’’یاجوج ماجوج‘‘
فتنہ، فساد اور قتل و غارت گری کی دلدادہ قوم
قرآن حکیم میں یاجوج ماجوج قوم کا ذکر دو مقامات پر آیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے ترجمہ ''پھر اس نے (ایک مہم کا ) سامان کیا یہاں تک کہ جب دو پہاڑوں کے درمیان پہنچا تو اسے ان کے پاس ایک قوم ملی جو مشکل ہی سے کوئی بات سمجھتی تھی۔
ان لوگوں نے کہا کہ اے ذوالقرنین! یاجوج اور ماجوج اس سرزمین میں فساد پھیلاتے ہیں تو کیا ہم تجھے کوئی خرچ کا انتظام اس کام کے لیے کردیں، تو ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار تعمیر کردے۔ اس نے کہا جو کچھ میرے رب نے مجھے دے رکھا ہے وہ بہت ہے تم بس محنت سے میری مدد کرو میں تمہارے اور ان کے درمیان دیوار بنائے دیتا ہوں مجھے لوہے کی چادریں لاکر دو۔ آخر جب دونوں پہاڑی خلا کو اس نے پاٹ دیا تو لوگوں سے کہا کہ اب آگ دہکاؤ، حتیٰ کہ جب آہنی دیوار بالکل سرخ ہوگئی تو اُس نے کہا لاؤ اب میں اس پر پگھلا ہوا تانبہ انڈیلوں گا یاجوج ماجوج اس پر چڑھ کر بھی نہیں آسکتے تھے اور نہ یہ طاقت رہی کہ اس میں وہ نقب لگاسکیں۔
ان کے لیے اور بھی مشکل تھا۔ ذوالقرنین نے کہا یہ میرے رب کی رحمت ہے مگر جب میرے رب کے وعدے کا وقت آئے گا تو وہ اس کو پیوند خاک کردے گا اور میرے رب کا وعدہ برحق ہے۔ (سورۂ کہف آیات 94تا98) مفسرین کرام ان آیات کی تفسیر لکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ بات تاریخی اور مذہبی اعتبار سے متفقہ طور پر تسلیم شدہ ہے کہ اس قوم کی تاریخ نہایت قدیم ہے۔ تاریخ داں لکھتے ہیں کہ یاجوج اور ماجوج سے مراد روس اور شمالی چین کے وہ قبائل ہیں جو تاتاری، منگول، ہُن اور سیتھین وغیرہ کے ناموں سے مشہور ہیں اور زمانہ قدیم ہی سے متمدن ممالک پر حملے کرتے چلے آرہے ہیں۔ ان کے حملوں سے بچنے کے لیے قفقاز کے جنوبی علاقے میں دربنداور داریال کے استحکامات تعمیر کیے گئے تھے۔
ایک حدیث کے مطابق حضرت نوحؑ کے تین بیٹے تھے سام، حام، یافث سام کی نسل سے تمام عرب ہیں جب کہ حام کی نسل سے کُل حبشی ہیں اور یافث کی نسل سے ترک قوم ہے (مسند احمد) بعض علماء کا قول ہے کہ یاجوج ماجوج ترکوں کے اس جداعلیٰ یافث ہی کی اولاد ہیں اور ترکوں کو ترک اس لیے کہا جاتا ہے کہ انہیں بوجہ ان کے فساد اور شرارت کے انسانوں کی اور آبادی کے پس پشت پہاڑوں کی آڑ میں چھوڑ دیا گیا۔ امام ابن جریر نے ذوالقرنین کے سفر سے متعلق اور اس دیوار کے بنانے اور اس قوم کے اجسام اور اشکال کے بارے میں نہایت حیرت انگیز باتیں لکھی ہیں جن کی صحت ہنوز تحقیق طلب ہیں۔
بائبل کی کتاب پیدائش میں اس قوم کے بارے میں یہ لکھا ہے نوح کے بیٹوں سم (سام) حام اور یافث کی اولاد یہ ہیں۔ یہ بیٹے طوفان نوح کے بعد پیدا ہوئے بنویافث یہ ہیں جمر ماجوج اور ماوی اور یاوان اور توبل اور مسک اور تیراس (پیدائش باب10 آیات2۔1) مسلمان موُرخ بھی اس قوم کا یہی شجرہ بتاتے ہیں۔
اسی کتاب میں حزقی ایل کا ایک صحیفہ ہے جس میں لکھا ہے کہ ''اور خداوند کا کلام مجھ پر نازل ہوا کہ اے آدم زاد جوج کی طرف جو ماجوج کی سرزمین کا ہے اور روشن اور مسک اور توبل کا فرماں روا ہے متوجہ ہو اور اس کے خلاف نبوت کر۔'' (حزقی ایل باب 38 آیات 3۔1) بائیبل کی تحریر کے مطابق ان کی سکونت کا علاقہ موجودہ جغرافیائی تقسیم کے اعتبار سے روس اور توبل حالیہ تو بالسک اور مسک حالیہ ماسکو بتایا گیا ہے۔ ایک اسرائیلی مؤرخ یو سیفورس ان سے مراد سیتھٔین قوم لیتا ہے جس کا علاقہ بحراسود کے شمال اور مشرق میں واقع تھا جیروم کے مطابق ماجوج کاکیشیا شمال میں بحر خزر کے قریب آباد تھے۔
تفہیم القرآن کے مفسر مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی رقم طراز ہیں کہ ذوالقرنین کی تعمیر کردہ دیوار کے متعلق بعض لوگوں میں یہ غلط خیال پایا جاتا ہے کہ اس سے مراد مشہود دیوارچین ہے جب کہ یہ دیوار قفقاز کے علاقے داغستان میں دربند اور داریال کے درمیان بنائی گئی تھی۔ قفقاز اس ملک کو کہتے ہیں جو بحیرۂ اسود سے اور بحیرۂ خزر کے درمیان واقع ہے اس ملک میں بحیرۂ اسود سے داریال تک تو نہایت بلند پہاڑ ہیں اور ان کے درمیان اتنے تنگ درے ہیں کہ ان سے کوئی بڑی فوج حملہ اور نہیں ہو سکتی اور نہ ہی تنگی کے باعث وہ اس مقام سے گزر سکتی ہے۔
البتہ دربند اور داریال کے درمیان جو علاقہ ہے اس میں پہاڑ بھی زیادہ بلند نہیں ہیں اور ان میں کو ہستانی راستے بھی خاصے وسیع ہیں۔ قدیم زمانے میںشمال کی وحشی قومیں اسی طرف سے جنوب کی جانب غارت گرانہ حملے کیا کرتی تھیں اور ر ایرانی فرماںرواؤں کو اسی طرف سے اپنی مملکت پر شمالی حملوں کا خطرہ لاحق رہتا تھا۔ چناںچہ انہی حملوں کو روکنے کے لیے ایک نہایت مضبوط دیوار تعمیر کی گئی جو پچاس گز لمبی انتیس فٹ بلند اور دس فٹ چوڑی تھی مسلمان مؤرخین اور جغرافیہ داں اسی کو سد ذوالقرنین قرار دیتے ہیں اور اس کی تعمیر کی جو کیفیت قرآن حکیم میں بیان کی گئی ہے اس کے آثار آج بھی اس علاقے میں پائے جاتے ہیں جو قرآن حکیم کی صداقت کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔
ابن جریر اور ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں اس واقعے کا ذکر کیا ہے اور یا قوت نے بھی معجم البلدان میں اس کا حوالہ دیا ہے کہ ''حضرت عمرؓ نے آزربائجان کی فتح کے بعد 22ھ میں سراقہ بن عمرو کو باب ابواب دربند کی مہم پر روانہ کیا اور سراقہ نے عبدالرحمٰن بن ربیعہ کو اپنے مقدمتہ الجیش کا افسر بناکر آگے بھیجا عبدالرحمٰن جب آرمینیا کے علاقے میں داخل ہوئے تو وہاں کے فرماں روا شہر براز نے جنگ کے بغیر اطاعت قبول کرلی۔
اس کے بعد انہوں نے باب الابواب کی جانب پیش قدمی کا ارادہ کیا۔ اس موقع پر شہر براز نے ان سے کہا کہ میں نے اپنے ایک آدمی کو سد ذوالقرنین کا مشاہدہ کرنے کے لیے اور وہاں کے حالات معلوم کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ وہ آپ کو تفصیلات سے آگاہ کر سکتا ہے۔ چناںچہ اس نے عبدالرحمٰن کے سامنے اس شخص کو پیش کردیا۔'' تفصیل کے لیے دیکھیے طبرانی جلد 3 صفحات 235 تا 239 اور البدایہ والنہایہ جلد 7صفحات 122تا 125معجم البدان ذکرباب الابواب۔
اس واقعے کے دو سو برس بعد عباسی خلیفہ واثق 227ھ تا232ھ نے اس دیوار کا مشاہدہ کرنے کے لیے پچاس افراد کی ایک جمعیت اسلام الترجمان کی قیادت میں روانہ کی۔ محولہ بالا روایات سے اس بات کی تصدیق ہورہی ہے کہ تیسری صدی ہجری میں بھی مسلمان قفقاز کی اس دیوار کو ہی سد ذوالقرنین سمجھتے تھے۔ اس دیوار کے سلسلے میں دو اور تاریخی حوالوں کا ذکر برمحل معلوم ہوتا ہے۔ ایک مقام پر لکھا ہے کہ یہ ترکوں کا علاقہ ہے جو سدذوالقرنین کے قریب باب الابواب کے پیچھے واقع ہے جسے در بند بھی کہتے ہیں۔
خلیفہ المقتدر بااللہ کے سفیر احمد بن فضلان نے بھی اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ خزر ایک مملکت کا نام ہے جس کا صدر مقام اِتل ہے۔ دریائے اِتل اس شہر کے درمیان سے گزرتا ہے اور یہ دریا روس اور بلغار سے آکر بحرخزر یعنی بحر کیسپین میں گرتا ہے۔ بلادکفر سے بلادمسلمین کی طرف آنے والوں کے لیے یہ راستہ انتہائی دشوار گزار ہے۔ ایک زمانے میں یہ نوشیرواں کی مملکت میں شامل تھا اور شاہان ایران اس سرحد کی حفاظت کو غایت درجہ اہمیت دیتے تھے۔
قرآن حکیم میں دوسرے مقام پر یاجوج و ماجوج کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا ترجمہ ''اور ممکن نہیں ہے کہ جس بستی کو ہم نے ہلاک کردیا ہو وہ پھر پلٹ سکے یہاں تک کہ جب یاجوج ماجوج کھول دیے جائیں گے اور ہر بلندی سے وہ نکل پڑیں گے اور وعدۂ برحق کے پورا ہونے کا وقت قریب آنے لگے گا تو ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی، جنہوں نے کفر کیا تھا کہیں گے ہائے ہماری کم بختی ہم اس چیز کی طرف سے غفلت میں پڑے ہوئے تھے بلکہ ہم خطاکار تھے۔'' (سورہ الانبیاء آیات95تا97) یاجوج ماجوج کب کھولے جائیں گے۔
اس بارے میں علماء کرام کی متفقہ رائے یہ ہے کہ وہ قرب قیامت کا وقت ہوگا تو وہ اسے یعنی دیوار کو ریزہ ریزہ کرکے زمین کے برابر کردے گا۔ ایک حدیث مبارکہ میں آیا ہے کہ وہ ''ہر روز اس دیوار کو کھودتے ہیں اور پھر کل کے لیے چھوڑ دیتے ہیں لیکن جب اللہ کی مشیت ان کے خروج کی ہوگی تو پھر وہ کہیں گے کل ان شاء اللہ اس کو کھودیں گے اور پھر دوسرے دن وہ اس سے نکلنے میں کام یاب ہوجائیں گے۔ یہ آسمانوں کی جانب تیر پھینکیں گے جو خون آلود پلٹیں گے۔ بالآخراللہ تعالیٰ ان کی گُدیوں پر ایسا کیڑا پیدا فرمادیں گے جس سے ان کی ہلاکت واقع ہوجائے گی۔'' (مسند احمد، جامع ترمذی)
نواس بن سمعانؓ کی روایت میں یہ صراحت موجود ہے کہ ''یاجوج ماجوج کا ظہور حضرت عیسٰی ؑ کے نزول کے بعد ان کی موجودگی میں ہوگا۔'' (صحیح مسلم باب الفتن ذکر دجال)
یہ قوم حضرت ابراہیم ؑسے قبل اور طوفان نوح کے بعد کی ہے جو ابتدا ہی سے خالق کائنات کی باغی اور سرکش ہے، فتنہ و فساد سے اسے ازحددل چسپی اور قتل و غارت گری کی یہ دل دادہ بھی ان کے انہی جرائم کی بنا پر اغلب گمان یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کے ذریعے انہیں پہاڑوں کے پیچھے دھکیلا جہاں یہ محبوس ہوکر رہ گئے۔ یہاں اس مقام پر ان کی زبان تک کوئی سمجھنے والا تھا اور نہ ہی یہ کسی اور کی زبان بول سکتے تھے اور نہ سمجھ سکتے تھے لہٰذا اقوام دیگر کی تہذیب و معاشرت اپنانے میں یہ قطعی طور پر معذور رہے۔
