’’میں مرنا نہیں چاہتی مجھے بچا لو‘‘

پردہ سیمیں کی وینس اورسوگوارحسن مدھوبالاکی دُکھ بیتی

پردہ سیمیں کی وینس اورسوگوارحسن مدھوبالاکی دُکھ بیتی ۔ فوٹو : فائل

رومانوی چہرہ، دل کش ادائیں اور من موہنی مسکراہٹ، جن کی خوب صورتی کو لفظوں کا پیراہن پہنانا ممکن نہیں، لاکھوں، کروڑوں دلوں کی دھڑکن مدھوبالا نے کئی فلموں میں محبت کی عبارت لکھی لیکن اصل زندگی میں ان کا عشق ادھورا ہی رہا۔ وہ جتنی خوب صورت تھیں ان کی زندگی محبت کے حوالے سے اتنی ہی بدصورت کہی جاسکتی ہے۔ ان کا ذکر کیے بنا بھارتی سنیما کی تاریخ ادھوری ہی سمجھی جائے گی۔

پردۂ سیمیں کی وینس کہلانے والی کو لاکھوں لوگوں نے دل دیا لیکن ان کی بدقسمتی رہی کہ ان کی محبت کی نیا پار نہیں ہوئی، بے پناہ خوب صورت اور دلوں کو موم بنانے والی مسکراہٹ کی مالک سے پیار کرنے والوں میں عام لوگوں کے ساتھ کئی فلمی ہستیاں بھی شامل تھیں لیکن خود ان کو محبت راس نہیں آئی۔

فلمی پردے پر آنا مدھوبالا کی مجبوری ٹھہری کیوں کہ ان کا کنبہ بڑا تھا، عطاء اللہ خان کے گیارہ بچے تھے جن میں مدھوبالا کا پانچواں نمبر تھا۔ نو سال کی عمر وہ میں ''بسنت'' فلم میں نظر آئیں اور بے بی ممتاز کے نام سے کام کیا۔ کیدارشرما نے ہی ممتاز کو ''مدھوبالا'' کا نام دیا جو امر ہوگیا۔

رفتہ رفتہ کیدار شرما بھی اس ملکوتی حسن کے سحر میں جکڑنے لگے، لیکن پھر ان کو مدھوبالا اور اپنی عمر کے فرق کا احساس ستانے لگا اور یوں وہ اس یک طرفہ محبت کو دل ہی دل میں دبائے رہے۔ یہ کسی بڑی فلمی ہستی کا مدھوبالا کی محبت میں گرفتار ہونے کا پہلا موقع تھا۔

یہ مدھوبالا کے حسن کاہی اثر تھا کہ وہ پھول کی خوشبو کی مانند ہوا میں بکھرتی گئیں، ''محل'' کی کام یابی کے بعد کمال امروہی مدھوبالا کے حسن کے جادو میں قید ہوگئے۔ پہلے سے شادی شدہ کمال امروہی مدھوبالا سے شادی کرنا چاہتے تھے لیکن مدھوبالا کے والد عطاء اللہ خان ان کو کمال مصلحت پسندی سے ٹالتے رہے۔ اسی طرح پشاور کے ہی سپوت پریم ناتھ بھی فلم ''بادل'' کے دوران ان کو دل دے بیٹھے لیکن ان کو بھی ناکامی کا سامنا ہوا، کیوں کہ مدھوبالا دلیپ کمار میں دل چسپی لینے لگی تھیں۔

1950سے 1957 تک کا عرصہ مدھوبالا کے کیریئر کے لیے کچھ اچھا نہ تھا، لیکن 1958 میں فلم ہاوڑابرج میں ان کے کلب ڈانسر کے کردار کو خوب پذیرائی ملی۔ اسی سال انہوں نے ''چلتی کا نام گاڑی'' میں کو مک کردار سے خود کو ورسٹائل کلاکارہ ثابت کردیا۔ اس دوران لوگ مدھوبالا کے پیار میں ڈوب رہے تھے لیکن پہلی بار مدھوبالا کسی کو دل دے بیٹھیں اور وہ تھے یوسف خان۔ مدھوبالا اور دلیپ کمار کی محبت کی کشتی کنارے لگنے والی تھی لیکن ایک معمولی سی آہٹ نے دونوں کے پیج ایک خلیج حائل کردی۔ دراصل فلم ''نیادور'' کے لیے مدھوبالا کو آئوٹ ڈور شوٹنگ کے لیے ممبئی سے باہر جانا تھا جس کی اجازت ان کے والد نے نہ دی جس پر فلم کے ہدایت کار بی آرچوپڑا اور عطاء اللہ خان میں ان بن ہوگئی اور معاملہ کورٹ کچہری تک جاپہنچا۔

اس فلم کے ہیرو دلیپ کمار نے بھی بی آر چوپڑا کا ساتھ دیا اور یوں انا کی جنگ کا آغاز ہوگیا۔ فوری طور پر مدھوبالا کی جگہ وجنتی مالا کو ہیروئن لے لیا گیا۔ فلم بنتی رہی اور کیس بھی چلتا رہا، جس کے سبب فلم کو خوب پبلسٹی ملتی رہی۔ دلیپ کمار نے مدھوبالا کے خلاف چوپڑا کے حق میں گواہی دے کر مدھوبالا کے دل کے زخم کو اور بھی گہرا کردیا۔

تاہم ایک موقع پر یوسف خان نے بھری عدالت میں اعتراف کیا کہ ''وہ مدھوبالا سے اب بھی محبت کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔'' اس حوالے سے مدھوبالا کی بہن مدھور نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ بعد میں معاملات اگرچہ سلجھ گئے تھے اور ایک طرح سے صلح بھی ہوگئی تھی، لیکن چوں کہ مدھوبالا اپنے والد سے محبت اور ان کی دل وجان سے عزت بھی کرتی تھیں، لہٰذا وہ چاہتی تھیں کہ یوسف خان آکر ان کے والد سے صرف ''سوری'' کہے، تاکہ ان کے والد کی انا اور عزت نفس برقرار رہے، لیکن دوسری جانب شاید اسی انا کی سولی پر لٹکے دلیپ کمار ایسا کرنے سے قاصر تھے۔

حُسن کی دیوی اداکارہ مدھوبالا 14 فروری1933ء کو دہلی میں پیدا ہوئیں۔ ان کا اصل نام ممتاز جہاں بیگم تھا۔ ان کے والد عطاء اللہ خان یوسف زئی پٹھان تھے، جن کا تعلق خیبرپختون خوا کے زرخیز علاقے صوابی کے ایک گائوں مانیری سے بتایا جاتا ہے۔ بعض روایات کے مطابق وہ صوابی ہی کے علاقے زیدہ کے تھے۔

وہ تلاش معاش کے سلسلے میں پشاور آگئے، جہاں وہ امپیریل کمپنی میں ملازمت کرتے رہے۔ اس کے بعد دہلی منتقل ہوگئے، جہاں انہوں نے کوچوانی کا پیشہ اختیار کیا۔ دہلی میں انہوں نے شادی کرلی۔ ان کے گیارہ بچے پیدا ہوئے، جن میں ممتاز کا پانچواں نمبر تھا۔ ان سے دو بڑی بہنیں الطاف بیگم اور فاطمہ بیگم جب کہ چھوٹی تین بہنیں چنچل، زاہدہ اور شاہدہ تھیں۔ ان کے باقی پانچ بہن بھائی بچپن ہی میں فوت ہوچکے تھے۔

ممتاز نے ایک پٹھان گھرانے میں آنکھ کھولی، جہاں پشتو بولی جاتی تھی۔ کچھ عرصے بعد یہ خاندان دہلی سے بمبئی منتقل ہوگیا۔ ممتاز کو بمبئی کے ایک اسکول میں داخل کرادیا گیا۔ ایک دن اسکول کی سالانہ تقریب میں بمبئی کے فلمی ادارے بامبے ٹاکیز کے رائے بہادرچونی لال پارکھ اور دیوکارانی نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی۔

ممتاز جب نظم سنانے اسٹیج پر آئیں تو ان کی بھولی بھالی صورت دیوکارانی کو بھاگئی۔ ان دنوں دیوکارانی ایک فلم ''بسنت'' بنارہی تھیں، جس میں ہیروئن کی بیٹی کے کردار کے لیے انہیں ایک خوب صورت اور کمسن بچی کی ضرورت تھی۔ اس طرح ممتاز نے پہلی مرتبہ فلم ''بسنت'' میں بے بی ممتاز کے نام سے فلم کی ہیروئن ممتازشانتی کی بیٹی کا کردار ادا کیا۔ ممتاز کو اس فلم کا معاوضہ ڈیڑھ روپے ملا تھا۔ اس کے بعد رنجیت مووی ٹون والوں نے بے بی ممتاز کے والد سے معاہدہ کرلیا۔ یہاں ممتاز نے کئی فلموں ''ممتازمحل، راجپوتانی، دھنا بھگت، پجاری اور پھلواری وغیرہ میں چائلڈ رول ادا کیے۔

ان دنوں ممتاز کا خاندان سمندر کے کنارے ایک چھوٹے سے گھر میں مقیم تھا۔1949 میں بمبئی میں سمندری طوفان آنے سے ان کا گھر تباہ ہوگیا، لیکن جانیں بچ گئیں جس کے بعد یہ خاندان عطاء اللہ خان کے ایک دوست کے گھر چھے ماہ تک قیام پذیر رہا۔ بعدازاں وہ بمبئی کے علاقے ملاڈ منتقل ہوگئے۔1947میں مدھوبالا نے اورنیٹل پکچرز کے بینرتلے بننے والی فلم ''نیل کمل'' میں کردار ادا کیا، جس کے ہدایت کار کیدارشرما اور موسیقار بی واسودیو تھے، اداکاروں میں مدھوبالا کے علاوہ، راج کپور، بیگم پارا، راجندر، گیتابالی، زہرا اور پیسی پٹیل نمایاں تھے۔

اگرچہ یہ فلم نمایاں کام یابی تو حاصل نہ کرسکی تاہم فلم انڈسٹری میں دو نئے چہروں مدھوبالا اور راج کپور کا اضافہ کرگئی۔ اس کے بعد مدھوبالا اور راج کپور کی جوڑی نے مراری پکچرز کی فلم ''چتوڑوجے'' امر جیوتی کی فلم ''دل کی رانی '' اور نٹ راج پکچرز کی فلم ''امرپریم'' میں مرکزی کردار ادا کیے۔ مدھوبالا نے مراری پکچرز کی فلم ''میرے بھگوان'' اور موہنی پکچرز کی فلم ''خوب صورت دنیا'' میں واسطی، گریٹ انڈیا پکچرز کی فلم ''پرائی آگ'' میں الہاس اور آکاش چتراکی فلم ''لال دوپٹہ'' میں راجن کے مقابل ہیروئن کے رول کیے۔

1948 میں مدھوبالا کو9 فلموں میں کاسٹ کیا گیا۔ انہوں نے پربھات پکچرز کی فلم ''اپرادھی'' میں رام سنگھ، منروامووی ٹون کی فلم ''دولت'' میں مہی پال، کاردار پروڈکشن کی فلم ''دلاری'' میں سریش، دنیاپکچرز کی فلم ''امتحان'' میں سجن، آل انڈیاپکچرز کی فلم ''پارس'' میں رحمان، سپرپکچرز کی فلم ''سپیہا'' میں الطاف اور اورینٹل پکچرز کی فلم ''نیکی اور بدی'' میں کیدارشرما کے ساتھ بطور ہیروئن کام کیا، لیکن جس فلم سے انہیں لازوال شہرت ملی، وہ تھی بامبے ٹاکیز کی شہرۂ آفاق فلم ''محل۔'' اس فلم کے ہدایت کار کمال امروہی اور موسیقار کھیم چندپرکاش تھے۔

مدھوبالا نے صرف ایک ہی فلم میں بطور ویمپ کام کیا۔ اس کے بعد مدھوبالا نے فلموں ایک سال، نشانہ اور ہوڑا برج میں اشوک کمار، سیاں میں سجن، ہنستے آنسو میں موتی لال، بے قصور اور تیرانداز میں اجیت، پردیس میں رحمان، دواستاد میں راج کپور، خزانہ اور نازنین میں ناصرخان، نادان، ارمان، نرالا، آرام، جعلی نوٹ، کالاپانی اور شرابی میں دیوآنند، نقاب، بوائے فرینڈ اور ریل کا ڈبا میں شمی کپور، ساقی اور بادل میں پریم ناتھ، مسٹر اینڈ مسز55 میں گرودت، برسات کی رات، پھاگن میں بھارت بھوشن، کل ہمارا ہے اور گیٹ وے آف انڈیا میں سنیل دت، راج ہٹ، شیریں فرہاد، یہودی کی لڑکی، پولیس اور پاسپورٹ میں پردیپ کمار کے ساتھ مرکزی کردار نبھائے۔

یوں تو مدھوبالا نے فلم انڈسٹری کے ہر نامور اداکار کے ساتھ کام کیا اور ہر اداکار ان کے لیے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتا تھا۔ تاہم دلیپ کمار کے ساتھ ان کی جوڑی کو سب سے زیادہ پسند کیا گیا۔ دلیپ کے ساتھ انہوں نے صرف چار فلموں ''ترانہ، امر، سنگدل اور مغل اعظم'' میں کام کیا۔

مدھوبالا نے1949میں دلیپ کمار کے ساتھ مہیش کول کی فلم ''ہارسنگھار'' میں کام کیا، تاہم یہ فلم مکمل نہ ہوسکی۔ دلیپ کمار کے ساتھ کام کرتے ہوئے مدھوبالا کے دل میں محبت کی شمع روشن ہوئی اور انہوں نے اپنی روح دلیپ کمار کے حوالے کردی۔ وہ سماج کی نظروں سے چھپ چھپ کر ملاقاتیں کرنے لگے۔ اکثر یہ ملاقلاتیں ان کے قریبی دوستوں سوشیلا رانی پٹیل، کے آصف اور ان کی اہلیہ ستارا دیوی کے گھر میں ہوا کرتی تھیں۔ مدھوبالا جب بھی بمبئی سے باہر شوٹنگ پر جاتیں تو دلیپ کمار اپنی تمام تر مصروفیات چھوڑ کر ان سے ملنے پہنچ جاتے۔

معروف لکھاری محمد ابراہیم ضیاء اپنی کتاب ''پشاورکے فن کار'' میں لکھتے ہیں کہ 1956 میں مدھوبالا جے کے آنند کی فلم ''ڈھاکے کی ململ'' میں کشورکمار کے ساتھ کام کررہی تھیں کہ ایک دن دلیپ کمار فلم کے سیٹ پر آئے۔ اداکار اوم پرکاش بھی وہاں موجود تھے ۔


دلیپ کمار نے اوم پرکاش کے سامنے مدھوبالا سے التجائیہ لہجے میں درخواست کی کہ وہ اسی وقت ان کے ساتھ چلیں، تاکہ وہ آج ہی شادی کرلیں۔ مدھوبالا نے کافی دیر سوچنے کے بعد صرف ایک جملہ کہا، ''ایساممکن نہیں'' دلیپ کمار نے بہت بحث کی، بڑے دلائل دیے، آخرکار تنگ آکر کہا،''اس انکار کا صاف مطلب یہ ہے کہ تم مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتیں۔'' مدھوبالا نے اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا، دلیپ کمار کچھ دیر خاموش بیٹھے رہے، انہیں دیکھتے رہے، پھر باہر نکل گئے اور ہمیشہ کے لیے ان سے جدا ہوگئے۔

ادھر مغل اعظم کی شوٹنگ بھی چل رہی تھی۔ تاہم یہ کے آصف کا کمال تھا کہ انہوں نے نہایت لطیف اور ماہرانہ انداز میں ان دونوں کے والہانہ عشق کے جذبات کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کیا۔ اس وقت مدھوبالا اور دلیپ کمار کی بول چال بند تھی۔

فلم کے ایک منظر میں شہزادہ سلیم انارکلی کے چہرے پر تھپڑ رسید کرتا ہے جب مدھوبالا اور دلیپ کمار یہ منظر فلم بند کرانے کے لیے ایک دوسرے کے مدمقابل آئے تو دلیپ کمار نے پوری قوت سے مدھوبالا کے چہرے پر تھپڑ جڑ دیا۔ سین تو اوکے ہوگیا لیکن ہر طرف سناٹا چھاگیا۔ مدھوبالا صدمے سے آنکھوں میں آنسو لیے اپنی جگہ بے حس وحرکت کھڑی رہیں، کے آصف تیزی سے ان کی طرف بڑھے اور مدھوبالا کو اس منظر کی کام یابی پر مبارک باد دیتے ہوئے کہنے لگے،''آج یہ ثابت ہوگیا کہ وہ تمہیں کس قدر چاہتے ہیں۔ محبت میں دیوانہ شخص ہی ایسی حرکت کرسکتا ہے۔''

1955میں مدھوبالا نے اپنا فلم ساز ادارہ ''مدھوبالا پرائیویٹ لمیٹڈ'' کے نام سے قائم کیا اور ایک فلم ''ناتا'' بنائی جس کے ہدایت کار ڈی این مدھوک اور موسیقار ایس مہندرتھ۔1958میں مدھوبالا نے کشورکمار کے ساتھ کے ایس پکچرز کی فلم ''چلتی کا نام گاڑی'' میں بطور ہیروئن کام کیا۔ فلم کی عکس بندی کے دوران کشورکمار نے اپنی مزاحیہ حرکتوں سے مدھوبالا کے دل کو کچھ اس طرح قابو میں کرلیا کہ انہوں نے اپنا سب کچھ گنوانے کے باوجود روحانی اور جسمانی طور پر اپنے آپ کو کشورکمار کے سپرد کرنے کا جذباتی فیصلہ کرلیا اور دونوں نے شادی کرلی۔1960میں مدھوبالا نے اپنے ادارے کے بینرتلے فلم ''محلوں کے خواب'' بنائی۔

1962میں مدھوبالا نے بطورفلم ساز پشتون ثقافت پر مبنی ایک فلم ''پٹھان'' بنائی، جس کے ہدایت کار ان کے والد عطاء اللہ خان اور موسیقار فقیرمحمد تھے۔ اداکاروں میں شاہین، پریم ناتھ، شاہدہ، نرنجن شرما اور سدھو نمایاں تھے۔ اس فلم کی ہیروئن ان کی چھوٹی بہن شاہدہ تھی۔ بعدازاں اس نے جانی واکر کے چھوٹے بھائی سے شادی کرلی۔ اس کے بعد مدھوبالا کے والد نے ایک اور فلم ''گھرجوائی'' کا آغاز کیا جس کی ہیروئن مدھوبالا کی چھوٹی بہن چنچل تھی۔ فلم کے ہدایت کار پربھاکر تھے، تاہم یہ مکمل نہ ہوسکی، البتہ چنچل نے ہدایت کار پربھاکر سے شادی کرلی۔

کشورکمار سے شادی کا فیصلہ مدھوبالا نے اس لیے کیا تھا کہ وہ اپنی محبت کی تکلیف دہ یادوں سے فرار چاہتی تھیں، لیکن وہ اس حقیقت سے بے خبر تھیں کہ یہ شادی ان کی تکلیفوں اور اذیتوں میں مزید اضافہ کردے گی، جس سے مدھوبالا کے دل کا گھائو مزید گہرا ہوتا گیا۔ مدھوبالا نے اپنے طبی معائنے کے لیے لندن جانے کا فیصلہ کیا۔ کشورکمار پہلے تو لیت ولعل سے کام لیتے رہے لیکن آخرکار وہ ان کے ساتھ جانے پر راضی ہوگئے۔ ڈاکٹروں نے صاف الفاظ میں بتادیا تھا کہ وہ دس سال بھی زندہ رہ سکتی ہیں اور ایک سال بھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دونوں میں اختلافات بڑھتے گئے، کشورکمار جوہو میں اپنی والدہ کے ساتھ رہنے لگے اور مدھوبالا اپنے بنگلے ''عربین ولا'' واپس آگئیں۔

مدھوبالا نے اپنی مختصر فلمی زندگی میں کل70فلموں میں کام کیا۔ ان کی زندگی کی آخری فلم ایم وی رامن کی ''جوالا'' تھی جس میں سنیل دت ان کے ساتھ ہیرو تھے۔ یہ فلم مدھوبالا کی موت کے بعد1971میں ریلیز ہوئی۔ مدھوبالا کی شدید بیماری کے باعث ان کے باقی کام کو ایک ڈپلی کیٹ کے ذریعے مکمل کیا گیا۔ اب بہت دیر ہوچکی تھی۔ قدرت انھیں مزید مہلت دینے کے لیے تیار نہ تھی۔ آخر کار 23 فروری 1969کو اپنی36ویں سالگرہ کے ٹھیک 9 دن بعد مدھوبالا اپنی زندگی کی بازی ہارگئیں۔ مرتے وقت ان کے آخری الفاظ یہ تھے ''میں مرنا نہیں چاہتی! مجھے بچالو۔''

''کیمرے مدھوبالا کی خوب صورتی کو دکھانے سے قاصر رہے''
مدھوبالا کو بولی وڈ میں ''سوگوار حُسن اور وینس کوئین آف انڈین سنیما'' بھی کہا جاتا ہے۔ انہیں بولی وڈ کی مارلن منرو بھی کہا گیا۔1950 کی دہائی میں مدھوبالا کی مقبولیت ہالی وڈ تک پہنچ گئی تھی۔ ایک امریکی میگزین کے سرورق پر ان کی تصویر 1952 میں شائع کی گئی۔ معروف امریکی ہدایت کار فرینک کاپرا نے مدھوبالا کو ایک فلم میں کردار کی پیش کش بھی کی لیکن مدھوبالا کے والد عطا اللہ خان اس کے لیے راضی نہیں ہوئے۔2008 میں بھارت کے محکمۂ ڈاک نے مدھوبالا کی یاد میں ایک ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔ اس موقع پر ایک تقریب میں مدھوبالا کو باقاعدہ طور پر پردۂ سیمیں کی ''وینس'' کا خطاب دیا گیا۔

صحافی اور مصنف موہن دیپ نے اپنی کتاب ''دی مسٹری اینڈ مسٹک آف مدھوبالا'' میں لکھا ہے۔ ''وہ سحر زدہ خاتون تھیں، انہیں عدم تحفظ کا خوف آخر تک رہا۔ بہت سے ہدایت کاروں کا خیال تھاکہ کیمرے مدھوبالا کی خوب صورتی کو دکھانے سے قاصر رہے کیوںکہ ان کی خوب صورتی جیتی جاگتی بولتی ہنستی الہڑ خوب صورتی تھی۔''

دلیپ کمار کا کہنا ہے کہ ''وہ انتہائی مقبول تھیں۔'' اکبر خدیجہ نے مدھوبالا کے متعلق اپنی کتاب ''آئی وانٹ ٹو لیو، اے اسٹوری آف مدھوبالا'' میں لکھا ہے کہ دلیپ کمار نے کہا کہ ''میرے خیال سے وہ واحد اسٹار تھیں جن کے دروازے کے باہر لوگ بھیڑ لگایا کرتے تھے، عام طور پر جب شوٹنگ ختم ہوتی تو مدھو کی ایک جھلک دیکھنے کو لوگ دروازوں پر کھڑے ہوجاتے، اب تک کسی دوسرے اسٹار کے لیے ایسا نہیں دیکھا۔ ان کی شخصیت زندہ دل اور ہشاش بشاش تھی۔''

اداکار اور فلم ساز راج کپور کو حسن کا پرستارکہا جاتا ہے، انھوں نے ایک بار مدھو بالا کے بارے میں کہا تھا کہ ایسا لگتا ہے خدا نے اپنے ہاتھوں سے سنگ مرمر سے انہیں تراشا ہے۔''

راج کپور کے بھائی شمی کپور نے تو اپنی سوانح حیات میں مدھوبالا پر ایک علیحدہ باب ہی لکھ ڈالا ہے اور اس باب کا عنوان ہے،''فیل میڈلی ان لو ود مدھوبالا'' یعنی میں مدھو بالا کی محبت میں دیوانہ وار گرفتار ہوگیا تھا۔

ان کو سبھی حاصل کرنا چاہتے تھے
مدھوبالا کو پردے پر پہلی بار اداکارہ کی شکل میں پیش کرنے والے کیدار شرما، مدھوبالا کی پہلی سپرہٹ فلم کے ڈائریکٹر کمال امروہی، اپنے وقت کے سپراسٹار دلیپ کمار، اداکار بھارت بھوشن، پریم ناتھ، شمی کپور اور پردیپ کمار ہوں یا پھر آل رائونڈر کشور کمار، مدھوبالا کو سبھی حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن مدھوبالا نے اپنا دل دیا دلیپ کمار کو۔ ''مغل اعظم'' کی شوٹنگ کے دوران دلیپ کمار اور مدھو میں بول چال بند ہوگئی تھی لیکن مدھوبالا اپنے پرانے دوست اور فلم میں دُرجن سنگھ کا کردار نبھانے والے اجیت سے دلیپ کمارکی باتیں کیا کرتیں۔ ان کی بات چیت کا مرکز یہی رہتا تھا کہ کیا دلیپ کمار اب بھی ان سے پیار کرتے ہیں؟ یہ سوال مدھوبالا نے کے، آصف سے بھی پوچھا تھا۔

میں مدھوبالا کی جانب کھنچتا چلا گیا: دلیپ کمار
مدھو بالا کی دلیپ کمار سے ملاقات 1944 میں فلم جوار بھاٹا کے سیٹ پر ہوئی تھی۔ فلم ترانہ سے ان کی دوستی شروع ہوئی اور جلد ہی ان کے عشق کے چرچے ہونے لگے لیکن قسمت نے ساتھ نہیں دیا۔ دلیپ کمار نے اپنی سوانح حیات میں بتایا ہے کہ وہ اور مدھوبالا ایک دوسرے سے بے انتہا محبت کرتے تھے اور شادی بھی کرنا چاہتے تھے لیکن مدھوبالا کے والد ان کی راہ میں حائل ہوگئے۔ دلیپ کمار اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں،''مجھے ماننا چاہیے کہ میں مدھوبالا کی جانب کھنچتا چلا گیا۔ بطور فنکارہ بھی اور بطور ایک شخصیت کے بھی، وہ کچھ ایسی خوبیاں رکھتی تھیں جو میں اس زمانے اور عمر میں ایک خاتون میں دیکھنا چاہتا تھا۔ اپنی زندہ دلی کی مدد سے وہ کچھ زیادہ کوشش کیے بغیر ہی مجھے میرے شرمیلے پن اور خاموشی سے باہر لے آئیں۔''

دلیپ کمار بتاتے ہیں کہ ''مغل اعظم'' کی تیاری کے عین وسط میں ہم دونوں کی بول چال بند ہوگئی۔ ''پر'' کے ساتھ فلمایا جانے والا کلاسیکی منظر، ہم دونوں کے لبوں سے اس وقت ادا ہوا، جب ہم دونوں ایک دوسرے کو سلام کرنا بھی چھوڑ چکے تھے۔ حالاںکہ اس منظر نے کروڑوں لوگوں کے جذبات بھڑکا دیے تھے۔''

مدھو نے زندگی کے آخری ایام بہت تکلیف میں کاٹے، بہن مدھوربھوشن
مدھوبالا کی ہمشیرہ مدھور بھوشن اپنی بہن کی زندگی بارے بتاتی ہیں کہ جب مدھو بالا 1954ء میں مدراس میں فلم چالاک کی شوٹنگ میں مصروف تھیں تو ان کے دل میں سوراخ کی بیماری کا انکشاف ہوا۔ ان کو جب خون کی الٹیاں آنا شروع ہوئیں تو انہیں تین ماہ کے لیے بستر پر آرام کرنے کا مشورہ دیا گیا۔ مغل اعظم کی شوٹنگ کے دوران وہ زنجیروں سے جکڑی ہوتیں۔

اسی دباؤ کے باعث آخری دن ان کے ہاتھ نیلے پڑگئے تھے۔ مدھورکہتی ہیں کہ ان کے اور بھائی جان (دلیپ کمار) کے درمیان ''پر'' والا سین، جو ہندی سنیما کا سب سے زیادہ رومانوی سین سمجھا جاتا ہے، ان دونوں کی علیحدگی کے بعد فلمایا گیا۔ بیماری کے بارے بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بیماری کے باعث ان کا جسم اضافی خون پیدا کرنے لگا جو ان کے ناک اور منہ سے بہنے لگتا تھا۔

ڈاکٹر گھر آتے تھے اور خون کی بوتلیں نکال لیتے تھے۔ انہیں پھیپھڑوں میں دبائو کی بیماری بھی لاحق تھی۔ وہ ہر وقت کھانستی رہتی تھیں، ہر چار سے پانچ گھنٹے بعد انہیں آکسیجن دینا پڑتی تھی۔ مدھوبالا 9 برس تک ایک بستر تک محدود رہیں اور ہڈیوں کا ڈھانچا بن کر رہ گئیں۔زندگی کے آخری ایام میں انہیں خسرہ ہوگیا تھا۔ ڈاکٹروں نے باقی افراد کو ان سے دور رہنے کا کہہ دیا لیکن جب ڈاکٹر نے کہا کہ ان کی حالت بہت خراب ہے تو میں انہیں دیکھنے کے لیے بھاگی لیکن اس وقت تک وہ ہم سب سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئی تھیں۔ اگرچہ بھائی جان (دلیپ کمار) ان کی بیماری کے دوران انہیں دیکھنے کبھی نہیں آئے تاہم موت کے بعد وہ آگئے تھے۔
Load Next Story