سب سے اہم حکومتی مسئلہ
نیب کورٹ کے مجرم کو حکومت نے باہر بھیجا تو نیب اس کو کیوں واپس لاسکتی ہے۔
شیخ رشید احمد متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ نواز شریف (ان کے سابق قائد) کی تو سیاست ہی ختم ہو چکی ہے مگر ان کی بات پر نہ جانے حکمران کیوں یقین نہیں کر رہے اور حکومت کے بعض وزرا پی ٹی آئی رہنماؤں اور خود وزیر اعظم نے ان کی ملک میں عدم موجودگی کے باوجود نواز شریف کی سیاست کو زندہ رکھا ہوا ہے بلکہ عروج پر پہنچا رکھا ہے جس کی وجہ سے لگتا ہے کہ لندن میں زیر علاج نواز شریف حکومت پی ٹی آئی بعض وزیروں اور خود قیادت کے اعصاب پر سوار ہے جس سے لگتا ہے کہ موجودہ حکومت کے نزدیک ملک کا سب سے بڑا مسئلہ نواز شریف ہیں جن کے واپس آکر جیل جاتے ہی حکومت کو درپیش تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔
وزیر اعظم کو اپنے سخت حریف نواز شریف کو نہ چاہتے ہوئے بھی گزشتہ سال بیرون ملک علاج کے لیے مجبوری میں بھیجنا پڑ گیا تھا حالانکہ وہ ایسا نہیں چاہتے تھے اور بقول شیخ رشید وزیر اعظم کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف ملک سے باہر کیوں گئے اور اب وہاں کسی اسپتال میں داخل رہ کر اپنے گھر میں کیوں علاج کرا رہے ہیں۔ حکومت کو تو نواز شریف کی واک تفریح اور کسی ریسٹورنٹ میں کھانا کھا لینا ایک عیاشی نظر آتی ہے۔
حکمران تو نواز شریف کو وطن سے جاتے وقت اپنے قدموں سے جہاز پر چڑھتا دیکھ کر ہی بے چین ہوگئے تھے کیونکہ کوئی شدید بیمار اس طرح جہاز میں نہیں چڑھ سکتا تھا بلکہ ایسے مریض کو تو اسٹریچر یا وہیل چیئر کے ذریعے جہاز میں جانا چاہیے تھا اور اگر نواز شریف ایسا کر لیتے تو ممکن تھا حکمران مطمئن ہو جاتے اور انھیں اور ان کی حکومت کو دس ماہ سے بیمار نواز شریف کی کبھی کبھی وائرل ہو جانے والی تصاویر پریشان نہ کرتیں کہ یہ شدید بیمار اگر اپنے پیروں سے چل پھر رہا ہے تو وہاں پر کیوں ہے اور وطن واپس آ کر جیل میں کیوں نہیں رہ رہا۔
عمران خان اپنی 22 سالہ سیاسی زندگی میں کم ہی قید میں رہے ہیں اور وہ تھوڑے دنوں کے لیے دو تین بار ہی مختصر قید کے لیے جیل گئے وہ بیمار نہیں تھے۔ ہر قیدی کے لیے قید قید ہوتی ہے وہ جیل کی قید ہو یا گھر میں نظر بندی کہ جب وہ اپنی مرضی سے گھر سے باہر آ جا سکے۔ قید ہونے کی صورت میں تو ہر شخص ہی بیمار پڑ جاتا ہے اور چلنے پھرنے کے لیے بھی چھڑی کا سہارا چاہتا ہے جس کی واضح مثال آصف زرداری ہیں جو عمر میں نواز شریف اور عمران خان سے چھوٹے ہیں جو اس بار بیٹی کے سہارے عدالت میں پیش ہوئے۔
ہر شخص کو قید ہو کر ہی اپنی بیماریوں کا خیال آتا ہے کیونکہ اس کی آزادی ختم ہو جاتی ہے فرق یہ ہے کہ سیاسی رہنماؤں کی نظر بندی قید ہو کر جیل جیسی سخت نہیں ہوتی بلکہ گھر میں آرام دہ تو ہوتی ہے مگر وہ باہر آنے جانے، ملنے ملانے کے لیے آزاد نہیں ہوتا جب کہ نواز شریف قید سے آزاد بیرون ملک اپنے گھر میں ہیں بلکہ گھر سے باہر آنے جانے کے لیے بھی آزاد ہیں اور ان کی یہی آزادی حکمران کو پسند نہیں آ رہی اور نواز شریف کی آزادانہ نقل و حرکت اور تصاویر حکومت میں رہنے والوں کو برداشت نہیں ہو رہیں۔
حکومت کو یہ تو پتا ہوگا کہ صحت مند شخص بھی جیل جا کر بیمار پڑ جاتا ہے اس میں مختلف بیماریاں نظر آ جاتی ہیں جس کی وجہ سے بااثر قیدی اسپتال منتقل ہو جاتے ہیں اور اسپتال میں اپنی نظر بندی کو طول دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
