ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں تھی
مائیں اپنے زیور ہی بچ کر اپنے بچوں کو تعلیم دلا سکتی ہیں اوراعلیٰ تعلیم تو لگتا ہے کہ بس اب امرا و روسا تک محدود ہے
یہ مدینۃ الحکمت ہے اور ہم عالم حیرت میں ہیں
یہ دو دن میں کیا ماجرا ہو گیا
کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا
جنگل سا جنگل' کراچی سے باہر' شہر سے شہر یار سے دور ایک بڑا ویرانہ جس کی حدیں بلوچستان کی حدودں کو چھوتی نظر آتی ہیں۔ حکیم محمد سعید دہلوی جو کراچی میں برپا دہشت گردی کی قیامت میں شہید ہو کر اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔ اس وقت کتنے تازہ دم تھے اوراو لوالعزم ۔ ان کا ایک خواب تھا کہ پاکستان میں ا یک نیا قریہ آباد کیا جائے ایسا قریہ جو علوم و فنون کی حکمت کا گہوارہ ہو کہ ؎
مری نگاہ نہیں سوئے کوفہ و بغداد
کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد
مگر اس اہل نظر نے اس ویرانے میں کیا دیکھا کہ وہاں ایک تازہ بستی آباد کرنے کا خواب دیکھا' مت پوچھو کہ حکیم صاحب کی دعوت پر جو قافلہ لاہور سے کراچی پہنچا تھا وہ کتنے اوبڑ کھابڑ رستوں پر چل کر یہاں پہنچا۔ کوئی ہموار سڑک تھی ہی نہیں۔ یہاں سے وہاں تک کچا پکا رستہ' بس میں بیٹھ کر دھکے کھاتے یہ لوگ وہاں پہنچے اور حیران ہوئے۔ ساتھ اس کارواں کے ہم بھی تھے۔ اردگرد کچھ تھا ہی نہیں۔ ویرانہ اور پھر ویرانہ' یار حیران کہ اس' صحرائے بے آب و گیاہ میں حکیم صاحب اپنے خواب کا گل و گلزار کیسے کھلائیں گے۔
لیکن عجب ثم العجب اب ہم نے یہاں قدم رکھا ہے تو حیران کہ یا الٰہی وہ ویرانہ کہاں گم ہو گیا۔ یہاں تو سچ مچ ایک تازہ بستی آباد ہو چکی ہے کہ ایک علمی روایت کا گہوارہ بنی ہوئی ہے۔ پرائمری سے لے کر یونیورسٹی تک اور یونیورسٹی سے ہٹ کر تحقیقی اداروں کا مرکز۔ اس پر طبیہ کالج اور میڈیکل کالج مستزاد اور اب یہ طبیہ کالج محض یونانی طب تک محدود نہیں ہے۔ جدید طبی علوم از قسم ایلو پیتھک جو نئی تحقیقات ہوئی ہیں اور جو تجربے ہوئے ہیں وہ بھی یونانی طب میں یہاں اس طرح جڑے ہیں کہ اب یہاں قدیم و جدید نے گھل مل کر کچھ نئی شکل نکالی ہے۔ تعلیم کا اتنا بڑا تجربہ اور اس ملک میں جہاں تعلیم نے فروغ پانے کے نام پر فروغ کم پایا ہے۔ زوال کی صورتیں زیادہ نمایاں ہوئی ہیں۔
یہاں سال کے سال جو تقریب منعقد ہوتی ہے اس برس اس کی صدارت سابق جسٹس محترم حاذق الخیری کر رہے تھے۔ شریک ہم بھی تھے اور حکیم شہید کے اس تجربے پر داد کے ڈونگرے برسا رہے تھے اور کمال ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر تعلیمی تجربہ اس کے نتیجے میں اتنے تعلیمی ادارے اور پھر سونے پر سہاگہ اتنی بڑی لائبریری کہ لاکھوں کتابوں کے ساتھ قدیم مخطوطات کا اتنا بڑا ذخیرہ اور اس سب کے لیے پاکستان کے کسی ادارے کسی صاحب ثروت کا شرمندہ احسان ہونا نہیں پڑا اور نہ سرکاری امداد والا سرخاب کا پر اسے لگا۔ تو کیا حکیم صاحب کے پاس الہ دین کا چراغ تھا کہ اسے گھسا اور دم کے دم میں یہ جادو گھر ظہور میں آ گیا۔ ہمدرد دواخانہ اکیلا چنا کیا بھاڑ کو پھوڑے گا۔ مگر اس چنے نے تو یہ کرامات کر دکھائی۔
ویسے تجارتی پہلو اس دواخانے ہی کی حد تک تھا اور ہے۔ ا گرچہ وہ بھی غریب غربا مریضوں کے معاملے میں آکر اپنے تجارتی طور میں انسانی درد مندی کو شامل کر لیتا ہے۔ اصل میں یونانی طب کی روایات نے ہندوستان میں آ کر جو شکل اختیار کی تھی اور خاص طور پر دلی کی تہذیب میں رچ بس کر تو اس طبی روایت میں تجارتی اور پیشہ ورانہ رنگ آٹے میں نمک کی نسبت سے' غالب رنگ انسانی درد مندی کا اور ہر علم طب سے بڑھ کر سارے اپنے اپنے وقت کے علوم سے ربط و ضبط ۔ سو طبیب خالص طبیب نہیں تھے۔ طبیب سے بڑھ کر حکیم اور مطب محض مریضوں کا مرجع نہیں' بلکہ مجلسی زندگی کا مرکز اور ایک تہذیبی ادارہ۔
پہلا دھچکا اس روایت کو اس وقت لگا جب 1857ء کی قیامت برپا ہوئی۔ اس دھچکے نے تو دلی کی ساری تہذیب ہی کا شیرازہ بکھیر دیا تھا۔ اس قیامت میں کتنا کچھ ضایع ہو گیا یا بکھر گیا۔ مگر پتہ چلا کہ یونانی طب کی روایت تو اس بڑے صدمے کو سہار گئی بلکہ اس کے جواب میں ایک بڑے حکیم کو جنم دیا۔ حکیم اجمل خاں کو اور ان کا طور یہ تھا کہ مطب میں کسی مریض سے فیس نہیں لینی۔ خواہ دلی کا ہو یا دلی کے باہر سے آیا ہو۔ دلی والوں کے ساتھ یہ رعایت کہ صبح کے اوقات میں ان محلوںکا گشت جہاں ان کے مریض سکونت پذیر تھے۔ ان کی مزاج پرسی' نبض شناس' نسخہ میں تنسیخ و ترمیم' فیس یہاں بھی نہیں' یہ روایت اچھی خاصی حد تک عمومی طور پر دلی کے حکمیوں کی بھی روایت تھی اور ہندوستان میں جہاں جہاں تک اس روایت کا اثر و رسوخ تھا۔
47ء میں اس شہر میں پھر ایک قیامت برپا ہو گئی اور اب کے تو پہلے سے بڑھ کر اس شہر کی تہذیبی روایات کا شیرازہ بکھرا۔ لگتا تھا کہ سب کچھ جل کر خاک ہوا۔ کتنی خلقت گھر سے بے گھر ہوئی شہر سے نکل گئی اور پاکستان میں آ کر اس نے پناہ لی۔ اسی ہنگام ایک حکیم زادہ دامن جھاڑ کر اس آفت زدہ شہر سے نکلا اور پاکستان میں آ کر ڈیرا کیا۔ جیب میں پھوٹی کوڑی نہیں مگر آنکھوں میں خواب اور دل و دماغ عزائم کی آماجگاہ ۔ غریبانہ انداز میں ہمدرد دواخانہ کھولا' مطب قائم کیا' دن محنت رات محنت' خالی مطب اور دواخانے کا فروغ مقصود نہیں تھا۔ مقصود جو تھا اس کے بھی حصول کی گنجائش پیدا ہو گئی۔ مدینۃ الحکمت کو دیکھئے کہ اس ایک ذات نے اپنے جوش عمل میں کیا کرامات دکھائی ہے
ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی
اور چنگاری سی چنگاری' ادارہ امیر کبیر۔ ادارہ بنانے والے کا وہی روز اول والا احوال' فرش پر سونا' سادہ غذا' دوپہر کا کھانا غائب' سادہ لباس مگر اس اہتمام کے ساتھ کے اسے سفید براق ہونا چاہیے۔ ایک سفید سوتی اچکن' جاڑے' گرمی' برسات ہر موسم میں وہی زیب تن' رات کو اپنے ہاتھ سے دھویا' صبح کو استری کر لی۔ چوڑی دار سفید پاجامہ' سفید کرتا' سفید اچکن' پیروں میں سفید سلیم شاہی۔ اس لباس میں باہر نکلے تھے لگا کہ ایک شخص نہیں دلی کی تہذیب مجسم ہو کر اپنے درشن دے رہی ہے۔
اس تعلیمی سلسلے کے بارے میں کرید ہوئی کہ فی زمانہ تعلیم تو ہمارے یہاں ذریعۂ تجارت بن چکی ہے۔ اتنی مہنگی ہے کہ مائیں اپنے زیور ہی بچ کر اپنے بچوں کو تعلیم دلا سکتی ہیں۔ اور اعلیٰ تعلیم تو لگتا ہے کہ بس اب امرا و روسا تک محدود ہے۔
ہم نے معلوم کیا تو بتایا گیا کہ بچے شہر سے کم اور آس پاس کے دیہات سے غریب غربا کے بچے زیادہ آتے ہیں۔ تعلیم مفت' ہم نے پوچھا ''پرائمری'' ہائی اسکول سے آگے اعلیٰ تعلیم' اس تک تو یہ بچے کہاں پہنچ پاتے ہوں گے۔ بتایا گیا کہ اس میں ایسے ہونہار بھی نکلتے ہیں جو اعلیٰ تعلیم کا شوق دکھاتے ہیں۔ ان کی ہمت افزائی کی جاتی ہے اور اتنی سہولتیں اور رعایات دی جاتی ہیں کہ وہ اس مرحلہ سے بھی بآسانی گزر جاتے ہیں۔
ہم نے کہا کہ ارے آپ یہ کیا کر رہے ہیں۔ گرد و نواح کو از اول تا آخر تعلیم سے بہرہ ور کر د یں گے۔ وہ کیا کہیں گے جو اپنے علاقوں میں اسکول نہیں کھلنے دیتے اور جب کھل جاتے ہیں تو وہاں بھینسیں بندھی نظر آتی ہیں۔حکیم صاحب جنہوں نے اس مشن کے لیے آپ کو تج دیا تھا جان سے گزر گئے۔ اب ان کی صاحبزادی محترمہ سعدیہ راشد نے کمر ہمت باندھی ہے اور اس کے انتظام کو سنبھال رکھا ہے۔
یہ دو دن میں کیا ماجرا ہو گیا
کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا
جنگل سا جنگل' کراچی سے باہر' شہر سے شہر یار سے دور ایک بڑا ویرانہ جس کی حدیں بلوچستان کی حدودں کو چھوتی نظر آتی ہیں۔ حکیم محمد سعید دہلوی جو کراچی میں برپا دہشت گردی کی قیامت میں شہید ہو کر اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔ اس وقت کتنے تازہ دم تھے اوراو لوالعزم ۔ ان کا ایک خواب تھا کہ پاکستان میں ا یک نیا قریہ آباد کیا جائے ایسا قریہ جو علوم و فنون کی حکمت کا گہوارہ ہو کہ ؎
مری نگاہ نہیں سوئے کوفہ و بغداد
کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد
مگر اس اہل نظر نے اس ویرانے میں کیا دیکھا کہ وہاں ایک تازہ بستی آباد کرنے کا خواب دیکھا' مت پوچھو کہ حکیم صاحب کی دعوت پر جو قافلہ لاہور سے کراچی پہنچا تھا وہ کتنے اوبڑ کھابڑ رستوں پر چل کر یہاں پہنچا۔ کوئی ہموار سڑک تھی ہی نہیں۔ یہاں سے وہاں تک کچا پکا رستہ' بس میں بیٹھ کر دھکے کھاتے یہ لوگ وہاں پہنچے اور حیران ہوئے۔ ساتھ اس کارواں کے ہم بھی تھے۔ اردگرد کچھ تھا ہی نہیں۔ ویرانہ اور پھر ویرانہ' یار حیران کہ اس' صحرائے بے آب و گیاہ میں حکیم صاحب اپنے خواب کا گل و گلزار کیسے کھلائیں گے۔
لیکن عجب ثم العجب اب ہم نے یہاں قدم رکھا ہے تو حیران کہ یا الٰہی وہ ویرانہ کہاں گم ہو گیا۔ یہاں تو سچ مچ ایک تازہ بستی آباد ہو چکی ہے کہ ایک علمی روایت کا گہوارہ بنی ہوئی ہے۔ پرائمری سے لے کر یونیورسٹی تک اور یونیورسٹی سے ہٹ کر تحقیقی اداروں کا مرکز۔ اس پر طبیہ کالج اور میڈیکل کالج مستزاد اور اب یہ طبیہ کالج محض یونانی طب تک محدود نہیں ہے۔ جدید طبی علوم از قسم ایلو پیتھک جو نئی تحقیقات ہوئی ہیں اور جو تجربے ہوئے ہیں وہ بھی یونانی طب میں یہاں اس طرح جڑے ہیں کہ اب یہاں قدیم و جدید نے گھل مل کر کچھ نئی شکل نکالی ہے۔ تعلیم کا اتنا بڑا تجربہ اور اس ملک میں جہاں تعلیم نے فروغ پانے کے نام پر فروغ کم پایا ہے۔ زوال کی صورتیں زیادہ نمایاں ہوئی ہیں۔
یہاں سال کے سال جو تقریب منعقد ہوتی ہے اس برس اس کی صدارت سابق جسٹس محترم حاذق الخیری کر رہے تھے۔ شریک ہم بھی تھے اور حکیم شہید کے اس تجربے پر داد کے ڈونگرے برسا رہے تھے اور کمال ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر تعلیمی تجربہ اس کے نتیجے میں اتنے تعلیمی ادارے اور پھر سونے پر سہاگہ اتنی بڑی لائبریری کہ لاکھوں کتابوں کے ساتھ قدیم مخطوطات کا اتنا بڑا ذخیرہ اور اس سب کے لیے پاکستان کے کسی ادارے کسی صاحب ثروت کا شرمندہ احسان ہونا نہیں پڑا اور نہ سرکاری امداد والا سرخاب کا پر اسے لگا۔ تو کیا حکیم صاحب کے پاس الہ دین کا چراغ تھا کہ اسے گھسا اور دم کے دم میں یہ جادو گھر ظہور میں آ گیا۔ ہمدرد دواخانہ اکیلا چنا کیا بھاڑ کو پھوڑے گا۔ مگر اس چنے نے تو یہ کرامات کر دکھائی۔
ویسے تجارتی پہلو اس دواخانے ہی کی حد تک تھا اور ہے۔ ا گرچہ وہ بھی غریب غربا مریضوں کے معاملے میں آکر اپنے تجارتی طور میں انسانی درد مندی کو شامل کر لیتا ہے۔ اصل میں یونانی طب کی روایات نے ہندوستان میں آ کر جو شکل اختیار کی تھی اور خاص طور پر دلی کی تہذیب میں رچ بس کر تو اس طبی روایت میں تجارتی اور پیشہ ورانہ رنگ آٹے میں نمک کی نسبت سے' غالب رنگ انسانی درد مندی کا اور ہر علم طب سے بڑھ کر سارے اپنے اپنے وقت کے علوم سے ربط و ضبط ۔ سو طبیب خالص طبیب نہیں تھے۔ طبیب سے بڑھ کر حکیم اور مطب محض مریضوں کا مرجع نہیں' بلکہ مجلسی زندگی کا مرکز اور ایک تہذیبی ادارہ۔
پہلا دھچکا اس روایت کو اس وقت لگا جب 1857ء کی قیامت برپا ہوئی۔ اس دھچکے نے تو دلی کی ساری تہذیب ہی کا شیرازہ بکھیر دیا تھا۔ اس قیامت میں کتنا کچھ ضایع ہو گیا یا بکھر گیا۔ مگر پتہ چلا کہ یونانی طب کی روایت تو اس بڑے صدمے کو سہار گئی بلکہ اس کے جواب میں ایک بڑے حکیم کو جنم دیا۔ حکیم اجمل خاں کو اور ان کا طور یہ تھا کہ مطب میں کسی مریض سے فیس نہیں لینی۔ خواہ دلی کا ہو یا دلی کے باہر سے آیا ہو۔ دلی والوں کے ساتھ یہ رعایت کہ صبح کے اوقات میں ان محلوںکا گشت جہاں ان کے مریض سکونت پذیر تھے۔ ان کی مزاج پرسی' نبض شناس' نسخہ میں تنسیخ و ترمیم' فیس یہاں بھی نہیں' یہ روایت اچھی خاصی حد تک عمومی طور پر دلی کے حکمیوں کی بھی روایت تھی اور ہندوستان میں جہاں جہاں تک اس روایت کا اثر و رسوخ تھا۔
47ء میں اس شہر میں پھر ایک قیامت برپا ہو گئی اور اب کے تو پہلے سے بڑھ کر اس شہر کی تہذیبی روایات کا شیرازہ بکھرا۔ لگتا تھا کہ سب کچھ جل کر خاک ہوا۔ کتنی خلقت گھر سے بے گھر ہوئی شہر سے نکل گئی اور پاکستان میں آ کر اس نے پناہ لی۔ اسی ہنگام ایک حکیم زادہ دامن جھاڑ کر اس آفت زدہ شہر سے نکلا اور پاکستان میں آ کر ڈیرا کیا۔ جیب میں پھوٹی کوڑی نہیں مگر آنکھوں میں خواب اور دل و دماغ عزائم کی آماجگاہ ۔ غریبانہ انداز میں ہمدرد دواخانہ کھولا' مطب قائم کیا' دن محنت رات محنت' خالی مطب اور دواخانے کا فروغ مقصود نہیں تھا۔ مقصود جو تھا اس کے بھی حصول کی گنجائش پیدا ہو گئی۔ مدینۃ الحکمت کو دیکھئے کہ اس ایک ذات نے اپنے جوش عمل میں کیا کرامات دکھائی ہے
ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی
اور چنگاری سی چنگاری' ادارہ امیر کبیر۔ ادارہ بنانے والے کا وہی روز اول والا احوال' فرش پر سونا' سادہ غذا' دوپہر کا کھانا غائب' سادہ لباس مگر اس اہتمام کے ساتھ کے اسے سفید براق ہونا چاہیے۔ ایک سفید سوتی اچکن' جاڑے' گرمی' برسات ہر موسم میں وہی زیب تن' رات کو اپنے ہاتھ سے دھویا' صبح کو استری کر لی۔ چوڑی دار سفید پاجامہ' سفید کرتا' سفید اچکن' پیروں میں سفید سلیم شاہی۔ اس لباس میں باہر نکلے تھے لگا کہ ایک شخص نہیں دلی کی تہذیب مجسم ہو کر اپنے درشن دے رہی ہے۔
اس تعلیمی سلسلے کے بارے میں کرید ہوئی کہ فی زمانہ تعلیم تو ہمارے یہاں ذریعۂ تجارت بن چکی ہے۔ اتنی مہنگی ہے کہ مائیں اپنے زیور ہی بچ کر اپنے بچوں کو تعلیم دلا سکتی ہیں۔ اور اعلیٰ تعلیم تو لگتا ہے کہ بس اب امرا و روسا تک محدود ہے۔
ہم نے معلوم کیا تو بتایا گیا کہ بچے شہر سے کم اور آس پاس کے دیہات سے غریب غربا کے بچے زیادہ آتے ہیں۔ تعلیم مفت' ہم نے پوچھا ''پرائمری'' ہائی اسکول سے آگے اعلیٰ تعلیم' اس تک تو یہ بچے کہاں پہنچ پاتے ہوں گے۔ بتایا گیا کہ اس میں ایسے ہونہار بھی نکلتے ہیں جو اعلیٰ تعلیم کا شوق دکھاتے ہیں۔ ان کی ہمت افزائی کی جاتی ہے اور اتنی سہولتیں اور رعایات دی جاتی ہیں کہ وہ اس مرحلہ سے بھی بآسانی گزر جاتے ہیں۔
ہم نے کہا کہ ارے آپ یہ کیا کر رہے ہیں۔ گرد و نواح کو از اول تا آخر تعلیم سے بہرہ ور کر د یں گے۔ وہ کیا کہیں گے جو اپنے علاقوں میں اسکول نہیں کھلنے دیتے اور جب کھل جاتے ہیں تو وہاں بھینسیں بندھی نظر آتی ہیں۔حکیم صاحب جنہوں نے اس مشن کے لیے آپ کو تج دیا تھا جان سے گزر گئے۔ اب ان کی صاحبزادی محترمہ سعدیہ راشد نے کمر ہمت باندھی ہے اور اس کے انتظام کو سنبھال رکھا ہے۔