اسرائیل اور امریکا
دشمنی کی اصل وجہ بھی یہی ہے کہ ایران امریکا کی کالونی بن کر نہیں رہنا چاہتا یہی وہ بنیادی تضاد ہے۔
امریکا مسلسل کئی دہائیوں سے ایران پر اقتصادی پابندیاں لگائے ہوئے ہے اب امریکی سرکار نے کہا ہے کہ ایران کو ہتھیاروں کے حصول کی اجازت ہرگز نہیں دیں گے، کیونکہ ایران ہتھیاروں کو دہشت گردی کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ایران سے دشمنی اسرائیل کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے، ایران ایک آزاد اور خودمختار ملک ہے اس کی داخلی اور خارجہ پالیسیاں بنانے کا اسے مکمل اختیار اور حق ہے۔
دشمنی کی اصل وجہ بھی یہی ہے کہ ایران امریکا کی کالونی بن کر نہیں رہنا چاہتا یہی وہ بنیادی تضاد ہے جو امریکا اور ایران میں روز اول سے چلا آ رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے اصولوں کے مطابق ہر آزاد اور خودمختار ملک کو اپنی داخلی اور خارجہ پالیسیاں بنانے کا مکمل حق حاصل ہے، امریکا اس حق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایران کو اپنا پٹھو بنانے کی کوشش کرتا آ رہا ہے جو ایران کبھی قبول نہیں کرے گا۔
اصل میں امریکا کی مشرق وسطیٰ کی پالیسیاں اسرائیلی مفادات کے گرد گھومتی ہیں اور اسرائیلی مفادات ایرانی مفادات کے بالکل برعکس ہیں اس اصل وجہ کو ختم کیے بغیر ایران سے امریکا کے تعلقات بھی دوستانہ نہیں ہو سکتے۔ امریکا دنیا کی ایک نامور سپر پاور ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ ایران چھوٹے ملکوں کے ساتھ بلاامتیاز یکساں پالیسی اختیار کرے اگر اپنی خارجہ پالیسیوں میں امتیازات برقرار رکھتا ہے تو مشرق وسطیٰ میں کبھی سیاسی استحکام نہیں آ سکتا۔
ایران مدتوںسے اپنی خارجہ پالیسی کے ذریعے اسرائیل کو یہی بات سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن امریکی مدبرین کو یہ آسان سی بات سمجھ میں نہیں آ رہی ہے کہ ہر ملک کو یہ حق ہے کہ وہ اپنی داخلی اور خارجہ پالیسیاں قومی مفادات کے مطابق تشکیل دے۔ کمزور ملکوں کو اپنے تابع رکھنا سامراجی خارجہ پالیسیوں کا ایک ناگزیر حصہ ہے جو امریکا کی خارجہ پالیسیوں میں دیکھا جاسکتا ہے، اب دنیا عالمی جنگوں کے دور کی دنیا نہیں رہی، اب چھوٹے سے چھوٹا ملک بھی اپنی خارجہ اور داخلہ پالیسیاں اپنے قومی مفادات کے تناظر میں بنانا چاہتا ہے جہاں اس حق کو چھیننے کی کوشش کی جائے گی وہاں مزاحمت ہوگی اس کا ایک نقشہ ایران اور امریکی تعلقات کے تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔
اسرائیل کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ وہ عرب ملکوں کو اپنے دباؤ میں رکھے جو ایران ماننے کے لیے تیار نہیں۔ اسرائیل کی اس جابرانہ اور ظالمانہ پالیسیوں سے عربوں اور اسرائیل کے درمیان تضادات اور گہرے ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے عالمی سیاست میں بھی تضادات پیدا ہو رہے ہیں۔ بدقسمتی سے اب امریکا میں ایک ایسا شخص برسر اقتدار ہے جو اسرائیلی مفادات کے تحفظ میں اندھا ہو رہا ہے۔
ٹرمپ اس حوالے سے کسی ڈھکی چھپی سیاست کا قائل نہیں وہ کھل کر اسرائیل کی حمایت میں کھڑا ہے بڑی طاقتوں کی یہ اخلاقی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسیوں میں امتیازات کا مظاہرہ نہ کریں لیکن ٹرمپ اینڈ کمپنی اس اخلاقی ضابطہ کی بھی روادار نہیں بلکہ کھل کر اپنی خارجہ پالیسیوں میں امتیازات برتنے کی کوشش کرتا ہے جس کا نتیجہ اسرائیل جیسے متعصب کی ضد اور انا کی شکل میں دیکھا جاسکتا ہے، اگر امریکا کی خارجہ پالیسی غیر جانبدارانہ ہوتی تو مشرق وسطیٰ میں وہ کھینچا تانی نہ ہوتی جو اس کا مقدر بنی ہوئی ہے۔
دنیا کے تمام انسان آزادی اور مساوات چاہتے ہیں لیکن امریکا جیسے خود غرض ملک کو آزادی اور مساوات کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ مشرق وسطیٰ کا ایک اور المیہ یہ ہے کہ اس خطے کے ملکوں میں ابھی تک بادشاہتیں قائم ہیں اور جہاں بادشاہتیں قائم ہوتی ہیں وہاں ملک کے اندرونی اور بیرونی تعلقات قومی مفادات کے تناظر میں متعین نہیں کیے جاتے بلکہ حکمرانوں کے مفادات کے تناظر میں متعین کیے جاتے ہیںجب قومی اہمیت کے مسائل قومی مفادات کے بجائے حکمران طبقات کے مفادات کے تناظر میں طے کیے جاتے ہیں تو وہی حالات پیدا ہوجاتے ہیں جو آج مشرق وسطیٰ میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس کا حل جبر اور دباؤ نہیں ہے بلکہ انصاف اور مساوات ہے۔
جمہوریت میں خواہ وہ کتنی ہی گندی ہو، عوام ایک فیصلہ کن طاقت ہوتے ہیں اس کے برعکس آمریت میں ساری ریاستی طاقت ایک فرد واحد کے ہاتھوں میں ہوتی ہے اور اس کا استعمال بھی فرد واحد کے مفادات کے مطابق ہوتا ہے۔ یہ ایسی عالمی حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ بدقسمتی سے مشرق وسطیٰ کے مسلم ملکوں میں کہیں جمہوریت کا نام و نشان نہیں ہے عموماً شاہانہ حکمرانیاں قائم ہیں۔ نتیجہ وہی ہے جو آج مشرق وسطیٰ میں نظر آ رہا ہے جہاں ایسے حالات ہوتے ہیں وہاں سامراجی ملکوں کے مفادات کو تحفظ ملتا ہے۔
اس پورے خطے میں ایران واحد ملک ہے جو کسی کا خاص طور پر امریکا کا پٹھو بننے کے لیے تیار نہیں۔ ویسے تو مسائل کا حل اسرائیل کو قابو کرنا ہے لیکن مشرق وسطیٰ کا پائیدار حل جمہوریت کو روشناس کرانے میں ہے بغیر جمہوریت کے خواہ وہ سرمایہ دارانہ ہی کیوں نہ ہو مشرق وسطیٰ کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت میں کسی حد تک عوام فعال ہوتے ہیں اور یہی فعالیت عوام کی طاقت کا مظہر بن جاتی ہے۔
پاکستان میں بھی اشرافیائی جمہوریت ہے عوام کو انتخابات میں ووٹ کاسٹ کرنے کے علاوہ کوئی اور سیاسی اور جمہوری حق حاصل نہیں لیکن اس نام نہاد جمہوریت میں بھی اشرافیہ عوام کی طاقت سے خوف زدہ رہتی ہے کہ یہ ٹکڑوں میں بٹے ہوئے عوام متحد ہو جاتے ہیں تو ایک بڑی طاقت بن جاتے ہیں۔
عمران خان اگرچہ ایک بڑی سیاسی طاقت نہیں ہے لیکن عمران خان اس کے ساتھ ساتھ عوام کی آخری امید بھی ہے اور اس حقیقت سے اشرافیائی سیاستدان اچھی طرح واقف ہیں اسی لیے وہ ان کے خلاف کوئی بڑی تحریک چلانے سے خوفزدہ رہتے ہیں کہ یہ بکھرے اور سیاسی طور پر بٹے ہوئے اشرافیہ سے مایوس عوام اگر اشرافیہ سے برگشتہ ہو کر عمران خان کی طرف چلے جاتے ہیں تو اشرافیہ کا بھٹہ بیٹھ جاتا ہے۔ اس خوف نے اشرافیہ کو روک رکھا ہے اگر عوام تنگ آکر اشرافیہ کے خلاف کھڑے ہو جاتے ہیں تو شاہ گدا میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