ان لوگوں نے کہا کہ اے ذوالقرنین! یاجوج اور ماجوج اس سرزمین میں فساد پھیلاتے ہیں تو کیا ہم تجھے کوئی خرچ کا انتظام اس کام کے لیے کردیں، تو ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار تعمیر کردے۔ اس نے کہا جو کچھ میرے رب نے مجھے دے رکھا ہے وہ بہت ہے تم بس محنت سے میری مدد کرو میں تمہارے اور ان کے درمیان دیوار بنائے دیتا ہوں مجھے لوہے کی چادریں لاکر دو۔ آخر جب دونوں پہاڑی خلا کو اس نے پاٹ دیا تو لوگوں سے کہا کہ اب آگ دہکاؤ، حتیٰ کہ جب آہنی دیوار بالکل سرخ ہوگئی تو اُس نے کہا لاؤ اب میں اس پر پگھلا ہوا تانبہ انڈیلوں گا یاجوج ماجوج اس پر چڑھ کر بھی نہیں آسکتے تھے اور نہ یہ طاقت رہی کہ اس میں وہ نقب لگاسکیں۔
ان کے لیے اور بھی مشکل تھا۔ ذوالقرنین نے کہا یہ میرے رب کی رحمت ہے مگر جب میرے رب کے وعدے کا وقت آئے گا تو وہ اس کو پیوند خاک کردے گا اور میرے رب کا وعدہ برحق ہے۔ (سورۂ کہف آیات 94تا98) مفسرین کرام ان آیات کی تفسیر لکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ بات تاریخی اور مذہبی اعتبار سے متفقہ طور پر تسلیم شدہ ہے کہ اس قوم کی تاریخ نہایت قدیم ہے۔ تاریخ داں لکھتے ہیں کہ یاجوج اور ماجوج سے مراد روس اور شمالی چین کے وہ قبائل ہیں جو تاتاری، منگول، ہُن اور سیتھین وغیرہ کے ناموں سے مشہور ہیں اور زمانہ قدیم ہی سے متمدن ممالک پر حملے کرتے چلے آرہے ہیں۔ ان کے حملوں سے بچنے کے لیے قفقاز کے جنوبی علاقے میں دربنداور داریال کے استحکامات تعمیر کیے گئے تھے۔
ایک حدیث کے مطابق حضرت نوحؑ کے تین بیٹے تھے سام، حام، یافث سام کی نسل سے تمام عرب ہیں جب کہ حام کی نسل سے کُل حبشی ہیں اور یافث کی نسل سے ترک قوم ہے (مسند احمد) بعض علماء کا قول ہے کہ یاجوج ماجوج ترکوں کے اس جداعلیٰ یافث ہی کی اولاد ہیں اور ترکوں کو ترک اس لیے کہا جاتا ہے کہ انہیں بوجہ ان کے فساد اور شرارت کے انسانوں کی اور آبادی کے پس پشت پہاڑوں کی آڑ میں چھوڑ دیا گیا۔ امام ابن جریر نے ذوالقرنین کے سفر سے متعلق اور اس دیوار کے بنانے اور اس قوم کے اجسام اور اشکال کے بارے میں نہایت حیرت انگیز باتیں لکھی ہیں جن کی صحت ہنوز تحقیق طلب ہیں۔
بائبل کی کتاب پیدائش میں اس قوم کے بارے میں یہ لکھا ہے نوح کے بیٹوں سم (سام) حام اور یافث کی اولاد یہ ہیں۔ یہ بیٹے طوفان نوح کے بعد پیدا ہوئے بنویافث یہ ہیں جمر ماجوج اور ماوی اور یاوان اور توبل اور مسک اور تیراس (پیدائش باب10 آیات2۔1) مسلمان موُرخ بھی اس قوم کا یہی شجرہ بتاتے ہیں۔