بعض قیدی اگر اپنی ہی حکومت میں کسی وجہ سے قید ہو جائیں تو انھیں اتنے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جتنا تین بار وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کو اپنے سخت مخالفین صدر جنرل پرویز مشرف اور وزیر اعظم عمران خان کی حکومتوں میں سامنا کرنا پڑا تھا۔ وفاق اور پنجاب کے بااختیار کہلانے والے پرویز مشرف کی طرح سے بااختیار بھی نہیں تھے کہ خود وزیر اعظم ہوتے ہوئے اپنے قیدی نواز شریف کو ملک سے باہر جانے سے روک لیتے کیونکہ انھیں پتا ہے کہ نواز شریف کو اقتدار سے باہر اور قید کرانے والے ہی کوئی اور ہیں جن کی بات نہ ماننے کی موجودہ حکومت میں ہمت ہے نہ سیاسی طاقت بلکہ کچھ مجبوریاں ہیں کہ انھیں اقتدار میں لانے والوں کی بات موجودہ حکمران بھی نہ ٹال سکے تھے جنھیں اب پچھتاوا ہے کہ انھوں نے نواز شریف کو کیوں باہر جانے دیا۔
بے بس تو حکومت اب اور بھی زیادہ ہے کہ وہ صرف سیاسی بیان بازیاں ہی کرکے اپنے کارکنوں کو مطمئن کر رہی ہے اور حکمران جانتے ہیں کہ حکومت اسحق ڈار اور سلمان شہباز کو واپس لاسکی نہ الطاف حسین کو لاسکے گی تو نواز شریف تو وزیر اعظم کی مرضی سے باہر گئے ہیں تو ان کی مرضی سے واپس کیسے آسکتے ہیں ،اس حقیقت کا اعتراف تو شیخ رشید اور شہزاد اکبر بھی کرچکے ہیں اور پہلی بار شہزاد اکبر کے لبوں پر محکمہ زراعت کا نام آ ہی گیا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ موجودہ حکمران سابق وزیر اعظم نواز شریف سے تو کیا اپنے اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے کسی اہم رہنما سے ملنا ہی پسند کرتے ہیں نہ ان کی شکل دیکھنے کے روادار ہیں تو انھیں نواز شریف کی صحت مند نظر آنے والی تصاویر اور سیاسی رابطے کیوں پسند آئیں گے۔ نواز شریف اور عمران خان میں ایک واضح فرق یہ ہے کہ اقتدار سے باہر کے نواز شریف اسٹیج سے گر کر زخمی ہونے والے عمران خان کی عیادت کے لیے گئے تھے مگر عمران خان اقتدار میں ہوتے ہوئے نواز شریف کا سامنا نہ کرسکے اور کلثوم نواز کی وفات پر اسیر نواز شریف سے تعزیت ہی کرلیتے۔
اتنی شدید سیاسی مخالفت کرنے والوں سے نواز شریف کو بھی اخلاقیات کی امید نہیں ہوگی مگر نہ جانے حکومت نواز شریف کو قید رکھنے کے لیے کیوں پریشان ہے حالانکہ وہ جانتی ہے کہ وہ کچھ بھی نہیں کرسکے گی اور جانے والا اب اپنی مرضی سے ہی واپس آئے گا حکومت کی کوشش سے نہیں کیونکہ اسے حکومت نے نہیں کسی اور نے بھیجا تھا۔
حکومت وقت کے وزیر، مشیر اور خود حکمران نا جانے کیوں نواز شریف کو اتنی اہمیت دے رہے ہیں اور کابینہ کے اجلاس میں یہ فیصلہ کرلیا گیا ہے کہ نواز شریف کو ملک واپس لانے کے لیے تمام اقدامات اٹھائے جائیں گے اور قانون کا سب پر یکساں اطلاق ہوگا تو پہلے حکومت نیب کے ذریعے حکومتی ذمے داروں کے خلاف قانون کا اطلاق کرائے جن کے معاملات نیب کے پاس ہیں مگر اطلاق صرف اپوزیشن رہنماؤں پر ہو رہا ہے۔ حکومت یہ تو کرسکتی ہے کہ دنیا کو دکھانے کے لیے نیب کے ملزموں کو سرکاری عہدوں سے اس وقت تک کے لیے ہٹا دے جب تک وہ الزامات سے بری نہ ہو جائیں۔
نیب کورٹ کے مجرم کو حکومت نے باہر بھیجا تو نیب اس کو کیوں واپس لاسکتی ہے۔ نواز شریف اصل بھیجنے والوں کے کہنے پر ہی واپس آسکتے ہیں حکومت کے اقدامات سے نہیں، تو بہتر ہے حکومت نواز شریف کو حکومتی اہم مسئلہ نہ بنائے کیونکہ بے روزگاری اور مہنگائی کے چنگل میں پھنسے ہوئے عوام نواز شریف کو حکومت جتنا اہم مسئلہ نہیں سمجھ رہے بلکہ نواز دور کو یاد کرنے پر انھیں موجودہ حکومت نے ہی مجبور کردیا ہے اصل مسائل مہنگائی و بے روزگاری اور سیاسی استحکام نہ ہوناہے ضرورت نواز شریف کے لیے حکومتی اقدامات کی نہیں بلکہ عوام کو درپیش حقیقی مسائل سے نجات دلانے کے اقدامات کی ہے جس کی فکر حکومت کو ہے ہی نہیں۔