نجکاری کی پراسرار کہانیاں

پاکستان اسٹیل مل کی نجکاری کےلیے 9350 ملازمین کو گولڈن ہینڈشیک دیتے ہوئے گھر بھیج دیا گیا ہے


شعیب مختار September 03, 2020
پی ٹی سی ایل اور کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کی نجکاری کو مشکوک قرار دیا جاتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ISLAMABAD: بلند و بالا دعوے کرتی تبدیلی سرکار ایک کے بعد ایک یوٹرن لے کر جہاں حکومت کے دو سال مکمل کرنے میں کامیاب رہی، وہیں حکومت میں آنے سے قبل دی جانے والی تسلیاں آج بھی اقتدار کے ایوانوں میں منہ چڑاتی دکھائی دیتی ہیں۔ ایک جانب عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی وزیراعظم پاکستان کو ان کے حکومت میں آنے سے قبل کیے جانے والے وعدوں کی یاد دہانی کرواتی نظر آتی ہیں تو دوسری جانب وزیراعظم پاکستان کے آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے اور نواز شریف اور آصف زرداری سے ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس لینے کی تقریریں آج بھی عوام کے ذہنوں میں رقص کرتی ہیں۔ ''صاف چلی شفاف چلی، تحریک انصاف چلی'' سرکار سے رفتہ رفتہ عوام کی بندھی امیدیں ٹوٹ رہی ہیں جبکہ ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر عوامی حلقوں میں مضحکہ خیز باتیں قرار دی جارہی ہیں۔ جس کی تشریح کرتی خود حکومت دکھائی دیتی ہے، جو آج اپنے ہی نجکاری کیے گئے سرکاری اداروں کی بیرون ملک سے اربوں روپے کی ادائیگیاں لینے اور معاملے کو دبانے کی سازشوں میں مصروف ہے۔

اگر بات کی جائے یہاں پاکستان میں پہلی ٹیلی کمیونیکیشن سہولیات فراہم کرنے والے ادارے ٹیلی گرافس اینڈ ٹیلی فون ڈپارٹمنٹ کی نجکاری کی؛ تو معاملے پر ہونے والی بہت سی بے ضابطگیاں بے نقاب ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ جسے نجکاری کے نام پر پہلے 1991 میں پی ٹی سی بعد ازاں 1996 میں پی ٹی سی ایل میں تبدیل کردیا گیا۔ تمام تر عمل ری آرگنائزنگ ایکٹ 1996 کے تحت عمل میں آیا تھا۔ پانچ ادارے جن میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے)، این ٹی سی (نیشنل ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی)، ایف اے سی (فریکوئنسی ایلوکیشن بورڈ)، پی ٹی ای (پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن ایمپلائز ٹرسٹ) اور پی ٹی سی ایل (پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی لمیٹڈ) ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت تشکیل پائے گئے تھے۔ جن میں سے پی ٹی سی ایل کی نجکاری کو آ ج بھی مشکوک نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

2005 میں پی ٹی سی ایل کی جانب سے 26 فیصد حصص کی نجکاری کے مرحلے میں تین کمپنیوں کی جانب سے بولی لگائی گئی تھی۔ جن میں اتصالات، چائنا موبائل، سنگٹیل شامل تھیں۔ بعد ازاں اتصالات نامی کمپنی سب سے زیادہ بولی لگانے کے بعد پی ٹی سی ایل کی خریداری سے انکاری ہوگئی تھی جنہیں منانے اور ڈیل کو حتمی شکل دینے میں اس وقت کے نجکاری کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر حفیظ شیخ اور موجودہ مشیر خزانہ کا کردار قابل ستائش بتایا جاتا ہے۔ جن کی جانب سے ڈیل کی طرز سے متحدہ عرب امارات کا خصوصی دورہ بھی کیا گیا تھا اور اتصالات نامی کمپنی کو پی ٹی سی ایل کے 26 فیصد حصص کی نجکاری کے عوض محکمے کی تمام تر جائیدادوں کا تحفہ بھی دیا گیا تھا، جس کی مالیت آج کھربوں روپے بتائی جاتی ہیں۔

پی ٹی سی ایل کی جانب سے اتصالات نامی کمپنی کو 2 ارب 60 کروڑ ڈالر کے عوض 26 فیصد حصص فروخت کیے گئے تھے، جس کے بعد کمپنی کی جانب سے پاکستان کو 80 کروڑ ڈالر کی ادائیگی روک دی گئی، جس کی بنیادی وجہ 33جائیدادوں کا تنازعہ بتایا جاتا ہے۔ (2005 میں پی ٹی سی ایل کی نجکاری کے معاہدے میں محکمے کی ملکیت میں شمار کی جانے والی 3 ہزار 248 جائیدادیں متحدہ عرب اماراتی کمپنی کے نام پر منتقل کرنے کا اعادہ کیا گیا تھا۔ بعد ازاں چند وجوہات کی بنا پر 33 جائیدادیں نجی کمپنی کے نام پر منتقل نہ ہونے پر پی ٹی سی ایل کو بڑی ادائیگی روک دی گئی ہے، جس پر حکام بالا نے آنکھیں موندھ رکھی ہیں۔ اس ضمن میں پاکستانی حکام کی جانب سے قابل اعتماد ویلیویٹرز اور چارٹرڈ اکاؤنٹس کے ذریعے 33 جائیدادوں کی قیمتوں کا تعین کرکے اتصالات نامی کمپنی کو 6 کروڑ ڈالر معاوضہ لے کر 74 کروڑ امریکی ڈالر کی پاکستان کو ادائیگی کی پیشکش کی گئی ہے۔ جس کے بعد بھی نجی کمپنی پاکستان کو اربوں روپے کی ادائیگی سے گریزاں ہے)۔

مذکورہ کمپنی کو 26 فیصد حصص کے عوض پی ٹی سی ایل کا مکمل انتظامی کنٹرول بھی سونپ دیا گیا ہے، جس کے نزدیک 74 فیصد شیئر ہولڈر سرکاری محکمہ حکومتی غفلت کے باعث لاچار دکھائی دیتا ہے۔ متحدہ عرب اماراتی کمپنی 26 فیصد حصص کے عوض پی ٹی سی ایل کی جائیدادوں کو تحویل میں لینے اور محکمے پر قابض ہونے میں مکمل کامیاب ہوچکی ہے، جن کے خلاف قانونی چارہ جوئی سے حکومت گریزاں ہے۔ ایک حیرت انگیز امر یہ بھی کہ محکمہ پی ٹی سی ایل میں 9 بورڈ آف ڈائریکٹرز تعینات ہیں، جن میں پانچ غیرملکی ہیں اور اتصالات نامی کمپنی سے وابستگی رکھتے ہیں۔ پی ٹی سی ایل اور متحدہ عرب اماراتی کمپنی کے مابین ہونے والا یہ معاہدہ نیب کے 29 میگا اسکینڈلز میں بھی کبھی شامل ہوا کرتا تھا۔ تاہم انکوائری کو اعلیٰ شخصیات کی ہدایات پر دبا دیا گیا۔ تمام تر معاہدے پر موجودہ حکومت بھی خاموش دکھائی دیتی ہے، جس نے احتساب کی راگنی الاپنے والوں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔

اسی طرح 2005 میں کراچی کو بجلی فراہم کرنے والی کمپنی ''کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن'' کی نجکاری بھی نہایت مشکوک بتائی جاتی ہے۔ جس کے تحت حکومتی ادارے کی کنجی 15 ارب 86 کروڑ کے عوض سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے الجمیع نامی کمپنی کو سونپی گئی تھی۔ جو 2005 سے مارچ 2008 تک سیمنز پاکستان کی مدد سے محکمے کو چلانے میں کامیاب رہی۔ بعد ازاں 2009 میں مبینہ طور پر وفاقی حکومت کے دباؤ پر خلیجی کمپنی 66.4 فیصد شیئرز ''ابراج گروپ'' کو معاہدے کے تحت حوالے کرکے منظرعام سے غائب ہوگئی تھی۔ جس کے بعد سے کراچی کو بجلی کی فراہمی کی ذمے داری ابراج گروپ نے سنبھال لی اور ''کے ای ایس سی'' کا نام کے الیکٹرک میں تبدیل کردیا گیا۔

مذکورہ گروپ گزشتہ چند سال میں حکومتی معاہدے کے تحت محکمے سے متعلق اپنی مرضی کی ترامیم کرانے میں کامیاب رہا ہے۔ جبکہ اسی دورانیے میں چند شرائط بھی منظور کرائی گئی ہیں، جس کے تحت ''اگر کسی بھی وقت حکومت پاکستان کے الیکٹرک کو اپنی تحویل میں لے گی تو اس کے ذمے موجودہ اور مستقبل کے تمام واجبات ادا کرنے لازم ہوں گے''۔ ترامیم میں یہ بھی شامل کرایا گیا تھا کہ کمپنی کے ذمے این ٹی ڈی سی کے تمام واجبات کی ادائیگی بھی حکومت پاکستان کرے گی۔ جبکہ بجلی کے قیمت میں سات سال تک اضافہ نہ کرنے کی شرائط بھی مذکورہ گروپ کی جانب سے ختم کروالی گئی تھی۔ معاہدے کی متعلقہ شق کی پابندی ختم ہونے کے باوجود بھی کے الیکٹرک کو نیشنل گرڈ سے چھ سو سے زائد بجلی اور سالانہ اربوں روپے کی سبسڈی فراہم کی جارہی ہے، جبکہ اسی دورانیے میں ادارے کے اربوں روپے کے واجبات بھی معاف کیے گئے ہیں، جس کے بعد بھی کمپنی شہریوں کو بجلی کی مسلسل فراہمی سے انکاری ہے۔

کراچی کو بجلی کی فراہمی کرنے والی کمپنی 'کے الیکٹرک' کو چلانے والا ابراج گروپ عالمی فراڈی بھی بتایا جاتا ہے، جس کے سربراہ عارف نقوی ہیں جو وزیراعظم پاکستان عمران خان کے دست راست بتائے جاتے ہیں اور بیرون ملک میں 385 بلین ڈالرز کی کرپشن میں ملوث ہیں جبکہ لندن میں مختلف عدالتی کارروائیوں کا سامنا کررہے ہیں اور شدید مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ حالیہ دنوں کے الیکٹرک کو چین کی کمپنی شنگھائی الیکٹرک کے حوالے کرنے سے متعلق قانونی پیچیدگیاں دور کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور آئندہ چند روز میں کے الیکٹرک کو شنگھائی الیکٹرک کے حوالے کیے جانے کے امکانات ہیں۔

ابھی پی ٹی سی ایل اور کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کی نجکاری کا معمہ حل ہی نہ ہوسکا تھا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے ایک اور اہم فیصلہ کرلیا گیا ہے، جس کے تحت پاکستان اسٹیل مل کی نجکاری کےلیے 9350 ملازمین کو گولڈن ہینڈشیک دیتے ہوئے گھر بھیج دیا گیا ہے۔ مذکورہ نجکاری کو یقینی بنانے میں بھی ایک مرتبہ پھر موجودہ مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نہایت سرگرم دکھائی دیے ہیں۔ ذرائع کے مطابق حکومت کی جانب سے اسٹیل مل کی نجکاری کےلیے سرمایہ داروں کی تلاش شروع کردی گئی، جبکہ عارف حبیب گروپ نے جو 2006 سے اسٹیل مل کے حصول کی کوششوں میں مصروف ہے، نے حکومتی شخصیات سے رابطے تیز کردیے ہیں۔ جس کے تحت گزشتہ دنوں گروپ کے چیئرمین کی جانب سے وفاقی وزرا سے ملکی مفاد کی خاطر اہم ملاقاتیں بھی کی گئیں۔ آئندہ چند روز میں ایک اور صنعتی باب کو بند کیے جانے اور اس کا مکمل طور پر وجود مٹائے جانے کے خدشات نظر آرہے ہیں۔

اقتدار کے دو سال میں جہاں تبدیلی سرکار معیشت کو پستی کی جانب دھکیلنے میں کامیاب رہی، وہیں ان کے وزرا بھی احمقانہ اقدام اٹھاتے اور چلتے ہوئے سرکاری محکموں کا پہیہ جام کرتے نظر آئے ہیں۔ (ایک جانب وفاقی وزیر برائے ہوابازی غلام خان سرور پی آئی اے میں جعلی پائلٹس کی بھرتیوں کا انکشاف کرنے پر ملک بھر میں پاکستانی پائلٹس کو مشکوک بنانے میں کامیاب رہے تو دوسری جانب خسارے میں ڈوبے محکمہ ریلوے کو حادثات سے بچانے اور درست ٹریک پر لانے میں وفاقی وزیر برائے ریلوے شیخ رشید بھی ناکام دکھائی دیتے ہیں)۔ دونوں محکمے حکومتی غفلت کے باعث تباہ حالی کی جانب گامزن ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ دونوں محکموں کو موجودہ دور میں نہ سہی تو اگلے چند سال میں نجکاری کے مرحلے میں داخل کیا جاسکتا ہے۔

پاکستانی قوم آج بھی کسی مسیحا کی منتظر ہے اور تبدیلی کے دعوے اور احتساب کے نعرے کے ساتھ اقتدار میں آنے والوں سے محض چند سوالات کرتی ہے۔ وہ عمران خان کہاں گئے جو حکومت میں آنے سے قبل پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر اور ایک کروڑ نوکریاں دینے کا دعویٰ کبھی کیا کرتے تھے؟ وہ عمران خان کہاں گئے جن کے انتخابی منشور کا حصہ کبھی عافیہ صدیقی اور ان جیسے دیگر مظلوم قیدیوں کی رہائی ہوا کرتا تھا۔ آخر کب تک یہ آنکھ مچولی کا سلسلہ جاری رہے گا؟ کب تک اپنی ناکامی کا ملبہ سابقہ حکومتوں پر ڈالا جاتا رہے گا؟ کب تک پڑھے لکھے نوجوان طبقے کو بے روزگاری کے دلدل میں دھکیلا جاتا رہے گا؟

اگر یہ ریاست مدینہ کہلاتی ہے تو شاید کوئی بھی باشعور شخص اسے تسلیم کرنے سے انکار کرے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں