بھارت میں بڑھتا ہوا اسلاموفوبیا

بھارت میں مقبوضہ کشمیرکے مسلمان ہی نہیں بلکہ پورے بھارت کے مسلمانوں کومذہبی بنیادوں پرانتہائی سماجی مشکلات کاسامناہے۔


Editorial September 06, 2020
بھارت میں مقبوضہ کشمیرکے مسلمان ہی نہیں بلکہ پورے بھارت کے مسلمانوں کومذہبی بنیادوں پرانتہائی سماجی مشکلات کاسامناہے۔ فوٹو: فائل

پاکستان نے ایک بار پھر بھارت کو باور کرایا ہے کہ تنازع کشمیر کو اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے ایجنڈے سے نہیں ہٹایا جا سکتا۔ اس قرارداد میں وعدہ کیا گیا ہے کہ کشمیر کا تنازع کشمیری عوام کی خواہش کے مطابق حل کیا جائے گا۔

اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے واضح کیا کہ بھارتی نمایندے اپنے عوام سے غلط بیانی کر رہے ہیں کہ وہ تنازع کشمیر کو اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے ایجنڈے سے نکلوا دیں گے۔ ادھر مقبوضہ کشمیر کے حالات کو دیکھا جائے تو بھارت نے جب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے ضم کر لیا ہے، اس کے بعد سے لے کر اب تک کشمیری عوام قیدیوں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔

کورونا وباء کے حوالے سے بھی غور کیا جائے تو بھارت ان ممالک میں شامل ہے جہاں سب سے زیادہ اس وباء سے اموات ہوئی ہیں لیکن بھارتی حکومت نے کسی عالمی تنظیم یہاں تک کہ بھارتی تنظیم کو بھی مقبوضہ کشمیر میں جا کر حالات کا جائزہ لینے کی اجازت نہیں دی۔ مقبوضہ کشمیر میں بسنے والے کشمیریوں کا کورونا وباء کے دوران کیا حال رہا، وہاں کتنی اموات ہوئیں، حکومت نے کیا کیا اقدامات کیے تھے، اس کے بارے میں دنیا تو ایک طرف رہی، پورا بھارت بھی آگاہ نہیں ہے۔

گزشتہ روز اسلام آباد میں پاکستان کی وزارت اطلاعات کے زیراہتمام ''انڈیا اسلاموفوبیا کا مرکز'' کے عنوان کے تحت ایک اہم سیمینار منعقد کیا گیا۔ اس سیمینار کا بنیادی مقصد پورے بھارت اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر نریندر مودی حکومت کے ظلم وستم سے عالمی برادری کو آگاہ کرنا تھا تاکہ عالمی برادری پر دباؤ ڈالا جا سکے کہ وہ بھارتی اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم وستم کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ اس اہم سیمینار میں ہونے والی تقاریر کا یقینی طور پر عالمی سطح پر اثر پڑے گا اور عالمی برادری کو بھارت میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کے بارے میں آگاہی حاصل ہو گی۔

بھارت میں برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی اور وزیراعظم نریندر مودی کی اسلاموفوبیا سے متعلق ایک طویل تاریخ ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان متعدد بار آر ایس ایس کے نظریات پر بات کر چکے ہیں۔ وزیراطلاعات شبلی فراز نے بھی اس حوالے سے بات کی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بھارت میں راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا قیام ہی اسلاموفوبیا کی بنیاد پر عمل میں آیا تھا۔ اس جماعت کے کثیرالجہتی مقاصد متعین کیے گئے تھے اور آج بھی انھی مقاصد کے حصول کے لیے نریندر مودی کوششیں کر رہا ہے۔

آر ایس ایس کے مقاصد میں بھارتی عوام خصوصاً نوجوانوں کی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ذہن سازی کرنا، نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو فوجی تربیت دینا اور مسلمانوں کی تاریخ کو مسخ کرنا شامل ہے۔ آر ایس ایس کے ہی ایک تربیت یافتہ کارکن نتھو رام گاڈسے نے مہاتما گاندھی کو گولی مار کر قتل کیا تھا۔ اس قتل کی وجہ یہ تھی کہ گاندھی نے ہندوستان کی تقسیم کیوں قبول کی؟ اس کے بعد آر ایس ایس پر پابندی عائد کر دی گئی لیکن یہ جماعت رنگ بدل بدل کر اپنی سیاست کرتی رہی اور اب اس کا سیاسی چہرہ بی جے پی ہے۔

بی جے پی میں مرارجی ڈیسائی اور واجپائی جیسے اعتدال پسند رہنما بھی موجود رہے لیکن ان کے بعد بی جے پی پر اسلاموفوبیا کا شکارہندو انتہاپسند قیادت کا کنٹرول قائم ہو گیا۔ پہلے ایل کے ایڈوانی نے رتھ یاترا کے نام پر ایک جلوس کی شکل میں بابری مسجد کو شہید کرایا، اسی دوران نریندر مودی سیاست کے افق پرابھرنا شروع ہوا اور وہ بڑھتے بڑھتے بھارتی ریاست گجرات کا وزیراعلیٰ بن گیا۔ ریاست گجرات میں نریندر مودی کی وزارت اعلیٰ کے دوران مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔

اب بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے اور نریندر مودی دوسری بار وزیراعظم بن چکے ہیں۔ نریندر مودی نے اپنے دورِ وزارتِ عظمیٰ میں بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی۔ نریندر مودی اور اس کے ساتھیوں نے پورے بھارت میں ہندو عوام میں اسلام اور مسلمانوں کا خوف پیدا کر کے اپنا ووٹ بینک بڑھایا۔بھارتیہ جنتا پارٹی اور دیگر انتہاپسند ہندو تنظیموں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے کو بڑے منظم اور سائنٹفک انداز میں پورے بھارت اور دنیا بھر میں پھیلایا۔

امریکا اور یورپی ممالک میں بھی اسلاموفوبیا موجود ہے، اس کا بدترین مظاہرہ نیوزی لینڈ میں دیکھنے میں آیا جہاں ایک دہشت گرد نے مسجد میں نمازیوں کو گولیاں مار کر شہید کیا۔ نریندر مودی نے پاکستان کے خلاف جارحیت کا بھی حربہ استعمال کیا لیکن اسے منہ کی کھانا پڑی تاہم نریندر مودی انتخابات جیت کر دوبارہ وزیراعظم بنے تو انھوں نے گزشتہ سال اگست میں بھارتی آئین میں آرٹیکل 370 اور 35A ختم کر دیا۔

یوں کشمیر کی بھارتی آئین میں خصوصی حیثیت اختتام پذیر ہو گئی اور کشمیر بھارتی یونین کا حصہ بن گیا۔ اس کے ساتھ ہی کشمیر کو تقسیم کر کے لداخ کو وفاق کے زیرانتظام علاقہ بنا لیا گیا۔ لداخ میں ہی اب بھارت اور چین کے درمیان تنازع چل رہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ بھارت نے متنازعہ شہریت بل نافذ کیا، جس کے سب سے زیادہ مضر اثرات بھارتی مسلمانوں پر مرتب ہو رہے ہیں۔

آج کے بھارت میں مقبوضہ کشمیر کے مسلمان ہی نہیں بلکہ پورے بھارت کے مسلمانوں کو مذہبی بنیادوں پر انتہائی سماجی مشکلات کا سامنا ہے، کورونا وباء کا ذمے دار بھی مسلمانوں کو قرار دے دیا گیا ہے اور یوں انھیں ہندوستانی معاشرے میں اچھوت بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دراصل بھارت مسلمانوں کے اسلامی نظریات سے خوفزدہ ہے اور اوپر سے المیہ یہ ہے کہ بھارت میں ہر قسم کا میڈیا، آر ایس ایس اور کارپوریٹ انڈیا کے زیراثر ہے اور ان دونوں کے درمیان اسلاموفوبیا کے حوالے سے گٹھ جوڑ قائم ہو گیا ہے۔

پاکستان کے پالیسی ساز بھارت کے عزائم سے پوری طرح آگاہ ہیں اور بھارت کے پروپیگنڈے کا جواب بھی دیا جا رہا ہے لیکن اس سلسلے میں ہمارے پالیسی سازوں کوانتہائی سائنٹفک انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں