کامیابی کی کنجی رسوائی
لباسوں کا رنگ سرزمین اور انسانوں کے رنگوں سے الٹ ہوتا ہے۔
ایک سوداگر جب ملکوں ملکوں پھرکر وطن واپس لوٹا تو اپنے ساتھ کالے کپڑے کا بہت اسٹاک بھی لے آیا اس خیال سے کہ وطن میں بیچ کر منافع کما لوں گا۔ لیکن یہ دیکھ کر دھک سا رہ گیا کہ کالے کپڑے کاکوئی خریدار نہیں تھا۔کوئی نام کو بھی نہیں پوچھتا تھا اور کپڑے کے ضایع ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا۔
اس سوداگر نے کپڑا بیچنے کے لیے جو تدبیر کی اس پر تو بعد میں روشنی ڈالیں گے۔ فی الحال کپڑوں اور رنگوں کے بارے میں اپنی تحقیق پیش کرتے ہیں جس کا تعلق اکثر مذاہب یا قومی تقدسات سے بھی جڑا ہوتا ہے لیکن اس کے پیچھے صرف جغرافیہ ہوتا ہے۔
تمام صحرائی علاقوں میں سفید اور سبز رنگ پسندیدہ اور مقبول ہوتا ہے کہ یہ صحرائی پس منظر میں بھی بھلے لگتے ہیں اور دور سے نظر بھی آ جاتے ہیں، پیاسی آنکھوں اور جلتے جسموں کو فرحت کا احساس بھی دلاتے ہیں۔ برفانی علاقوں میں سیاہ رنگ پسندیدہ ہوتا ہے کہ برف اور سفیدی دیکھنے والی آنکھوں کو آرام اور تسکین دیتا ہے۔
گرم علاقوں خاص طور پر ہندوستان میں زرد اور نارنجی رنگ اتنا پسندیدہ ہوتا ہے کہ دیوی دیوتاؤں کا لباس بھی زرد یا نارنجی ہوتاہے۔ مذہبی رشیوں اور برھمنوں کا لباس بھی ان ہی رنگوں کا ہوتا ہے اور خاص بات یہ کہ یہاں کے لوگ کالے ہوتے ہیں جن پر زرد یا نارنجی رنگ کا عکس پڑتا ہے یا روشنی منعکس ہوتی ہے تو ہلکی ہلکی پیلاہٹ بکھر جاتی ہے شاید ہلدی کو بھی اس لیے جسموں پر ملا جاتا ہے۔
یوں کہیے کہ لباسوں کا رنگ سرزمین اور انسانوں کے رنگوں سے الٹ ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں خوراکوں، مقدس جانوروں اور مقدس درختوں یا پودوں کا تعلق بھی جغرافیے سے ہوتاہے۔ سامی مذاہب کا تعلق صحراؤں سے ہے جہاں زندگی کا انحصار ''نباتات'' کی بجائے حیوانات پر ہوتا ہے۔ چنانچہ ان مذاہب میں گوشت جائز اور عمومی خوراک ہوتا ہے جب کہ ہند میں نباتاتی خوراکوں کی بہتات ہے جب کہ جانور مقدس اور ممنوع ہیں۔ کیونکہ زراعت کے لیے صرف گائے بیل ہی نہیں بلکہ پرندے چرندے اور خزندے بھی ضروری ہوتے ہیں۔
اور یہ تو بتانے کی ضرورت نہیں کہ تمام مذاہب کی اصل بنیادیں اسی ایک ہستی کے انتظام کی آئینہ دار ہیں، اس وضاحت یا تعارف کے بعد اس سوداگر کے قصے پر آتے ہیں جو سیاہ کپڑے کا اسٹاک اپنے ملک لے گیا تھا، اپنے مسئلے پرغور کرتے کرتے اچانک اس کے ذہن میں ایک حل آ گیا۔
اس نے ایک شاعر کو ہائر کیا، شاعر نے اس مضمون کو لے کرنغمے گیت بنانا شروع کیے کہ فلاں امیر کی بیٹی یا شہزادی کا چہرہ کالے نقاب میں یوں لگتا ہے جیسے بادل میں چاند اس کے رخسار اس کی آنکھیں اس کا جسم۔ اور یہ بات اتنی پھیلائی کہ حسیناؤں کے ساتھ کالے نقاب اور حجاب بھی مقبول عام ہو گئے اور پھر اس سوداگر کا کالا کپڑا ہاتھوں ہاتھ اور منہ مانگے داموں بک گیا۔ یہ قصہ ہم نے اس لیے سنایا کہ آج کے ''ایڈ'' اور ماڈل گرلز آج کی پیداوار نہیں۔ بلکہ ''ماڈل'' کا تصور بہت پرانا ہے۔
فرق صرف یہ ہے کہ اس زمانے میں ''ماڈلز'' دستیاب نہیں تھی اس لیے نام اور ذکر سے کام چلایا جاتا تھا۔ لیکن آج کیریئر بلکہ کارئر بنانے کے لیے ماڈلوں کی قطاریں کھڑی نظر آتی ہیں۔ البتہ بیچارا سیاہ ہی نہیں ہر قسم کا کپڑا درمیان سے نکل گیا ہے بلکہ شاید سارے کا سارا بک گیا۔ عین ممکن ہے کہ اس ''سیاہ نقاب والی'' حسینہ کے بعد شاعروں نے ہر قسم کے ''لباس'' پر اتنے ایڈ بنائے ہوئے ہوں کہ ہمہ اقسام کے کپڑوں اور لباسوں کو ''ایڈز'' بلکہ کورونا ہو گیا ہو۔
دراصل پبلسٹی اور اشتہار میں بھی انقلابی تبدیلیاں ہو گئی ہیں اور ''مثبت'' کی بجائے ''منفی ''پروپیگنڈہ زیادہ پاپولر ہو گیا۔ چنانچہ آج اگر وہ کالے کپڑے والا سوداگر ہوتا تو وہ شاعر سے ''نقاب'' کی تعریف نہ کرواتا بلکہ برائی کرواتا کہ اس کالے نقاب نے حسینہ کے حسن کو چھپایا ہوا ہے اسے چار چاند لگانے کی بجائے اکلوتے چاند کو چھپایا ہوا ہے لیکن نتیجے میں کپڑا تو نہ بکتا لیکن حسینائیں ہاتھوں ہاتھوں بک جاتیں۔ جس طرح آج ہوتا ہے کہ چیزیں کم اور حسینائیں زیادہ بکتی ہیں۔
سنا ہے پڑوسی ملک بلکہ عین ممکن ہے کہ یہاں بھی ہوں کہ حسینائیں خودکو بکوانے یا کارئر بنانے کے لیے منفی پروپیگنڈے کو ترجیح دیتی ہیں بلکہ اس کے لیے ماہرین ملازم رکھے جاتے ہیں جو اس حسینہ کے سکینڈل ''لیک'' کرتے ہیں۔ ابھی ابھی گزشتہ دنوں ''می ٹو'' کا جو نیا سلسلہ چلا تھا اس میں بہت ساری حسینائیں می ٹو می ٹو کر کے مٹھو بن گئی ہیں۔
صرف یہ ہی نہیں آپ کوشاید پتہ نہ ہو کیونکہ آپ کو پتہ ہی کیا ہے سوائے باتوں کے۔ کہ اکثرممالک کے جاسوس یا مجرمانہ قسم کے ادارے اپنے خلاف خود ہی کتابیں اور مضامین لکھواتے ہیں فلمیں اور ڈرامے بنواتے ہیں اور اپنے کردار کو زیادہ سے زیادہ ''ناپسندیدہ'' مشہور کرتے ہیں کہ آج کل ناپسندیدگی ہی پسندیدگی ہے۔ الیکشنوں میں وہی لوگ جیتتے ہیں جو یہ ثابت کر دیتے ہیں کہ کرپٹ ہیں کیونکہ کسی شریف آدمی سے ووٹر کو کیا دلچسپی ہو سکتی ہے جو نہ کھائیں اور نہ کھانے دیں۔
بعض لیڈروں کی بہت تیز اور جلد مقبولیت اور کامیابی کا راز یہ ہے کہ وہ ''لوگوں'' کو باور کرا دیتے ہیں کہ ہم بھی''تمہاری طرح'' ہیں۔ بدنام حسینائیں سب سے زیادہ کامیاب حسینائیں ہوتی ہیں اردو کے ایک ناول نگار عزیزاحمد کا ایک ناول ہے جس کا نام اب یاد نہیں آ رہا ہے اس کی ہیروئن محض اس وجہ سے بڑے بڑے لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گئی تھی کہ بدنام بہت ہو گئی، مطلب یہ کہ آج کل رسوائی ہی کامیابی ہے اور کامیابی ہی رسوائی ہے اور پبلسٹی شرط ہے۔
ایک بڑھیا اپنے بیٹے کی موت پر بہت زیادہ رو رہی تھی۔ کسی نے پوچھا ایسی کیا خاص بات تھی تمہارے بیٹے میں۔ بولی نہ وہ کسی کے تین میں تھا نہ تیرہ میں۔ نہ کسی کی برائی میں تھا نہ اچھائی میں تھا۔ اس پر اس دانا شخص نے کہا۔ تمہیں ایسے بیٹے کی زندگی پر رونا چاہیے تھا موت پر نہیں۔
اس سوداگر نے کپڑا بیچنے کے لیے جو تدبیر کی اس پر تو بعد میں روشنی ڈالیں گے۔ فی الحال کپڑوں اور رنگوں کے بارے میں اپنی تحقیق پیش کرتے ہیں جس کا تعلق اکثر مذاہب یا قومی تقدسات سے بھی جڑا ہوتا ہے لیکن اس کے پیچھے صرف جغرافیہ ہوتا ہے۔
تمام صحرائی علاقوں میں سفید اور سبز رنگ پسندیدہ اور مقبول ہوتا ہے کہ یہ صحرائی پس منظر میں بھی بھلے لگتے ہیں اور دور سے نظر بھی آ جاتے ہیں، پیاسی آنکھوں اور جلتے جسموں کو فرحت کا احساس بھی دلاتے ہیں۔ برفانی علاقوں میں سیاہ رنگ پسندیدہ ہوتا ہے کہ برف اور سفیدی دیکھنے والی آنکھوں کو آرام اور تسکین دیتا ہے۔
گرم علاقوں خاص طور پر ہندوستان میں زرد اور نارنجی رنگ اتنا پسندیدہ ہوتا ہے کہ دیوی دیوتاؤں کا لباس بھی زرد یا نارنجی ہوتاہے۔ مذہبی رشیوں اور برھمنوں کا لباس بھی ان ہی رنگوں کا ہوتا ہے اور خاص بات یہ کہ یہاں کے لوگ کالے ہوتے ہیں جن پر زرد یا نارنجی رنگ کا عکس پڑتا ہے یا روشنی منعکس ہوتی ہے تو ہلکی ہلکی پیلاہٹ بکھر جاتی ہے شاید ہلدی کو بھی اس لیے جسموں پر ملا جاتا ہے۔
یوں کہیے کہ لباسوں کا رنگ سرزمین اور انسانوں کے رنگوں سے الٹ ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں خوراکوں، مقدس جانوروں اور مقدس درختوں یا پودوں کا تعلق بھی جغرافیے سے ہوتاہے۔ سامی مذاہب کا تعلق صحراؤں سے ہے جہاں زندگی کا انحصار ''نباتات'' کی بجائے حیوانات پر ہوتا ہے۔ چنانچہ ان مذاہب میں گوشت جائز اور عمومی خوراک ہوتا ہے جب کہ ہند میں نباتاتی خوراکوں کی بہتات ہے جب کہ جانور مقدس اور ممنوع ہیں۔ کیونکہ زراعت کے لیے صرف گائے بیل ہی نہیں بلکہ پرندے چرندے اور خزندے بھی ضروری ہوتے ہیں۔
اور یہ تو بتانے کی ضرورت نہیں کہ تمام مذاہب کی اصل بنیادیں اسی ایک ہستی کے انتظام کی آئینہ دار ہیں، اس وضاحت یا تعارف کے بعد اس سوداگر کے قصے پر آتے ہیں جو سیاہ کپڑے کا اسٹاک اپنے ملک لے گیا تھا، اپنے مسئلے پرغور کرتے کرتے اچانک اس کے ذہن میں ایک حل آ گیا۔
اس نے ایک شاعر کو ہائر کیا، شاعر نے اس مضمون کو لے کرنغمے گیت بنانا شروع کیے کہ فلاں امیر کی بیٹی یا شہزادی کا چہرہ کالے نقاب میں یوں لگتا ہے جیسے بادل میں چاند اس کے رخسار اس کی آنکھیں اس کا جسم۔ اور یہ بات اتنی پھیلائی کہ حسیناؤں کے ساتھ کالے نقاب اور حجاب بھی مقبول عام ہو گئے اور پھر اس سوداگر کا کالا کپڑا ہاتھوں ہاتھ اور منہ مانگے داموں بک گیا۔ یہ قصہ ہم نے اس لیے سنایا کہ آج کے ''ایڈ'' اور ماڈل گرلز آج کی پیداوار نہیں۔ بلکہ ''ماڈل'' کا تصور بہت پرانا ہے۔
فرق صرف یہ ہے کہ اس زمانے میں ''ماڈلز'' دستیاب نہیں تھی اس لیے نام اور ذکر سے کام چلایا جاتا تھا۔ لیکن آج کیریئر بلکہ کارئر بنانے کے لیے ماڈلوں کی قطاریں کھڑی نظر آتی ہیں۔ البتہ بیچارا سیاہ ہی نہیں ہر قسم کا کپڑا درمیان سے نکل گیا ہے بلکہ شاید سارے کا سارا بک گیا۔ عین ممکن ہے کہ اس ''سیاہ نقاب والی'' حسینہ کے بعد شاعروں نے ہر قسم کے ''لباس'' پر اتنے ایڈ بنائے ہوئے ہوں کہ ہمہ اقسام کے کپڑوں اور لباسوں کو ''ایڈز'' بلکہ کورونا ہو گیا ہو۔
دراصل پبلسٹی اور اشتہار میں بھی انقلابی تبدیلیاں ہو گئی ہیں اور ''مثبت'' کی بجائے ''منفی ''پروپیگنڈہ زیادہ پاپولر ہو گیا۔ چنانچہ آج اگر وہ کالے کپڑے والا سوداگر ہوتا تو وہ شاعر سے ''نقاب'' کی تعریف نہ کرواتا بلکہ برائی کرواتا کہ اس کالے نقاب نے حسینہ کے حسن کو چھپایا ہوا ہے اسے چار چاند لگانے کی بجائے اکلوتے چاند کو چھپایا ہوا ہے لیکن نتیجے میں کپڑا تو نہ بکتا لیکن حسینائیں ہاتھوں ہاتھوں بک جاتیں۔ جس طرح آج ہوتا ہے کہ چیزیں کم اور حسینائیں زیادہ بکتی ہیں۔
سنا ہے پڑوسی ملک بلکہ عین ممکن ہے کہ یہاں بھی ہوں کہ حسینائیں خودکو بکوانے یا کارئر بنانے کے لیے منفی پروپیگنڈے کو ترجیح دیتی ہیں بلکہ اس کے لیے ماہرین ملازم رکھے جاتے ہیں جو اس حسینہ کے سکینڈل ''لیک'' کرتے ہیں۔ ابھی ابھی گزشتہ دنوں ''می ٹو'' کا جو نیا سلسلہ چلا تھا اس میں بہت ساری حسینائیں می ٹو می ٹو کر کے مٹھو بن گئی ہیں۔
صرف یہ ہی نہیں آپ کوشاید پتہ نہ ہو کیونکہ آپ کو پتہ ہی کیا ہے سوائے باتوں کے۔ کہ اکثرممالک کے جاسوس یا مجرمانہ قسم کے ادارے اپنے خلاف خود ہی کتابیں اور مضامین لکھواتے ہیں فلمیں اور ڈرامے بنواتے ہیں اور اپنے کردار کو زیادہ سے زیادہ ''ناپسندیدہ'' مشہور کرتے ہیں کہ آج کل ناپسندیدگی ہی پسندیدگی ہے۔ الیکشنوں میں وہی لوگ جیتتے ہیں جو یہ ثابت کر دیتے ہیں کہ کرپٹ ہیں کیونکہ کسی شریف آدمی سے ووٹر کو کیا دلچسپی ہو سکتی ہے جو نہ کھائیں اور نہ کھانے دیں۔
بعض لیڈروں کی بہت تیز اور جلد مقبولیت اور کامیابی کا راز یہ ہے کہ وہ ''لوگوں'' کو باور کرا دیتے ہیں کہ ہم بھی''تمہاری طرح'' ہیں۔ بدنام حسینائیں سب سے زیادہ کامیاب حسینائیں ہوتی ہیں اردو کے ایک ناول نگار عزیزاحمد کا ایک ناول ہے جس کا نام اب یاد نہیں آ رہا ہے اس کی ہیروئن محض اس وجہ سے بڑے بڑے لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گئی تھی کہ بدنام بہت ہو گئی، مطلب یہ کہ آج کل رسوائی ہی کامیابی ہے اور کامیابی ہی رسوائی ہے اور پبلسٹی شرط ہے۔
ایک بڑھیا اپنے بیٹے کی موت پر بہت زیادہ رو رہی تھی۔ کسی نے پوچھا ایسی کیا خاص بات تھی تمہارے بیٹے میں۔ بولی نہ وہ کسی کے تین میں تھا نہ تیرہ میں۔ نہ کسی کی برائی میں تھا نہ اچھائی میں تھا۔ اس پر اس دانا شخص نے کہا۔ تمہیں ایسے بیٹے کی زندگی پر رونا چاہیے تھا موت پر نہیں۔