناول چھپاتو عبداللہ حسین نے اسے بنیادی طور پرمحبت کی کہانی قراردیا ۔اب جب، اس ناول پربہت سرد گرم گزرچکا،عبداللہ حسین اپنی بات پرقائم ہیں۔ہم کوانھوں نے بتایا ''میں اب بھی یہی سمجھتا ہوں کہ یہ محبت کی کہانی ہے، لیکن روایتی محبت کی نہیں بلکہ اس عظیم محبت کی ، جس کے لیے آدمی بڑی سے بڑی قربانی دینے پرخود کو آمادہ پاتا ہے۔''
عبداللہ حسین کے ناول نے پچاس برس کا عرصہ سہار لیا اور وہ ادبی منظرنامے میں بھی رہا اور ہرنسل کے قارئین کے ہاتھ میں بھی رہا،اس سے پتاچلتا ہے کہ تخلیق میں جان ہو توبغیرکسی لابی اور پراپیگنڈے، یا میڈیاسے وابستگی کے سہارے کے بغیر بھی ناول صرف اور صرف اپنے بوتے پر زندہ رہ سکتا ہے۔ عبداللہ حسین اس ناول کو لکھنے کے بعد گیند پڑھنے والوں کی کورٹ میں ڈال کربیرون ملک سدھارگئے تھے، جہاں وہ سالہا سال مقیم رہنے کے بعد لوٹے۔ ''اداس نسلیں'' کی مقبولیت سے عبداللہ حسین کو تخلیقی سطح پر یہ نقصان ضرور ہوا کہ ان کی دیگر تخلیقات کو وہ توجہ نہ مل سکی، جس کی وہ مستحق تھیں۔ اس طرف معروف ادیب آصف فرخی نے چند دن قبل ایک ادبی کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے کچھ یوں توجہ دلائی ''افسانہ نگاری کے جائزوں میںبالعموم عبداللہ حسین کا نام نظر انداز کردیا جاتا ہے۔
بات یہ نہیں کہ نقاد اور مبصر عبداللہ حسین کودرخوراعتنانہیں سمجھتے بلکہ وہ''اداس نسلیں''اور ''باگھ'' کے دیوقامت سائے سے اتنا مرعوب ہوجاتے ہیںکہ وہ باقی تحریروں پرتوجہ نہیں دے پاتے۔جیسے تیزروشنی پرتھوڑی دیرنظریں جمانے سے آنکھیںچندھیا سی جاتی ہیں،پھرآس پاس کی چیزوں کے خدوخال دھندلے سے پڑنے لگتے ہیں۔لیکن مختلف کتابوںکے لیے اندازنظربھی مختلف ہونا چاہیے۔ ''باگھ'' کا بیانیہ ترشاترشایا اور گٹھاہوا ہے جب کہ''اداس نسلیں''زندگی کے حجم سے بڑی معلوم ہوتی ہے۔رزمیے کی سی وسعت رکھنے والی جس میں زندگی ٹھاٹھیںمارتی ہوئی اس طرح بہتی چلی جاتی ہے کہ اور چھور نظرنہیں آتااور دور تک کنارے کے آثاردکھائی نہیں دیتے۔ان ناولوں کی اہمیت کے باوجودعبداللہ حسین کے مختصرناول اورافسانے ایسے بے مایہ بھی نہیں کہ ان کے سائے میں ٹھٹھرکر رہ جائیں اور پنپ نہ سکیں۔''خود عبداللہ حسین کو ''اداس نسلیں'' سے زیادہ ''باگھ'' پسند ہے۔عبداللہ حسین کے فکشن کی خوبیوں خامیوں پرگفتگو کا سلسلہ توآیندہ بھی چلتا رہے گالیکن عبداللہ حسین کو جس فن میںمہارت ہے، وہ کہانی کہنے کا ہنرہے۔
عبداللہ حسین نے ''اداس نسلیں''کاWeary Generationsکے نام سے ترجمہ کیا، جس کوانگریزی دان حلقوں نے پسند کیا ۔ عبداللہ حسین کے بقول، سنڈے ٹائمز نے اس پرمثبت ریویو لکھااور کہا کہ کئی سال گزرجانے کے باوجود ناول فریش محسوس ہوتا ہے۔آخر میں اس ناول کی تاریخ بتاتے چلیں ۔جون1956ء میں اس ناول کا آغاز ہوتا ہے، جب عبداللہ حسین اپنے والد کی وفات کے بعد ڈپریشن کا شکار تھے اور دائود خیل میں بسلسلہ ملازمت مقیم تھے۔ان کے بقول، انھوں نے بوریت دور کرنے کے لیے قلم اٹھایا اورلکھنا شروع کردیااور ناول وجود میں آگیا۔مئی1961کو ناول مکمل ہوا۔دو برس بعد ''نیاادارہ''لاہور نے ٹائپ میں شائع کیا۔معروف مصورعبدالرحمٰن چغتائی نے کتاب کا ٹائٹل ڈیزاین کیا۔کتاب کے ہارڈ بیک اورپیپربیک دونوں ہی ایڈیشن نکلے۔
اس ناول کو لکھنے میں تو وہ سچے تخلیق کار کی طرح عذاب سے گزرے ہوں گے،جس کی طرف کرشن چندرنے اپنے خط میں اشارہ کیا ہے لیکن تحقیق کے ضمن میں بھی انھوں نے بہت دوڑدھوپ کی ، مثلاً ایک ایسے شخص کو بھی ڈھونڈ نکالا، جس کو وکٹوریا کراس مل چکا تھا۔''میں گجرات سے بس میں ایک گائوں میں پہنچا، جس کا نام مجھے یاد نہیںہے۔پھر وہاں سے تانگے پربیٹھااور اس سے آگے ایک لمباراستہ پیدل طے کیا۔پھر میں اس شخص تک پہنچا۔تین چاردن اس کے پاس رہا۔اس نے مجھے کچھ پمفلٹس دیے، جو جنگ عظیم کے وقت کمپین کے بارے میں چھاپے گئے تھے۔میں اس سے جنگ کے بارے میں سوال پوچھتارہا۔اس کے تجربات سنتارہا۔اور ساتھ ساتھ نوٹس لیتا رہا۔'' ناول کو عبداللہ حسین نے اپنے والد کے نام معنون کیا ہے۔عبداللہ حسین کے والد نے بچپن میں انھیں بہت کچھ تعلیم کردیا تھا، جس سے یقیناً انھوں نے اس ناول کو لکھتے ہوئے بھی فائدہ اٹھایا۔1965ء میں ''نصرت''میں وہ ''میں''کے عنوان سے مختصر مضمون میں لکھتے ہیں:
میں اپنے والد کا اکلوتا لڑکا تھا۔ لڑکپن کے زمانے میں ان کے ہمراہ پندرہ پندرہ بیس بیس میل شکار کے پیچھے گھومتے ہوئے انہوں نے مجھے زمین اورآسمان کی ساری جاندار اور بے جان چیزوں کے بارے میں جو کچھ وہ جانتے تھے' بتایا۔ کھیت' فصلیں'کسان' دھوپ' بادل' بارش' چرند پرند' رنگ' موسم' سب! پھر جاڑوں کی صبحوں کو' طلوعِ آفتاب سے پہلے کی روشنی میں' کمر کمر تک یخ پانی میں کھڑے' بندوقیں کندھوں پررکھے' مرغابیوں کا ا نتظار کرتے ہوئے انہوں نے مجھ سے مردوں اور عورتوں' انسانوں اورآدمیوں کے با رے میں باتیں کیں۔ لڑکپن' جوانی اور بڑھاپا' محبت اور نفرت اورجنس' دوستی اور دشمنی اور قربانی اور غیرت اور زندگی کی دوسری بڑی بڑی باتوں کا ذکر کیا۔ جب تک وہ رہے ان کی دھیمی' متوازن' دانا آواز میرے ساتھ ساتھ رہی اور کسی شخص' کسی شے کے خوف کا سایہ بھی پاس نہ پھٹکا۔'' n
ہمارے ہاں روایتی بیانیے کا جو تصور اردو ناول میں رہا ہے، ''اداس نسلیں''اس روایت کا آخری بڑا ناول ہے۔اس کے بعد قابل ذکرناول خدیجہ مستورکے ناول ہیں مگران کاکینوس اتنا بڑا نہیں۔''اداس نسلیں''انسانی رشتوں کی عجیب وغریب رودادہے۔تاریخ کو فکشن بنانے کا زبردست ملکہ ان کے ہاں ملتاہے۔نعیم جیسے کرداراردو ناول کی تاریخ میں زیادہ نہیں۔تخلیق کارآغازمیں چھوٹی تصویربناتا ہے،لیکن عبداللہ حسین نے پہلی دفعہ ہی بڑا میورل پینٹ کیا۔
( شمیم حنفی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
''تخلیقی ادب گو کہ ایک حد تک بہت ذاتی شے ہے مگراس کا ایک مطلب ابلاغ کرنا بھی ہے۔ اس بات پرمیرا یقین ہے اورحتی الامکان اس پر کاربند رہنے کی کوشش کرتا ہوں۔'' (1965)
٭٭٭
''ہرادیب اور شاعراپنی ہم عصرنسل کے لیے لکھتا ہے۔ یوںکبھی نہیں ہواکہ کوئی ادیب قلم اٹھائے اور کہے کہ ''اب میں آنے والے نسلوں کی خاطرادب کو تخلیق کرتا ہوں۔وغیرہ وغیرہ۔''ہاں اگرایک کے بعد دوسری نسل بھی اس کے ادب کو اسی شوق سے پڑھتی ہے،اور اس کے ساتھ اپنے کواسی قدرمنسلک ومربوط محسوس کرتی ہے تویہ بات ادیب کے لیے گویا بونس کے طورپر ہوتی ہے،اور اس سے اسے،وہ جو کہ آخر قلم کا مزدورہی ہوتا ہے۔اتنی ہی خوشی حاصل ہوتی ہے،جتنی کہ کسی بھی محنت کش کوعیدکے موقعے پرایک ماہ کی زایدتنخواہ کے ملنے کی ہوتی ہے۔اور وہ اس پرشکرگزارہوتا ہے، گو کہ یہ کوئی عطیہ نہیں بلکہ اس کا اپنا حق ہوتا ہے۔''(1984)
٭٭٭
''اداس نسلیں تین نسلوں کے بعد بھی پڑھا جارہا ہے۔خریدا جارہا ہے۔اس کا موضوع ایسا ہے یا پھراس سے زیادہ اس کے سٹائل میں خاص بات ہے۔مجھے نوجوان ملتے ہیں،جنھوں نے اس ناول کو پہلی بار پڑھا ہوتا ہے،بتاتے ہیں کہ انھیں یوںلگتا ہے جیسے ناول اب لکھا گیا ہو۔میرے خیال میں اس کا سٹائل اور زبان کی تازگی ہے، جس کے باعث اسے پسند کیا جارہا ہے۔ناول تو اچھے اور بھی لکھے گئے ہیں،لیکن ان کو ایک کے بعددوسری نسل نے پڑھا نہیں۔میرے نزدیک ادب کو جانچنے کا معیار وقت بھی ہے۔جو ادبی کاوش ایک ، دو، اور تین نسلوں کوعبورکرکے زندہ رہتی ہے، وہ معیاری ہے اور''اداس نسلیں''کے ساتھ تو یہی معاملہ ہے۔'' (دسمبر:2013)
(عبداللہ حسین)
٭٭٭
کرشن چندر کاخط
'' مکرمی ومحترمی عبداللہ حسین صاحب آپ کون ہیں؟کیا کرتے ہیں؟ادب کا مشغلہ کب سے اختیارکیا؟اور کس طرح آپ ایک شعلے کی طرح بھڑک اٹھے؟۔اپنا کچھ اتاپتاتوبتائیے۔''اداس نسلیں''پڑھ رہا ہوں۔لیکن اسے ختم کرنے سے پہلے یہ مجھے معلوم ہوچکا ہے کہ اردوادب میں ایک اعلیٰ جوہردریافت ہواہے۔ اس سے پہلے میں نے ایک کہانی پڑھی تھی، جس کا ماحول کینیڈا کا تھا۔ وہ کہانی بہت خوبصورت تھی اور عرصے کے بعد میں نے ایک ایسی کہانی پڑھی تھی، جس پرمجھے رشک آیا ہو۔وہ کہانی پڑھ کرمیں نے اسی دن آپ کو مبارکباددی تھی۔خط البتہ آج لکھ رہا ہوں۔آپ کی نثرمیں بہت سی ایسی باتیں ہیں جو مجھے پسند ہیں۔آپ کے لکھنے کا ڈھنگ، الفاظ کا انتخاب،سٹائل کی ایک سیال پگھلی ہوئی نیم گرم کیفیت جو فکراور جذبے کو ایک دوسرے میں تحلیل کردیتی ہے۔معلوم ہوتا ہے اس پیار میں آپ گہرے ڈوبے ہوئے ہیں۔اس عمل کا کرب بھی آپ کی تحریر سے نمایاں ہے۔ مگریوں تو ہوگا ہی،جو لوگ لفظوں سے پیارکرتے ہیں بہت دکھ اٹھاتے ہیں!
محمد سلیم الرحمٰن بیان کرتے ہیں:...
عبداللہ حسین کے بقول، ''اداس نسلیں'' کو چھپنے سے قبل محمدحنیف رامے، شیخ صلاح الدین اورمحمد سلیم الرحمن نے پڑھا اور پھر انکی آرا کی روشنی میں ''نیا ادارہ'' کے مالک چودھری نذیر احمد اشاعت پرراضی ہوئے۔ حنیف رامے اورشیخ صلاح الدین تو اب اس دنیا میں نہیں لیکن ممتاز ادیب محمد سلیم الرحمن ہمارے درمیان موجود ہیں۔ انھوں نے ہمیں ان الفاظ میں اپنے تاثرات سے آگاہ کیا:
''نصرت'' کے دفترمیں ایک دن حنیف رامے نے آکرمجھے بتایاکہ ادب کے میدان میںایک نووارد نے ایسا ناول لکھا ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے اور اس ناول کو چودھری نذیراحمد اپنے اشاعتی ادارے ''نیاادارہ'' سے شائع کریں گے۔ حنیف رامے کسی کی تعریف یا کسی پرتنقیدکرتے ہوئے احتیاط کا دامن نہ چھوڑتے تھے۔ ان کی والہانہ دادسے مجھے بھی اشتیاق ہوا کہ ناول کا مسودہ ایک نظر دیکھوں۔ چند روزبعد شیخ صلاح الدین سے ملاقات ہوئی تو وہ بھی ''اداس نسلیں''پڑھ چکے تھے اور اس کی خوبیوںکے حنیف رامے سے بھی زیادہ معترف نظرآئے۔آخر میں ''نیا ادارہ'' گیا اور چودھری نذیرصاحب سے کہا کہ مجھے بھی ناول کا مسودہ پڑھنے کا موقع دیا جائے۔ انھوں نے کہا کہ اسے پڑھو اور اس کے بارے میں تعارفی کلمات لکھو۔اس تعارف کو ''سویرا'' میں شائع کیا جائے گا۔
ناول کے اندازاور نثردونوں نے مجھے خاصا حیران کیا۔اردو میں اس طرح کی تحریر کم دیکھنے کو ملتی تھی۔صاف ظاہر تھا کہ مصنف نے معاصرانگریزی ادب نہ صرف غورسے پڑھاہے بلکہ اس سے بہت کچھ سیکھابھی ہے۔ لب و لہجے کی تازگی سے ظاہرتھا کہ ناول کو پسند کیا جائے گا۔یہ معلوم کرکے اور بھی تعجب ہوا کہ مصنف ،عبداللہ حسین، کیمیکل انجینئرہیں۔ میرااستعجاب اصل میں بے محل تھا۔ادب کی تخلیق صرف ہمہ وقت ادب سے وابستہ رہنے والوں سے مخصوص نہیں۔ یہ بارامانت ہرکوئی اٹھاسکتاہے بشرطے کہ بوجھ کو سہارسکے۔ اس کے بعد پتا چلاکہ چودھری نذیرصاحب نے عبداللہ حسین سے فرمائش کی کہ ''تم بالکل نوواردہو۔اگرناول کی اشاعت سے پہلے دوتین افسانے لکھ دو توخوب ہو۔پڑھنے والے تمھارے ناول کا زیادہ شوق سے انتظارکریں گے۔''
چنانچہ پہلا افسانہ ''ندی'' کے نام سے''سویرا''میں شائع ہوا اور اسے بالعموم پسند کیا گیا۔ ناول کے خیرمقدم کے لیے فضاتو پہلے ہی سازگارہوچکی تھی۔ چھپا تو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔آدم جی انعام کا مستحق بھی قرار پایا۔سچ یہ ہے کہ کوئی ناول ناشرانہ تعریفوں، ادبی انعاموںاور ناقدانہ جائزوںکے سہارے اپنالوہا نہیں منوا سکتا۔کتنے ہی ناولوںکو چند سال کی واہ واہ کے بعد طاق نسیاں کی نذرکردیا جاتا ہے۔اگر''اداس نسلیں'' پچاس سال گزرجانے کے بعد بھی مقبول اور خواندنی ہے تو اس میں اسے خلق کرنے والے کے کمال کو دخل ہے۔ اردوفکشن کی تاریخ میں عبداللہ حسین کا کام ہمیشہ سراہا اور پڑتالا جاتا رہے گا۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاکرایک بات کی تردید کرنا چاہتا ہوں۔بعض ادیبوں نے کہا کہ ''اداس نسلیں''کی نثر میں نے درست کی تھی۔یہ الزام بالکل بے بنیاد ہے۔ناول حرف بحرف اسی طرح چھپاہے جیسے عبداللہ حسین نے اسے تحریرکیا تھا۔''
۔۔۔۔۔۔۔۔
اداس نسلیں سے چند اقتباس
کہانی روشن پورگائوں سے شروع ہوتی ہے۔نعیم اورعذراکی محبت کا فسانہ بھی یہیں سے آغازہوتا ہے۔نعیم اور عذرا کی محبت کے درمیان طبقاتی تقسیم کی دیوار کھڑی ہے لیکن دونوںہی ایک دوسرے کو حاصل کرنے کے لیے اپنا سب کچھ تج دینے کا ظرف رکھتے ہیں۔نعیم اس خیال کو باطل ثابت کرنے کے لیے کہ اپنے باپ کی وجہ سے اس پرسرکاری ملازمت کا دروازہ بند ہوچکا ہے، فوج میں شامل ہوجاتا ہے ۔ ملٹری کراس لے کر لوٹتا ہے، جو اس کے اور عذرا کے خاندان کے درمیان طبقاتی بُعد دور کرنے میںمددگار رہتا ہے۔ جنگ میں وہ اپنا ایک ہاتھ گنواچکاہے لیکن اس جنگ کے طفیل وہ اپنی محبت کو حاصل کرلیتا ہے۔جنگ کے واقعات کو مصنف نے بڑے موثرپیرائے میں بیان کیا ہے،اس کی تباہ کاری کا ذہن میں جم جانے والانقشہ کھینچا ہے۔
''نہیں، تم نے جنگ نہیں دیکھی۔۔۔آدمی چوہوں کی طرح مرتے ہیں۔وہاں مرنا اورمارنا بڑا آسان کام ہے۔یوں سڑک پرجاتے ہوئے ہم چیونٹیوںکے قافلے پرپائوں رکھ کرگزرجاتے ہیں اور سینکڑوں چیونٹیاںہمارے جانے بغیرمرجاتی ہیںلیکن اکیلی چیونٹی ہمارے بازو پرچل رہی ہوتو اسے مارتے ہوئے ہم ہچکچاتے ہیں اور گبھراتے ہیں۔اسے اٹھاکرہم نیچے رکھ دیتے ہیں یا پھونک مارکراڑادیتے ہیں۔''
نعیم ناول کا مرکزی کردارہے،اس کے بعد عذرا کا کردار ہے، لیکن ان کے علاوہ وہ کردار بھی ہیں جو تھوڑے عرصے کے لیے ابھرتے ہیںمگرگہراتاثرچھوڑ جاتے ہیںمثلاً وہ غریب کسان جس کی ریل کے ڈبے میں گھسنے پرگورے کے ہاتھوں تذلیل ہوتی ہے۔ ''کیا مانگٹا۔کیوں آیا؟''گورا آنکھیں نکال کر چیخا۔ جواب میںکسان اسی طرح سادگی سے ہنسا۔''میں نیچے بیٹھ جاتا ہوں۔اگلے اسٹیشن پر اتر جائوں گا۔ میری بیوی گاڑی میں ہے۔''اس نے کہا اور اطمینان سے دروازے میں بیٹھ کرگٹھری کسنے لگا۔
نیچے جائومانگٹا۔آں؟سنٹا؟پائوں سے وہ اسے نیچے دھکیلنے لگا۔
''گاڑی بھاگ ری اے صاب۔کہاں جائوں؟''
''آں؟نائیں جائو؟آں؟اس نے پیرکی ٹھوکر سے کسان کی گٹھڑی باہر اچھال دی جو اڑتی ہوئی زمین پرگری۔اورلوگوں نے اس میں سے باجرہ اور گڑ کو بکھرتے ہوئے دیکھا۔''جائو''
''ہا۔میرا باجرہ۔بڈھے کا منہ کھل گیا۔پھر دفعتاً غصے سے بھنا کر وہ اٹھااور لاٹھی گورے کی ٹانگوں پرمارنے لگا۔''مجھے مار دو۔ پھینک دو۔ باجرہ۔میراگڑ،میں تمھارے باپ سے بھی لوں گا۔ گورے سئور۔ اب میں اپنی لڑکی کے لیے کیا لے کر جائوں؟ ہیں؟'' چیخنے سے رال اسی کی داڑھی پربہنے لگی۔انگریزنے اس کی لاٹھی چھین کرنیچے پھینک دی اور بڑے بڑے بوٹوں والے پائوں اندھادھنداس کے چہرے اور چھاتی پرمارنے لگا۔''اپنی لڑکی کے لیے ایک سئورلے جائو۔''اس نے انگریزی میں کہا۔پھروہ گالیاں بکنے اوربے تحاشاٹانگیں چلانے لگا۔اس کا ایک بوٹ ایڑی تک اکھڑگیا۔کسان کا سرلٹک گیااور آنکھیںبند ہوگئیں۔لیکن اس کا بازوابھی تک ہینڈل کے گرد کساہواتھا۔لو سے جھلسے ہوئے چہرے پرخون کی دھاریاں بہہ رہی تھیں، اور اس کی داڑھی خون پسینے اور رال سے لتھڑ گئی تھی۔''
جنگ کے دوران نعیم کا ٹھاکرداس سے تعلق استوار ہوجاتا ہے،جس کو وہ ایک موقع پرموت کے منہ میں جانے سے بچاتوسکتاتھا مگرنفرت اور حسد کا جذبہ اس پر غالب آجاتاہے۔جیل کے اندرکی زندگی، اور قیدیوں سے بیہمانہ سلوک کی رودادبھی بڑی جاندار ہے۔جیل میںنعیم سے اس کا مصنوعی لکڑی کا بازو اتروا لیا جاتا ہے، عذرا سے ملاقات سے قبل وہ اپنا بازوحاصل کرلیتا ہے، ایک بارایسا کرنے میں جب وہ ناکام رہا اور عذرا نے اس کمی کو محسوس کیا تو وہ کہتا ہے:''ہاں وہ لے گئے ہیں۔''کیوں؟''عذرا نے پوچھا۔''مل جائے گا۔صاف کرنے کو دیاہے۔''اس نے جھوٹ بولااور لٹکتی ہوئی آستین کو مروڑنے لگا۔''
نعیم دہشت گردوں کے گروہ میں شامل ہوجاتا ہے لیکن پھراس کی طبیعت ان سرگرمیوں سے اوب جاتی ہے ، اور وہ جب اپنے ساتھیوں سے کہتا ہے کہ تشدد مسئلے کا حل نہیں تواس مخلص انسان کو پولیس کا بندہ سمجھا جاتا ہے۔ عبداللہ حسین نے انگریز دور کی نام نہاد اشرافیہ کو بھی بے نقاب کیا ہے۔
