میر حاصل بزنجوکی سینٹ نشست پر پندرہ امیدوار سامنے آ گئے
اپوزیشن جماعتوں نے میر حاصل بزنجو (مرحوم) کے بیٹے شاہ وش حاصل بزنجو کواس نشست پراپنی مکمل حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے
بلوچستان کی سیاسی جماعتوں نے سیاسی مخالفت کو بالائے طاق رکھ کر روایات کی پاسداری کی ایک نئی مثال قائم کی ہے۔ جسے سیاسی حلقوں میں سراہا جا رہا ہے۔
نیشنل پارٹی کے رہنما میر حاصل خان بزنجو کے انتقال سے خالی ہونے والی نشست پر برسراقتدار جماعت بلوچستان عوامی پارٹی و اتحادی جماعتوں سمیت اپوزیشن جماعتیں جن میں بی این پی، جمعیت علماء اسلام قابل ذکر ہیں نے نیشنل پارٹی کو اپنی حمایت کی پیشکش کی۔
واضح رہے کہ بلوچستان اسمبلی میں اس وقت نیشنل پارٹی کی کوئی بھی نشست نہیں ہے اس کے باوجود روایات کی پاسداری کرتے ہوئے صوبے کی تمام پارلیمانی جماعتوں نے میر حاصل خان بزنجو (مرحوم) کی وفات کے بعد خالی ہونے والی اس نشست پر نیشنل پارٹی کو یہ آفر کی کہ اُن کی جماعت حاصل بزنجو کے فرزند سمیت جس کسی کو بھی نامزد کرے اُسے مکمل حمایت فراہم کی جائے گی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے میر حاصل خان بزنجو کی خالی ہونے والی نشست پر ضمنی انتخاب کیلئے12 ستمبر کو ووٹنگ کا شیڈول جاری کیا ہے۔
نیشنل پارٹی نے بلوچستان کی تمام پارلیمانی جماعتوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس خالی نشست پر ضمنی انتخاب میں حصہ نہ لینے کا اصولی فیصلہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ چونکہ نیشنل پارٹی کے پاس موجودہ بلوچستان اسمبلی میں کوئی نشست نہیں اس لئے ایک بااصول سیاسی جماعت ہونے کے ناطے نیشنل پارٹی نے مشاورت کے بعد اس ضمنی انتخاب میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
نیشنل پارٹی کے ترجمان کے مطابق بلوچستان کی حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں نے میر حاصل خان بزنجو (مرحوم) کے بیٹے شاہ وش حاصل بزنجو کو اس نشست پر اپنی مکمل حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے جس کیلئے پارٹی کی قیادت اور کارکنان ان سب کے مشکور ہیں، نیشنل پارٹی ایک سیاسی جمہوری جماعت ہے، میر حاصل خان بزنجو ایک جمہوری سیاسی اور اصول پسند انسان تھے ان کی سیاسی و قومی جدوجہد کو مشعل راہ بناتے ہوئے اُن کے خاندان اور پارٹی نے مشاورت کے بعد یہ اصولی فیصلہ کیا ہے۔
نیشنل پارٹی کی جانب سے اصولی موقف آنے کے بعد اس نشست پر تقریباً 15 اُمیدوار آمنے سامنے آئے ہیں جن میں حکمران جماعت بی اے پی اور اس کی اتحادی جماعتوں سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد زیادہ ہے حالانکہ اس نشست پر جو بھی سینیٹر کامیاب ہوگا اُس کی معیاد مارچ2021ء تک رہے گی۔ حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی نے اس نشست پر پارٹی ٹکٹ بھی خالد بزنجو کو دیا ہے جو کہ میر حاصل خان بزنجو کی فیملی سے تعلق رکھتے ہیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق12 ستمبر کوسینٹ کے اس ضمنی انتخاب میں حکمران اتحاد اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان''وارم اپ'' میچ ہوگا کیونکہ دونوںجانب سے مارچ2021ء کے سینٹ انتخابات کیلئے کچھ عرصے سے تیاریاں کی جا رہی ہیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق حکمران جماعت کے سربراہ اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال عالیانی 2021ء کے سینٹ کے انتخابات میں کامیابی کیلئے ابھی سے متحرک ہوگئے ہیں اور پارٹی کے ناراض ارکان کو منانے اور اُن کے تحفظات کو دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کا ایک عملی مظاہرہ حال ہی میں اُن کی جماعت سے تعلق رکھنے والے ناراض ایم پی اے سردارسرفراز ڈومکی کے حوالے سے دیکھنے میں آیا جو کہ ان کی کابینہ میں صوبائی وزیر کے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے گذشتہ دنوں وزیراعلیٰ جام کمال اور سردار سرفراز ڈومکی کی ملاقات ہوئی جس کے بعد سردار سرفراز ڈومکی کو وزیراعلیٰ جام کمال خان نے دوبارہ اپنی کابینہ میں شامل کر لیا، تاہم اس مرتبہ اُنہیںمشیر کی حیثیت سے کابینہ میں شامل کرتے ہوئے وزیر کے برابر اختیارات دیئے گئے ہیں اور انہیں ایس اینڈ جی اے ڈی کے محکمہ کا قلمدان سونپا گیا ہے۔
ان سیاسی مبصرین کے مطابق مارچ 2021ء کے سینٹ انتخابات سے قبل بلوچستان کی سیاست میں اُتار چڑھاؤ کے ساتھ ساتھ موجودہ جام حکومت کے اندر بھی تبدیلیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا؟ جس کیلئے وزیراعلیٰ جام کمال کو اپنی اتحادی جماعتوںکی جانب سے دباؤ کا سامنا ہے اس دباؤ کا وزیراعلیٰ جام کمال کس طرح سے سامنا کرتے ہیں اور ایک اچھے کپتان کے طور پر سیاسی فیصلے کرتے ہوئے اپنی ٹیم کو سینٹ کے اس الیکشن میں کامیابی سے ہمکنار کرتے ہیں اُن کی قائدانہ صلاحیتوں کا اندازہ مارچ2021ء کے سینٹ انتخابات کے نتائج سے ہوگا؟۔
دوسری جانب سینٹ سے بلوچستان اسمبلی کی نشستوں میں اضافے کے بل کی منظوری کے بعد صوبے کی حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی اور اُس کی اتحادی جماعتوں نے بلوچستان اور قومی اسمبلی کی نشستوں میں بھی اضافے کا مطالبہ کردیا ہے، یہ مطالبہ گذشتہ دنوں کوئٹہ میں وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان عالیانی کی زیر صدارت صوبائی کابینہ میں شامل ہونے والی سیاسی جماعتوں کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا، اس اجلاس میں بلوچستان عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی، تحریک انصاف، ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور جمہوری وطن پارٹی کے ارکان شامل تھے۔
اس اجلاس میں سینٹ میں بلوچستان اسمبلی کی نشستوں میں اضافے کے بل کا خیر مقدم کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ جس طرح سے سینٹ میں تحریک پیش کر کے صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ کیا گیا اسی طرح قومی اسمبلی میں بھی بلوچستان کی نشستوں میں اضافہ کیا جائے ۔
اجلاس میں اتفاق رائے سے یہ طے کیا گیا کہ قومی اسمبلی میں بلوچستان کی نشستوں میں اضافے کیلئے صوبائی اسمبلی میں قرار داد لائی جائے گی اور اس سلسلے میں بلوچستان اسمبلی کی متحدہ اپوزیشن کو بھی اعتماد میں لیا جائے گا تاکہ اتفاق رائے سے اس اہم قرار داد کو بلوچستان اسمبلی سے منظور کیا جائے اس کے علاوہ اس اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ارکان قومی اسمبلی و سینٹ کو بھی متحرک کیا جائے گا تاکہ وہ صوبائی حکومت کے اس موقف پر حمایت کے حصول کیلئے ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں سے رابطے کریں تاکہ بلوچستان کے اس موقف کو منوایا جا سکے۔
اجلاس میں یہ بھی طے کیا گیا کہ بلوچستان کے اس موقف کو منوانے کیلئے قومی و صوبائی سطح پر صوبے کی تمام پارلیمانی جماعتوں کے ارکان پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ سیاسی مبصرین کے مطابق جام حکومت کیلئے قومی اسمبلی میں بلوچستان کی نشستوں میں اضافہ کروانا گو کہ ایک مشکل ٹاسک ضرور ہوگا مگر نا ممکن نہیں اس کیلئے موثر لابنگ کرنا ہو گی ۔
نیشنل پارٹی کے رہنما میر حاصل خان بزنجو کے انتقال سے خالی ہونے والی نشست پر برسراقتدار جماعت بلوچستان عوامی پارٹی و اتحادی جماعتوں سمیت اپوزیشن جماعتیں جن میں بی این پی، جمعیت علماء اسلام قابل ذکر ہیں نے نیشنل پارٹی کو اپنی حمایت کی پیشکش کی۔
واضح رہے کہ بلوچستان اسمبلی میں اس وقت نیشنل پارٹی کی کوئی بھی نشست نہیں ہے اس کے باوجود روایات کی پاسداری کرتے ہوئے صوبے کی تمام پارلیمانی جماعتوں نے میر حاصل خان بزنجو (مرحوم) کی وفات کے بعد خالی ہونے والی اس نشست پر نیشنل پارٹی کو یہ آفر کی کہ اُن کی جماعت حاصل بزنجو کے فرزند سمیت جس کسی کو بھی نامزد کرے اُسے مکمل حمایت فراہم کی جائے گی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے میر حاصل خان بزنجو کی خالی ہونے والی نشست پر ضمنی انتخاب کیلئے12 ستمبر کو ووٹنگ کا شیڈول جاری کیا ہے۔
نیشنل پارٹی نے بلوچستان کی تمام پارلیمانی جماعتوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس خالی نشست پر ضمنی انتخاب میں حصہ نہ لینے کا اصولی فیصلہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ چونکہ نیشنل پارٹی کے پاس موجودہ بلوچستان اسمبلی میں کوئی نشست نہیں اس لئے ایک بااصول سیاسی جماعت ہونے کے ناطے نیشنل پارٹی نے مشاورت کے بعد اس ضمنی انتخاب میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
نیشنل پارٹی کے ترجمان کے مطابق بلوچستان کی حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں نے میر حاصل خان بزنجو (مرحوم) کے بیٹے شاہ وش حاصل بزنجو کو اس نشست پر اپنی مکمل حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے جس کیلئے پارٹی کی قیادت اور کارکنان ان سب کے مشکور ہیں، نیشنل پارٹی ایک سیاسی جمہوری جماعت ہے، میر حاصل خان بزنجو ایک جمہوری سیاسی اور اصول پسند انسان تھے ان کی سیاسی و قومی جدوجہد کو مشعل راہ بناتے ہوئے اُن کے خاندان اور پارٹی نے مشاورت کے بعد یہ اصولی فیصلہ کیا ہے۔
نیشنل پارٹی کی جانب سے اصولی موقف آنے کے بعد اس نشست پر تقریباً 15 اُمیدوار آمنے سامنے آئے ہیں جن میں حکمران جماعت بی اے پی اور اس کی اتحادی جماعتوں سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد زیادہ ہے حالانکہ اس نشست پر جو بھی سینیٹر کامیاب ہوگا اُس کی معیاد مارچ2021ء تک رہے گی۔ حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی نے اس نشست پر پارٹی ٹکٹ بھی خالد بزنجو کو دیا ہے جو کہ میر حاصل خان بزنجو کی فیملی سے تعلق رکھتے ہیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق12 ستمبر کوسینٹ کے اس ضمنی انتخاب میں حکمران اتحاد اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان''وارم اپ'' میچ ہوگا کیونکہ دونوںجانب سے مارچ2021ء کے سینٹ انتخابات کیلئے کچھ عرصے سے تیاریاں کی جا رہی ہیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق حکمران جماعت کے سربراہ اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال عالیانی 2021ء کے سینٹ کے انتخابات میں کامیابی کیلئے ابھی سے متحرک ہوگئے ہیں اور پارٹی کے ناراض ارکان کو منانے اور اُن کے تحفظات کو دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کا ایک عملی مظاہرہ حال ہی میں اُن کی جماعت سے تعلق رکھنے والے ناراض ایم پی اے سردارسرفراز ڈومکی کے حوالے سے دیکھنے میں آیا جو کہ ان کی کابینہ میں صوبائی وزیر کے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے گذشتہ دنوں وزیراعلیٰ جام کمال اور سردار سرفراز ڈومکی کی ملاقات ہوئی جس کے بعد سردار سرفراز ڈومکی کو وزیراعلیٰ جام کمال خان نے دوبارہ اپنی کابینہ میں شامل کر لیا، تاہم اس مرتبہ اُنہیںمشیر کی حیثیت سے کابینہ میں شامل کرتے ہوئے وزیر کے برابر اختیارات دیئے گئے ہیں اور انہیں ایس اینڈ جی اے ڈی کے محکمہ کا قلمدان سونپا گیا ہے۔
ان سیاسی مبصرین کے مطابق مارچ 2021ء کے سینٹ انتخابات سے قبل بلوچستان کی سیاست میں اُتار چڑھاؤ کے ساتھ ساتھ موجودہ جام حکومت کے اندر بھی تبدیلیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا؟ جس کیلئے وزیراعلیٰ جام کمال کو اپنی اتحادی جماعتوںکی جانب سے دباؤ کا سامنا ہے اس دباؤ کا وزیراعلیٰ جام کمال کس طرح سے سامنا کرتے ہیں اور ایک اچھے کپتان کے طور پر سیاسی فیصلے کرتے ہوئے اپنی ٹیم کو سینٹ کے اس الیکشن میں کامیابی سے ہمکنار کرتے ہیں اُن کی قائدانہ صلاحیتوں کا اندازہ مارچ2021ء کے سینٹ انتخابات کے نتائج سے ہوگا؟۔
دوسری جانب سینٹ سے بلوچستان اسمبلی کی نشستوں میں اضافے کے بل کی منظوری کے بعد صوبے کی حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی اور اُس کی اتحادی جماعتوں نے بلوچستان اور قومی اسمبلی کی نشستوں میں بھی اضافے کا مطالبہ کردیا ہے، یہ مطالبہ گذشتہ دنوں کوئٹہ میں وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان عالیانی کی زیر صدارت صوبائی کابینہ میں شامل ہونے والی سیاسی جماعتوں کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا، اس اجلاس میں بلوچستان عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی، تحریک انصاف، ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور جمہوری وطن پارٹی کے ارکان شامل تھے۔
اس اجلاس میں سینٹ میں بلوچستان اسمبلی کی نشستوں میں اضافے کے بل کا خیر مقدم کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ جس طرح سے سینٹ میں تحریک پیش کر کے صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ کیا گیا اسی طرح قومی اسمبلی میں بھی بلوچستان کی نشستوں میں اضافہ کیا جائے ۔
اجلاس میں اتفاق رائے سے یہ طے کیا گیا کہ قومی اسمبلی میں بلوچستان کی نشستوں میں اضافے کیلئے صوبائی اسمبلی میں قرار داد لائی جائے گی اور اس سلسلے میں بلوچستان اسمبلی کی متحدہ اپوزیشن کو بھی اعتماد میں لیا جائے گا تاکہ اتفاق رائے سے اس اہم قرار داد کو بلوچستان اسمبلی سے منظور کیا جائے اس کے علاوہ اس اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ارکان قومی اسمبلی و سینٹ کو بھی متحرک کیا جائے گا تاکہ وہ صوبائی حکومت کے اس موقف پر حمایت کے حصول کیلئے ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں سے رابطے کریں تاکہ بلوچستان کے اس موقف کو منوایا جا سکے۔
اجلاس میں یہ بھی طے کیا گیا کہ بلوچستان کے اس موقف کو منوانے کیلئے قومی و صوبائی سطح پر صوبے کی تمام پارلیمانی جماعتوں کے ارکان پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ سیاسی مبصرین کے مطابق جام حکومت کیلئے قومی اسمبلی میں بلوچستان کی نشستوں میں اضافہ کروانا گو کہ ایک مشکل ٹاسک ضرور ہوگا مگر نا ممکن نہیں اس کیلئے موثر لابنگ کرنا ہو گی ۔