بڑے لوگ
پاکستان میں 56 فیصد لوگ تیس سال سے کم عمر کے ہیں، ہم ایک جوان قوم ہیں۔۔۔
نیلسن منڈیلا نہیں رہے، کچھ دن پہلے یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ پچھلے دو تین سال میں میڈیا نے جتنی ترقی کی ہے اتنی پچھلے سو سال میں نہیں کی تھی کوئی بھی خبر دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچنے میں کچھ سیکنڈ لگتے ہیں اور چاروں طرف پھیلنے میں کچھ منٹ، سب ٹی وی چینلز، سائٹس، ریڈیو، صرف نیلسن منڈیلا کی بات کر رہے تھے۔
پچھلے کچھ ہفتوں میں یقینا آپ نے نیلسن منڈیلا سے متعلق کئی باتیں سنی ہوں گی، انسان بڑا اپنی طاقت یا پیسے سے نہیں ہوتا انسان بڑا ہوتا ہے اپنی سوچ سے اور نیلسن منڈیلا ایک بڑے انسان تھے، کوئی بھی عام انسان محنت کرکے امیر اور طاقت ور ہوسکتا ہے لیکن جب ایک بڑا آدمی اپنے ہدف کی طرف کام کرتا ہے تو وہ کام اسے عظیم بناتا ہے۔
نیلسن منڈیلا کو ستائیس سال قید میں رکھا گیا۔ سال میں صرف دو خط اور ایک ملاقات کی اجازت ہونے کے باوجود انھوں نے اپنا عزم قائم رکھا انھوں نے جیل سے ہی اپنی ڈگری مکمل کی اور وہیں سے تحریک شروع کی اور اتنے سال جیل میں رہنے کے باوجود بھی ٹوٹے نہیں۔ باہر نکلے اور ساؤتھ افریقہ کے صدر بنے۔
جہاں نئے ڈیجیٹل میڈیا یعنی انٹرنیٹ نے نیلسن منڈیلا جیسے بڑے لوگوں کی خبر پھیلانے میں مدد کی وہیں اس میڈیا نے نئے لیڈرز بنانے کا ٹرینڈ بھی بنایا ہے چاہے وہ عاطف اسلم ہوں جن کا گانا انٹرنیٹ پہ لیک ہوگیا تھا یا پھر خان اکیڈمی کے سلمان خان ہوں جنھوں نے یو ٹیوب پر حساب (میتھس) کی فری ٹیوشن ڈالیں اور دنیا بھر میں مشہور ہوگئے۔اسی طرح اوباما کے جیتنے کی بڑی وجہ ان کا ٹیوٹر اور فیس بک کے ذریعے اپنے ووٹر سے رابطہ تھا اور اسی ڈیجیٹل میڈیا کی بنائی جیتی جاگتی مثال ملالہ ہے۔
بلاگ یعنی انٹرنیٹ پر اپنے مضمون لکھنا ایک عام سی بات ہے۔ پاکستان میں کوئی پچیس ہزار سے زیادہ بلاگرز ہیں۔ ملالہ بھی ان میں سے ایک عام بلاگر تھیں۔ ملالہ کا بلاگ ان پر حملہ اور حملے کی وجہ جب میڈیا اور انٹرنیٹ پر تیزی سے پھیلی تو ملک بھر میں ایسا انقلاب شروع ہوا جو پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا، ہر پاکستانی ملالہ کے لیے دعا کر رہا تھا۔ میڈیا اور انٹرنیٹ پر مستقل خبریں آتی رہیں۔ دنیا بھر میں اس بات کا نوٹس لیا گیا اور ملالہ دنیا بھر میں مشہور ہوگئیں۔
اس ڈیجیٹل میڈیا سے نقصان بھی ہے کوئی ایک چھوٹا سا پاکستان میں ہونے والا حملہ اتنی اہمیت حاصل کرلیتا ہے کہ وہ ایک حملہ ہزار حملوں کے برابر ہوجاتا ہے عام لوگ خصوصاً باہر رہنے والوں کو بار بار خبروں میں دیکھ کر ڈر محسوس ہونے لگتا ہے اس حملے سے۔
ملالہ کی شہرت کو سامنے رکھتے ہمیں چاہیے کہ ڈیجیٹل میڈیا سے فائدہ اٹھائیں اور ایسے لوگوں کو ہماری قوم کو لیڈر بنانا چاہیے جو اپنی سی ہر کوشش کر رہے ہیں پاکستان کو بہتر بنانے کی لیکن انھیں کوئی نہیں جانتا۔ دنیا کو ہماری ایک ملالہ نظر آئی ہے جس میں ان کے حساب سے ملک سدھارنے، اپنا امیج بہتر کرنے کا جذبہ ہے لیکن ہمارے یہاں ایسے بھی لوگ ہیں جو بہت زیادہ کام کر رہے ہیں مگر گمنام ہیں۔
پشاور میں رہنے والے محمد فاروق آفریدی یونیورسٹی کے طالب علم ہیں جو ہر روز اپنی درسگاہ سے ڈرائیو کرکے آس پاس کے گاؤں میں جاتے ہیں جہاں عام لوگوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کئی چیزیں امن سے حل ہوسکتی ہیں۔ ہمیں مغرب سے لڑ کر چیزیں نہیں منوانی ہیں۔
محمد فاروق آفریدی کے مطابق پاکستانی لوگوں میں صبر و تحمل کا مادہ بالکل نہیں ہے خصوصاً جب امریکا کا نام آجاتا ہے تو کوئی، کوئی بات سمجھنے پر تیار نہیں ہوتا۔ فاروق نے اپنی زندگی کا مقصد بنایا ہے لوگوں میں صبروتحمل کے جذبے کا فروغ۔
فاروق یہ کام چھوٹے پیمانے پر نہیں کرنا چاہتے ان کی خواہش ہے کہ ان کی آواز پاکستان کے ہر کونے میں پہنچے جس کے لیے انھوں نے اپنی فاؤنڈیشن ''خدمت خلق'' قائم کی ہے جو پوری طرح عطیات پر چلتی ہے۔
فاروق سمجھتے ہیں کہ دنیا میں سب سے مضبوط ہتھیار تعلیم ہے جس کے حصول سے آپ طاقتور بنتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے علاقے میں بچپن سے ہی بچوں کو غلط تعلیم دی جاتی ہے جس کی وجہ سے بڑے ہوتے ہوتے ان کے دماغ میں غلط مقاصد پروان چڑھنے لگتے ہیں۔
فاروق کہتے ہیں ان کے علاقے میں ماں باپ بچوں کو اسکول بھیجتے ہوئے ڈرتے ہیں اسی لیے وہ ایک نیا اسکول سسٹم ''گلی کے نکڑ پر اسکول'' کا ٹرینڈ لائے ہیں جس میں بچے اپنی گلی کے نکڑ پر ہی عارضی اسکول میں تعلیم حاصل کرسکتے ہیں اس کے علاوہ وہ بچوں کے کھیلوں کے مقابلے بھی کرواتے ہیں اور موبائل ہیلتھ سسٹم بھی چلاتے ہیں جس میں لوگوں کا مفت علاج ہوتا ہے۔
شمالی پاکستان اس وقت طالبان کی وجہ سے جانا جاتا ہے ہر جگہ یہ بات کہی اور لکھی جاتی ہے کہ اکثر ان علاقوں میں معصوم بچوں کو چھوٹی عمر سے ہی ریکروٹ کرلیا جاتا ہے دہشت گرد بننے کے لیے۔
فاروق اپنے وسائل میں رہتے ہوئے بہت اچھے کام کر رہے ہیں اور ان کا ساتھ یقینا علاقے کے اور لوگ بھی دے رہے ہوں گے لیکن فاروق جیسے لوگوں کا ذکر کہیں نہیں آتا، انٹرنیشنل میڈیا کو پاکستان کی بری تصویر دکھانے میں فائدہ ہے لیکن ہم تو اپنی اچھی تصویر اس تیز میڈیا کے ذریعے دنیا تک پہنچا سکتے ہیں۔
جب ہم آئی ٹو آئی گانے والے عام سے گلوکار کو راتوں رات مشہور کرسکتے ہیں تو فاروق جیسے لڑکوں کو کیوں نہیں؟ پاکستان میں 56 فیصد لوگ تیس سال سے کم عمر کے ہیں۔ ہم ایک جوان قوم ہیں اور اس جوان قوم کو بہتری کی طرف بڑھانے کے لیے فاروق جیسے لوگوں کی ضرورت ہے ہمیں ان کو آج ہیرو بنانا چاہیے۔ ان کو ہیرو بننے کے لیے کسی طالبان کی گولی لگنے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