اُردو کی ماں گوجری

لسانی شواہد اِس اَمر کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ دونوں کا ماخذ، غالباً ایک ہی ہے۔


سہیل احمد صدیقی September 06, 2020
لسانی شواہد اِس اَمر کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ دونوں کا ماخذ، غالباً ایک ہی ہے۔ فوٹو : فائل

(دوسرا حصہ)

زباں فہمی نمبر64

زباں فہمی نمبر تریسٹھ میں ذکر ہوا کہ گوجری زبان کا قدیم لفظ 'ماتر' بمعنی ماں، لاطینی، اطالوی ، ہِسپانوی، یونانی، فرینچ، چیک، سلوواک، سلووینی، یوکرینی، لیٹوئین، بلغاری، مقدونی، بوسنیئن، سربئین، کروشیئن، المانوی جرمن)، انگریزی، بیلوروسی، روسی، رومانوی، پولستانی (پولش)، ویلش، باسک، کیٹیلن اور آئرستانی (آئرش ) میں کیا شکل اختیار کرچکا ہے۔

اب ہم بات کرتے ہیں دیگر زبانوں کی۔ ایشیائی زبانوں میں، آرمینیائی زبان میں ماں کو ''مائر''، بنگلہ اور ہندی میں ماں، سِنہالا میں 'ماؤ'، گجراتی میں ''ماتا''، عربی میں 'اُم'، عبرانی میں 'اَما'، نیپالی میں 'آماں'، ملیالم میں 'امّاں' (یعنی اردو کی طرح )، تاجک اور فارسی میں مادر (میم کی آواز ایرانی تلفظ میں گول الف کی ہوگی )، تھائی میں ''مے'' اور ویت نامی میں 'مَئے'........یہ تقریباً تمام مماثل یا مشابہ ہیں، مگر کئی ایک مختلف ہیں جیسے چینی میں ''مُوچِین''، تَمِل اور کنڑ میں ''تائی''، یہی لفظ مراٹھی میں ''آئی '' بن گیا ہے اور تلیگو /تیلگو میں ''تَلّی۔'' اب افریقی زبانوں کا جائزہ لیں تو افریکانس میں ماں کو '' مُوڈَر'' (میم پر پیش) کہتے ہیں جو بظاہر ڈچ لفظ ہے، مگر درحقیقت یہ فارسی کا مادر ہے۔ سواحلی میں ''ماما'' ہے تو سیسوتھو[Sesotho] میں ''مے''، اور چی چیوا (Chichewa) میں یہ لفظ 'اَمائے' بن گیا ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ دنیا بھر کی اکثر زبانوں میں ایک ہی لفظ کی متبدل یا مماثل شکلیں رائج ہیں۔ (https://www.indifferentlanguages.com/words/mother)۔ دیگر رشتوں کی بات کی جائے تو معاملہ کم وبیش یکساں ہی نظر آتا ہے۔ گوجری پر مختلف علاقوں اور ممالک میں مقامی، عصری اور مذہبی اثرات مرتب ہونے کی وجہ سے ایک ہی لفظ کی متغیر شکلیں ، اپنی اصل یعنی آریائی زبان سے مختلف دکھائی دیتی ہیں۔ اصل آریا یعنی قدیم گوجری لفظ ''پِتر'' (پے کے نیچے زیر)، اس کی سب سے روشن مثال ہے۔

اب صورت حال یہ ہے کہ گوجر مسلمان اپنے والد کو باپ کہتا ہے، ہندو گوجر ''پِتا''، گجراتی ''باپو''، سندھی ''پئیُ'' اور کشمیری گوجر ''پے '' کہہ کر مخاطب ہوتا ہے۔ موجودہ گوجری میں چچا کو ''پِتریا'' یعنی باپ جیسا کہتے ہیں۔ اسی طرح ماں کے لیے ماں یا ماتا لفظ مروَج ہے تو سوتیلی ماں کو ''ماترے'' یعنی ماں جیسی کہا جاتا ہے۔

یہ قدیم گوجری /آریالفظ 'ماتر' کی تبدیل شدہ شکل ہے۔ بیٹی کو گوجری میں ''بیٹھکی''۔ یا۔کُڑی کہا جاتا ہے، جبکہ نواسی کو ''دُہتری'' ( بیٹی کی بیٹی) کہتے ہیں۔ (بیٹھکی سے اردو کا بیٹی بن گیا اور کُڑی پنجاب میں بیٹی یا لڑکی کے لیے مستعمل ہے، نیز دِھی، پنجاب اور سندھ دونوں میں مشترک ہے)۔

{آپ شاید یقین نہ کریں ، مگر یہ حقیقت ہے کہ یونانی زبان میں بیٹی کو ''کَوری'' کہتے ہیں۔ میرا قیاس ہے کہ صدیوں پہلے، اسکندراعظم کے یہاں آنے جانے سے ، گوجری اور پنجابی کا ''کُڑی'' وہاں منتقل ہوا ہوگا جیسے ایک قدیم لفظ ''ونگا'' کئی زبانوں کا سفر طے کرکے انگریزی میں Bangle بن گیا}۔ یہ لفظ قدیم گوجری کے 'دُہتر''یعنی بیٹی سے مشتق ہے جو پہلوی (فارسی کی ماں) سے ہوتے ہوئے فارسی میں جاکر 'دختر' ہوا اور پھر فارسی کی تقلید میں، ڈچ زبان میں دختر، روسی میں دُخ، لتھوینیئن میں دُکترا، بُلغاری میں دُوشتریہ، آرمینیائی میں دُوستر، جرمن اور یِدِش (یہودیوں کی دوسری زبان) میں توختر، ناروئین اورڈینش میں داتر جبکہ انگریزی میں Daughter بن گیا، اسٹونیئن میں تُوئتار، فیِنِش میں تی تار اور آئس لینڈِک میں دوتِر ہوگیا۔ (نارویجئن لکھنا اور کہنا غلط ہے)۔ یہاں رک کر ایک دل چسپ نکتہ ملاحظہ فرمائیں۔

گوجری سے اردو نے جنم لیا یا اس کے جنم میں گوجری کا نمایاں کردار رہا تو دوسری طرف اُس سے منسوب علاقے گجرات میں ایک مختلف زبان گجراتی معرض وجود میں آئی جس میں بیٹی کو ''پُتری'' کہتے ہیں۔ ویسے لفظ دوہتری تو قدیم اردو میں بھی مروج تھا اور خاکسار نے اپنے دادا مرحوم کی زبان سے بھی یہ لفظ سنا ہے جن کا آبائی تعلق تو ہاپڑ، میرٹھ (ہندوستان) سے تھا، مگر وہ ملازمت کے سلسلے میں غیرمنقسم ہند کے چپے چپے کی سیر کرچکے تھے (تقسیم ہند کے وقت سہارن پور میں مقیم تھے) اور پوربی و پنجابی میں شاعری فرماتے تھے ، جس میں کچھ کچھ موزوں بھی تھی (دو نمونے بڑی ہمشیرہ نے سنبھال کررکھے ہیں ، جن پر کبھی خامہ فرسائی کروں گا)۔

{عربی میں بیٹی کو ''بِنت'' کہتے ہیں اور یہی لفظ یورپ کی زبان مالٹیز میں بھی موجودہے}۔ گوجری کے محقق کی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ گوجری اور یورپی زبانوں میں اس قدر مشابہت یا مماثلت کا سبب یہ ہے کہ یہ درحقیقت تمام ہندآریائی (Indo-European) زبانوں کی ماں اور آریوں کی زبان تھی۔

ماہرین لسانیات کی تحقیق اور قیاس آرائی کا خلاصہ یہ ہے کہ ذات پات کے بانی مبانی برہمنوں کی، سنسکِرِت کو عوام سے الگ تھلگ رکھنے کی شعوری کدوکاوش کے سبب، پراکِرِت نے جنم لیا، اسی پراکرت سے اُپ بھرنش بنی اور پھر سب سے بڑی، شورسینی اُپ بھرنش، پورے خطہ ہند کی ''لسان ِ رابطہ'' یعنی لنگوافرانکا بن گئی جس نے (تخمیناً) ۵۰۰ء تا ۷۰۰ء راج کیا۔ ہر علاقے کی اپنی الگ اُپ بھرنش (یعنی عوامی بولی) معرض ِ وجود میں آئی ، جن میں گوجر علاقوں کی شاخ گوجری کہلائی۔

(گوجری کے لسانی رابطے از پروفیسرنذیر مسکین، ناشر ہندکو اکیڈمی، پشاور: ۲۰۱۷ء)۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ، آریوں کی اصلیت کی بابت بہت اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ اُن کی ایک مشرقی شاخ ، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے کوئی تین ہزار سال قبل، ہندوستان میں داخل ہوئی، یہاں کے قدیم (بقول کسے، افریقی النسل) باشندوں یعنی دراوَڑ (Dravidians)کو جنوب کی طرف دھکیل کر ، خطہ ہند کے شمال اور شمال مغرب پر قابض ہوگئی اور یہاں کاشت کاری کو فروغ دیا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کا ذکر سب سے پہلے ویدک ادب میں ملتا ہے جو آریوں کے عہد میں دریائے کابل، سوات، قندھار اور سندھ کے علاقوں میں پروان چڑھا۔ حَربی و سیاسی طاقت کے حصول کے بعد، انھیں گُرجَر کا خطاب، مذہبی پیشواؤں کی طرف سے ملا۔ جب یہ خطاب عام ہوا تو آریہ /آریا، بطور قوم گُرجَر اور پھر گوجر کہلانے لگے، یوں اُن کی زبان بھی گوجری کہلائی۔

پندرھویں صدی شمسی تک اس زبان کو کلیدی اور سرکاری مقام حاصل رہا، بعد ازآںاس کی لسانی شکست وریخت کے بعد، گوجری مختلف علاقائی زبانوں (بشمول سندھی، گجراتی، راجستھانی، دہلوی، ہریانوی وغیرہ ) کا روپ اختیار کرکے تاریخ کے عمومی دھارے سے الگ ہوگئی۔ {اس میں دہلوی ہی ترقی کرکے جدید اردو بن گئی، جبکہ اس کے ارتقائی سفر میں خطہ ہند کے مختلف حصوں سے مختلف زبانوں، بولیوں اور لوگوں نے حصہ لیا، بشمول پنجاب، شمالی ہند، بِہار، آسام، اُڑیسہ، بنگال، اراکان، برما، جنوبی ہند: بشمول حیدرآباد، اورنگ آباد۔ دکن، گجرات، خصوصاً احمدآباد، مدراس وکرناٹک، سندھ، بلوچستان اور خیبرپختون خوا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ بعض بولیاں بجائے خود ترقی کرتے کرتے، زبان بن گئیں، جیسے ہریانوی اور بھوج پوری۔ دوسری طرف ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ راجستھانی زبان مختلف ٹکڑوں میں بٹ گئی۔

اس کی جدید شکل میں آج بھی اردو کی قدیم بولی کی جھلک دکھائی دیتی ہے، جیسے اس طرح کے جملے ''کَے بول لیو رے'' یعنی کیا کہہ رہے ہو۔ ہریانوی اسی کی شاخ یا بہن ہے جسے اتنا عروج واستحکام ملا کہ آج ہندوستان کی باقاعدہ زبانوں میں شامل اور ریاست (صوبہ) ہریانہ کی سرکاری زبان ہے۔ راجستھانی کی ثقیل شکل، ہمارے صحرائے تھر اور تھل (چولستان) میں تلاش کی جاسکتی ہے۔

ویسے تھری یقیناً موجودہ شکل میں بالکل الگ تھلگ زبان ہے۔ اسی راجستھانی زبان کی مغربی شاخ نے گجرات کے علاقے میں، سولھویں صدی سے، جدا حیثیت میں ترقی کرنی شروع کی جسے آج گجراتی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کے پس منظر میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پندرھویں صدی میں جب گجرات میں مظفر شاہی سلطنت قایم ہوئی تو وہاں ادبی مقاصد کے لیے ہندوستانی یعنی اردو زبان استعمال کی گئی ، چنانچہ اسی زمانے سے گجراتی زبان پر، اردو اور فارسی دونوں کے اثرات مرتب ہونے لگے اور دوسری طرف گجراتی خود بھی اتنی مضبوط زبان بن کے ابھری کہ اردوئے قدیم کی ہمشیرہ کی حیثیت سے اس کے ذخیرہ الفاظ ومحاورہ جات میں خوب اضافہ کیا: (س ۔ا۔ص)۔ (اردوجامع انسائیکلوپیڈیا، جلد دوم ، ناشر شیخ غلام علی اینڈ سنز : ۱۹۸۸ء)}۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ گوجری کا سب سے زیادہ اثر پنجابی، مارواڑی اور سندھی زبان پر ہوا ہے۔ یہاں یہ غلط فہمی بھی دور ہوجانی چاہیے کہ گوجری، شاید پنجابی کا کوئی لہجہ ۔یا۔بولی ہے۔

لسانی شواہد اِس اَمر کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ دونوں کا ماخذ، غالباً ایک ہی ہے، البتہ اس رائے کو قبول کرنے کے لیے یہ لسانی نظریہ رَد کرنا ہوگا کہ پنجابی، پشاچی اُپ بھرنش سے نکلی ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ تمام ماہرین لسانیات نے اپنے نظری اختلافات سے قطع نظر، گوجری، راجستھانی اور پنجابی کو ایک ہی خانے میں رکھا ہے۔ (گوجری کے لسانی رابطے از پروفیسر مسکین)۔ گوجروں نے ہندوستان کے بڑے حصے پر صدیوں حکومت کی۔ مغرب کی طرف رُخ کرنے والی شاخ ِ آریا نے مختلف ممالک اور علاقوں میں اپنی حکومت قایم کی تو مقامی بولیوں اور زبانوں کے اختلاط سے انگریزی، جرمن، فرنچ، لاطینی (جدید شکل: اطالوی)، یونانی، ہِسپانوی اور پُرتگیز سمیت دنیا کی تقریباً چار سوساٹھ (460 ) ہند آریائی زبانیں معرض ِ وجودمیںآئیں۔ یہاں ذرا ٹھہرکر خاکسار کا لسانی قیاس بھی ملاحظہ فرمائیں۔

ایسا نہیں ہے کہ محض مشرق ومغرب میں آریوں کی دوجُدا جُدا شاخیں پھلتی پھولتی رہی ہوں اور ان کا آپس میں ارتباط اور اشتراک نہ ہوا ہو۔ بے شمار الفاظ ویدک بولیوں اور سنسکِرِت سے سفر کرکے ابتدا میں پہلوی (فارسی کی ماں) میں شامل ہوئے، پھر وہاں سے جدید زبان فارسی کی تشکیل کے ساتھ ساتھ، ترکی اور پھر، ایشیا پار کرکے، یونانی، مقدونی، سابق یوگوسلافیا کی زبانوں اور لاطینی میں داخل ہوئے (سلاویا مشہور، مگر غلط ہے) ۔ لاطینی/رومی[Latin or Roman] تقریباً تمام بڑی یورپی زبانوں بشمول انگریزی، جرمن، فرینچ، ہِسپانوی اور پُرتگیز کی ماں ہے۔

''اردو کی خالق: گوجری'' کے مصنف چودھری اشرف ایڈووکیٹ نے اَسّی (۸۰) سے زائد، مغربی و مشرقی ماہرین لسانیات کی کتب سے استفادہ کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ گوجری ہی اردو کی ماں ہے۔ یہاں آریوں کی اصل کے متعلق ایک اور بحث بھی پیش نظر ہے۔

گزشتہ مضمون میں راقم نے تاریخ گُرجر کے مؤرخ کی رائے نقل کی تھی کہ آریا کہیں باہر سے نہیں آئے، بلکہ ہندوستانی ہی تھے، اس نظریے کی تائید مشہور ہندوستانی تاریخ داں اور ریاضی داں، دَمُودَر۔دھرمانند۔کوسمبی نے بھی کی۔ انہوں نے لکھا کہ آریا مویشی چرانے والے اور غذا جمع کرنے والے قبائل تھے اور یہ ممکن نہیں کہ وہ کہیں سے بڑی نقل مکانی کرکے ہندوستان آئے ہوں یا طاقت ور حملہ آور ہوں۔ [An Introduction to the Study of Indian History:1956]۔یہ رائے کتاب ''اچھوت لوگوں کا ادب '' (از مبارک علی و رضی عابدی :۱۹۹۴ء) میں بلاحوالہ نقل کی گئی ہے۔

پروفیسر خاطر غزنوی نے اپنی کتاب ''اردو زبان کا ماخذ۔ہندکو'' میں معروف ماہر لسانیات ڈ اکٹر گریئرسن ( Sir George Abraham Grierson) کی یہ رائے نقل کی ہے کہ ہندوستان میں آریہ، مختلف لہروں (یعنی اَدوار) میں آئے۔ ان کے تین گروہ ، مغرب سے داخل ہوئے اور مشرق تک پھیلتے چلے گئے اور ان کا علاقہ قیام پنجاب تا الہ آباد تھا۔ جب ان کے دیگر گروہ دَر آئے تو ان کے درمیان علاقے پر تسلط کے لیے خانہ جنگی ہوئی۔ اس بِناء پر مدھیہ پردیش (قدیم سی۔پی) کی بولیاں، قدیم ترین پراکرت قرار پائیں۔ اسی پراکرت میں رِگ وید کے بھجن لکھے گئے۔ ایک قدیم انگریزی کتاب 'پنجابی مسلمان ' میں مصنف نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ گوجر درحقیقت، ذات پات یا برادری کی تقسیم میں، کھشتری (کھتری) کہلانے والے لوگ تھے۔ اس خیال کی تائید تاریخ گُرجر (راناحسن علی چوہان) سے بھی ہوتی ہے۔

آریوں میں ممتاز قبیلے گوجر کا ایک بڑا رُکن ۔ یا۔ذیلی قبیلہ بکر وال ہے یعنی بھیڑبکریاں اور دیگر مویشی چرانے والے جن پر محققین نے پوری پوری کتابیں لکھی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ برادری قدیم آریوں کی صحیح نمایندہ ہے۔ یہ آج بھی مویشی پالنے کے ساتھ ساتھ شِیرفروشی یعنی دودھ کی تجارت اور بیکری کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ دراوَڑوں کے متعلق یہ بات قابل ذکر ہے کہ چونکہ وہ جنوبی ہند تک محدود ہوگئے ، لہٰذا اُن کی زبانوں (بشمول تلیگو، تَمِل، ملیالَم، کنڑ) پر عموماً آریائی زبانوں کے اثرات نہیں پڑے، البتہ جدید دور میں یہ سلسلہ، اردو یا ہندی کے فیض سے جاری ہوچکا ہے یعنی الفاظ کا اشتراک بہرحال موجود ہے۔

(بعض اہل قلم کا خیال ہے کہ دراوڑ کوئی الگ یا مفتوحہ یا بیرونی قوم نہیں، بلکہ آریوں ہی کی ایک (ٹھکرائی ہوئی) شاخ ہے جو مرورِزمانہ سے جدا ہوگئی۔ اس بابت مزید تحقیق کی ضرورت ہے)۔ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ شمالی اور شمال مغربی ہند اور وسط ایشیائی زبانوں میں آج بھی غیرمعمولی مماثلت موجود ہے، اس خطے میں گوجری الفاظ کی موجودگی بھی حیران کُن ہے اور نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ مشرقی یورپ کی بعض زبانوں میں بھی اس کا گہرا اثر پایا جاتا ہے۔

ہنگیرین[Hungarian] یعنی ہنگری [Hungary] کی زبان میں Ittکا مطلب ہے یہاں اور Ottکا مطلب ہے وہاں، یہ الفاظ آج بھی گوجری میں انھی معنوں میں مستعمل ہیں۔ آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ بظاہر (ہنگری، مشرقی آسٹریا، کروشیا، رومانیا، شمالی سربیا، پولینڈ، سلوواکیا، سلوینیا اور مغربی یوکرین میں بولی جانے والی ) یہ زبان، زبانوں کے ایک مختلف خاندان Uralic ۔ یا۔Uralian سے تعلق رکھتی ہے جو وسطی، مشرقی اور شمالی یورپ کے علاوہ، شمالی ایشیا میں بھی بولی جاتی ہیں۔

یہ خاندان یورپ اور ایشیا کے سنگم کے علاقے (Eurasia) کی اڑتیس زبانوں پر مشتمل ہے۔ ان زبانوں کے اصل وطن کے متعلق اختلاف رائے کے باوجود یہ رائے اپنی جگہ اہم ہے کہ ان کی جنم بھومی اور ہندآریائی زبانوں کا وطن ایک ہی ہے یا قریب قریب ہے۔ ہندآریائی زبانوں میں لتھوئنین [Lithuanian]یعنی لتھوانیا Lithuania] [ کی زبان بھی شامل ہے۔اس کی گوجری سے حیرت انگیز مشابہت سے یوں لگتا ہے جیسے وسط ایشیا میں آریوں کی قدیم زبان ہی وہ زبان تھی جو خطہ ہند میں آکر گوجری کہلائی۔ اس زبان میں اچھی خاصی تعداد میں کلاسیکی لاطینی اور سنسکرت الفاظ آج بھی مستعمل ہیں۔

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں