پولیو کی مہم پر اعلیٰ قیادت کا مظاہرہ
ڈرونزکی بحث نے ایسا غلبہ پا لیا ہے کہ ہرناکامی کی وضاحت کے طورپربے دریغ استعمال کردیا جاتا ہے
احتجاج کا کبھی کبھی فائدہ بھی ہوتا ہے۔ اپنے ساتھیوں کے مسلسل قتل کے بعد خیبرپختونخوا کے پولیو کارکنان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ انھوں نے مزید کام کرنے سے انکار کر دیا۔ اِس انکار نے پرویز خٹک کی حکومت میں بھی تحریک پیدا کر دی جس نے بالآخر نوٹس لیتے ہوئے اس معاملے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کا وعدہ کیا۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر نشانہ بننے کے باوجود پولیو کے کارکنان آواز بلند نہ کرتے تو ہر طرف خاموشی ہی چھائی رہتی۔ دوسری حکومتوں کی طرح خیبرپختونخوا کی حکومت بھی اپنی کمزوریوں کو نہ ماننے اور آنے والے انقلاب کا ڈھنڈورا پیٹنے میں ماہر ہے۔ حال کے اوپر توجہ دلانے کے لیے چیخ و پکار کرنی پڑتی ہے۔ اس تمام معاملے میں سے جو نیا حل نکالا گیا ہے وہ بھی حیرت انگیز طور پر تجرباتی ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پولیو کی مہم خود چلانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ چونکہ ہم سب کو بڑھک بہت پسند ہے لہذا ہر طرف سے خوشی کے شادیانے بجنے کی آواز آنا شروع ہو گئی۔ اور تو اور آصفہ بھٹو کے دل میں بھی تحریک انصاف کی محبت جاگ پڑی۔ اُن سے منسوب کیے ہوئے بیان کے مطابق وہ عمران خان کی اس پولیو مہم میں اپنا بھرپور حصہ ڈالیں گی۔
یاد رہے کہ پچھلی مرتبہ اُن کا بھرپور حصہ اُن جاذب نظر تصاویر تک محدود تھا کہ جس میں محترمہ کو بچوں کو پولیو کے قطرے پلاتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ اور جو اُن کے والد محترم کی شدید خواہش کے نتیجے میں دیوقامت بینرز کی صورت میں پاکستان کے ہر کونے میں ہزاروں کی تعداد میں لگا دی گئی تھیں۔ تصویریں کھنچوانے کے بعد آصفہ بھٹو ہمار ے ملک کی قیادت کے بہترین طور طریقوں کے مطابق آرام سے برطانیہ تشریف لے گئیں جہاں سے انھوں نے یقنیاً پاکستان میں پولیو کے معاملے کو دوری کے باوجود انتہائی قریب سے دیکھا ہو گا۔ ظاہر ہے عمران خان اس قسم کی مدد کے بغیر بھی کام کر سکتے ہیں۔ اُن کے پاس پاکستان کی دوسر ی بڑی سیاسی جماعت کا ڈھانچہ موجود ہے۔ جس کو متحرک کر کے وہ پولیو سے بچائو کی مہم کو مزید تیز کر سکتے ہیں۔ مگر اصل مسئلہ مہم کو تیز یا سست کرنے کا نہیں ہے۔ چیلنج اِن علاقوں میں میں اُن عناصر سے نپٹنے کا ہے جو حکومتی اراکین بشمول پولیس اور رضا کارانہ طور پر کام کرنے والے افراد کو دن دیہاڑ ے گولیوں کا نشانہ بناتے ہیں۔ اور پھر اُن ہی محلوں میں گم ہو جاتے ہیں جہاں پولیو کی ٹیموں کی کاروائیوں کی وجہ سے بڑی تعداد میں بچے اپاہج ہونے سے بچ سکتے ہیں۔
پچھلے چند ماہ میں خیبرپختونخوا میں پولیو ٹیموں پر حملے ایک ریکارڈ ہے۔ پرویز خٹک حکومت کی بے اعتنائی اور اس معاملے سے چشم پوشی اسی ریکارڈ کا حصہ ہے۔ اس معاملے کو یا تو سات پردوں میں چھپایا جاتا رہا اور یا پھر یہ توجیہہ دی جاتی رہی کہ یہ حملے اُس دہشت گردی کا حصہ ہیں جو امریکا کے ڈرونز کی وجہ سے پاکستان میں پھیلی ہوئی ہے۔ عملی طور پر کہا یہ جا رہا ہے کہ شاید پولیو ٹیموں پر حملہ آور عناصر بھی کسی نہ کسی طرح ڈرونز کے خلاف اپنے احتجاج کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ پچھلے ہفتے ایک مباحثے میں مردان سے پاکستان تحریک انصاف کے جواں سال قومی اسمبلی کے ممبر محمد علی بار بار اِن حملوں کو نظریاتی سوچ کا نام دیتے رہے۔ ٹوکنے اور یہ باور کروانے کے باوجود کہ یہ ایک گھناونا جرم ہے نظریہ نہیں وہ ان کارروائیوں کو ''خا ص سوچ'' ہی قرار دیتے رہے۔ بدقسمتی سے حکومت کی ذمے داریاں پوری کرنے کی جستجو اور ڈرونز کی بحث نے ایسا غلبہ پا لیا ہے کہ اُس کو ہر جگہ ہر ناکامی کی وضاحت کے طور پر بے دریغ استعمال کر دیا جاتا ہے۔ اِس کوتاہی کی نشاندہی کرنے والے کو ڈرون کا حمایتی اور امریکا کا حواری قرار دے کر منہ پھیر لیا جاتا ہے ( کیا ہی اچھا ہو کہ کسی روز کوئی تمام جماعتوں کے مرکزی قائدین کی امریکا اور اُس کے اردگرد پھیلے ہوئے اثاثوں کی تفصیل جاری کر دے سب کو معلوم ہو جائے گا کہ مغرب زدہ کون ہے۔ تحریک انصاف کی طرف سے محترم اعظم سواتی، جو آج کل صوبے میں جماعت کی قیادت سنبھالے ہوئے ہیں، اگر اس نیک کام میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیں تو حقائق کی مزید واضح انداز سے سمجھ آ جائے گی)۔
جب تک یہ سوچ برقرار رہے گی اور اِن عناصر کو عام مجرموں کی طرح پکڑ کر قرار واقعی سزا نہیں دی جائے گی جو اِن حملوں کو منظم انداز سے جاری رکھے ہوئے ہیں تب تک اس مہم کو کامیاب کروانا ممکن نہیں ہو گا۔ عمران خان کے میدان میں اُترنے سے فرق یہ پڑے گا کہ پولیس مزید چست ہو جائے گی اور پولیو کارکنان کا تحفظ صوبے کی حکومت کے لیے ترجیحات میں اُوپر آ جائے گا۔ مگر عمران خان سے ایک سوال ہے اور صوبہ بہت بڑا ہے۔ کہاں کہاں جائیں گے کتنے قطرے پلائیں گے۔ اور اگر یہی کرتے رہے تو دھرنا کون دے گا۔ پارٹی کے دوسرے معاملات کون دیکھے گا۔ بلدیاتی انتخابات کی تیاری کون کرے گا۔ ویسے بھی یہ قطرے ایک بار نہیں بار بار پلوانے ہوتے ہیں۔ اور پاکستان جیسے ملک میں جہاں خوراک کی کمی کے شکار بچوں کی قوت مدافعت انتہائی کمزور ہے وہاں پر اس ویکسین کو موثر کرنے کے لیے اوسط سے زیادہ استعمال کرنا ہوتا ہے۔ اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ عمران خان کی طرف سے پولیو کمپین چلانے کی خبر کو پڑھ کے صوبے کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے اسلحہ بردار نشانہ باز اپنا ہاتھ روک لیں گے تو یہ امن عارضی ہو گا۔ خیبر پختونخوا کے ایک پولیس افسر نے مجھے پولیو ٹیموں پر حملے کے اصل محرکات سے متعلق بتایا کہ دراصل صوابی، مردان، چارسدہ، پشاور، نوشہرہ اور ان سے جڑے ہوئے دوسرے اضلاع میں پولیو ٹیمیں اس وجہ سے خطرہ سمجھی جاتی ہیں وہ ہر گھر تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہیں۔ مگر ہر گھر کے دروازے کے پیچھے بچوں والے خاندان نہیں بستے۔
دہشت گردوں نے محلے اپنے قبضے میں کیے ہوئے ہیں۔ وہ ان محلوں سے پولیس کو ہر صورت دور رکھنا چاہتے ہیں۔ لہذا جب بھی کوئی ٹیم اِن علاقوں کا رخ کرتی ہے اُس کو مار دیا جاتا ہے۔ اس جرم کا تعلق نہ کسی نظریہ سے ہے اور نہ ذاتی دشمنی سے۔ معاملہ دہشت گردی کے اڈوں کو محفوظ رکھنے کا ہے۔ میں نے اس پولیس افسر کو مشورہ دیا کہ یہ بات اپنے اعلی افسران اور سیاسی مشران تک پہنچائے میں تو محض لکھنے والا ہوں جس کو پڑھنے والے طرح طرح کی عینکیں لگائے بیٹھے ہیں۔ لکھتا کیا ہوں پڑھا کیا جاتاہے۔ کہتا کیا ہوں سنا کیا جاتا ہے۔ لہذا بہتر ہو گا کہ یہ معلومات اُن حکام تک پہنچائیں جو پشاور زیریں اور بنی گالہ بالا میں بستے ہیں۔ اُنہوں نے مسکراتے ہوئے کہا سب کو سب کچھ معلوم ہے مگر فی الحال کام پولیو مہم کو تیز کرنے کا ہے۔ ہمار ے صوبے میں سرکاری اطلاعات کے مطابق کوئی دہشت گرد نہیں ہے۔ چند ایک ناراض بھائی اور بہنیں ہیں جو بات چیت کے بعد غصہ تھوک دیں گے۔ اور ایک دن عمران خان کے ساتھ مل کر خیبرپختونخوا کے بچوں کو پولیو کے قطرے پلا رہے ہونگے۔ میں یہ سن کر خاموش ہو گیا۔ دل میں اُمید کی شمع روشن ہو گئی ہے۔ اب اُس دن کا انتظار ہے جب یہ کر شمہ سامنے آئے گا اور ہم قیادت کے اِس کمال پر مل کر خوشیاں منائیں گے۔ اور ہاں ان خوشیوں میں آصفہ بھٹو کی طرف سے ڈالا ہوا حصہ بھی یاد رکھیئے گا۔
یاد رہے کہ پچھلی مرتبہ اُن کا بھرپور حصہ اُن جاذب نظر تصاویر تک محدود تھا کہ جس میں محترمہ کو بچوں کو پولیو کے قطرے پلاتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ اور جو اُن کے والد محترم کی شدید خواہش کے نتیجے میں دیوقامت بینرز کی صورت میں پاکستان کے ہر کونے میں ہزاروں کی تعداد میں لگا دی گئی تھیں۔ تصویریں کھنچوانے کے بعد آصفہ بھٹو ہمار ے ملک کی قیادت کے بہترین طور طریقوں کے مطابق آرام سے برطانیہ تشریف لے گئیں جہاں سے انھوں نے یقنیاً پاکستان میں پولیو کے معاملے کو دوری کے باوجود انتہائی قریب سے دیکھا ہو گا۔ ظاہر ہے عمران خان اس قسم کی مدد کے بغیر بھی کام کر سکتے ہیں۔ اُن کے پاس پاکستان کی دوسر ی بڑی سیاسی جماعت کا ڈھانچہ موجود ہے۔ جس کو متحرک کر کے وہ پولیو سے بچائو کی مہم کو مزید تیز کر سکتے ہیں۔ مگر اصل مسئلہ مہم کو تیز یا سست کرنے کا نہیں ہے۔ چیلنج اِن علاقوں میں میں اُن عناصر سے نپٹنے کا ہے جو حکومتی اراکین بشمول پولیس اور رضا کارانہ طور پر کام کرنے والے افراد کو دن دیہاڑ ے گولیوں کا نشانہ بناتے ہیں۔ اور پھر اُن ہی محلوں میں گم ہو جاتے ہیں جہاں پولیو کی ٹیموں کی کاروائیوں کی وجہ سے بڑی تعداد میں بچے اپاہج ہونے سے بچ سکتے ہیں۔
پچھلے چند ماہ میں خیبرپختونخوا میں پولیو ٹیموں پر حملے ایک ریکارڈ ہے۔ پرویز خٹک حکومت کی بے اعتنائی اور اس معاملے سے چشم پوشی اسی ریکارڈ کا حصہ ہے۔ اس معاملے کو یا تو سات پردوں میں چھپایا جاتا رہا اور یا پھر یہ توجیہہ دی جاتی رہی کہ یہ حملے اُس دہشت گردی کا حصہ ہیں جو امریکا کے ڈرونز کی وجہ سے پاکستان میں پھیلی ہوئی ہے۔ عملی طور پر کہا یہ جا رہا ہے کہ شاید پولیو ٹیموں پر حملہ آور عناصر بھی کسی نہ کسی طرح ڈرونز کے خلاف اپنے احتجاج کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ پچھلے ہفتے ایک مباحثے میں مردان سے پاکستان تحریک انصاف کے جواں سال قومی اسمبلی کے ممبر محمد علی بار بار اِن حملوں کو نظریاتی سوچ کا نام دیتے رہے۔ ٹوکنے اور یہ باور کروانے کے باوجود کہ یہ ایک گھناونا جرم ہے نظریہ نہیں وہ ان کارروائیوں کو ''خا ص سوچ'' ہی قرار دیتے رہے۔ بدقسمتی سے حکومت کی ذمے داریاں پوری کرنے کی جستجو اور ڈرونز کی بحث نے ایسا غلبہ پا لیا ہے کہ اُس کو ہر جگہ ہر ناکامی کی وضاحت کے طور پر بے دریغ استعمال کر دیا جاتا ہے۔ اِس کوتاہی کی نشاندہی کرنے والے کو ڈرون کا حمایتی اور امریکا کا حواری قرار دے کر منہ پھیر لیا جاتا ہے ( کیا ہی اچھا ہو کہ کسی روز کوئی تمام جماعتوں کے مرکزی قائدین کی امریکا اور اُس کے اردگرد پھیلے ہوئے اثاثوں کی تفصیل جاری کر دے سب کو معلوم ہو جائے گا کہ مغرب زدہ کون ہے۔ تحریک انصاف کی طرف سے محترم اعظم سواتی، جو آج کل صوبے میں جماعت کی قیادت سنبھالے ہوئے ہیں، اگر اس نیک کام میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیں تو حقائق کی مزید واضح انداز سے سمجھ آ جائے گی)۔
