حکومت مخالف تحریک چھوٹی اپوزیشن جماعتیں کامیاب ہو پائیں گی
اپوزیشن کے پاس آئندہ سال فروری، مارچ تک کا وقت ہے کہ وہ حکومت مخالف تحریک چلاتے ہوئے کچھ کرنا چاہیں تو کر سکتی ہیں۔
اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں چونکہ واضح نہیں ہو سکیں کہ انہوں نے کہاں کھڑا ہونا ہے اسی لیے مولانا فضل الرحمن اپوزیشن کی چھوٹی جماعتوں کو لیے میدان میں نکل آئے ہیں، انہوں نے ان چھوٹی جماعتوں کا اجلاس بھی منعقد کیا اور ان کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے حکومت مخالفت میں اکٹھے ہونے کا پیغام بھی دے دیا ہے تاہم ساتھ ہی بڑی دونوںجماعتوں کے لیے بھی یہ کہہ کر راستہ کھلا رکھا ہے کہ اب رہبر کمیٹی کا اجلاس ہوگا اور بقایا پالیسی یہی رہبر کمیٹی طے کرے گی جس میں پہلے ہی سے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی دونوں شامل ہیں۔
اب اگر یہ دونوں جماعتیں رہبر کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کرتی ہیں تو اس کے بعد وہ رہبر کمیٹی تک محدود نہیں رہ سکتیں بلکہ انھیں اس سے آگے جا کر اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے ساتھ احتجاج میں بھی شامل ہونا ہوگا کیونکہ چھوٹی جماعتیں اب جبکہ حکومت مخالفت میں یکجا ہوکر میدان میں نکل آئی ہیں تو انھیں کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہوگا کیونکہ کچھ کیے بغیر ان کا اکٹھ بے معنی ہوکر رہ جائے گا۔
ان ہی سطور میں اس سے پہلے بھی کہا گیا ہے کہ اپوزیشن کے پاس آئندہ سال فروری، مارچ تک کا وقت ہے کہ وہ حکومت مخالف تحریک چلاتے ہوئے کچھ کرنا چاہیں تو کر سکتی ہیں کیونکہ ایک مرتبہ سینٹ کے انتخابات ہوگئے تو اس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کو سینٹ آف پاکستان میں بھی اکثریت مل جائے گی جس کے بعد اس کے بند ہاتھ کھل جائیں گے اور قانون سازی کے حوالے سے اسے جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے وہ مشکلات ختم ہو جائیں گی۔
اسی لیے اپوزیشن جماعتوں کے لیے چھ ماہ کا وقت ہے کہ وہ اس عرصے میں کیاکچھ کر سکتی ہیں۔ سینٹ انتخابات کے حوالے سے صورت حال کچھ یوں ہے کہ یہ بات حکومت بھی جانتی ہے کہ ہر مرتبہ کی طرح اس بار بھی سینٹ انتخابات پر نقب لگ سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ وفاقی کابینہ نے سینٹ انتخابات کے طریقہ کار کو تبدیل کرنے کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت سینٹ انتخابات کے لیے رائے شماری کا عمل خفیہ نہیں ہو پائے گا بلکہ شو آف ہینڈز کے ذریعے یہ سارا عمل مکمل ہوگا جو سینیٹرز کے انتخاب کا نیا راستہ ہے۔
آئین میں سینیٹرز کے انتخاب کے لیے خفیہ رائے شماری کو تبدیل کرنے کے حوالے سے نئے طریقہ کار کی فی الحال صرف وفاقی کابینہ نے منظوری دی ہے،ابھی قومی اسمبلی اور سینٹ نے اس کی منظوری دینی ہے تب ہی یہ طریقہ کار آئین کا حصہ بنے گا اور اپوزیشن ،حکومت کی راہ میں جو کانٹے بچھانا چاہتی ہے یہ نیا طریقہ کار اپنانا بھی اس کا حصہ ہے کیونکہ صورت حال یہ ہے کہ ملک میں سینٹ کے آخری انتخابات 2018ء میں ہوئے تھے اور ان انتخابات میں بھی خیبرپختونخوا سے اپوزیشن، حکومت کی ایک نشست اڑانے میں کامیاب ہوگئی تھی لیکن ایک نشست کے جانے سے جو زخم پاکستان تحریک انصاف کو اس وقت لگا اس زخم سے درد کی ٹیسیں اب بھی اٹھ رہی ہیں اور یہ ان ہی ٹیسوں کے اثرات ہیں کہ پی ٹی آئی کی مرکزی حکومت، سینیٹرز کے انتخاب کا طریقہ کار تبدیل کرنے پر مجبور ہوگئی ہے لیکن بات وہیں اس تجویز کو قانون کا حصہ بنانے پر اٹکی ہوئی ہے کیونکہ جو سینٹ فیٹف بل کو مسترد کر سکتا ہے وہ سینٹ انتخابات کے نئے طریقہ کار پر بھی اختلاف کر سکتا ہے ۔
یہ بات پاکستان تحریک انصاف کے مدنظر ہے اور وہ اس بات کو پوری طرح سمجھ رہی ہے اسی لیے وہ وفاقی کابینہ سے منظور کردہ تجویز کو قانون بنانے کے لیے بھی بھرپور کوشش کرے گی تاکہ اگلے سال مارچ میں منعقد ہونے والے سینٹ انتخابات میں اس کا فائدہ لے سکے، مذکورہ سینٹ انتخابات اس اعتبارسے بھی منفرد ہونگے کہ ان میں قبائلی سینیٹرز کا انتخاب نہیں ہوگا کیونکہ قبائلی علاقہ جات اب الگ وجود ہوتے ہوئے خیبرپختونخوا کا حصہ بن چکے ہیں یہی وجہ ہے کہ یہ مطالبہ بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ سابقہ قبائلی علاقہ جات کے لیے مختص سینٹ کی 8 نشستیں چاروں صوبوں پر تقسیم کرتے ہوئے ہر صوبہ کے لیے سینٹ کی دو نشستیں بڑھا دی جائیں، اگر ایسا ہوتا ہے تو اس صورت میں مذکورہ نشستوں پر امیدواروں کی کامیابی کے لیے فارمولے بھی تبدیل ہو جائیں گے تاہم یہ صورت حال تب واضح ہوگی کہ جب یہ تجاویز بل کی صورت میں قومی اسمبلی میں پیش کی جائیں گی ۔
اب تک کی صورت حال یہ ہے کہ اپوزیشن کی چھوٹی جماعتوں نے اکٹھ کرتے ہوئے جس حکومت مخالف تحریک کی ابتداء کی ہے اب اسے مکمل رنگ بھی دینا ہوگا۔ اور اس کے لیے ان اپوزیشن جماعتوں کو اپنے ورکروں کو متحرک کرتے ہوئے میدان میں نکالنا ہوگا۔
اس سلسلے میں جمعیت علماء اسلام سب سے زیادہ بہتر پوزیشن میں ہے کیونکہ ایک تو مولانا فضل الرحمن آزادی مارچ کی ناکامی کے باوجود آرام سے نہیں بیٹھے اورا ب دوسرا سپیل وہ ختم نبوت کانفرنس کے انعقاد سے کرنے جا رہے ہیں جو 7 ستمبر کو پشاور میں منعقد ہو رہی ہے، گو کہ جے یوآئی سے ایک روز قبل جماعت اسلامی بھی پشاور ہی میں ایسی کانفرنس کا انعقاد کرنے جا رہی ہے تاہم جماعت اسلامی کا قضیہ یہ ہے کہ وہ اب تک کسی کے ساتھ چلنے کا فیصلہ نہیں کر سکی اور یہ بات جماعت اسلامی کی قیادت بھی بخوبی جانتی ہے کہ اگر وہ اکیلے ہی چلتے چلے جائیں گے تو شاید ہی کسی منزل کو پہنچ سکیں تاہم اپنی الگ پہچان شاید برقراررکھنے میں کامیاب رہیں جو اسمبلیوں میں انتہائی کم تعداد تک محدود رہے گی تاہم اس کے برعکس جمعیت علماء اسلام کی ختم نبوت کانفرنس اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس کے توسط سے مولانا فضل الرحمن ایک بار پھر کھل کر میدان میں آرہے ہیں۔
اور یہی وہ صورت حال ہے کہ جس کی وجہ سے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی حکومت مخالف تحریک شروع کرنے سے کترا رہی ہیں کیونکہ مسلم لیگ ن کی صورت حال یہ ہے کہ وہ تقسیم کا شکار ہے اور پارٹی کے اندر بیک وقت کئی بیانیے چل رہے ہیںجبکہ دوسری جانب پیپلزپارٹی کی قیادت اس وقت آصف علی زرداری کے ہاتھوں میں نہیں کہ مولانا فضل الرحمن، ان کی شخصیت کے رعب میں آجائیں گے بلکہ اس وقت قیادت بلاول بھٹو زرداری کے ہاتھوں میں ہے اور وہ بہرکیف مولانا فضل الرحمن کے سامنے طفل مکتب ہی ہیں، اس صورت حال میں حکومت مخالف تحریک کا حصہ بننے کا مطلب اپنی باگیں مولانا فضل الرحمن کے ہاتھوں میں دینے کے مترادف ہوگا، یہی وجہ ہے کہ دونوں بڑی پارٹیاں کسی معجزے کی منتظر ہیں۔
اب اگر یہ دونوں جماعتیں رہبر کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کرتی ہیں تو اس کے بعد وہ رہبر کمیٹی تک محدود نہیں رہ سکتیں بلکہ انھیں اس سے آگے جا کر اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے ساتھ احتجاج میں بھی شامل ہونا ہوگا کیونکہ چھوٹی جماعتیں اب جبکہ حکومت مخالفت میں یکجا ہوکر میدان میں نکل آئی ہیں تو انھیں کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہوگا کیونکہ کچھ کیے بغیر ان کا اکٹھ بے معنی ہوکر رہ جائے گا۔
ان ہی سطور میں اس سے پہلے بھی کہا گیا ہے کہ اپوزیشن کے پاس آئندہ سال فروری، مارچ تک کا وقت ہے کہ وہ حکومت مخالف تحریک چلاتے ہوئے کچھ کرنا چاہیں تو کر سکتی ہیں کیونکہ ایک مرتبہ سینٹ کے انتخابات ہوگئے تو اس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کو سینٹ آف پاکستان میں بھی اکثریت مل جائے گی جس کے بعد اس کے بند ہاتھ کھل جائیں گے اور قانون سازی کے حوالے سے اسے جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے وہ مشکلات ختم ہو جائیں گی۔
اسی لیے اپوزیشن جماعتوں کے لیے چھ ماہ کا وقت ہے کہ وہ اس عرصے میں کیاکچھ کر سکتی ہیں۔ سینٹ انتخابات کے حوالے سے صورت حال کچھ یوں ہے کہ یہ بات حکومت بھی جانتی ہے کہ ہر مرتبہ کی طرح اس بار بھی سینٹ انتخابات پر نقب لگ سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ وفاقی کابینہ نے سینٹ انتخابات کے طریقہ کار کو تبدیل کرنے کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت سینٹ انتخابات کے لیے رائے شماری کا عمل خفیہ نہیں ہو پائے گا بلکہ شو آف ہینڈز کے ذریعے یہ سارا عمل مکمل ہوگا جو سینیٹرز کے انتخاب کا نیا راستہ ہے۔
آئین میں سینیٹرز کے انتخاب کے لیے خفیہ رائے شماری کو تبدیل کرنے کے حوالے سے نئے طریقہ کار کی فی الحال صرف وفاقی کابینہ نے منظوری دی ہے،ابھی قومی اسمبلی اور سینٹ نے اس کی منظوری دینی ہے تب ہی یہ طریقہ کار آئین کا حصہ بنے گا اور اپوزیشن ،حکومت کی راہ میں جو کانٹے بچھانا چاہتی ہے یہ نیا طریقہ کار اپنانا بھی اس کا حصہ ہے کیونکہ صورت حال یہ ہے کہ ملک میں سینٹ کے آخری انتخابات 2018ء میں ہوئے تھے اور ان انتخابات میں بھی خیبرپختونخوا سے اپوزیشن، حکومت کی ایک نشست اڑانے میں کامیاب ہوگئی تھی لیکن ایک نشست کے جانے سے جو زخم پاکستان تحریک انصاف کو اس وقت لگا اس زخم سے درد کی ٹیسیں اب بھی اٹھ رہی ہیں اور یہ ان ہی ٹیسوں کے اثرات ہیں کہ پی ٹی آئی کی مرکزی حکومت، سینیٹرز کے انتخاب کا طریقہ کار تبدیل کرنے پر مجبور ہوگئی ہے لیکن بات وہیں اس تجویز کو قانون کا حصہ بنانے پر اٹکی ہوئی ہے کیونکہ جو سینٹ فیٹف بل کو مسترد کر سکتا ہے وہ سینٹ انتخابات کے نئے طریقہ کار پر بھی اختلاف کر سکتا ہے ۔
یہ بات پاکستان تحریک انصاف کے مدنظر ہے اور وہ اس بات کو پوری طرح سمجھ رہی ہے اسی لیے وہ وفاقی کابینہ سے منظور کردہ تجویز کو قانون بنانے کے لیے بھی بھرپور کوشش کرے گی تاکہ اگلے سال مارچ میں منعقد ہونے والے سینٹ انتخابات میں اس کا فائدہ لے سکے، مذکورہ سینٹ انتخابات اس اعتبارسے بھی منفرد ہونگے کہ ان میں قبائلی سینیٹرز کا انتخاب نہیں ہوگا کیونکہ قبائلی علاقہ جات اب الگ وجود ہوتے ہوئے خیبرپختونخوا کا حصہ بن چکے ہیں یہی وجہ ہے کہ یہ مطالبہ بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ سابقہ قبائلی علاقہ جات کے لیے مختص سینٹ کی 8 نشستیں چاروں صوبوں پر تقسیم کرتے ہوئے ہر صوبہ کے لیے سینٹ کی دو نشستیں بڑھا دی جائیں، اگر ایسا ہوتا ہے تو اس صورت میں مذکورہ نشستوں پر امیدواروں کی کامیابی کے لیے فارمولے بھی تبدیل ہو جائیں گے تاہم یہ صورت حال تب واضح ہوگی کہ جب یہ تجاویز بل کی صورت میں قومی اسمبلی میں پیش کی جائیں گی ۔
اب تک کی صورت حال یہ ہے کہ اپوزیشن کی چھوٹی جماعتوں نے اکٹھ کرتے ہوئے جس حکومت مخالف تحریک کی ابتداء کی ہے اب اسے مکمل رنگ بھی دینا ہوگا۔ اور اس کے لیے ان اپوزیشن جماعتوں کو اپنے ورکروں کو متحرک کرتے ہوئے میدان میں نکالنا ہوگا۔
اس سلسلے میں جمعیت علماء اسلام سب سے زیادہ بہتر پوزیشن میں ہے کیونکہ ایک تو مولانا فضل الرحمن آزادی مارچ کی ناکامی کے باوجود آرام سے نہیں بیٹھے اورا ب دوسرا سپیل وہ ختم نبوت کانفرنس کے انعقاد سے کرنے جا رہے ہیں جو 7 ستمبر کو پشاور میں منعقد ہو رہی ہے، گو کہ جے یوآئی سے ایک روز قبل جماعت اسلامی بھی پشاور ہی میں ایسی کانفرنس کا انعقاد کرنے جا رہی ہے تاہم جماعت اسلامی کا قضیہ یہ ہے کہ وہ اب تک کسی کے ساتھ چلنے کا فیصلہ نہیں کر سکی اور یہ بات جماعت اسلامی کی قیادت بھی بخوبی جانتی ہے کہ اگر وہ اکیلے ہی چلتے چلے جائیں گے تو شاید ہی کسی منزل کو پہنچ سکیں تاہم اپنی الگ پہچان شاید برقراررکھنے میں کامیاب رہیں جو اسمبلیوں میں انتہائی کم تعداد تک محدود رہے گی تاہم اس کے برعکس جمعیت علماء اسلام کی ختم نبوت کانفرنس اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس کے توسط سے مولانا فضل الرحمن ایک بار پھر کھل کر میدان میں آرہے ہیں۔
اور یہی وہ صورت حال ہے کہ جس کی وجہ سے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی حکومت مخالف تحریک شروع کرنے سے کترا رہی ہیں کیونکہ مسلم لیگ ن کی صورت حال یہ ہے کہ وہ تقسیم کا شکار ہے اور پارٹی کے اندر بیک وقت کئی بیانیے چل رہے ہیںجبکہ دوسری جانب پیپلزپارٹی کی قیادت اس وقت آصف علی زرداری کے ہاتھوں میں نہیں کہ مولانا فضل الرحمن، ان کی شخصیت کے رعب میں آجائیں گے بلکہ اس وقت قیادت بلاول بھٹو زرداری کے ہاتھوں میں ہے اور وہ بہرکیف مولانا فضل الرحمن کے سامنے طفل مکتب ہی ہیں، اس صورت حال میں حکومت مخالف تحریک کا حصہ بننے کا مطلب اپنی باگیں مولانا فضل الرحمن کے ہاتھوں میں دینے کے مترادف ہوگا، یہی وجہ ہے کہ دونوں بڑی پارٹیاں کسی معجزے کی منتظر ہیں۔