اسرائیل بارے قائد اعظم ؒ کے کیا خیالات تھے
وزیر اعظم عمران خان نے بھی قائد اعظم کے اِنہی ارشادات کو دہراکر اچھا اقدام کیاہے۔
یکم ستمبر 2020ء وہ ''تاریخی''دن ہے جب اسرائیلی قومی ائر لائن (El Al)کا بوئنگ طیارہ اسرائیلی اور امریکی اعلیٰ عہدیداروں کا ایک وفد لے کر ''متحدہ عرب امارات'' کے دارالحکومت کے ائر پورٹ پر اُترا۔
اس وفد کی قیادت امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کے یہودی داماد اور سینئر مشیر ، جیرڈ کشنر، کررہے تھے'وفد میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر، مائر بین شبت بھی شامل تھے۔یہ طیارہ( جس کے اطراف میں انگریزی، عربی اور عبرانی زبانوں میں ''امن'' لکھا گیا تھا) سعودی فضاؤں سے گزر کر تل ابیب سے تین گھنٹے اور 20منٹ میں ابو ظہبی پہنچا۔
اس اہم اسرائیلی اور امریکی وفد کی آمد کا مقصد یہ بیان کیا گیا ہے کہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کی نئی ''نارملائزیشن'' کو باقاعدہ اور قانونی شکل دی جائے۔ پاکستان سمیت عالمِ اسلام کے کئی ممالک میں یو اے ای کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کے اقدام پر ناراضی پائی جاتی ہے۔متحدہ عرب امارات سے اسرائیل کو تسلیم کروا کرکیا مغربی اور صہیونی طاقتیں پھر جیت گئی ہیں؟پاکستان بننے سے قبل ہی، مغربی طاقتوں کی سرپرستی میں، اسرائیل بنانے کی سازشیں شروع ہو گئی تھیں ۔
حضرت علامہ محمد اقبال ؒ اور حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ اس پیش رفت کو سمجھ رہے تھے ؛ چنانچہ ان دونوں عظیم الشان قائدین اپنے پیروکاروں اور جاں نثاروں کو اپنے خطوط ، بیانات اور تقریروں میں صہیونیوں کی ان سازشوں سے آگاہ بھی کررہے تھے اور عملی میدان میں اس پُر فریب سیلاب کے سامنے بند باندھنے کی بھی کوشش کررہے تھے ۔
اب جب کہ مصر ، اُردن اور ترکی کے بعد خلیج کے ایک ملک ، متحدہ عرب امارات، بھی اسرائیل، کو تسلیم کرنے کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے ، ایک بار پھر پاکستان سمیت عالمِ اسلام میں اسرائیل بارے نئے سرے سے بحثیں چھڑ گئی ہیں ۔ ایسے میں نہائت مناسب معلوم ہوتا ہے کہ دیکھا جائے کہ بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح اسرائیل بارے کیا اور کیسے خیالات رکھتے تھے؟
میرے سامنے ممتاز محقق اور مصنف جناب میاں محمد افضل کی1667 صفحات پر مشتمل دو جلدوں میں لکھی کتاب '' میرِ کارواں'' رکھی ہے ۔قائد اعظم ، فلسطین اور اسرائیل کے موضوع کے حوالے سے ، فی الحال ، راقم صرف اِسی کتاب کے حوالہ جات پر اکتفا کرے گا۔
میاں افضل لکھتے ہیں:''ہم حیرت سے دیکھتے ہیں کہ اُس سال (1938ء) قائد اعظم مسلم لیگ اور مسلمانوں کے ہر جلسے اور ہر کانفرنس میں فلسطین کے مسئلے پر بہت زیادہ توجہ دے رہے ہیں اور فلسطینیوں کے حق میں اوراستعماری جبر و تسلّط کے خلاف قرار دادیں منظور کراتے ہیں ۔مسلم لیگ کا ایک وفد بھی قاہرہ میں فلسطین کے مسئلے پر کانفرنس میں شرکت کے لیے قائد کی ہدائت پر جاتا ہے اور واپسی پر اپنی رپورٹ بھی قائد اعظم کو پیش کرتا ہے ۔'' (صفحہ 395)مزید لکھتے ہیں:'' عرب مسلمان اپنے مسائل کے حل کے لیے قائد اعظم کی جانب اُمید بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے ، حالانکہ اُس وقت قائد اعظم کسی آزاد مملکت کے سربراہ بھی نہیں تھے'' ۔
فلسطین پر یہودی قبضے کے بارے میں قائد اعظم سخت مشوش تھے ۔انھیں صاف نظر آرہا تھا کہ اسلام و فلسطین دشمن مغربی طاقتیں اسرائیل بنانے میں یہودیوں کے لیے راہ ہموار کررہی ہیں۔ ''میر کارواں'' کے مصنف لکھتے ہیں: ''قاہرہ میں فلسطین کے مسئلے پر بحث اور غورو خوض کے لیے 1938ء کے اواخر میں انٹرا پارلیمانی کانگریس منعقد کی گئی تھی۔
اس میں قائد اعظم نے ہندوستانی مسلمانوں کی طرف سے عبدالرحمن صدیقی اور چوہدری خلیق الزماں کو نمایندگی کے لیے روانہ کیا۔ اس کانگریس میں دنیا بھر سے نمایندہ وفود نے شرکت کی تھی ۔ مسلم لیگ کا یہ وفد بعد میں قاہرہ سے لندن گیاتاکہ وہاں برطانوی حکومت ، برطانوی رائے عامہ اور برطانوی ذرایع ابلاغ کو بھی فلسطین کے مسئلے پر ہندوستانی مسلمانوں کے موقف اور احساسات سے آگاہ کر سکیں۔
فروری 1939ء کے اوائل میں لندن میں ایک فلسطین کانفرنس بلائی گئی۔ قائد اعظم نے پوری کوشش کی کہ ہندوستانی مسلمانوں اور مسلم لیگ کے لندن میں موجود وفد کو اس کانفرنس میں شرکت کا موقع مل جائے ۔ انھوں نے برطانوی وزیر اعظم، مسٹر چیمبرلین، وزیر ہند اور وزیر نو آبادیات کو 28جنوری1939ء کو یہ ٹیلی گرام بھیجا:آل انڈیا مسلم لیگ ملکہ معظمہ کی حکومت سے پُر زور تقاضا کرتی ہے کہ فلسطین کانفرنس میں مسلم لیگ کو نمایندگی دی جائے اور فلسطینی عربوں کے قومی مطالبات پورے کیے جائیں۔ مسلم انڈیا اس کانفرنس کے نتائج کا بیتابی سے منتظر ہے۔
فلسطین کے بارے میں ہندوستان بھر میں مسلمانوں کے جو شدید جذبات ہیں، مَیں اس ٹیلی گرام کے ذریعے اُن کا مکمل طور پر اظہار نہیں کر سکتا۔'' (صفحہ470)فلسطینی عربوں کے نمایندوں نے قائد اعظم کی فلسطین کے مسئلے پر کوششوں اور ذاتی دلچسپی کو بنظرِ تحسین و تشکر دیکھا اور اپنے ایک خصوصی ٹیلی گرام میں عرب مجلسِ اعلیٰ نے قائد اعظم کا شکریہ ادا کیا ۔
''خود مفتی اعظم فلسطین ( امین الحسینی) قائد اعظم کی ان کوششوں کے معترف تھے؛ چنانچہ انھوں نے اس بات کا اظہار قائد اعظم کے نام اپنے خط (مورخہ 27اپریل1939ء)میں اس طرح کیا:مسلم لیگ نے ہمارے مصائب میں ہمارے ساتھ جو ہمدردی دکھائی ہے ، اس پر دل کی گہرائیوں سے پُر خلوص شکریہ ادا کرنے کے لیے میرے پاس مناسب الفاظ موجود نہیں۔'' (صفحہ471) انھی ایام میں فلسطینی مسلمانوں کی قیادت نے قائد اعظم اور مسلم لیگ سے مالی امداد کی بھی درخواست کی تھی ؛ چنانچہ مسلم لیگ کی مجلسِ عاملہ نے ''فلسطین فنڈ'' کے نام سے ایک خصوصی فنڈ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ قائد اعظم نے اس موقع پر فرمایا کہ اس فنڈ میں جو رقم بھی جمع ہوگی ، اُسے وہ خود فلسطینی رہنماؤں کی طرف بھیجیں گے۔