جب تک یہ سوچ برقرار رہے گی اور اِن عناصر کو عام مجرموں کی طرح پکڑ کر قرار واقعی سزا نہیں دی جائے گی جو اِن حملوں کو منظم انداز سے جاری رکھے ہوئے ہیں تب تک اس مہم کو کامیاب کروانا ممکن نہیں ہو گا۔ عمران خان کے میدان میں اُترنے سے فرق یہ پڑے گا کہ پولیس مزید چست ہو جائے گی اور پولیو کارکنان کا تحفظ صوبے کی حکومت کے لیے ترجیحات میں اُوپر آ جائے گا۔ مگر عمران خان سے ایک سوال ہے اور صوبہ بہت بڑا ہے۔ کہاں کہاں جائیں گے کتنے قطرے پلائیں گے۔ اور اگر یہی کرتے رہے تو دھرنا کون دے گا۔ پارٹی کے دوسرے معاملات کون دیکھے گا۔ بلدیاتی انتخابات کی تیاری کون کرے گا۔ ویسے بھی یہ قطرے ایک بار نہیں بار بار پلوانے ہوتے ہیں۔ اور پاکستان جیسے ملک میں جہاں خوراک کی کمی کے شکار بچوں کی قوت مدافعت انتہائی کمزور ہے وہاں پر اس ویکسین کو موثر کرنے کے لیے اوسط سے زیادہ استعمال کرنا ہوتا ہے۔ اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ عمران خان کی طرف سے پولیو کمپین چلانے کی خبر کو پڑھ کے صوبے کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے اسلحہ بردار نشانہ باز اپنا ہاتھ روک لیں گے تو یہ امن عارضی ہو گا۔ خیبر پختونخوا کے ایک پولیس افسر نے مجھے پولیو ٹیموں پر حملے کے اصل محرکات سے متعلق بتایا کہ دراصل صوابی، مردان، چارسدہ، پشاور، نوشہرہ اور ان سے جڑے ہوئے دوسرے اضلاع میں پولیو ٹیمیں اس وجہ سے خطرہ سمجھی جاتی ہیں وہ ہر گھر تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہیں۔ مگر ہر گھر کے دروازے کے پیچھے بچوں والے خاندان نہیں بستے۔
دہشت گردوں نے محلے اپنے قبضے میں کیے ہوئے ہیں۔ وہ ان محلوں سے پولیس کو ہر صورت دور رکھنا چاہتے ہیں۔ لہذا جب بھی کوئی ٹیم اِن علاقوں کا رخ کرتی ہے اُس کو مار دیا جاتا ہے۔ اس جرم کا تعلق نہ کسی نظریہ سے ہے اور نہ ذاتی دشمنی سے۔ معاملہ دہشت گردی کے اڈوں کو محفوظ رکھنے کا ہے۔ میں نے اس پولیس افسر کو مشورہ دیا کہ یہ بات اپنے اعلی افسران اور سیاسی مشران تک پہنچائے میں تو محض لکھنے والا ہوں جس کو پڑھنے والے طرح طرح کی عینکیں لگائے بیٹھے ہیں۔ لکھتا کیا ہوں پڑھا کیا جاتاہے۔ کہتا کیا ہوں سنا کیا جاتا ہے۔ لہذا بہتر ہو گا کہ یہ معلومات اُن حکام تک پہنچائیں جو پشاور زیریں اور بنی گالہ بالا میں بستے ہیں۔ اُنہوں نے مسکراتے ہوئے کہا سب کو سب کچھ معلوم ہے مگر فی الحال کام پولیو مہم کو تیز کرنے کا ہے۔ ہمار ے صوبے میں سرکاری اطلاعات کے مطابق کوئی دہشت گرد نہیں ہے۔ چند ایک ناراض بھائی اور بہنیں ہیں جو بات چیت کے بعد غصہ تھوک دیں گے۔ اور ایک دن عمران خان کے ساتھ مل کر خیبرپختونخوا کے بچوں کو پولیو کے قطرے پلا رہے ہونگے۔ میں یہ سن کر خاموش ہو گیا۔ دل میں اُمید کی شمع روشن ہو گئی ہے۔ اب اُس دن کا انتظار ہے جب یہ کر شمہ سامنے آئے گا اور ہم قیادت کے اِس کمال پر مل کر خوشیاں منائیں گے۔ اور ہاں ان خوشیوں میں آصفہ بھٹو کی طرف سے ڈالا ہوا حصہ بھی یاد رکھیئے گا۔