مردم شماری کرانے کا درست فیصلہ
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے آئندہ سال 2014ء میں ملک بھر میں مردم شماری کروانے کے احکامات جاری کر دیے ہیں
اگر 2014ء میں مردم شماری ہوتی ہے تو یہ سولہ سال کے بعد ہو گی۔ فوٹو:فائل
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے آیندہ سال 2014ء میں ملک بھر میں مردم شماری کروانے کے احکامات جاری کر دیے ہیں تاکہ 2018ء میں ہونے والے عام انتخابات نئی مردم شماری کے مطابق کروائے جا سکیں۔کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی جاتی ہے، درست اعدادوشمار کے بغیر کوئی بھی منصوبہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا۔ ملکی ترقی کے لیے بنائے گئے منصوبوں میں آبادی کے درست اعدادوشمار بنیادی کردار ادا کرتے ہیں، جنھیں حاصل کرنے کا واحد ذریعہ مردم شماری ہے۔ ملک میں گزشتہ 15 سال سے مردم شماری نہیں ہو سکی جب کہ آئین کے مطابق ہر چار سال بعد ملک میں مردم شماری کرانا لازمی ہے تاکہ عام انتخابات کا انعقاد نئی مردم شماری کے مطابق ممکن بنایا جا سکے۔ آخری مرتبہ 1998ء میں میاں محمد نواز شریف کے دور حکومت میں مردم شماری کے ذریعے آبادی کی جانچ کی گئی تھی۔ اس عرصے کے دوران آبادی میں خاطر خواہ اضافہ ہو چکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق آبادی میں سالانہ بنیادوں پر 3.2 فیصد اضافہ ہوا ہے تاہم درست اعدادوشمار مردم شماری کے بعد ہی حاصل ہوں گے۔ 1998ء کے چار سال بعد مردم شماری ہونی چاہیے تھی مگر اس کے بعد آنے والی حکومتوں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی۔
اس لیے 2018ء میں آیندہ انتخابات کا انعقاد آسان بنانے اور نئی حلقہ بندیاں تشکیل دینے کے لیے یہ ناگزیر ہو چکا ہے کہ ملک میں نئی مردم شماری کرائی جائے تاکہ درست اعداد و شمار سامنے آ سکیں۔ لہٰذا الیکشن کمیشن نے ایک خط میں وزیراعظم سے درخواست کی تھی کہ آیندہ سال ملک میں مردم شماری یقینی بنائی جائے۔ وزیراعظم نے الیکشن کمیشن کی سمری منظور کرتے ہوئے معاملہ مشترکہ مفادات کونسل کے آیندہ اجلاس میں پیش کرنے کی ہدایت کر دی ہے تاکہ تمام صوبوں کی منظوری سے یہ عمل جلد پایہ تکمیل تک پہنچ سکے۔ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس جنوری 2014ء کے آغاز میں بلائے جانے کا امکان ہے، جس میں سمری پیش کی جائے گی۔ وزیراعظم کی جانب سے سمری منظور کیے جانے کے بعد اب مشترکہ مفادات کونسل پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جلد از جلد سمری کی منظوری دے تاکہ ملک بھر میں نئی مردم شماری کا عمل جلد از جلد شروع کیا جا سکے۔مئی 2013ء میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل بعض علاقوں میں نئی حلقہ بندیوں کے سلسلے میں کچھ سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کے اعتراضات کے باعث نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا تھا اور یہ معاملہ اس قدر بڑھا کہ عدالت تک جا پہنچا ۔ اب اس تنازعہ کو بروقت حل کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ ملک بھر میں مردم شماری کا عمل جلد از جلد شروع کیا جا سکے۔
الیکشن کمیشن کی منظور شدہ سمری میں بھی کہا گیا ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے آیندہ عام انتخابات سے قبل حلقوں کی حد بندی کے لیے تازہ مردم شماری انتہائی ضروری ہے۔ مردم شماری کا عمل مکمل ہونے کے بعد عام انتخابات کی آمد کا انتظار کیے بغیر نئی حلقہ بندیوں کا مسئلہ بھی فوری طے کر لینا چاہیے کیونکہ نئی حلقہ بندیوں کی تشکیل کے موقع پر بعض جماعتوں کی جانب سے ممکنہ اعتراضات آنے پر معاملہ پیچیدہ اور گمبھیر ہو سکتا ہے لہٰذا ایسی صورت میں جب الیکشن کمیشن کی تمام توجہ عام انتخابات کی تیاریوں پر مرکوز ہوگی نئی حلقہ بندیوں کا ممکنہ تنازعہ اس کے لیے نئے مسائل پیدا کر سکتا ہے' اس لیے بہتر یہی ہے کہ نئی حلقہ بندیوں کی تشکیل کے لیے عام انتخابات کا انتظار نہ کیا جائے اور اسے فوری حل کیا جائے تاکہ عام انتخابات کے انعقاد کے موقع پر الیکشن کمیشن کسی نئے تنازعہ میں نہ الجھے۔ ملک میں 1998ء کے بعد تازہ دم شماری نہ ہونے کے باعث 2008ء اور 2013ء کے عام انتخابات سے قبل صرف ان حلقوں کی دوبارہ حد بندی کی گئی جن کے نئے اضلاع' تحصیل یا تعلقے صوبائی حکومت نے دوبارہ ترتیب دیے تھے۔ ایک اخباری خبر کے مطابق 2010ء میں وزیراعظم کو سمری بھیجی گئی تھی تاکہ 2011ء میں مردم شماری کرائی جا سکے مگر مشترکہ مفادات کونسل کی جانب سے ابھی تک اس سمری کی منظوری نہیں دی گئی۔ اب مشترکہ مفادات کونسل کی جانب سے منظوری ملنے کی صورت میں 2014ء میں مردم شماری کے بعد الیکشن کمیشن کے لیے نہ صرف نئی حلقہ بندیاں کرانے میں آسانی ہو گی بلکہ آیندہ 2018ء میں عام انتخابات کرانے میں بھی آسانی رہے گی۔
ماضی میں وفاق اور صوبوں کے درمیان فنڈز کی تقسیم کا تنازعہ بھی چلتا رہا ہے۔ وفاق اور صوبوں کے درمیان فنڈز کی تقسیم مردم شماری کے اعدادوشمار کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جاتی ہے۔ اس طرح نئی مردم شماری کے اعدادوشمار سامنے آنے کے بعد اقتصادی اعشارئیے تبدیل ہو سکتے ہیں اور فنڈز کی تقسیم بھی اسی کے مطابق کی جائے گی۔ نئی مردم شماری کے اعدادوشمار سے آبادی میں اضافہ کی درست شرح اور اس کی ضروریات کا تعین بھی مناسب انداز میں کیا جا سکے گا۔ سرکاری اداروں میں کرپشن اور رشوت کا چال چلن عام ہونے کے باعث افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد پاکستانی شناختی کارڈز اور پاسپورٹ حاصل کر کے پاکستانی شہریت حاصل کر چکی ہے۔ حکومت کو اس رجحان کی حوصلہ شکنی کے لیے بھی مناسب اقدامات کرنے ہوں گے کیونکہ پاکستان میں آباد غیر ملکی آبادی کا بڑھتا ہوا یہ سیلاب بہت سے مسائل کا باعث بن رہا ہے۔ حکومت افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے لیے جلد از جلد اقدامات کرے۔ پاکستان میں مردم شماری اپنی مقرر کردہ چار سالہ مدت کے عرصہ میں کبھی نہیں ہوئی بلکہ ایک سے دوسری مردم شماری کے دورانیہ میں کئی کئی سال کا غیر ضروری وقفہ آتا رہا۔ اب اگر 2014ء میں مردم شماری ہوتی ہے تو یہ سولہ سال کے بعد ہو گی۔ حکومت اس امر کو یقینی بنائے کہ ہر چار سال بعد مردم شماری کا عمل بلاتاخیر منعقد ہوتا رہے تاکہ ہر پانچ سال بعد ہونے والے عام انتخابات سے قبل حلقہ بندیوں سمیت دیگر مسائل بآسانی حل ہو سکیں۔