متحدہ ہندوستان میں ، جب کہ قائد اعظم تحریکِ پاکستان میں بے پناہ مصروف تھے ، ان سرگرمیوں سے صاف عیاں ہے کہ قائد اعظم فلسطین کے خلاف مغربی ممالک اور مغربی و امریکی سازشوں سے بھی آگاہ تھے بلکہ ممکنہ حد تک کوشش بھی کررہے تھے کہ فلسطینی مسلمانوں کی ہررُخ سے اعانت بھی کی جا سکے ۔ ''فلسطین عرب پارٹی '' کے قائم مقام صدر، توفیق صالح حسینی، نے بھی قائد اعظم کو لکھا کہ یہودیوں کی (فلسطین میں) مسلسل آمد کو رکوانے کے لیے کچھ کریں ۔ قائد اعظم نے اپنے جوابی تار میں توفیق صالح حسینی کو یقین دلایا کہ وہ معاملے سے پوری طرح آگاہ ہیں اور ہر ممکن طریقے سے فلسطینی عربوں کی مدد کی جائے گی ۔
ایک اور فلسطینی رہنما، احمد حلمی ، نے بھی اسی پس منظر میں قائد اعظم سے رابطہ کیا تھا۔ ''قائد اعظم نے 2اکتوبر کو برطانوی وزیر اعظم ، ایٹلی، کو بہت ہی سخت الفاظ میں تار بھیجا اور مطالبہ کیا کہ فلسطین میں یہودیوں کی آمد اور آباد کاری کو فوراً روک دیا جائے ، ورنہ اس کے نتائج تباہ کن ہوں گے ۔
قائد اعظم نے امریکی صدر ، ٹرومین، کو بھی اسی حوالے سے سخت وارننگ دی اور کہا: ''میرا یہ فرض بنتا ہے کہ آپکو مطلع کروں کہ عربوں کو قربان کرکے یہودیوں کو راضی کرنے کے کسی بھی اقدام کی مسلم دُنیا اور خاص طور پر مسلمانانِ ہند سخت مزاحمت کریں گے۔'' ( صفحہ835)۔ حضرت قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے مذکورہ ارشاداتِ گرامی اور مساعی جمیلہ کو سامنے رکھیں تو پاکستان، فلسطینیوں کو حق ملنے تک، اسرائیل کو تسلیم کر ہی نہیں سکتا۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی قائد اعظم کے اِنہی ارشادات کو دہراکر اچھا اقدام کیاہے ۔
اس وفد کی قیادت امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کے یہودی داماد اور سینئر مشیر ، جیرڈ کشنر، کررہے تھے'وفد میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر، مائر بین شبت بھی شامل تھے۔یہ طیارہ( جس کے اطراف میں انگریزی، عربی اور عبرانی زبانوں میں ''امن'' لکھا گیا تھا) سعودی فضاؤں سے گزر کر تل ابیب سے تین گھنٹے اور 20منٹ میں ابو ظہبی پہنچا۔
اس اہم اسرائیلی اور امریکی وفد کی آمد کا مقصد یہ بیان کیا گیا ہے کہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کی نئی ''نارملائزیشن'' کو باقاعدہ اور قانونی شکل دی جائے۔ پاکستان سمیت عالمِ اسلام کے کئی ممالک میں یو اے ای کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کے اقدام پر ناراضی پائی جاتی ہے۔متحدہ عرب امارات سے اسرائیل کو تسلیم کروا کرکیا مغربی اور صہیونی طاقتیں پھر جیت گئی ہیں؟پاکستان بننے سے قبل ہی، مغربی طاقتوں کی سرپرستی میں، اسرائیل بنانے کی سازشیں شروع ہو گئی تھیں ۔
حضرت علامہ محمد اقبال ؒ اور حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ اس پیش رفت کو سمجھ رہے تھے ؛ چنانچہ ان دونوں عظیم الشان قائدین اپنے پیروکاروں اور جاں نثاروں کو اپنے خطوط ، بیانات اور تقریروں میں صہیونیوں کی ان سازشوں سے آگاہ بھی کررہے تھے اور عملی میدان میں اس پُر فریب سیلاب کے سامنے بند باندھنے کی بھی کوشش کررہے تھے ۔
اب جب کہ مصر ، اُردن اور ترکی کے بعد خلیج کے ایک ملک ، متحدہ عرب امارات، بھی اسرائیل، کو تسلیم کرنے کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے ، ایک بار پھر پاکستان سمیت عالمِ اسلام میں اسرائیل بارے نئے سرے سے بحثیں چھڑ گئی ہیں ۔ ایسے میں نہائت مناسب معلوم ہوتا ہے کہ دیکھا جائے کہ بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح اسرائیل بارے کیا اور کیسے خیالات رکھتے تھے؟
میرے سامنے ممتاز محقق اور مصنف جناب میاں محمد افضل کی1667 صفحات پر مشتمل دو جلدوں میں لکھی کتاب '' میرِ کارواں'' رکھی ہے ۔قائد اعظم ، فلسطین اور اسرائیل کے موضوع کے حوالے سے ، فی الحال ، راقم صرف اِسی کتاب کے حوالہ جات پر اکتفا کرے گا۔
میاں افضل لکھتے ہیں:''ہم حیرت سے دیکھتے ہیں کہ اُس سال (1938ء) قائد اعظم مسلم لیگ اور مسلمانوں کے ہر جلسے اور ہر کانفرنس میں فلسطین کے مسئلے پر بہت زیادہ توجہ دے رہے ہیں اور فلسطینیوں کے حق میں اوراستعماری جبر و تسلّط کے خلاف قرار دادیں منظور کراتے ہیں ۔مسلم لیگ کا ایک وفد بھی قاہرہ میں فلسطین کے مسئلے پر کانفرنس میں شرکت کے لیے قائد کی ہدائت پر جاتا ہے اور واپسی پر اپنی رپورٹ بھی قائد اعظم کو پیش کرتا ہے ۔'' (صفحہ 395)مزید لکھتے ہیں:'' عرب مسلمان اپنے مسائل کے حل کے لیے قائد اعظم کی جانب اُمید بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے ، حالانکہ اُس وقت قائد اعظم کسی آزاد مملکت کے سربراہ بھی نہیں تھے'' ۔
فلسطین پر یہودی قبضے کے بارے میں قائد اعظم سخت مشوش تھے ۔انھیں صاف نظر آرہا تھا کہ اسلام و فلسطین دشمن مغربی طاقتیں اسرائیل بنانے میں یہودیوں کے لیے راہ ہموار کررہی ہیں۔ ''میر کارواں'' کے مصنف لکھتے ہیں: ''قاہرہ میں فلسطین کے مسئلے پر بحث اور غورو خوض کے لیے 1938ء کے اواخر میں انٹرا پارلیمانی کانگریس منعقد کی گئی تھی۔
اس میں قائد اعظم نے ہندوستانی مسلمانوں کی طرف سے عبدالرحمن صدیقی اور چوہدری خلیق الزماں کو نمایندگی کے لیے روانہ کیا۔ اس کانگریس میں دنیا بھر سے نمایندہ وفود نے شرکت کی تھی ۔ مسلم لیگ کا یہ وفد بعد میں قاہرہ سے لندن گیاتاکہ وہاں برطانوی حکومت ، برطانوی رائے عامہ اور برطانوی ذرایع ابلاغ کو بھی فلسطین کے مسئلے پر ہندوستانی مسلمانوں کے موقف اور احساسات سے آگاہ کر سکیں۔
فروری 1939ء کے اوائل میں لندن میں ایک فلسطین کانفرنس بلائی گئی۔ قائد اعظم نے پوری کوشش کی کہ ہندوستانی مسلمانوں اور مسلم لیگ کے لندن میں موجود وفد کو اس کانفرنس میں شرکت کا موقع مل جائے ۔ انھوں نے برطانوی وزیر اعظم، مسٹر چیمبرلین، وزیر ہند اور وزیر نو آبادیات کو 28جنوری1939ء کو یہ ٹیلی گرام بھیجا:آل انڈیا مسلم لیگ ملکہ معظمہ کی حکومت سے پُر زور تقاضا کرتی ہے کہ فلسطین کانفرنس میں مسلم لیگ کو نمایندگی دی جائے اور فلسطینی عربوں کے قومی مطالبات پورے کیے جائیں۔ مسلم انڈیا اس کانفرنس کے نتائج کا بیتابی سے منتظر ہے۔
فلسطین کے بارے میں ہندوستان بھر میں مسلمانوں کے جو شدید جذبات ہیں، مَیں اس ٹیلی گرام کے ذریعے اُن کا مکمل طور پر اظہار نہیں کر سکتا۔'' (صفحہ470)فلسطینی عربوں کے نمایندوں نے قائد اعظم کی فلسطین کے مسئلے پر کوششوں اور ذاتی دلچسپی کو بنظرِ تحسین و تشکر دیکھا اور اپنے ایک خصوصی ٹیلی گرام میں عرب مجلسِ اعلیٰ نے قائد اعظم کا شکریہ ادا کیا ۔
''خود مفتی اعظم فلسطین ( امین الحسینی) قائد اعظم کی ان کوششوں کے معترف تھے؛ چنانچہ انھوں نے اس بات کا اظہار قائد اعظم کے نام اپنے خط (مورخہ 27اپریل1939ء)میں اس طرح کیا:مسلم لیگ نے ہمارے مصائب میں ہمارے ساتھ جو ہمدردی دکھائی ہے ، اس پر دل کی گہرائیوں سے پُر خلوص شکریہ ادا کرنے کے لیے میرے پاس مناسب الفاظ موجود نہیں۔'' (صفحہ471) انھی ایام میں فلسطینی مسلمانوں کی قیادت نے قائد اعظم اور مسلم لیگ سے مالی امداد کی بھی درخواست کی تھی ؛ چنانچہ مسلم لیگ کی مجلسِ عاملہ نے ''فلسطین فنڈ'' کے نام سے ایک خصوصی فنڈ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ قائد اعظم نے اس موقع پر فرمایا کہ اس فنڈ میں جو رقم بھی جمع ہوگی ، اُسے وہ خود فلسطینی رہنماؤں کی طرف بھیجیں گے۔
متحدہ ہندوستان میں ، جب کہ قائد اعظم تحریکِ پاکستان میں بے پناہ مصروف تھے ، ان سرگرمیوں سے صاف عیاں ہے کہ قائد اعظم فلسطین کے خلاف مغربی ممالک اور مغربی و امریکی سازشوں سے بھی آگاہ تھے بلکہ ممکنہ حد تک کوشش بھی کررہے تھے کہ فلسطینی مسلمانوں کی ہررُخ سے اعانت بھی کی جا سکے ۔ ''فلسطین عرب پارٹی '' کے قائم مقام صدر، توفیق صالح حسینی، نے بھی قائد اعظم کو لکھا کہ یہودیوں کی (فلسطین میں) مسلسل آمد کو رکوانے کے لیے کچھ کریں ۔ قائد اعظم نے اپنے جوابی تار میں توفیق صالح حسینی کو یقین دلایا کہ وہ معاملے سے پوری طرح آگاہ ہیں اور ہر ممکن طریقے سے فلسطینی عربوں کی مدد کی جائے گی ۔
ایک اور فلسطینی رہنما، احمد حلمی ، نے بھی اسی پس منظر میں قائد اعظم سے رابطہ کیا تھا۔ ''قائد اعظم نے 2اکتوبر کو برطانوی وزیر اعظم ، ایٹلی، کو بہت ہی سخت الفاظ میں تار بھیجا اور مطالبہ کیا کہ فلسطین میں یہودیوں کی آمد اور آباد کاری کو فوراً روک دیا جائے ، ورنہ اس کے نتائج تباہ کن ہوں گے ۔
قائد اعظم نے امریکی صدر ، ٹرومین، کو بھی اسی حوالے سے سخت وارننگ دی اور کہا: ''میرا یہ فرض بنتا ہے کہ آپکو مطلع کروں کہ عربوں کو قربان کرکے یہودیوں کو راضی کرنے کے کسی بھی اقدام کی مسلم دُنیا اور خاص طور پر مسلمانانِ ہند سخت مزاحمت کریں گے۔'' ( صفحہ835)۔ حضرت قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے مذکورہ ارشاداتِ گرامی اور مساعی جمیلہ کو سامنے رکھیں تو پاکستان، فلسطینیوں کو حق ملنے تک، اسرائیل کو تسلیم کر ہی نہیں سکتا۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی قائد اعظم کے اِنہی ارشادات کو دہراکر اچھا اقدام کیاہے ۔