جلیانوالا باغ کا واقعہ اور سائمن کمیشن کی آمد پرہندوستانیوں میں جس بے چینی نے جنم لیا، اس کو بھی عبداللہ حسین نے گرفت میں لیا ہے، اورپتاچلتا ہے کہ تاریخ کا انھیں گہرا شعور ہے لیکن ساتھ میں یہ احساس بھی ہے کہ ناول کو فکشن ہی کے دائرے میں رکھنا ہے اور تاریخ کی کھتونی بنانے سے گریز کرنا ہے۔جیسا کہ بیان ہوا ہے کہ عبداللہ حسین اس کو محبت کی کہانی قراردیتے ہیں، اورجب وہ یہ بات کرتے ہیں کہ ایسی محبت جس کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دی جاسکتی ہے تو ان کا اشارہ عذرا کی قربانی کی طرف ہوتا ہے،جس نے ایک عام گھرانے کے نوجوان سے، جس کا ایک بازو بھی جنگ بھی ضائع ہوگیاہے، شادی کی، اوربعد میں اس تعلق کو نبھایا بھی۔ناول کے آخر میں نعیم بھی اس نتیجے پرپہنچتا ہے کہ دنیا میں سب سے سربلندجذبہ اگر کوئی ہے تو وہ قربانی ہے اورعذرا کوعظیم عورت بھی قراردیتا ہے۔
''پھراچانک رک کراس نے لمباسانس لیااور پروفیسرکی طرف مڑ کردھیمے لہجے میں بولا:سنو۔میں تمھیںایک بات بتاتاہوں، شایدپھربھول جائوں۔زندگی۔زندگی کا ست، زندگی کا نچوڑ۔قربانی کا جذبہ ہے۔اور کچھ نہیںہے۔یہ میں نے جاناہے۔اورکچھ نہیں ہے۔''۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگرہم ہرسطح پر، ہروقت میں، ہرچیزکی قربانی دے سکتے ہیں تو زندہ ہیں، ورنہ نہیں ہیں۔۔ عذرا میری بیوی ، ایک عظیم عورت ہے۔اس کے پاس کوئی اندیشہ،کوئی الجھن، کوئی ریاکاری نہیں۔وہ جو کچھ چاہتی ہے بلاجھجک اس کے لیے تیار ہوجاتی ہے۔وہ انسان کی ساری شرافت، سارے کرب اور ساری قربانی کے ساتھ خاموشی اوررضامندی سے زندہ ہے۔''
اس ناول کی خاص بات یہ ہے کہ قارئین سے ہٹ کرادب کا گہرا فہم رکھنے والوں نے بھی اسے بیحد سراہا۔اشاعت سے قبل جن تین اصحاب نے پڑھ کر گواہی دی کہ اردو میںبڑے فن پارے کا ظہورہوا ہے، وہ ادب کے پارکھ تھے۔ناول چھپاتو کرشن چندرنے داددی ۔آل احمد سرور کو یہ متاثرکرگیا۔سکھوں کے بارے میں مصنف کی معلومات نے راجندرسنگھ بیدی کو حیرت میں ڈالا۔ابھی گذشتہ ماہ ''آج''میں اجمل کمال کے قلم سے معروف مارکسٹ نقاد اعجازاحمدکے مضمون کا ترجمہ شائع ہوا تواس میں بھی سکھوں کے بارے میں عبداللہ حسین کے بیانیے کی تعریف ان الفاظ میںموجود پائی '' مصنف سکھ کسانوں کی روزمرہ زندگی کے زیروبم کا بھی خاصاعمدہ داخلی شعور رکھتا ہے، جو بلونت سنگھ بلکہ راجندرسنگھ بیدی کے درجے کا ہے۔''ممتازنقاد شمیم حنفی ناول کے مرکزی کردارنعیم کو اردو فکشن کے بہترین کرداروں میں گنتے ہیں۔
شمس الرحمٰن فاروقی جنھوں نے تنقیدوتحقیق میں سکہ جمانے کے بعد ''کئی چاند تھے سرآسماں''جیسا بے مثال ناول لکھا ،فکشن کی طرف متوجہ ہونے سے قبل جن ادیبوں کا لکھا فکشن پڑھ کررشک کرتے، ان میں عبداللہ حسین بھی شامل ہیں۔انورشعورغزل کے نہایت عمدہ شاعرتو ہیں مگرفکشن سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں، ''اداس نسلیں ''ان کا بھی فیورٹ ناول ہے۔دلی میں مقیم اردوکے معروف فکشن نگارخالد جاویدجوعالمی ادب کے باذوق قاری ہیں، انھوں نے''ایکسپریس''کو انٹرویومیں ''اداس نسلیں'' کو اپنا پسندیدہ ناول قراردیا۔حال ہی میں معروف ناول نگاراورصحافی محمد حنیف نے بھی ناول کو سراہا ہے۔ان حوالوںکا مقصد ناول کی تحسین کرنے والوں کی فہرست سازی نہیں بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ اس ناول کوتخلیقی جوہر سے معمور ان حضرات کی تحسین بھی ملی جن کے پیش نظراچھے ناول کا معیاربھی تھا۔اس ناول کو جہاں اس قدرپذیرائی ملی ادھرکچھ اعتراض بھی ہوئے، سب سے بڑھ کرناول کی زبان پرسوال اٹھائے گئے۔
معروف نقادمظفرعلی سید نے رائے دی کہ مصنف کو ناول لکھنے سے قبل اردو سیکھ لینی چاہیے تھی۔اس طرح عبداللہ حسین ان اردو ادیبوں کی صف میں شامل ہوگئے، جن کی زبان اعتراضات کی زد میں آئی۔ ابھی کل کی بات ہے، معروف شاعرظفراقبال نے ممتازادیب انتظار حسین کی زبان سے غلطیاں نکال کردکھا دی تھیں،مگراس سے ان کی ادبی شان میں کوئی کسرنہیں آئی، اور خود انتظارحسین نے راجندرسنگھ بیدی کے بارے میں کہہ رکھا ہے کہ ان کا فقرہ اٹھنے سے پہلے بیٹھ جاتا ہے، جبکہ ایک زمانہ بیدی کی نثرکا قائل ہے۔ حال ہی میں ہندوستانی نقاد ومحقق شمس الحق عثمانی نے منٹوکی زبان درست کرنے کا فریضہ انجام دیا ہے۔فکشن میں زبان اگرکسی مقام پربیانیہ سے ہم آہنگ نہیں، یا فضاکا ساتھ نہیں دے پارہی تب تو بات ہے، مگرزبان وبیان کی غلطیوں کو پکڑنا، یا تحریر میںپنجابی الفاظ کی موجودگی کے باعث زبان پراعتراض کی کوئی تک نہیں۔عبداللہ حسین نے ناول لکھنے تک کا سارا عرصہ پنجاب میں گزارا،اس لیے بیانیے میں اگر کہیں پنجابی زبان کا اثردرآیاتو اس میں پریشانی کی کون سی بات ہے،علامہ اقبال پرایسا اعتراض ہوا تو انھوں نے یوں جواب دیا تھا''تعجب ہے میز، کمرہ،کچہری،نیلام وغیرہ اورفارسی اور انگریزی کے محاورات کے لفظی ترجمے کوبلاتکلف استعمال کرو۔
لیکن اگرکوئی شخص اپنی اردو تحریرمیں کسی پنجابی محاورے کا لفظی ترجمہ یا کوئی پرمعنی لفظ استعمال کردے تواس کو کفروشرک کا مرتکب سمجھو۔۔۔یہ قید ایسی قید ہے کہ علم زبان کے اصول کی صریح مخالف ہے، اور جس کا قائم ومحفوظ رکھنا فردوبشرکے امکان میں نہیں ہیں۔'' دیکھنا تو یہ چاہیے کہ زبان کا تخلیقی استعمال ہوا یا نہیں۔اورسچی بات ہے ''اداس نسلیں'' کے سلسلے میں تو ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ کتاب پچاس سال سے مقبول ہے، اورجتنی پاکستان میں مقبول ہے، اتنی ہی ہندوستان میں ۔ ادھر ہونے والے ایک سروے میں اس کو اردو کا بہترین ناول مانا گیا۔اب پچاس برس ہونے پراس کو یاد بھی ہم سے پہلے ادھرکیا گیا۔''اداس نسلیں'' پراعتراض کرنے والے شاید وہ حضرات ہوں گے، جو زبان کا سوفیسٹیکٹیڈ تصور رکھتے ہیں،جو اردو کے حق میں بالکل نہیں۔
