خصوصی افراد کا عالمی دن اور شاملاتی نظام تعلیم
ملینیم ڈویلپمنٹ گولزکے اہداف کا حصول خصوصی بچوں کی تعلیم کے بغیر ناممکن ہے
یوں تو دنیا کی آبادی کا 10 فیصد جبکہ پاکستان کی کل آبادی کا 7 فیصد حصہ ذہنی و جسمانی معذوری سے گزر رہا ہے۔
تاہم یہ آبادی اس وقت 50 فیصد سے تجاوز کرجاتی ہے جب اس میں کسی معذور فرد کے ساتھ اس کے گھرانے کو بھی شمار کرلیا جائے کیونکہ ایک فرد معذور ہو تو پورا گھرانہ معذور ہوجاتا ہے، اور اس کے روز و شب میں ان تمام کو شامل ہونا پڑتا ہے۔ دوسری جانب آبادی کا تقریباً 30 فیصد حصہ جو 4 سے 15 سال تک کی عمر سے تعلق رکھتا ہے، (یہ تعداد بھی 54 لاکھ بنتی ہے ) کسی نہ کسی طرح سے معذوری کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان میں سے صرف 4 فیصد کو تعلیم و صحت کی سہولیات حاصل ہیں جبکہ باقی 96 فیصد ان سہولیات سے محروم ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کے ڈیکلریشن (1948) سے لے کر ملینیم ڈویلپمنٹ گولزتک تمام معاہدوں میں پوری دنیا کو یقین دلایا کہ ہم اپنے بچوں کے تمام حقوق قطع نظر اس کے کہ وہ معذور ہیں یا نہیں، کا تحفظ کریںگے۔ جبکہ حکومت پاکستان کی تیارکردہ خصوصی تعلیمی پالیسی کے مطابق تمام سکول 2025ء تک لازماً انکلوسو ایجوکیشن (شاملاتی تعلیم) کا آغاز کریں گے۔ مگر پاکستان میں اس حوالے سے اب تک نہایت ہی کم پیش رفت ہوسکی ہے۔ آج ملینیم ڈویلپمنٹ گولز کا شور بہت زیادہ ہے مگر کسی نے اس پہلو کی جانب توجہ نہیں دی کہ خصوصی بچوں کی تعلیم کے بغیر اس ہدف کو حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ معیاری تعلیم ہر عام بچے کی طرح معذور بچے کا بھی حق ہے لیکن شاید ہی کسی سکول، کالج اور یونیورسٹی نے اس کا اہتمام کرنے کیلئے اپنے وسائل کا کچھ حصہ ان کو تعلیم اور ہنر دینے صرف کیا ہو۔
سروے کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں 18 سال تک کی عمر کے 60 لاکھ سے زائد بچے کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں جن میں ذہنی معذور بچوں کی تعداد 30 فیصد، نابینا پن کا شکار 20 فیصد، قوت سماعت سے محروم 10 فیصد جبکہ جسمانی معذوری کا شکار بچے 40 فیصد ہیں۔ ادارہ شماریات کے 16 اکتوبر 2012ء کو جاری کئے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی آبادی 181 ملین ہے، جس میں سے معذور افراد کی کُل تعداد ایک کروڑ 70 لاکھ سے زائد ہے یعنی کل آبادی کا تقریباً 7 فیصد حصہ۔ 1998 کی مردم شماری کے مطابق پنجاب میں 18,26,623، سندھ میں 9,29,400، خیبرپختونخواہ میں 3,75,448، بلوچستان میں 1,46421، فاٹا میں 21,705 جبکہ آزاد کشمیر میں 80, 333 افراد کسی نہ کسی معذوری میں مبتلا ہیں۔ صوبائی سطح پر آبادی کے تناسب سے سب سے زیادہ معذور افراد سندھ میں 3.05 فیصد ہیں، 2.48 فیصد کے ساتھ پنجاب دوسرے، 2.23 فیصد کے ساتھ بلوچستا ن تیسرے اور 2.12 فیصد کے ساتھ کے پی کے چوتھے نمبر پر ہے۔ صرف لاہور میں 2 لاکھ سے زائد افراد مختلف اقسام کی معذوری کا شکار ہیں جبکہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں یہ تعداد 4.3 لاکھ کے قریب ہے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 1.1 لاکھ کے قریب خصوصی افراد بستے ہیں۔ وزارت سوشل ویلفیئر کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے تقریباً ہر گائوں میں 10 سے 20بچے ایسے ہیں جو کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں۔
ایسے بچوں کی تعلیم و تربیت کے ادارے پاکستان میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اگر کچھ نظر بھی آتے ہیں تو وہ صرف بڑے شہروں تک محدود اور کافی حد تک وسائل کی کمی کا شکار ہیں۔ المیہ یہ بھی ہے کہ عام تعلیمی اداروں میں معاشرتی سطح پر نظرانداز ان طلباء کو داخلہ نہیں دیا جاتا۔ دوسری طرف والدین اپنے بچوں کی تکالیف اور اس کے حل سے ناواقف اور کسی جانب سے بھی تعاون اور مسائل کے حل کیلئے رہنمائی نہ ملنے کی بناء پر ذہنی تنائو کا شکار رہتے ہیں اور جو واقف ہیں انہیں اپنے آس پاس ان معصوم بچوں اور بچیوں کی تعلیم و تربیت کا کوئی ادارہ نظر نہیں آتا جن سے مستفید ہوکر وہ اپنے متاثرہ بچوں کی تعلیم و تربیت اور بحالی کے مسائل سے عہدہ برآء ہوسکیں۔ یہ ایک غور طلب مسئلہ ہے جسے ارباب اختیار کو سنجیدگی سے لینا چاہئے۔ ہم خصوصی افراد کے حقوق کی آواز بلند اور ان سے ''اظہار یکجہتی'' کرنے کیلئے جگہ جگہ سیمینارز، کانفرنسز، معذور افراد کی معاشرہ میں موجودگی، ان کے مسائل اور کردار کے حوالے سے ابلاغ کے بیشتر ذرائع سے مختلف پہلوئوں کا احاطہ کر تے ہیں مگر ان پروگرامز میں جو قراردادیں پاس ہوتی اور جو دعوے اور وعدے کئے جاتے ہیں وہ صرف ان کانفرنسوں تک محدود رہتے ہیں۔ اگر ان میں سے چند پر بھی عمل کرلیا جاتا تو آج معاشرے میں خصوصی افراد کی شرح کم ہوتی یا وہ کم از کم اپنے بنیادی حقوق سے محروم نہ ہوتے۔
افسوس! اس امرکا ہے کہ ہمارے ہاں خصوصی بچوں کی تعلیم و تربیت اور نگہداشت کے حوالے سے منظم نظام موجود نہیں ہے۔ اس مسئلے سے نبرد آزما ہونے کیلئے کم و بیش5ہزار سے زائد اداروں کی ضرورت ہے جو بلاشبہ حکومت اور پبلک سیکٹر کے مشترکہ تعاون سے ہی ممکن ہے۔ پاکستانی معاشرے کا مجموعی رویہ اس حوالے سے انتہائی مایوس کن ہے۔ پورے پاکستان میں سرکاری و نجی 744 سپیشل ایجوکیشن کے ادارے کام کررہے ہیں جن میں سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں سرکاری تعلیمی اداروں کی تعداد صرف 189 ہے۔ لاہور جیسے پاکستان کے دوسرے بڑے شہر میں صرف 46 سپیشل ایجوکیشن سنٹر ہیں، پورے سندھ میں 154 جبکہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں صرف 122 جبکہ اسلام آباد جیسے شہر میں سپیشل ایجوکیشن کے سرکاری و غیر سرکاری اداروں کی مجموعی تعداد 36 ہے۔ یہ ہے ہمارا مجموعی مزاج اور یہ ہے ہمارا اپنے خصوصی افراد کے ساتھ رویہ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر کلاس میں ہر 5 نارمل بچوں کے مقابلے میں کم از کم ایک خصوصی بچہ ضرور ہونا چاہئے، بجائے اس کے کہ انہیں الگ تھلگ رکھا جائے اور ایک الگ ہی ماحول میں پروان چڑھایا جائے۔ اس طرح انہیں سیکھنے اور بحالی کے زیادہ مواقع میسر آئیں گے۔ شاملاتی تعلیمی نظام کے تحت انہیں سسٹم میں شامل کیا جانا چاہئے۔ نہ صرف یہ، بلکہ الگ یونیورسٹی قائم کی جائے، جہاں ان کیلئے عمومی تعلیم اور ڈگری کورسز کے ساتھ ساتھ ووکیشنل ٹریننگ کا بھی بندوبست کیا جائے۔ تاہم ہم اتفاق کرتے ہیں کہ حکومتوں کے وسائل اس کی اجازت نہیں دیتے کہ سپیشل ایجوکیشن کے الگ الگ سنٹر وسیع پیمانے پر قائم کئے جائیں۔ اس قومی ذمہ داری کا احاطہ کرنے کیلئے انکلوسو ایجوکیشن(شاملاتی نظام تعلیم) کا فروغ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے جس میں عام تعلیمی اداروں میں نارمل بچوں کے ساتھ بٹھا کر خصوصی بچوں کو تعلیم و تربیت کے مراحل سے گزارا اور بحالی کی جانب راغب کیا جاتا ہے۔ یہ ایک انتہائی موثر طریقہ تدریس ہے جس سے بچے میں احساس کمتری کا خاتمہ ہوتا اور وہ عام بچوں کے ساتھ بیٹھ کر اپنے آپ کو بھی نارمل محسوس کرنے لگتا ہے۔ یہ طریقہ تدریس کم وسائل میں رہتے ہوئے خصوصی بچوں کی پرورش اور نشونما کا موثرترین نظام ہے، جس میں عدم تحفظ کا شکار خصوصی بچوں کے رویوں کی نشونما اور صلاحیتوں کی پرورش ہوتی اور وہ نارمل بچوں کے ساتھ رہ کر بہت کچھ سیکھتے اور بحالی کی زندگی کی طرف آتے ہیں۔
انہیں اپنی صلاحیتوں کو مثبت رخ دینے کا موقع ملتاہے۔ ان کی شخصیت اور کارکردگی میں نکھار آتا ہے، مقابلہ کی لگن اور جیت کا جذبہ پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ خوداعتمادی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میںصرف 30 کے قریب ادارے انکلوسو ایجوکیشن پر کام کررہے ہیں جن میں سے ایک نام ''غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ'' ہے۔ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کا نیٹ ورک پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان کے پسماندہ دیہاتوں میں ہے اور ادارہ کے انہی سکولوں میں خصوصی بچوں کو بھی انکلوسو ایجوکیشن کے فارمولے کے تحت عملی مراحل سے گزارا جارہا ہے جبکہ ''امین مکتب'' جیسے ادارے ٹرسٹ کو نہ صرف اساتذہ کی پیشہ ورانہ ٹریننگ، راہنمائی و معاونت فراہم کررہا ہے بلکہ اپنے ماہر سائیکالوجسٹس بھی خدمات مہیا کیے ہوئے ہے جو مستقل بنیادوں پر خصوصی بچوں کی نفسیاتی تربیت اور ہائیڈرو سکوپی، فزیو تھراپی، سپیچ تھراپی کے ذریعے ان کی کمزوریاں دور کرتے اور ان کے گھریلو ماحول کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیم و تربیت اور پرورش کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ اس ضمن میں ''ادارہ امین مکتب'' کے پاس ٹریننگ کا وسیع منصوبہ موجود ہے جس میں وہ اساتذہ اور والدین کو ایسے بچوں کی تربیت و تدریس کے مختلف پہلوئوں سے تفصیلی طور پر آگاہ کرتا ہے۔
تمام والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ تعلیمی اداروں میں ان کے بچے کو تحفظ کا احساس ہو اور وہ ہر قسم کے ڈر، کشمکش، مایوسی اور احساس محرومی سے نکل کر تعلیم حاصل کریں، نیز سکول کا ماحول بچے کو تعلیم اور مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب کرنے میں اہم کردار ادا کرے۔ اس ضمن میں انکلوسو ایجوکیشن پروگرام ایک کامیاب تجربہ ہے۔ جن اداروں نے انکلوسو ایجوکیشن کا تجربہ کیا انہیں اس میں کامیابی حاصل ہوئی۔ یہ سہولت ہر شہر اور علاقے کے ہر سکول میں دستیاب ہونی چاہئیں۔ ان بچوں پر تھوڑی سی توجہ ان کی زندگیوں میں جینے کی امنگ اور ترنگ پیدا کرسکتی ہے۔ انکلوسو ایجوکیشن انہیں معذوری کے احساس سے بھی بچائے گی اور معاشرے کی ترقی کی دوڑ میں بھی آگے بڑھنے کے لئے ان کے جذبات کو مہمیز کرے گی۔
تاہم یہ آبادی اس وقت 50 فیصد سے تجاوز کرجاتی ہے جب اس میں کسی معذور فرد کے ساتھ اس کے گھرانے کو بھی شمار کرلیا جائے کیونکہ ایک فرد معذور ہو تو پورا گھرانہ معذور ہوجاتا ہے، اور اس کے روز و شب میں ان تمام کو شامل ہونا پڑتا ہے۔ دوسری جانب آبادی کا تقریباً 30 فیصد حصہ جو 4 سے 15 سال تک کی عمر سے تعلق رکھتا ہے، (یہ تعداد بھی 54 لاکھ بنتی ہے ) کسی نہ کسی طرح سے معذوری کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان میں سے صرف 4 فیصد کو تعلیم و صحت کی سہولیات حاصل ہیں جبکہ باقی 96 فیصد ان سہولیات سے محروم ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کے ڈیکلریشن (1948) سے لے کر ملینیم ڈویلپمنٹ گولزتک تمام معاہدوں میں پوری دنیا کو یقین دلایا کہ ہم اپنے بچوں کے تمام حقوق قطع نظر اس کے کہ وہ معذور ہیں یا نہیں، کا تحفظ کریںگے۔ جبکہ حکومت پاکستان کی تیارکردہ خصوصی تعلیمی پالیسی کے مطابق تمام سکول 2025ء تک لازماً انکلوسو ایجوکیشن (شاملاتی تعلیم) کا آغاز کریں گے۔ مگر پاکستان میں اس حوالے سے اب تک نہایت ہی کم پیش رفت ہوسکی ہے۔ آج ملینیم ڈویلپمنٹ گولز کا شور بہت زیادہ ہے مگر کسی نے اس پہلو کی جانب توجہ نہیں دی کہ خصوصی بچوں کی تعلیم کے بغیر اس ہدف کو حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ معیاری تعلیم ہر عام بچے کی طرح معذور بچے کا بھی حق ہے لیکن شاید ہی کسی سکول، کالج اور یونیورسٹی نے اس کا اہتمام کرنے کیلئے اپنے وسائل کا کچھ حصہ ان کو تعلیم اور ہنر دینے صرف کیا ہو۔
سروے کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں 18 سال تک کی عمر کے 60 لاکھ سے زائد بچے کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں جن میں ذہنی معذور بچوں کی تعداد 30 فیصد، نابینا پن کا شکار 20 فیصد، قوت سماعت سے محروم 10 فیصد جبکہ جسمانی معذوری کا شکار بچے 40 فیصد ہیں۔ ادارہ شماریات کے 16 اکتوبر 2012ء کو جاری کئے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی آبادی 181 ملین ہے، جس میں سے معذور افراد کی کُل تعداد ایک کروڑ 70 لاکھ سے زائد ہے یعنی کل آبادی کا تقریباً 7 فیصد حصہ۔ 1998 کی مردم شماری کے مطابق پنجاب میں 18,26,623، سندھ میں 9,29,400، خیبرپختونخواہ میں 3,75,448، بلوچستان میں 1,46421، فاٹا میں 21,705 جبکہ آزاد کشمیر میں 80, 333 افراد کسی نہ کسی معذوری میں مبتلا ہیں۔ صوبائی سطح پر آبادی کے تناسب سے سب سے زیادہ معذور افراد سندھ میں 3.05 فیصد ہیں، 2.48 فیصد کے ساتھ پنجاب دوسرے، 2.23 فیصد کے ساتھ بلوچستا ن تیسرے اور 2.12 فیصد کے ساتھ کے پی کے چوتھے نمبر پر ہے۔ صرف لاہور میں 2 لاکھ سے زائد افراد مختلف اقسام کی معذوری کا شکار ہیں جبکہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں یہ تعداد 4.3 لاکھ کے قریب ہے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 1.1 لاکھ کے قریب خصوصی افراد بستے ہیں۔ وزارت سوشل ویلفیئر کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے تقریباً ہر گائوں میں 10 سے 20بچے ایسے ہیں جو کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں۔
ایسے بچوں کی تعلیم و تربیت کے ادارے پاکستان میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اگر کچھ نظر بھی آتے ہیں تو وہ صرف بڑے شہروں تک محدود اور کافی حد تک وسائل کی کمی کا شکار ہیں۔ المیہ یہ بھی ہے کہ عام تعلیمی اداروں میں معاشرتی سطح پر نظرانداز ان طلباء کو داخلہ نہیں دیا جاتا۔ دوسری طرف والدین اپنے بچوں کی تکالیف اور اس کے حل سے ناواقف اور کسی جانب سے بھی تعاون اور مسائل کے حل کیلئے رہنمائی نہ ملنے کی بناء پر ذہنی تنائو کا شکار رہتے ہیں اور جو واقف ہیں انہیں اپنے آس پاس ان معصوم بچوں اور بچیوں کی تعلیم و تربیت کا کوئی ادارہ نظر نہیں آتا جن سے مستفید ہوکر وہ اپنے متاثرہ بچوں کی تعلیم و تربیت اور بحالی کے مسائل سے عہدہ برآء ہوسکیں۔ یہ ایک غور طلب مسئلہ ہے جسے ارباب اختیار کو سنجیدگی سے لینا چاہئے۔ ہم خصوصی افراد کے حقوق کی آواز بلند اور ان سے ''اظہار یکجہتی'' کرنے کیلئے جگہ جگہ سیمینارز، کانفرنسز، معذور افراد کی معاشرہ میں موجودگی، ان کے مسائل اور کردار کے حوالے سے ابلاغ کے بیشتر ذرائع سے مختلف پہلوئوں کا احاطہ کر تے ہیں مگر ان پروگرامز میں جو قراردادیں پاس ہوتی اور جو دعوے اور وعدے کئے جاتے ہیں وہ صرف ان کانفرنسوں تک محدود رہتے ہیں۔ اگر ان میں سے چند پر بھی عمل کرلیا جاتا تو آج معاشرے میں خصوصی افراد کی شرح کم ہوتی یا وہ کم از کم اپنے بنیادی حقوق سے محروم نہ ہوتے۔
افسوس! اس امرکا ہے کہ ہمارے ہاں خصوصی بچوں کی تعلیم و تربیت اور نگہداشت کے حوالے سے منظم نظام موجود نہیں ہے۔ اس مسئلے سے نبرد آزما ہونے کیلئے کم و بیش5ہزار سے زائد اداروں کی ضرورت ہے جو بلاشبہ حکومت اور پبلک سیکٹر کے مشترکہ تعاون سے ہی ممکن ہے۔ پاکستانی معاشرے کا مجموعی رویہ اس حوالے سے انتہائی مایوس کن ہے۔ پورے پاکستان میں سرکاری و نجی 744 سپیشل ایجوکیشن کے ادارے کام کررہے ہیں جن میں سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں سرکاری تعلیمی اداروں کی تعداد صرف 189 ہے۔ لاہور جیسے پاکستان کے دوسرے بڑے شہر میں صرف 46 سپیشل ایجوکیشن سنٹر ہیں، پورے سندھ میں 154 جبکہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں صرف 122 جبکہ اسلام آباد جیسے شہر میں سپیشل ایجوکیشن کے سرکاری و غیر سرکاری اداروں کی مجموعی تعداد 36 ہے۔ یہ ہے ہمارا مجموعی مزاج اور یہ ہے ہمارا اپنے خصوصی افراد کے ساتھ رویہ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر کلاس میں ہر 5 نارمل بچوں کے مقابلے میں کم از کم ایک خصوصی بچہ ضرور ہونا چاہئے، بجائے اس کے کہ انہیں الگ تھلگ رکھا جائے اور ایک الگ ہی ماحول میں پروان چڑھایا جائے۔ اس طرح انہیں سیکھنے اور بحالی کے زیادہ مواقع میسر آئیں گے۔ شاملاتی تعلیمی نظام کے تحت انہیں سسٹم میں شامل کیا جانا چاہئے۔ نہ صرف یہ، بلکہ الگ یونیورسٹی قائم کی جائے، جہاں ان کیلئے عمومی تعلیم اور ڈگری کورسز کے ساتھ ساتھ ووکیشنل ٹریننگ کا بھی بندوبست کیا جائے۔ تاہم ہم اتفاق کرتے ہیں کہ حکومتوں کے وسائل اس کی اجازت نہیں دیتے کہ سپیشل ایجوکیشن کے الگ الگ سنٹر وسیع پیمانے پر قائم کئے جائیں۔ اس قومی ذمہ داری کا احاطہ کرنے کیلئے انکلوسو ایجوکیشن(شاملاتی نظام تعلیم) کا فروغ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے جس میں عام تعلیمی اداروں میں نارمل بچوں کے ساتھ بٹھا کر خصوصی بچوں کو تعلیم و تربیت کے مراحل سے گزارا اور بحالی کی جانب راغب کیا جاتا ہے۔ یہ ایک انتہائی موثر طریقہ تدریس ہے جس سے بچے میں احساس کمتری کا خاتمہ ہوتا اور وہ عام بچوں کے ساتھ بیٹھ کر اپنے آپ کو بھی نارمل محسوس کرنے لگتا ہے۔ یہ طریقہ تدریس کم وسائل میں رہتے ہوئے خصوصی بچوں کی پرورش اور نشونما کا موثرترین نظام ہے، جس میں عدم تحفظ کا شکار خصوصی بچوں کے رویوں کی نشونما اور صلاحیتوں کی پرورش ہوتی اور وہ نارمل بچوں کے ساتھ رہ کر بہت کچھ سیکھتے اور بحالی کی زندگی کی طرف آتے ہیں۔
انہیں اپنی صلاحیتوں کو مثبت رخ دینے کا موقع ملتاہے۔ ان کی شخصیت اور کارکردگی میں نکھار آتا ہے، مقابلہ کی لگن اور جیت کا جذبہ پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ خوداعتمادی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میںصرف 30 کے قریب ادارے انکلوسو ایجوکیشن پر کام کررہے ہیں جن میں سے ایک نام ''غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ'' ہے۔ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کا نیٹ ورک پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان کے پسماندہ دیہاتوں میں ہے اور ادارہ کے انہی سکولوں میں خصوصی بچوں کو بھی انکلوسو ایجوکیشن کے فارمولے کے تحت عملی مراحل سے گزارا جارہا ہے جبکہ ''امین مکتب'' جیسے ادارے ٹرسٹ کو نہ صرف اساتذہ کی پیشہ ورانہ ٹریننگ، راہنمائی و معاونت فراہم کررہا ہے بلکہ اپنے ماہر سائیکالوجسٹس بھی خدمات مہیا کیے ہوئے ہے جو مستقل بنیادوں پر خصوصی بچوں کی نفسیاتی تربیت اور ہائیڈرو سکوپی، فزیو تھراپی، سپیچ تھراپی کے ذریعے ان کی کمزوریاں دور کرتے اور ان کے گھریلو ماحول کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیم و تربیت اور پرورش کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ اس ضمن میں ''ادارہ امین مکتب'' کے پاس ٹریننگ کا وسیع منصوبہ موجود ہے جس میں وہ اساتذہ اور والدین کو ایسے بچوں کی تربیت و تدریس کے مختلف پہلوئوں سے تفصیلی طور پر آگاہ کرتا ہے۔
تمام والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ تعلیمی اداروں میں ان کے بچے کو تحفظ کا احساس ہو اور وہ ہر قسم کے ڈر، کشمکش، مایوسی اور احساس محرومی سے نکل کر تعلیم حاصل کریں، نیز سکول کا ماحول بچے کو تعلیم اور مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب کرنے میں اہم کردار ادا کرے۔ اس ضمن میں انکلوسو ایجوکیشن پروگرام ایک کامیاب تجربہ ہے۔ جن اداروں نے انکلوسو ایجوکیشن کا تجربہ کیا انہیں اس میں کامیابی حاصل ہوئی۔ یہ سہولت ہر شہر اور علاقے کے ہر سکول میں دستیاب ہونی چاہئیں۔ ان بچوں پر تھوڑی سی توجہ ان کی زندگیوں میں جینے کی امنگ اور ترنگ پیدا کرسکتی ہے۔ انکلوسو ایجوکیشن انہیں معذوری کے احساس سے بھی بچائے گی اور معاشرے کی ترقی کی دوڑ میں بھی آگے بڑھنے کے لئے ان کے جذبات کو مہمیز کرے گی۔