اخلاقی تعلیم بچوں کی کردار سازی کے لئے ضروری

تعلیمی اداروں میں اخلاقی تعلیم نہ دینے سے بچوں میں منفی سرگرمیاں پرورش پاتی ہیں


مالک خان سیال December 16, 2013
تعلیمی اداروں میں اخلاقی تعلیم نہ دینے سے بچوں میں منفی سرگرمیاں پرورش پاتی ہیں۔ فوٹو: فائل

عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ناخواندہ لوگ ملک کی ترقی میں رکاوٹ ہیں، اس لئے افراد کی تعلیم و ترقی پر خصوصی زور دیا جاتا ہے تا کہ انہیں معاشرے کے کارآمد افراد بنایا جا سکے۔

مگر تاریخ شاہد ہے کہ جتنی کرپشن، جرائم، لوٹ کھسوٹ، فراڈ اور بد اعمالیاں پڑھے لکھے افراد کرتے ہیں، ان پڑھ افراد اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ آج جو لوگ طرح طرح کی بد دیانتیوں میں ملوث ہیں، ان کی اکثریت سکولوں اور کالجوں سے تعلیم یافتہ ہو کر نکلی ہے۔ تعلیمی اداروں میں طوطے مینا اور گائے، بھینس کے سبق توپڑھائے جاتے ہیں، مگر افسوس اخلاقی تعلیم پر زور نہیں دیا جاتا۔ ہم بچوں کو تعلیم دیتے یا دلواتے ہیںکہ وہ ملک و قوم کے مفید افراد بن سکیں، مگر ان میں سے اکثر کالج کے دور سے ہی مختلف جرائم میں ملوث ہو جاتے ہیں اور اسی ملک و قوم کے لئے ناسور بن جاتے ہیں۔ پڑھے لکھے ہونے کی بناء پر وہ جرائم کے مختلف طریقوں کو ایجاد کرتے ہیں اور قانون شکنی کا موجب بنتے ہیں۔

جو تعلیم فرد کو اللہ سے نہیں ملاتی، توحید کا تصور واضح نہیں کرتی، اللہ کی حدود میں رہ کر زندگی بسر کرنے کا شعور نہیں دیتی، دینی اخلاق کو نہیں سنوارتی وہ تعلیم نہیں جہالت ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیمی نصاب کو مذہبی و اخلاقی ڈھانچے میں ڈھالا جائے تا کہ ایسے پڑھے لکھے افراد ہمارے اداروں سے فارغ التحصیل ہوں، جو اخلاقی روایات و اقدار اور قانون کے پاسدار ہوں۔ ہمارے سکولز میں تلاوت قرآن روزانہ سکول اسمبلی کا بنیادی حصہ ہے، مگر بچے نہیں جانتے کہ انہوں نے کیا پڑھا ہے۔ اگر صرف ایک آیت کی تلاوت کی جائے مگر ترجمہ کے ساتھ تو وہ زیادہ بہتر ہے۔ ہمارے ہاں مدارس میں حفظ قرآن پر اگرچہ فوکس ہوتا ہے مگر قرآن کو سمجھنے پر فوکس نہ ہونے کے برابر ہے۔ بچوں کو روزانہ کی بنیاد پر اخلاقیات پر مبنی ایسا پیغام دیا جائے کہ جسے وہ عملی زندگی میں اپنا سکیں۔ سکولز میں جہاں بہت سے ادبی مقابلہ جات ہوتے ہیں، وہاں قرآن، سیرت نبویﷺ، سیرت صحابہؓ و دیگرمتعلقہ عنوانات کے حوالے سے مقابلے کروائے جانے کی ضرورت ہے تا کہ طلبہ میں اسلامی فکر بیدار ہو سکے۔ ہم جب تک اپنے طلباء و طالبات کو اپنے شاندار ماضی سے نہیں جوڑیں گے، انہیں اپنے اسلاف کے عمدہ کارناموں سے مانوس نہیں کریں گے تب تک ان کے ہیرو اور آئیڈیل یقینا ایسے افراد ہو سکتے ہیں جو ان کی بے راہ روی کا مزید موجب بن سکتے ہیں۔ہمیں طلبا کو صحیح معنوں میں مسلمان بنانے کی سعی کرنا ہو گی۔ان کا تعلق اور نسبت معلم اعظمﷺ سے استوار کرنا ہو گا۔



آج ہم سب چاہتے ہیں کہ اسلامی کلچر پھر سے جوان ہو جائے اور ہم زمانے کے پیچھے چلنے کی بجائے آگے چلیں، مگر اس کے لیے ٹوٹے ہوئے ربط کو پھر سے قائم کرنا ہو گا۔ اسلامی نقطہ نظر کو پورے نظام تعلیم میں اس طرح اتار دینا ہو گا کہ وہ اس کی روح رواںاور اس کا احساس و ادراک بن جائے۔ اگر ہمارا نظام تعلیم اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں اور تعلیمات کے مطابق ہو گا، تو ہمیں سائنس، معیشت، ٹیکنالوجی، قانون سمیت ہر شعبہ میں ایسے ماہرین میسر آئیں گے جو دنیا کے لئے مثال ہوں گے۔ ہمیں سکولز میں اپنے طلبا کو اسلامی اخلاقیات سکھانی ہوں گی۔ بچوں کو پڑھاتے ہوئے ہمارے پیش نظر تعلیم کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ہم ایسے افراد تیار کریں جو ہماری قومی تہذیب کو سمجھتے ہوں۔ سکولوں میں ضروری ہے کہ بچے کو سکول کے پہلے دن سے ہی اسلام اور اخلاقیات کے بنیادی تصورات سے آگاہی دی جائے۔ اسلام جن اخلاقی تصورات اور اقدار کو پیش کرتا ہے انہیں ہر مضمون کے اسباق میں حتیٰ کہ ریاضی اور سائنس تک میں مختلف طریقوں سے بچوں کے ذہن نشین کیا جانا چاہیے۔ سکولز میں مختلف مضامین کی تدریس کے دوران بچوں کو اخلاقیات سکھانے پر فوکس کیا جائے ۔ان کے اندر رشوت خوری سے نفرت اور حرام و حلال کی تمیز کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ ان کے دلوں میں تدریس کے ذریعے جھوٹ، دھوکے دہی، فریب، خود غرضی، نفس پرستی، چوری، جعل سازی، بدعہدی، خیانت، شراب،سود، قمار بازی، ظلم، ناانصافی اور لوگوں کی حق تلفی سے سخت نفرت پیدا کی جائے۔

بچوں کی تربیت اس طرح کی جائے کہ وہ جس شخص میں بھی اخلاقی برائیوں کا اثر پائیں اسے بری نگاہ سے دیکھیں اور اس کے متعلق برے خیالات کا اظہار کریں۔ ہمارے سکولوں اور کالجوں سے فارغ التحصیل اگر کوئی شخص معاشرتی اور اخلاقی برائیوں میں مبتلا ہو تو اس کے اپنے ساتھی اسے لعنت ملامت کرنے والے ہوں نہ کہ داد دینے والے اور ساتھ دینے والے۔ وہ خوبیاں اور نیکیاں جنہیں اسلام انسان کے اندر پیدا کرنا چاہتا ہے بچوں کو مختلف سرگرمیوں کی بدولت ان کی طرف رغبت دلائی جائے اور ان کے فوائد سے آگاہ کیا جائے۔ بچوں کا بتایا جائے کہ یہ خوبیاں ہماری زندگی کا مطلوب ہیںاور انسانیت کی بھلائی انہی کے اندر ہے۔ بچوں کو روزمرہ تدریس میں صداقت و دیانت، امانت و پاس عہد، عدل و انصاف، حق شناسی ، ہمدردی و اخوت، ایثار و قربانی، فرض شناسی اور پابندی حدود اور سب سے بڑھ کر ظاہر اور باطن ہر حال میں خدا سے ڈرتے ہوئے کام کرنے کا سبق دیا جائے اور عملی تربیت سے بھی اس امر کی کوشش کی جائے کہ بچوں میں یہ اوصاف نشوونما پائیں۔ طلبہ کو اسلامی زندگی بسر کرنے کے طریقوں سے آگاہی فراہم کرنا بھی سکولز کی ذمہ داری ہے اور اس سلسلے میں وہ تمام فقہی مسائل بچوں کو ازبر کروائے جانے چاہییں جن کی آئندہ زندگی میں ضرورت پڑنے والی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں