آج کا سقوط غرناطہ

معاشی خوشحالی اور معاشرتی آزادی کے نام پر عوام کو جو کچھ ملا وہ تاریخ کے اوراق کا ایک تلخ باب ہے


مدثر حسیب September 05, 2020
وقت بدل گیا لیکن حالات نہ بدلے۔ (فوٹو: وکیپیڈیا)

کسی بھی تاریخی واقعے کو بیان کرنا اور اس سے کوئی حجت یا دلیل قائم کرنے کا مطلب قصہ گوئی یا لفظوں کا ہیرپھیر مقصود نہیں ہوتا، بلکہ اکثر انسان اپنے پرانے واقعات اور تجربات کو سامنے رکھ کر اپنے حال کی درستی اور مستقبل کی پلاننگ اور تدبیر کررہا ہوتا ہے۔ حقیقت میں تحقیقی مقالے بھی ہمیشہ پرانے تجربات کے اخذ شدہ نتائج سے ہی اسٹارٹ اور پلان کیے جاتے ہیں۔

مئی میں دو واقعات ہوئے۔ ایک تو آج کا لیبر ڈے، جو کہ کیپیٹل ازم کے مزدوروں کا دن ہے۔ جبکہ ایک اور واقعہ بھی ہوا جو کسی کو یاد نہیں اور نہ کوئی یاد رکھنا چاہتا ہے شائد۔ اور یہی ہماری اصل تاریخ ہے۔ مئی 1486 کا وہ خط جو غرناطہ کے والی امیر ابو عبداللہ نے ملکہ ازابیلا کو لکھا۔ یہ خط غرناطہ کی آرکائیوز میں ابھی بھی موجود ہے، جو کہ کسی نے شرم یا پھر نخوت سے پھاڑ دیا ہوگا۔ جس کے ٹکڑوں کو بعد میں اکٹھا کرکے جوڑا گیا ہے۔ اس پر تاریخ کا دن اب موجود نہیں لیکن ماہ وسال موجود ہیں۔

اس خط میں امیر ابو عبداللہ نے سقوط غرناطہ پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ مسلم حکمرانوں کے 1486 سے 1492 تک کے باقی خطوط جو منافقت، دنیا پرستی، مال و زر اور ذاتی حکمرانی سے بھرے ہوئے ہیں، ان کے مطالعے سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عیسائی حکمرانوں سے کس قدر خائف تھے اور کس حد تک ان کے آگے سر تسلیم خم کیے ہوئے تھے۔ ہسپانیہ کے بعض مسلم حکمرانوں نے تو اپنے علاقے عیسائی ملکہ و بادشاہ کو بغیر کسی حیل و حجت کے ہی دان کردیے تھے، مثلاً حاکم لوجا، حاکم بازا وغیرہ۔

16 ستمبر 1491 کو ایک خط (جو کہ یقیناً اپنے عوام سے خفیہ ہی رکھا گیا ہوگا، جس کی مکمل اسپینش کاپی اور غیر مکمل عربی کاپی ابھی بھی آرکائیوز میں موجود ہے) میں مسلمان امرا ابن قاسم اور یوسف نے بادشاہ فرڈی نینڈ کو لکھا ''اے ذی شان بادشاہ! ہم تمہارے حضور پیش ہوکر تمہارے ہاتھ چومنا چاہتے ہیں اور تمہارے جسم کے ہر اس حصے کو چومنا چاہتے ہیں جس کی تم اجازت دو، تاکہ ان غلاموں کی وارفتگی تم خود دیکھ سکو''۔ مزید لکھتے ہیں ''ہم اپنی وفاداری پر قائم ہیں اور آپ کے مفادات کے محافظ ہیں۔'' اسی خط کے جواب میں بادشاہ فرڈی نینڈ نے لکھا تھا کہ ''تم اپنی خدمات انجام دیتے رہے ہو جن کو ہم قبول کرتے ہیں۔ تمہیں یہ یقین ہونا چاہیے کہ تم پر رحم کیا جائے گا، ہم تمہیں اپنی سرپرستی میں لے چکے ہیں اور یہ بات تمہارے لیے اطمینان کا باعث ہونی چاہیے کہ تم ہماری حفاظت میں ہو۔ لیکن اس کے باوجود تم نے وہ کچھ نہیں کیا کہ جس کی امید دلائی گئی تھی۔ اس طرح تم معاہدے سے پھر رہے ہو۔ جب کہ تمہیں خدمات سونپنے میں معاہدے پر عدم عمل درآمد معاہدے سے انحراف کے مترادف ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تم ہماری مدد سے شہر (غرناطہ) میں خاطر خواہ اثر ڈال سکتے ہو، جو کہ ابھی تک ظاہر نہیں ہوا۔ تمہیں اس خطیر انعام کے بارے میں بتادیا گیا تھا جو اس کام کی تکمیل پر تمہاری خدمات کے معاوضے میں تمہیں دیا جاسکتا ہے۔''

بعد میں ہونے والی دیگر تحریروں اور واقعات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سقوط غرناطہ کا معاہدہ، جس پر ملکہ ازابیلا اور بادشاہ فرڈی نینڈ کے دستخط اور مہر ثبت کرنے کی تاریخ 25 دسمبر 1492درج ہے، ایک سال کی تاخیر کے بعد ہوا لیکن اصل معاہدہ جو کہ یقیناً ایک خفیہ معاہدہ تھا، وہ مسلم حکمران امیر ابو عبداللہ کی طرف سے ابوالقاسم وغیرہ نے طے کیا اور یہ معاہدہ 25 نومبر 1491 کو ہی دستخط کرکے بادشاہ و ملکہ کے حوالے کردیا تھا، جس پر دونوں نے اپنے دستخط اور مہر 25 دسمبر 1492 کو لگائے۔

کئی بار کھیل بگڑا اور بنا۔ غلامی کی نئی شرائط ایک طرف سے آتی، تو دوسری طرف سے زیادہ سے زیادہ کا حصول، دنیاوی طمع، ذاتی کرسی، اپنا اور اپنے عوام کی عزت کا فالودہ، نیز اپنی قیمت کا زیادہ سے زیادہ نرخ وصول کرنا، غرض کئی معاملات پر بات چیت جاری تھی۔ لیکن حقیقتاً سقوط غرناطہ اس سے بہت پہلے ہی خفیہ طور پر مسلم حکمرانوں اور عیسائیوں کے درمیان طے پاچکا تھا۔ اس کو یوں سمجھا جائے کہ جیسے کسی نے مرغا پہلے سے ہی پھانس لیا ہو، لیکن چھری چلانا باقی ہو۔ اور یہ چھری سب کے سامنے قصر الحمرا میں نہایت فاتحانہ اور متکبرانہ انداز میں چلائی گئی۔

اب ایک طرف تو مسلمان حکمران تھے، جو اپنی زیادہ سے زیادہ قیمت کے چکر میں تھے، جبکہ دوسری طرف اندلس و قرطبہ کے مسلمان عوام تھے، جو اپنے حکمرانوں سے غیرت کی توقع کررہے تھے، بلکہ کچھ تو یہاں تک سمجھ رہے تھے کہ ابھی ہمارے حکمران تلوار سونت کر علاقے پہ علاقے فتح کرنے نکل پڑیں گے۔ مسلم حکمران بھی اپنے عوام کی سادہ لوحی سے واقف تھے اور انہیں اس بات پر قائل کررہے تھے کہ وہ یہ سب ان کی ہی بہتری کےلیے کررہے ہیں تاکہ ان کے جان و مال محفوظ رہیں۔ حالانکہ اس کے بعد جیسے ان کی جان ومال محفوظ رہی، وہ ایک الگ تاریخ ہے۔

حکمرانوں کو بھی اپنی اوقات کا اندازہ تھا۔ ایک طرف تو ان کی کشتی میں پانی گھس گیا تھا، اب کشتی تو ڈوبے ہی ڈوبے، لیکن دوسری طرف وہ اپنی اس ڈوبتی کشتی سے زیادہ سے زیادہ سامان نکالنا چاہتے تھے کہ جو بچ جائے وہی بہتر ہے۔ باقی اس کشتی یا اپنے عوام سے انہیں اتنی ہی دلچسپی تھی، جتنی کہ ان حالات میں ایک ملاح کو ہونی چاہیے۔ ایک طرف ان کی تاریخ تھی جس میں چند مسلمانوں نے اسی علاقے کو فتح کرنے کےلیے اپنی کشتیاں تک جلا دی تھیں اور دوسری طرف یہ بھی مسلمان تھے جن کے پاس فوج تو تھی لیکن لڑنے کا جگر نہیں تھا۔

بادشاہ فرڈی نینڈ اور ملکہ ازابیلا بالآخر قصرالحمرا میں اپنی فوج، پادریوں اور امرا کے ساتھ داخل ہوتے ہیں۔ غرناطہ کا حکمران نہایت ادب سے جھک کر ملکہ کے ہاتھ پر تعظیمی بوسہ دیتا ہے اور الحمرا کی چابیاں بادشاہ و ملکہ کے ہاتھ میں دے دیتا ہے۔ اس کے بعد مسلمان عوام کی بہتری کےلیے اسپین میں جو کچھ ہوا اس کی مثال شاید اس سے پہلے کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ غلامی، دغابازی، دھونس، نیز ظلم کی کوئی قسم ہو جو اسپین میں آزمائی نہ گئی ہو۔ لیکن یہ سب ہوا کیسے ؟ یہ سب عوام کی عزت و آزادی، جان و مال کو محفوظ بنانے کے نام پر ہوا۔ عوام کی بھلائی کے نام پر ہوا۔ اس وقت کی جمہوریت یا حکمرانی کے نام پر ہوا۔ معاشی خوشحالی اور معاشرتی آزادی کے نام پر ہوا۔ لیکن عوام کو جو ملا اور جس طرح ان کی جان و مال محفوظ کی گئیں، وہ تاریخ کے اوراق کا ایک مضبوط حصہ ہے۔

وقت بدل گیا لیکن حالات نہ بدلے۔ 2003 میں عراق پر جب آج کا جمہوری بادشاہ فرڈی نینڈ چڑھ دوڑا تو اس کے نعرے اور حالات بھی کچھ مختلف نہ تھے۔ عراقی فوج جو تقریباً چھ لاکھ ایکٹیو اور ساڑھے چھ لاکھ ریزرو پر مشتمل تھی، آن کی آن میں غائب ہوگئی۔ موجودہ فرڈی نینڈ ازابیلا الائنس آیا اور چھا گیا۔ بقول ہلیری کلنٹن (اوباما دور میں لیبیا جنگ کے دوران)۔ صدر بش کے مشیر بھی وہی تھے اور حلیف بھی ویسے تھے، جبکہ نعرہ تھا عراقی ''عوام کی بھلائی، امن اور آزادی''۔ وہ اتنے آزاد ہوئے کہ ہر چیز سے ہی آزاد ہوچکے ہیں۔ آج پورا عراق جل کر راکھ ہوچکا ہے۔ بغداد میں ایک بھی پل ایسا نہیں جہاں بم نہ مارا گیا ہو۔ وہاں موجود گورنمنٹ امریکی مفادات اور امریکی فوجیوں کی محافظ سے زیادہ کچھ نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ عوام کے احتجاج، جلسوں، ٹائر جلانے یا سڑکیں بلاک کرنے سے نہ تو حکومتوں کو کچھ فرق پڑتا ہے اور نہ ان کے کانوں پر کسی قسم کی جوں رینگتی ہے۔ پیچھے خفیہ خانے کیا چل رہا ہے، کسی کو کچھ پتا نہیں۔ دوسری طرف چاہے اقوام متحدہ ہو یا فیٹف، چارلی ہیبڈو ہو یا فرانس، امریکا ہو یا اسرائیل، سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔

آج اگر امیر ابو عبداللہ کیٹیگری کے (مسلم) حکمران کوئی بھی سیاسی یا فوجی معاہدے کریں اور ان کے قائم ہونے یا ٹوٹ جانے پر عوام کو معیشت، خوشحالی اور امن کی نوید سنائیں تو سمجھ لیا جائے کہ پیچھے کیا ہوا ہے؟ آگے کیا ہونے والا ہے؟ اور عوام کو کیا ملنے والا ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