اسی کتاب میں حزقی ایل کا ایک صحیفہ ہے جس میں لکھا ہے کہ ''اور خداوند کا کلام مجھ پر نازل ہوا کہ اے آدم زاد جوج کی طرف جو ماجوج کی سرزمین کا ہے اور روشن اور مسک اور توبل کا فرماں روا ہے متوجہ ہو اور اس کے خلاف نبوت کر۔'' (حزقی ایل باب 38 آیات 3۔1) بائیبل کی تحریر کے مطابق ان کی سکونت کا علاقہ موجودہ جغرافیائی تقسیم کے اعتبار سے روس اور توبل حالیہ تو بالسک اور مسک حالیہ ماسکو بتایا گیا ہے۔ ایک اسرائیلی مؤرخ یو سیفورس ان سے مراد سیتھٔین قوم لیتا ہے جس کا علاقہ بحراسود کے شمال اور مشرق میں واقع تھا جیروم کے مطابق ماجوج کاکیشیا شمال میں بحر خزر کے قریب آباد تھے۔
تفہیم القرآن کے مفسر مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی رقم طراز ہیں کہ ذوالقرنین کی تعمیر کردہ دیوار کے متعلق بعض لوگوں میں یہ غلط خیال پایا جاتا ہے کہ اس سے مراد مشہود دیوارچین ہے جب کہ یہ دیوار قفقاز کے علاقے داغستان میں دربند اور داریال کے درمیان بنائی گئی تھی۔ قفقاز اس ملک کو کہتے ہیں جو بحیرۂ اسود سے اور بحیرۂ خزر کے درمیان واقع ہے اس ملک میں بحیرۂ اسود سے داریال تک تو نہایت بلند پہاڑ ہیں اور ان کے درمیان اتنے تنگ درے ہیں کہ ان سے کوئی بڑی فوج حملہ اور نہیں ہو سکتی اور نہ ہی تنگی کے باعث وہ اس مقام سے گزر سکتی ہے۔
البتہ دربند اور داریال کے درمیان جو علاقہ ہے اس میں پہاڑ بھی زیادہ بلند نہیں ہیں اور ان میں کو ہستانی راستے بھی خاصے وسیع ہیں۔ قدیم زمانے میںشمال کی وحشی قومیں اسی طرف سے جنوب کی جانب غارت گرانہ حملے کیا کرتی تھیں اور ر ایرانی فرماںرواؤں کو اسی طرف سے اپنی مملکت پر شمالی حملوں کا خطرہ لاحق رہتا تھا۔ چناںچہ انہی حملوں کو روکنے کے لیے ایک نہایت مضبوط دیوار تعمیر کی گئی جو پچاس گز لمبی انتیس فٹ بلند اور دس فٹ چوڑی تھی مسلمان مؤرخین اور جغرافیہ داں اسی کو سد ذوالقرنین قرار دیتے ہیں اور اس کی تعمیر کی جو کیفیت قرآن حکیم میں بیان کی گئی ہے اس کے آثار آج بھی اس علاقے میں پائے جاتے ہیں جو قرآن حکیم کی صداقت کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔
ابن جریر اور ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں اس واقعے کا ذکر کیا ہے اور یا قوت نے بھی معجم البلدان میں اس کا حوالہ دیا ہے کہ ''حضرت عمرؓ نے آزربائجان کی فتح کے بعد 22ھ میں سراقہ بن عمرو کو باب ابواب دربند کی مہم پر روانہ کیا اور سراقہ نے عبدالرحمٰن بن ربیعہ کو اپنے مقدمتہ الجیش کا افسر بناکر آگے بھیجا عبدالرحمٰن جب آرمینیا کے علاقے میں داخل ہوئے تو وہاں کے فرماں روا شہر براز نے جنگ کے بغیر اطاعت قبول کرلی۔
اس کے بعد انہوں نے باب الابواب کی جانب پیش قدمی کا ارادہ کیا۔ اس موقع پر شہر براز نے ان سے کہا کہ میں نے اپنے ایک آدمی کو سد ذوالقرنین کا مشاہدہ کرنے کے لیے اور وہاں کے حالات معلوم کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ وہ آپ کو تفصیلات سے آگاہ کر سکتا ہے۔ چناںچہ اس نے عبدالرحمٰن کے سامنے اس شخص کو پیش کردیا۔'' تفصیل کے لیے دیکھیے طبرانی جلد 3 صفحات 235 تا 239 اور البدایہ والنہایہ جلد 7صفحات 122تا 125معجم البدان ذکرباب الابواب۔
اس واقعے کے دو سو برس بعد عباسی خلیفہ واثق 227ھ تا232ھ نے اس دیوار کا مشاہدہ کرنے کے لیے پچاس افراد کی ایک جمعیت اسلام الترجمان کی قیادت میں روانہ کی۔ محولہ بالا روایات سے اس بات کی تصدیق ہورہی ہے کہ تیسری صدی ہجری میں بھی مسلمان قفقاز کی اس دیوار کو ہی سد ذوالقرنین سمجھتے تھے۔ اس دیوار کے سلسلے میں دو اور تاریخی حوالوں کا ذکر برمحل معلوم ہوتا ہے۔ ایک مقام پر لکھا ہے کہ یہ ترکوں کا علاقہ ہے جو سدذوالقرنین کے قریب باب الابواب کے پیچھے واقع ہے جسے در بند بھی کہتے ہیں۔
خلیفہ المقتدر بااللہ کے سفیر احمد بن فضلان نے بھی اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ خزر ایک مملکت کا نام ہے جس کا صدر مقام اِتل ہے۔ دریائے اِتل اس شہر کے درمیان سے گزرتا ہے اور یہ دریا روس اور بلغار سے آکر بحرخزر یعنی بحر کیسپین میں گرتا ہے۔ بلادکفر سے بلادمسلمین کی طرف آنے والوں کے لیے یہ راستہ انتہائی دشوار گزار ہے۔ ایک زمانے میں یہ نوشیرواں کی مملکت میں شامل تھا اور شاہان ایران اس سرحد کی حفاظت کو غایت درجہ اہمیت دیتے تھے۔
قرآن حکیم میں دوسرے مقام پر یاجوج و ماجوج کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا ترجمہ ''اور ممکن نہیں ہے کہ جس بستی کو ہم نے ہلاک کردیا ہو وہ پھر پلٹ سکے یہاں تک کہ جب یاجوج ماجوج کھول دیے جائیں گے اور ہر بلندی سے وہ نکل پڑیں گے اور وعدۂ برحق کے پورا ہونے کا وقت قریب آنے لگے گا تو ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی، جنہوں نے کفر کیا تھا کہیں گے ہائے ہماری کم بختی ہم اس چیز کی طرف سے غفلت میں پڑے ہوئے تھے بلکہ ہم خطاکار تھے۔'' (سورہ الانبیاء آیات95تا97) یاجوج ماجوج کب کھولے جائیں گے۔
اس بارے میں علماء کرام کی متفقہ رائے یہ ہے کہ وہ قرب قیامت کا وقت ہوگا تو وہ اسے یعنی دیوار کو ریزہ ریزہ کرکے زمین کے برابر کردے گا۔ ایک حدیث مبارکہ میں آیا ہے کہ وہ ''ہر روز اس دیوار کو کھودتے ہیں اور پھر کل کے لیے چھوڑ دیتے ہیں لیکن جب اللہ کی مشیت ان کے خروج کی ہوگی تو پھر وہ کہیں گے کل ان شاء اللہ اس کو کھودیں گے اور پھر دوسرے دن وہ اس سے نکلنے میں کام یاب ہوجائیں گے۔ یہ آسمانوں کی جانب تیر پھینکیں گے جو خون آلود پلٹیں گے۔ بالآخراللہ تعالیٰ ان کی گُدیوں پر ایسا کیڑا پیدا فرمادیں گے جس سے ان کی ہلاکت واقع ہوجائے گی۔'' (مسند احمد، جامع ترمذی)
نواس بن سمعانؓ کی روایت میں یہ صراحت موجود ہے کہ ''یاجوج ماجوج کا ظہور حضرت عیسٰی ؑ کے نزول کے بعد ان کی موجودگی میں ہوگا۔'' (صحیح مسلم باب الفتن ذکر دجال)
یہ قوم حضرت ابراہیم ؑسے قبل اور طوفان نوح کے بعد کی ہے جو ابتدا ہی سے خالق کائنات کی باغی اور سرکش ہے، فتنہ و فساد سے اسے ازحددل چسپی اور قتل و غارت گری کی یہ دل دادہ بھی ان کے انہی جرائم کی بنا پر اغلب گمان یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کے ذریعے انہیں پہاڑوں کے پیچھے دھکیلا جہاں یہ محبوس ہوکر رہ گئے۔ یہاں اس مقام پر ان کی زبان تک کوئی سمجھنے والا تھا اور نہ ہی یہ کسی اور کی زبان بول سکتے تھے اور نہ سمجھ سکتے تھے لہٰذا اقوام دیگر کی تہذیب و معاشرت اپنانے میں یہ قطعی طور پر معذور رہے۔