اس رجحان کے بارے میں مایہ نازفکشن نگارنیرمسعود نے اپنی تشویش یوں ظاہر کی تھی '' اردو کے ساتھ شہری تہذیب اور Sophisticationکا تصورلگ گیا کہ جتنی sophisticatedاردو بولیں گے اتنا ہی اچھاہے یعنی کسی طرح کیroughnessیا دیہاتی پن نہ جھلکنے پائے۔توزبان کا سب سےsophisticatedروپ تو شاعری ہی میں ہے، اور شاعری میں بھی غزل میں۔تویہ خیال پہلے کے وقت سے لے کرآج تک عام ہے لکھنے والوں میں کہ زبان جتنی شاعری سے قریب یا شاعرانہ ہوگی، اتنی ہی اچھی ہوگی۔اس نے نثرکونقصان پہنچایا۔''عبداللہ حسین نے ہم سے گفتگو میں زبان کے بارے میں اپنے نقطہ نظرکی وضاحت یوں کی ''میں نے جب ناول لکھنا شروع کیا تو مجھے اردو نہیں آتی تھی، الٹی سیدھی زبان لکھی اور مجھے اعتماد بھی نہیں تھا کہ اسے پذیرائی ملے گی لیکن میری خوش قسمتی رہی کہ لوگ پرانی زبان سے، جس میں بڑا لچھے دار بیانیہ ہوتا تنگ آئے ہوئے تھے،اس لیے انھیں میری زبان Accessible محسوس ہوئی اور انھوں نے اسے سراہا۔''''اداس نسلیں''پرایک اعتراض بلکہ الزام ممتاز ناول نگار قرۃ العین حیدر کی طرف سے آیا۔
وہ اپنی خودنوشت ''کارجہاں دراز ہے'' میں لکھتی ہیں:''برسبیل تذکرہ ''اداس نسلیں''کے متعلق انٹرویو میں مصنف نے ارشادکیا کہ وہ عاجزہ کوایک قابل ذکرناولسٹ نہیں سمجھتے۔اس بیان کی روشنی میں یہ بات تعجب خیز معلوم ہوتی ہے کہ ''اداس نسلیں''کے متعدد ابواب میں ،میرے بھی صنم خانے،سفینہ غم دل،آگ کا دریااور شیشے کے گھر،کے چند افسانوں کے اسٹائل کا گہراچربہ اتارا گیا ہے۔ خفیف سے ردو بدل کے ساتھ پورے پورے جملے اور پیراگراف تک وہی ہیں لیکن آج تک سوائے پاکستانی طنزنگارمحمد خالد اخترکے کسی پاکستانی یا ہندوستانی نقادکی نظراس طرف نہیں گئی۔نہ کسی نے اشارہ کیا نہ اس کا ذکرکیا۔کیایہmale chauvinismنہیں ہے؟''
اس کوتاہی میں male chauvinismکو دخل نہیں بلکہ اس الزام میںشاید دم ہی نہیں تھا وگرنہ ہمارے محققین اور ناقدین کو ''موازنہ انیس ودبیر'' تو بہت بھاتا ہے۔''اس ناول کی مختلف تعبیریں ہوتی رہی ہیں،اس کو تاریخی شعور کا حامل قرار دیا گیا، اور بھی کئی طرح کی باتیں اس ناول کے باب میں ہوتی رہیں۔ جب یہ ناول چھپاتو عبداللہ حسین نے اسے بنیادی طور پرمحبت کی کہانی قراردیا ۔اب جب، اس ناول پربہت سرد گرم گزرچکا،عبداللہ حسین اپنی بات پرقائم ہیں۔ہم کوانھوں نے بتایا ''میں اب بھی یہی سمجھتا ہوں کہ یہ محبت کی کہانی ہے، لیکن روایتی محبت کی نہیں بلکہ اس عظیم محبت کی ، جس کے لیے آدمی بڑی سے بڑی قربانی دینے پرخود کو آمادہ پاتا ہے۔''
عبداللہ حسین کے ناول نے پچاس برس کا عرصہ سہار لیا اور وہ ادبی منظرنامے میں بھی رہا اور ہرنسل کے قارئین کے ہاتھ میں بھی رہا،اس سے پتاچلتا ہے کہ تخلیق میں جان ہو توبغیرکسی لابی اور پراپیگنڈے، یا میڈیاسے وابستگی کے سہارے کے بغیر بھی ناول صرف اور صرف اپنے بوتے پر زندہ رہ سکتا ہے۔ عبداللہ حسین اس ناول کو لکھنے کے بعد گیند پڑھنے والوں کی کورٹ میں ڈال کربیرون ملک سدھارگئے تھے، جہاں وہ سالہا سال مقیم رہنے کے بعد لوٹے۔ ''اداس نسلیں'' کی مقبولیت سے عبداللہ حسین کو تخلیقی سطح پر یہ نقصان ضرور ہوا کہ ان کی دیگر تخلیقات کو وہ توجہ نہ مل سکی، جس کی وہ مستحق تھیں۔ اس طرف معروف ادیب آصف فرخی نے چند دن قبل ایک ادبی کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے کچھ یوں توجہ دلائی ''افسانہ نگاری کے جائزوں میںبالعموم عبداللہ حسین کا نام نظر انداز کردیا جاتا ہے۔
بات یہ نہیں کہ نقاد اور مبصر عبداللہ حسین کودرخوراعتنانہیں سمجھتے بلکہ وہ''اداس نسلیں''اور ''باگھ'' کے دیوقامت سائے سے اتنا مرعوب ہوجاتے ہیںکہ وہ باقی تحریروں پرتوجہ نہیں دے پاتے۔جیسے تیزروشنی پرتھوڑی دیرنظریں جمانے سے آنکھیںچندھیا سی جاتی ہیں،پھرآس پاس کی چیزوں کے خدوخال دھندلے سے پڑنے لگتے ہیں۔لیکن مختلف کتابوںکے لیے اندازنظربھی مختلف ہونا چاہیے۔ ''باگھ'' کا بیانیہ ترشاترشایا اور گٹھاہوا ہے جب کہ''اداس نسلیں''زندگی کے حجم سے بڑی معلوم ہوتی ہے۔رزمیے کی سی وسعت رکھنے والی جس میں زندگی ٹھاٹھیںمارتی ہوئی اس طرح بہتی چلی جاتی ہے کہ اور چھور نظرنہیں آتااور دور تک کنارے کے آثاردکھائی نہیں دیتے۔ان ناولوں کی اہمیت کے باوجودعبداللہ حسین کے مختصرناول اورافسانے ایسے بے مایہ بھی نہیں کہ ان کے سائے میں ٹھٹھرکر رہ جائیں اور پنپ نہ سکیں۔''خود عبداللہ حسین کو ''اداس نسلیں'' سے زیادہ ''باگھ'' پسند ہے۔عبداللہ حسین کے فکشن کی خوبیوں خامیوں پرگفتگو کا سلسلہ توآیندہ بھی چلتا رہے گالیکن عبداللہ حسین کو جس فن میںمہارت ہے، وہ کہانی کہنے کا ہنرہے۔
عبداللہ حسین نے ''اداس نسلیں''کاWeary Generationsکے نام سے ترجمہ کیا، جس کوانگریزی دان حلقوں نے پسند کیا ۔ عبداللہ حسین کے بقول، سنڈے ٹائمز نے اس پرمثبت ریویو لکھااور کہا کہ کئی سال گزرجانے کے باوجود ناول فریش محسوس ہوتا ہے۔آخر میں اس ناول کی تاریخ بتاتے چلیں ۔جون1956ء میں اس ناول کا آغاز ہوتا ہے، جب عبداللہ حسین اپنے والد کی وفات کے بعد ڈپریشن کا شکار تھے اور دائود خیل میں بسلسلہ ملازمت مقیم تھے۔ان کے بقول، انھوں نے بوریت دور کرنے کے لیے قلم اٹھایا اورلکھنا شروع کردیااور ناول وجود میں آگیا۔مئی1961کو ناول مکمل ہوا۔دو برس بعد ''نیاادارہ''لاہور نے ٹائپ میں شائع کیا۔معروف مصورعبدالرحمٰن چغتائی نے کتاب کا ٹائٹل ڈیزاین کیا۔کتاب کے ہارڈ بیک اورپیپربیک دونوں ہی ایڈیشن نکلے۔
اس ناول کو لکھنے میں تو وہ سچے تخلیق کار کی طرح عذاب سے گزرے ہوں گے،جس کی طرف کرشن چندرنے اپنے خط میں اشارہ کیا ہے لیکن تحقیق کے ضمن میں بھی انھوں نے بہت دوڑدھوپ کی ، مثلاً ایک ایسے شخص کو بھی ڈھونڈ نکالا، جس کو وکٹوریا کراس مل چکا تھا۔''میں گجرات سے بس میں ایک گائوں میں پہنچا، جس کا نام مجھے یاد نہیںہے۔پھر وہاں سے تانگے پربیٹھااور اس سے آگے ایک لمباراستہ پیدل طے کیا۔پھر میں اس شخص تک پہنچا۔تین چاردن اس کے پاس رہا۔اس نے مجھے کچھ پمفلٹس دیے، جو جنگ عظیم کے وقت کمپین کے بارے میں چھاپے گئے تھے۔میں اس سے جنگ کے بارے میں سوال پوچھتارہا۔اس کے تجربات سنتارہا۔اور ساتھ ساتھ نوٹس لیتا رہا۔'' ناول کو عبداللہ حسین نے اپنے والد کے نام معنون کیا ہے۔عبداللہ حسین کے والد نے بچپن میں انھیں بہت کچھ تعلیم کردیا تھا، جس سے یقیناً انھوں نے اس ناول کو لکھتے ہوئے بھی فائدہ اٹھایا۔1965ء میں ''نصرت''میں وہ ''میں''کے عنوان سے مختصر مضمون میں لکھتے ہیں:
میں اپنے والد کا اکلوتا لڑکا تھا۔ لڑکپن کے زمانے میں ان کے ہمراہ پندرہ پندرہ بیس بیس میل شکار کے پیچھے گھومتے ہوئے انہوں نے مجھے زمین اورآسمان کی ساری جاندار اور بے جان چیزوں کے بارے میں جو کچھ وہ جانتے تھے' بتایا۔ کھیت' فصلیں'کسان' دھوپ' بادل' بارش' چرند پرند' رنگ' موسم' سب! پھر جاڑوں کی صبحوں کو' طلوعِ آفتاب سے پہلے کی روشنی میں' کمر کمر تک یخ پانی میں کھڑے' بندوقیں کندھوں پررکھے' مرغابیوں کا ا نتظار کرتے ہوئے انہوں نے مجھ سے مردوں اور عورتوں' انسانوں اورآدمیوں کے با رے میں باتیں کیں۔ لڑکپن' جوانی اور بڑھاپا' محبت اور نفرت اورجنس' دوستی اور دشمنی اور قربانی اور غیرت اور زندگی کی دوسری بڑی بڑی باتوں کا ذکر کیا۔ جب تک وہ رہے ان کی دھیمی' متوازن' دانا آواز میرے ساتھ ساتھ رہی اور کسی شخص' کسی شے کے خوف کا سایہ بھی پاس نہ پھٹکا۔'' n
ہمارے ہاں روایتی بیانیے کا جو تصور اردو ناول میں رہا ہے، ''اداس نسلیں''اس روایت کا آخری بڑا ناول ہے۔اس کے بعد قابل ذکرناول خدیجہ مستورکے ناول ہیں مگران کاکینوس اتنا بڑا نہیں۔''اداس نسلیں''انسانی رشتوں کی عجیب وغریب رودادہے۔تاریخ کو فکشن بنانے کا زبردست ملکہ ان کے ہاں ملتاہے۔نعیم جیسے کرداراردو ناول کی تاریخ میں زیادہ نہیں۔تخلیق کارآغازمیں چھوٹی تصویربناتا ہے،لیکن عبداللہ حسین نے پہلی دفعہ ہی بڑا میورل پینٹ کیا۔
( شمیم حنفی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
''تخلیقی ادب گو کہ ایک حد تک بہت ذاتی شے ہے مگراس کا ایک مطلب ابلاغ کرنا بھی ہے۔ اس بات پرمیرا یقین ہے اورحتی الامکان اس پر کاربند رہنے کی کوشش کرتا ہوں۔'' (1965)
٭٭٭
''ہرادیب اور شاعراپنی ہم عصرنسل کے لیے لکھتا ہے۔ یوںکبھی نہیں ہواکہ کوئی ادیب قلم اٹھائے اور کہے کہ ''اب میں آنے والے نسلوں کی خاطرادب کو تخلیق کرتا ہوں۔وغیرہ وغیرہ۔''ہاں اگرایک کے بعد دوسری نسل بھی اس کے ادب کو اسی شوق سے پڑھتی ہے،اور اس کے ساتھ اپنے کواسی قدرمنسلک ومربوط محسوس کرتی ہے تویہ بات ادیب کے لیے گویا بونس کے طورپر ہوتی ہے،اور اس سے اسے،وہ جو کہ آخر قلم کا مزدورہی ہوتا ہے۔اتنی ہی خوشی حاصل ہوتی ہے،جتنی کہ کسی بھی محنت کش کوعیدکے موقعے پرایک ماہ کی زایدتنخواہ کے ملنے کی ہوتی ہے۔اور وہ اس پرشکرگزارہوتا ہے، گو کہ یہ کوئی عطیہ نہیں بلکہ اس کا اپنا حق ہوتا ہے۔''(1984)
٭٭٭
''اداس نسلیں تین نسلوں کے بعد بھی پڑھا جارہا ہے۔خریدا جارہا ہے۔اس کا موضوع ایسا ہے یا پھراس سے زیادہ اس کے سٹائل میں خاص بات ہے۔مجھے نوجوان ملتے ہیں،جنھوں نے اس ناول کو پہلی بار پڑھا ہوتا ہے،بتاتے ہیں کہ انھیں یوںلگتا ہے جیسے ناول اب لکھا گیا ہو۔میرے خیال میں اس کا سٹائل اور زبان کی تازگی ہے، جس کے باعث اسے پسند کیا جارہا ہے۔ناول تو اچھے اور بھی لکھے گئے ہیں،لیکن ان کو ایک کے بعددوسری نسل نے پڑھا نہیں۔میرے نزدیک ادب کو جانچنے کا معیار وقت بھی ہے۔جو ادبی کاوش ایک ، دو، اور تین نسلوں کوعبورکرکے زندہ رہتی ہے، وہ معیاری ہے اور''اداس نسلیں''کے ساتھ تو یہی معاملہ ہے۔'' (دسمبر:2013)
(عبداللہ حسین)
٭٭٭
کرشن چندر کاخط
'' مکرمی ومحترمی عبداللہ حسین صاحب آپ کون ہیں؟کیا کرتے ہیں؟ادب کا مشغلہ کب سے اختیارکیا؟اور کس طرح آپ ایک شعلے کی طرح بھڑک اٹھے؟۔اپنا کچھ اتاپتاتوبتائیے۔''اداس نسلیں''پڑھ رہا ہوں۔لیکن اسے ختم کرنے سے پہلے یہ مجھے معلوم ہوچکا ہے کہ اردوادب میں ایک اعلیٰ جوہردریافت ہواہے۔ اس سے پہلے میں نے ایک کہانی پڑھی تھی، جس کا ماحول کینیڈا کا تھا۔ وہ کہانی بہت خوبصورت تھی اور عرصے کے بعد میں نے ایک ایسی کہانی پڑھی تھی، جس پرمجھے رشک آیا ہو۔وہ کہانی پڑھ کرمیں نے اسی دن آپ کو مبارکباددی تھی۔خط البتہ آج لکھ رہا ہوں۔آپ کی نثرمیں بہت سی ایسی باتیں ہیں جو مجھے پسند ہیں۔آپ کے لکھنے کا ڈھنگ، الفاظ کا انتخاب،سٹائل کی ایک سیال پگھلی ہوئی نیم گرم کیفیت جو فکراور جذبے کو ایک دوسرے میں تحلیل کردیتی ہے۔معلوم ہوتا ہے اس پیار میں آپ گہرے ڈوبے ہوئے ہیں۔اس عمل کا کرب بھی آپ کی تحریر سے نمایاں ہے۔ مگریوں تو ہوگا ہی،جو لوگ لفظوں سے پیارکرتے ہیں بہت دکھ اٹھاتے ہیں!
محمد سلیم الرحمٰن بیان کرتے ہیں:...
عبداللہ حسین کے بقول، ''اداس نسلیں'' کو چھپنے سے قبل محمدحنیف رامے، شیخ صلاح الدین اورمحمد سلیم الرحمن نے پڑھا اور پھر انکی آرا کی روشنی میں ''نیا ادارہ'' کے مالک چودھری نذیر احمد اشاعت پرراضی ہوئے۔ حنیف رامے اورشیخ صلاح الدین تو اب اس دنیا میں نہیں لیکن ممتاز ادیب محمد سلیم الرحمن ہمارے درمیان موجود ہیں۔ انھوں نے ہمیں ان الفاظ میں اپنے تاثرات سے آگاہ کیا:
''نصرت'' کے دفترمیں ایک دن حنیف رامے نے آکرمجھے بتایاکہ ادب کے میدان میںایک نووارد نے ایسا ناول لکھا ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے اور اس ناول کو چودھری نذیراحمد اپنے اشاعتی ادارے ''نیاادارہ'' سے شائع کریں گے۔ حنیف رامے کسی کی تعریف یا کسی پرتنقیدکرتے ہوئے احتیاط کا دامن نہ چھوڑتے تھے۔ ان کی والہانہ دادسے مجھے بھی اشتیاق ہوا کہ ناول کا مسودہ ایک نظر دیکھوں۔ چند روزبعد شیخ صلاح الدین سے ملاقات ہوئی تو وہ بھی ''اداس نسلیں''پڑھ چکے تھے اور اس کی خوبیوںکے حنیف رامے سے بھی زیادہ معترف نظرآئے۔آخر میں ''نیا ادارہ'' گیا اور چودھری نذیرصاحب سے کہا کہ مجھے بھی ناول کا مسودہ پڑھنے کا موقع دیا جائے۔ انھوں نے کہا کہ اسے پڑھو اور اس کے بارے میں تعارفی کلمات لکھو۔اس تعارف کو ''سویرا'' میں شائع کیا جائے گا۔
ناول کے اندازاور نثردونوں نے مجھے خاصا حیران کیا۔اردو میں اس طرح کی تحریر کم دیکھنے کو ملتی تھی۔صاف ظاہر تھا کہ مصنف نے معاصرانگریزی ادب نہ صرف غورسے پڑھاہے بلکہ اس سے بہت کچھ سیکھابھی ہے۔ لب و لہجے کی تازگی سے ظاہرتھا کہ ناول کو پسند کیا جائے گا۔یہ معلوم کرکے اور بھی تعجب ہوا کہ مصنف ،عبداللہ حسین، کیمیکل انجینئرہیں۔ میرااستعجاب اصل میں بے محل تھا۔ادب کی تخلیق صرف ہمہ وقت ادب سے وابستہ رہنے والوں سے مخصوص نہیں۔ یہ بارامانت ہرکوئی اٹھاسکتاہے بشرطے کہ بوجھ کو سہارسکے۔ اس کے بعد پتا چلاکہ چودھری نذیرصاحب نے عبداللہ حسین سے فرمائش کی کہ ''تم بالکل نوواردہو۔اگرناول کی اشاعت سے پہلے دوتین افسانے لکھ دو توخوب ہو۔پڑھنے والے تمھارے ناول کا زیادہ شوق سے انتظارکریں گے۔''
چنانچہ پہلا افسانہ ''ندی'' کے نام سے''سویرا''میں شائع ہوا اور اسے بالعموم پسند کیا گیا۔ ناول کے خیرمقدم کے لیے فضاتو پہلے ہی سازگارہوچکی تھی۔ چھپا تو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔آدم جی انعام کا مستحق بھی قرار پایا۔سچ یہ ہے کہ کوئی ناول ناشرانہ تعریفوں، ادبی انعاموںاور ناقدانہ جائزوںکے سہارے اپنالوہا نہیں منوا سکتا۔کتنے ہی ناولوںکو چند سال کی واہ واہ کے بعد طاق نسیاں کی نذرکردیا جاتا ہے۔اگر''اداس نسلیں'' پچاس سال گزرجانے کے بعد بھی مقبول اور خواندنی ہے تو اس میں اسے خلق کرنے والے کے کمال کو دخل ہے۔ اردوفکشن کی تاریخ میں عبداللہ حسین کا کام ہمیشہ سراہا اور پڑتالا جاتا رہے گا۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاکرایک بات کی تردید کرنا چاہتا ہوں۔بعض ادیبوں نے کہا کہ ''اداس نسلیں''کی نثر میں نے درست کی تھی۔یہ الزام بالکل بے بنیاد ہے۔ناول حرف بحرف اسی طرح چھپاہے جیسے عبداللہ حسین نے اسے تحریرکیا تھا۔''
۔۔۔۔۔۔۔۔
اداس نسلیں سے چند اقتباس
کہانی روشن پورگائوں سے شروع ہوتی ہے۔نعیم اورعذراکی محبت کا فسانہ بھی یہیں سے آغازہوتا ہے۔نعیم اور عذرا کی محبت کے درمیان طبقاتی تقسیم کی دیوار کھڑی ہے لیکن دونوںہی ایک دوسرے کو حاصل کرنے کے لیے اپنا سب کچھ تج دینے کا ظرف رکھتے ہیں۔نعیم اس خیال کو باطل ثابت کرنے کے لیے کہ اپنے باپ کی وجہ سے اس پرسرکاری ملازمت کا دروازہ بند ہوچکا ہے، فوج میں شامل ہوجاتا ہے ۔ ملٹری کراس لے کر لوٹتا ہے، جو اس کے اور عذرا کے خاندان کے درمیان طبقاتی بُعد دور کرنے میںمددگار رہتا ہے۔ جنگ میں وہ اپنا ایک ہاتھ گنواچکاہے لیکن اس جنگ کے طفیل وہ اپنی محبت کو حاصل کرلیتا ہے۔جنگ کے واقعات کو مصنف نے بڑے موثرپیرائے میں بیان کیا ہے،اس کی تباہ کاری کا ذہن میں جم جانے والانقشہ کھینچا ہے۔
''نہیں، تم نے جنگ نہیں دیکھی۔۔۔آدمی چوہوں کی طرح مرتے ہیں۔وہاں مرنا اورمارنا بڑا آسان کام ہے۔یوں سڑک پرجاتے ہوئے ہم چیونٹیوںکے قافلے پرپائوں رکھ کرگزرجاتے ہیں اور سینکڑوں چیونٹیاںہمارے جانے بغیرمرجاتی ہیںلیکن اکیلی چیونٹی ہمارے بازو پرچل رہی ہوتو اسے مارتے ہوئے ہم ہچکچاتے ہیں اور گبھراتے ہیں۔اسے اٹھاکرہم نیچے رکھ دیتے ہیں یا پھونک مارکراڑادیتے ہیں۔''
