ہمیں اسرائیل کو کیوں تسلیم نہیں کرنا چاہیے
پاکستان نے آج تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور موجودہ حکومت سے قبل کسی نے اس ناجائز ریاست کو تسلیم کرنے کا نہیں سوچا
متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا اور اس سلسلے میں انہوں نے تمام ضروری اقدامات بھی مکمل کرلیے ہیں۔ اسرائیل سے بائیکاٹ کے تمام قوانین منسوخ کردیے گئے ہیں اور اب اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان باقاعدہ کمرشل فلائٹس کا سلسلہ بھی چل نکلا ہے۔
اسرائیل ایک سراسر ناجائز ریاست ہے اور مسلمانوں کے علاقوں پر قبضہ کرکے بنائی گئی ہے۔ اس ریاست کے قیام کےلیے لاکھوں مسلمانوں کا خون بہایا گیا۔ جس کی وجہ سے مسلم دنیا نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم نہیں کیے اور اسے ناجائز ریاست قرار دیتے ہوئے اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ لیکن رفتہ رفتہ بعض مسلم ممالک چھوٹے موٹے ذاتی مفادات یا کسی بڑے ملک جیسے امریکا وغیرہ کی لالچ یا دباؤ میں آکر اسے تسلیم کرتے رہے۔ چند مسلم ممالک نے اسے تسلیم کرلیا ہے جبکہ بہت سے ممالک نے ابھی تک اس ریاست کو تسلیم نہیں کیا، جن میں پاکستان سرفہرست ہے۔ چند دیگر مسلم ممالک بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے خواہاں ہیں لیکن ابھی تک ایسا کوئی قدم اٹھانے کی ہمت نہیں کرپائے لیکن ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی وہ یہ کام کرتے جارہے ہیں۔ اسرائیل کی اس ناجائز ریاست کو خالصتاً نظریاتی بنیادوں پر قائم کیا گیا، اس لیے اس سے ہمارے اختلافات بھی نظریاتی ہیں۔
پاکستان بھی ایک نظریاتی ریاست ہے، جس کی نظریاتی بنیاد صرف اور صرف اسلام ہے۔ پاکستان کو اسلام کے نام پر وجود ملا اور اس دین متین کے نام پر یہاں کے باشندوں کو آزادی جیسی دولت نصیب ہوئی۔ اس ملک کی بقا بھی اسلامی نظریات کی حفاظت کرنے میں ہے۔ پاکستان کے دیگر ریاستوں کے ساتھ تعلقات کا جائزہ لیا جائے تو ان میں بھی نظریہ اسلام کارفرما ہے اور ہم نظریاتی بنیادوں پر دیگر ریاستوں سے تعلقات استوار کرتے ہیں۔ ریاستوں کے انہی تعلقات میں ایک اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا معاملہ بھی ہے۔ پاکستان نے آج تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور موجودہ حکومت سے قبل کسی نے اس ناجائز ریاست کو تسلیم کرنے کی گفتگو تو دور کی بات، کسی نے اس بارے میں سوچا بھی نہیں۔ لیکن موجودہ حکومت کے کچھ اراکین نے اس حوالے سے گفتگو کی بلکہ ایک خاتون رکن اسمبلی عاصمہ حدید نے تو برملا اسرائیل کو تسلیم کرنے پر زور دیا اور اسلامی حوالوں کو انتہائی بے دردی سے توڑ مروڑ کر پیش کیا۔
بہرحال اسرائیل کے ساتھ ہمارے تعلقات خالصتاً نظریاتی بنیادوں پر ہیں۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمیں اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرلینے چاہئیں کیوں کہ اس سے ہمیں فائدہ ہوگا۔ ہمیں اسرائیل کی بلاوجہ دشمنی مول نہیں لینی چاہیے، ہمارا اس نے کیا بگاڑا ہے، ہماری اس سے کیا دشمنی ہے؟ ہمیں اپنے نفع نقصان کو دیکھتے ہوئے اس ملک سے تعلقات استوار کرنے چاہئیں۔ اس قسم کے اعتراضات یا دلائل اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے ہمارے مفکرین کی طرف سے سننے کو ملتے رہتے ہیں۔ ان حضرات کی خدمت میں نہایت مودبانہ گزارش ہے کہ جناب نظریہ بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ دین، مذہب و ملت بھی کوئی حیثیت رکھتے ہیں، اسلامی اخوت و بھائی چارہ بھی اسلام کے اہم موضوعات ہیں۔ کیا ہم اپنے تھوڑے سے نفع اور نقصان کی خاطر ان سب کو پس پشت ڈال دیں؟ اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے سے ہم کتنے معاشی فائدے حاصل کرلیں گے؟ ہمیں کیا ترقی حاصل ہوجائے گی؟ دنیا کے تمام ممالک سے تعلقات میں سے کون سی ایسی چیز رہ گئی ہے جو ہمیں اسرائیل سے ہی ملنی ہے؟ اس کے سوا دنیا کا کوئی دوسرا ملک ہمیں نہیں دے سکتا۔
ہم اپنی ناقص پالیسیوں اور اپنی غلطیوں کی وجہ سے ترقی نہیں کر پا رہے۔ اس میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی خرابی کا کوئی قصور نہیں۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرکے ہم کوئی مادی فائدہ تو حاصل نہیں کرسکیں گے کیونکہ ہمارے ماضی کے تجربات اسی پر شاہد ہیں کہ ہم نے امریکا سے تعلقات قائم کیے، اس سے فائدہ ہم کیا حاصل کرتے ہم نے اپنے نقصانات ہی کیے۔ دیگر کئی ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات ہیں لیکن ہم وہیں کے وہیں ہیں۔ ہم کسی سے کوئی کام نہیں نکلوا سکے۔ اس لیے اسرائیل کے ساتھ بھی تعلقات قائم کرکے ہم اپنے نظریات کا گلہ گھونٹنے کے سوا کچھ حاصل نہیں کرپائیں گے۔ اس سے صرف امت مسلمہ کے مفادات کو شدید دھچکا لگے گا اور جو ممالک اسرائیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ہوئے ہیں ان کا حوصلہ بھی پست ہوجائے گا۔
لہٰذا ہمیں اپنے نظریات کی حفاظت کرنی چاہیے اور ان پر قائم و دائم رہتے ہوئے جو تھوڑی بہت تکالیف یا پریشانی آئے تو اس پر صبر و استقامت سے کام لینا چاہیے۔ ہمیں چھوٹے چھوٹے ذاتی مفادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے امت مسلمہ کے اجتماعی مفادات کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ اگر تمام مسلمان مل جل کر ایک ہی موقف اپناتے اور اسرائیل کے خلاف کمربستہ ہوجاتے تو آج اسرائیل کی جرأت نہ ہوتی کہ وہ مسلم ممالک کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھتا۔ لیکن مسلم ممالک کی اپنی کمزوریوں نے اسے طاقت دی۔ اب متحدہ عرب امارات نے امت مسلمہ کے مفادات اور اسلامی نظریات کا گلہ گھونٹ کر اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کیے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس سے وہ کتنا فائدہ حاصل کرتے ہیں اور فلسطینیوں کو کتنا ریلیف دلاتے ہیں؟
غیر مسلموں بالخصوص یہود و نصاریٰ سے کسی بھی طرح کی خیر کی توقع رکھنا تو بالکل فضول ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو آپس کے اتحاد پر زور دینا چاہیے۔ اخوت، محبت اور بھائی چارے کو فروغ دینا چاہیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اسرائیل ایک سراسر ناجائز ریاست ہے اور مسلمانوں کے علاقوں پر قبضہ کرکے بنائی گئی ہے۔ اس ریاست کے قیام کےلیے لاکھوں مسلمانوں کا خون بہایا گیا۔ جس کی وجہ سے مسلم دنیا نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم نہیں کیے اور اسے ناجائز ریاست قرار دیتے ہوئے اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ لیکن رفتہ رفتہ بعض مسلم ممالک چھوٹے موٹے ذاتی مفادات یا کسی بڑے ملک جیسے امریکا وغیرہ کی لالچ یا دباؤ میں آکر اسے تسلیم کرتے رہے۔ چند مسلم ممالک نے اسے تسلیم کرلیا ہے جبکہ بہت سے ممالک نے ابھی تک اس ریاست کو تسلیم نہیں کیا، جن میں پاکستان سرفہرست ہے۔ چند دیگر مسلم ممالک بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے خواہاں ہیں لیکن ابھی تک ایسا کوئی قدم اٹھانے کی ہمت نہیں کرپائے لیکن ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی وہ یہ کام کرتے جارہے ہیں۔ اسرائیل کی اس ناجائز ریاست کو خالصتاً نظریاتی بنیادوں پر قائم کیا گیا، اس لیے اس سے ہمارے اختلافات بھی نظریاتی ہیں۔
پاکستان بھی ایک نظریاتی ریاست ہے، جس کی نظریاتی بنیاد صرف اور صرف اسلام ہے۔ پاکستان کو اسلام کے نام پر وجود ملا اور اس دین متین کے نام پر یہاں کے باشندوں کو آزادی جیسی دولت نصیب ہوئی۔ اس ملک کی بقا بھی اسلامی نظریات کی حفاظت کرنے میں ہے۔ پاکستان کے دیگر ریاستوں کے ساتھ تعلقات کا جائزہ لیا جائے تو ان میں بھی نظریہ اسلام کارفرما ہے اور ہم نظریاتی بنیادوں پر دیگر ریاستوں سے تعلقات استوار کرتے ہیں۔ ریاستوں کے انہی تعلقات میں ایک اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا معاملہ بھی ہے۔ پاکستان نے آج تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور موجودہ حکومت سے قبل کسی نے اس ناجائز ریاست کو تسلیم کرنے کی گفتگو تو دور کی بات، کسی نے اس بارے میں سوچا بھی نہیں۔ لیکن موجودہ حکومت کے کچھ اراکین نے اس حوالے سے گفتگو کی بلکہ ایک خاتون رکن اسمبلی عاصمہ حدید نے تو برملا اسرائیل کو تسلیم کرنے پر زور دیا اور اسلامی حوالوں کو انتہائی بے دردی سے توڑ مروڑ کر پیش کیا۔
بہرحال اسرائیل کے ساتھ ہمارے تعلقات خالصتاً نظریاتی بنیادوں پر ہیں۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمیں اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرلینے چاہئیں کیوں کہ اس سے ہمیں فائدہ ہوگا۔ ہمیں اسرائیل کی بلاوجہ دشمنی مول نہیں لینی چاہیے، ہمارا اس نے کیا بگاڑا ہے، ہماری اس سے کیا دشمنی ہے؟ ہمیں اپنے نفع نقصان کو دیکھتے ہوئے اس ملک سے تعلقات استوار کرنے چاہئیں۔ اس قسم کے اعتراضات یا دلائل اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے ہمارے مفکرین کی طرف سے سننے کو ملتے رہتے ہیں۔ ان حضرات کی خدمت میں نہایت مودبانہ گزارش ہے کہ جناب نظریہ بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ دین، مذہب و ملت بھی کوئی حیثیت رکھتے ہیں، اسلامی اخوت و بھائی چارہ بھی اسلام کے اہم موضوعات ہیں۔ کیا ہم اپنے تھوڑے سے نفع اور نقصان کی خاطر ان سب کو پس پشت ڈال دیں؟ اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے سے ہم کتنے معاشی فائدے حاصل کرلیں گے؟ ہمیں کیا ترقی حاصل ہوجائے گی؟ دنیا کے تمام ممالک سے تعلقات میں سے کون سی ایسی چیز رہ گئی ہے جو ہمیں اسرائیل سے ہی ملنی ہے؟ اس کے سوا دنیا کا کوئی دوسرا ملک ہمیں نہیں دے سکتا۔
ہم اپنی ناقص پالیسیوں اور اپنی غلطیوں کی وجہ سے ترقی نہیں کر پا رہے۔ اس میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی خرابی کا کوئی قصور نہیں۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرکے ہم کوئی مادی فائدہ تو حاصل نہیں کرسکیں گے کیونکہ ہمارے ماضی کے تجربات اسی پر شاہد ہیں کہ ہم نے امریکا سے تعلقات قائم کیے، اس سے فائدہ ہم کیا حاصل کرتے ہم نے اپنے نقصانات ہی کیے۔ دیگر کئی ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات ہیں لیکن ہم وہیں کے وہیں ہیں۔ ہم کسی سے کوئی کام نہیں نکلوا سکے۔ اس لیے اسرائیل کے ساتھ بھی تعلقات قائم کرکے ہم اپنے نظریات کا گلہ گھونٹنے کے سوا کچھ حاصل نہیں کرپائیں گے۔ اس سے صرف امت مسلمہ کے مفادات کو شدید دھچکا لگے گا اور جو ممالک اسرائیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ہوئے ہیں ان کا حوصلہ بھی پست ہوجائے گا۔
لہٰذا ہمیں اپنے نظریات کی حفاظت کرنی چاہیے اور ان پر قائم و دائم رہتے ہوئے جو تھوڑی بہت تکالیف یا پریشانی آئے تو اس پر صبر و استقامت سے کام لینا چاہیے۔ ہمیں چھوٹے چھوٹے ذاتی مفادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے امت مسلمہ کے اجتماعی مفادات کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ اگر تمام مسلمان مل جل کر ایک ہی موقف اپناتے اور اسرائیل کے خلاف کمربستہ ہوجاتے تو آج اسرائیل کی جرأت نہ ہوتی کہ وہ مسلم ممالک کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھتا۔ لیکن مسلم ممالک کی اپنی کمزوریوں نے اسے طاقت دی۔ اب متحدہ عرب امارات نے امت مسلمہ کے مفادات اور اسلامی نظریات کا گلہ گھونٹ کر اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کیے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس سے وہ کتنا فائدہ حاصل کرتے ہیں اور فلسطینیوں کو کتنا ریلیف دلاتے ہیں؟
غیر مسلموں بالخصوص یہود و نصاریٰ سے کسی بھی طرح کی خیر کی توقع رکھنا تو بالکل فضول ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو آپس کے اتحاد پر زور دینا چاہیے۔ اخوت، محبت اور بھائی چارے کو فروغ دینا چاہیے۔
اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستان کا ہر پیر و جواں بے تاب ہوجائے
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