نعیم ناول کا مرکزی کردارہے،اس کے بعد عذرا کا کردار ہے، لیکن ان کے علاوہ وہ کردار بھی ہیں جو تھوڑے عرصے کے لیے ابھرتے ہیںمگرگہراتاثرچھوڑ جاتے ہیںمثلاً وہ غریب کسان جس کی ریل کے ڈبے میں گھسنے پرگورے کے ہاتھوں تذلیل ہوتی ہے۔ ''کیا مانگٹا۔کیوں آیا؟''گورا آنکھیں نکال کر چیخا۔ جواب میںکسان اسی طرح سادگی سے ہنسا۔''میں نیچے بیٹھ جاتا ہوں۔اگلے اسٹیشن پر اتر جائوں گا۔ میری بیوی گاڑی میں ہے۔''اس نے کہا اور اطمینان سے دروازے میں بیٹھ کرگٹھری کسنے لگا۔
نیچے جائومانگٹا۔آں؟سنٹا؟پائوں سے وہ اسے نیچے دھکیلنے لگا۔
''گاڑی بھاگ ری اے صاب۔کہاں جائوں؟''
''آں؟نائیں جائو؟آں؟اس نے پیرکی ٹھوکر سے کسان کی گٹھڑی باہر اچھال دی جو اڑتی ہوئی زمین پرگری۔اورلوگوں نے اس میں سے باجرہ اور گڑ کو بکھرتے ہوئے دیکھا۔''جائو''
''ہا۔میرا باجرہ۔بڈھے کا منہ کھل گیا۔پھر دفعتاً غصے سے بھنا کر وہ اٹھااور لاٹھی گورے کی ٹانگوں پرمارنے لگا۔''مجھے مار دو۔ پھینک دو۔ باجرہ۔میراگڑ،میں تمھارے باپ سے بھی لوں گا۔ گورے سئور۔ اب میں اپنی لڑکی کے لیے کیا لے کر جائوں؟ ہیں؟'' چیخنے سے رال اسی کی داڑھی پربہنے لگی۔انگریزنے اس کی لاٹھی چھین کرنیچے پھینک دی اور بڑے بڑے بوٹوں والے پائوں اندھادھنداس کے چہرے اور چھاتی پرمارنے لگا۔''اپنی لڑکی کے لیے ایک سئورلے جائو۔''اس نے انگریزی میں کہا۔پھروہ گالیاں بکنے اوربے تحاشاٹانگیں چلانے لگا۔اس کا ایک بوٹ ایڑی تک اکھڑگیا۔کسان کا سرلٹک گیااور آنکھیںبند ہوگئیں۔لیکن اس کا بازوابھی تک ہینڈل کے گرد کساہواتھا۔لو سے جھلسے ہوئے چہرے پرخون کی دھاریاں بہہ رہی تھیں، اور اس کی داڑھی خون پسینے اور رال سے لتھڑ گئی تھی۔''
جنگ کے دوران نعیم کا ٹھاکرداس سے تعلق استوار ہوجاتا ہے،جس کو وہ ایک موقع پرموت کے منہ میں جانے سے بچاتوسکتاتھا مگرنفرت اور حسد کا جذبہ اس پر غالب آجاتاہے۔جیل کے اندرکی زندگی، اور قیدیوں سے بیہمانہ سلوک کی رودادبھی بڑی جاندار ہے۔جیل میںنعیم سے اس کا مصنوعی لکڑی کا بازو اتروا لیا جاتا ہے، عذرا سے ملاقات سے قبل وہ اپنا بازوحاصل کرلیتا ہے، ایک بارایسا کرنے میں جب وہ ناکام رہا اور عذرا نے اس کمی کو محسوس کیا تو وہ کہتا ہے:''ہاں وہ لے گئے ہیں۔''کیوں؟''عذرا نے پوچھا۔''مل جائے گا۔صاف کرنے کو دیاہے۔''اس نے جھوٹ بولااور لٹکتی ہوئی آستین کو مروڑنے لگا۔''
نعیم دہشت گردوں کے گروہ میں شامل ہوجاتا ہے لیکن پھراس کی طبیعت ان سرگرمیوں سے اوب جاتی ہے ، اور وہ جب اپنے ساتھیوں سے کہتا ہے کہ تشدد مسئلے کا حل نہیں تواس مخلص انسان کو پولیس کا بندہ سمجھا جاتا ہے۔ عبداللہ حسین نے انگریز دور کی نام نہاد اشرافیہ کو بھی بے نقاب کیا ہے۔
جلیانوالا باغ کا واقعہ اور سائمن کمیشن کی آمد پرہندوستانیوں میں جس بے چینی نے جنم لیا، اس کو بھی عبداللہ حسین نے گرفت میں لیا ہے، اورپتاچلتا ہے کہ تاریخ کا انھیں گہرا شعور ہے لیکن ساتھ میں یہ احساس بھی ہے کہ ناول کو فکشن ہی کے دائرے میں رکھنا ہے اور تاریخ کی کھتونی بنانے سے گریز کرنا ہے۔جیسا کہ بیان ہوا ہے کہ عبداللہ حسین اس کو محبت کی کہانی قراردیتے ہیں، اورجب وہ یہ بات کرتے ہیں کہ ایسی محبت جس کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دی جاسکتی ہے تو ان کا اشارہ عذرا کی قربانی کی طرف ہوتا ہے،جس نے ایک عام گھرانے کے نوجوان سے، جس کا ایک بازو بھی جنگ بھی ضائع ہوگیاہے، شادی کی، اوربعد میں اس تعلق کو نبھایا بھی۔ناول کے آخر میں نعیم بھی اس نتیجے پرپہنچتا ہے کہ دنیا میں سب سے سربلندجذبہ اگر کوئی ہے تو وہ قربانی ہے اورعذرا کوعظیم عورت بھی قراردیتا ہے۔
''پھراچانک رک کراس نے لمباسانس لیااور پروفیسرکی طرف مڑ کردھیمے لہجے میں بولا:سنو۔میں تمھیںایک بات بتاتاہوں، شایدپھربھول جائوں۔زندگی۔زندگی کا ست، زندگی کا نچوڑ۔قربانی کا جذبہ ہے۔اور کچھ نہیںہے۔یہ میں نے جاناہے۔اورکچھ نہیں ہے۔''۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگرہم ہرسطح پر، ہروقت میں، ہرچیزکی قربانی دے سکتے ہیں تو زندہ ہیں، ورنہ نہیں ہیں۔۔ عذرا میری بیوی ، ایک عظیم عورت ہے۔اس کے پاس کوئی اندیشہ،کوئی الجھن، کوئی ریاکاری نہیں۔وہ جو کچھ چاہتی ہے بلاجھجک اس کے لیے تیار ہوجاتی ہے۔وہ انسان کی ساری شرافت، سارے کرب اور ساری قربانی کے ساتھ خاموشی اوررضامندی سے زندہ ہے۔''