کراچی پر جو گزر گئی
کاش کہ پیپلز پارٹی اب اپنے رویے میں تبدیلی پیدا کرے اور اس شہر کی پرخلوص خدمت کرنے والوں کا ساتھ دے۔
اس دفعہ کی کراچی کی ریکارڈ توڑ بارش نے یہاں ہولناک تباہی تو مچائی مگر محمود و ایاز کو ایک ہی صف میں لا کھڑا کیا۔ کہاں کورنگی، اورنگی، سرجانی کی خستہ حال بستیاں اور کہاں عالی شان علاقے مگر بارش نے غریب اور امیر علاقوں کو ایک جیسا کر دکھایا۔
جہاں کورنگی، اورنگی کی آبادیاں پانی میں ڈوبیں، وہیں پوش علاقے بھی اس عذاب سے نہ بچ سکے تاہم اس بارش نے ثابت کردیا کہ قدرت کی نظر میں سب انسان اور آبادیاں برابر ہیں مگر یہ کیا ہوا کہ غریب بستیاں تو ضرور بے اختیار میئر کے زیر سایہ تھیں ۔ چلو جو بھی ہوا مگر بارش نے شہر کے مہنگے علاقوں کے لوگوں کو غریب بستیوں کے لوگوں کی مشکلات کا ضرور احساس کرا دیا ہے کہ وہ کس طرح اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں۔
پوش علاقوں کے لوگوں کو عام دنوں میں پانی، بجلی، گیس کے مسائل کا کم ہی سامنا کرنا پڑتا ہے جب کہ غریب علاقوں کے لوگ کیا کریں انھیں تو روز ہی پانی، بجلی، گیس اور گٹروں کے گندے پانی سمیت کچرے کے مسائل درپیش رہتے ہیں پھر ان کے مسائل کوئی نئے نہیں ہیں برسوں سے چلے آ رہے ہیں مگر کوئی سننے والا نہیں لوگ شکایت تو کرتے ہیں، احتجاج بھی کرتے ہیں اور بعض دفعہ غصے سے چور ہوکر ٹائر جلا کر سڑکیں بھی بلاک کردیتے ہیں مگر اس کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔
اس لیے کہ میئر کراچی کا صاف کہنا تھا کہ اس کے پاس اختیارات ہی نہیں ہیں، ادھر حکومت سندھ کہتی ہے کہ اس کے پاس کراچی کا مینڈیٹ ہی نہیں ہے پھر وفاقی حکومت تک بات جاتی تو وہ کہتی کہ ملک سخت معاشی مشکلات کا شکار ہے، سابقہ حکومت والے پورا خزانہ لوٹ کر لے گئے ہیں اب بتاؤ ہم کہاں سے فنڈ مہیا کریں۔
کراچی میں حالیہ بارشوں سے ہونے والی ہولناک تباہی جہاں ملکی میڈیا کا خاص موضوع بنا ہوا ہے وہاں قومی رہنماؤں کے بیانات کا بھی یہ موضوع بن گیا ہے۔ سب ہی کراچی کی سابقہ اور موجودہ انتظامیہ اور حکومتوں پر طنز کے تیر برسا رہے ہیں کہ انھوں نے اس سونے کی چڑیا جیسے شہر سے خود کو تو خوب بنایا مگر اس کے عوام پر ذرا ترس نہ کھایا۔ اس شہر کے مسائل کو حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہ دکھائی۔
ملک کے بزرگ سیاستدان اور (ق) لیگ کے صدر چوہدری شجاعت نے کراچی کی بدترین صورتحال کو کرپشن کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے بڑے دکھ سے کہا کہ سندھ کی سابقہ اور موجودہ حکومتوں نے اس کی گندگی کو صاف کرنے کے بجائے اپنے ہاتھوں کی صفائی دکھائی۔ اس وقت کراچی میں منتخب بلدیاتی نظام سے وابستہ کونسلرز اور میئر کی مدت ختم ہو چکی ہے۔ حکومت سندھ نے ایڈمنسٹریٹرز کی تقرری کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ تمام یونین کونسلوں میں سرکاری ملازمین کو عوامی مسائل حل کرنے کے لیے مقرر کیا جا رہا ہے۔ کراچی کے میئر کی جگہ بھی ایڈمنسٹریٹر مقرر کردیا گیا ہے۔
عوامی حلقوں کے مطابق یہ سسٹم کسی طرح بھی عوامی حمایت حاصل نہیں کرسکے گا اس سے کراچی کے مسائل مزید بڑھیں گے، اس لیے اس سسٹم کو طول نہ دیا جائے اور جلد سے جلد بلدیاتی انتخابات منعقد کرائے جائیں۔ اس سلسلے میں کہا جا رہا ہے کہ انتخابی حلقہ بندیوں کا کام سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس ضمن میں حکومت سندھ کو الیکشن کمیشن سے رجوع کرنا چاہیے کہ وہ اپنا کام جلد ازجلد مکمل کرے۔ پنجاب میں الیکشن کمیشن نے ستمبر کے وسط تک حلقہ بندیاں مکمل کرنے کا عندیہ دیا ہے تو جب پنجاب جیسے بڑے صوبے میں بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں شروع ہوچکی ہیں تو سندھ کیوں پیچھے رہ سکتا ہے۔
پنجاب میں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے انتخابات میں شرکت کے لیے کام شروع کردیا ہے۔ اس نے اپنے کارکنوں کو گلی محلوں کی سطح پر دفاتر قائم کرنے اور عوامی رابطہ مہم چلانے کی ہدایت جاری کردی ہے۔ حکومت سندھ کو بھی اب بلدیاتی انتخابات منعقد کرانے کے لیے متحرک ہوجانا چاہیے ساتھ ہی اسے قربانی دینے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے اس لیے کہ اب عوام آدھا تیتر اور آدھا بٹیر والا بلدیاتی نظام ہرگز قبول نہیں کریں گے اب عوام بااختیار میئر چاہتے ہیں جس کے پاس تمام بلدیاتی شعبے ہوں۔
اختیارات کے مسئلے کو اب سندھ حکومت کو بہرحال طے کرنا ہوگا۔ 18 ویں ترمیم سے کیا وہ خود ہی فائدہ اٹھاتی رہے گی، عوام کو بھی اس سے مستفید کیا جائے۔ اس میں شک نہیں کہ پیپلز پارٹی نے طویل جدوجہد کے بعد 18 ویں ترمیم منظور کروائی ہے مگر اس کے تحت ملنے والے تمام اختیارات پر خود ہی قبضہ کرلیا ہے۔ یہ اختیارات دراصل عوام کی امانت ہیں جو نچلی سطح تک منتقل ہونے چاہئیں مگر تمام اختیارات وزیر اعلیٰ کی ذات میں مرکوز ہوکر رہ گئے ہیں یہ سراسر عوام کے ساتھ زیادتی ہے۔ نئے بلدیاتی انتخابات کے بعد اب اسے تمام انتظامی اور مالی اختیارات نئے منتخب کونسلرز سے لے کر میئر تک منتقل کردینے چاہئیں دراصل شہر کے دیرینہ مسائل کا یہی دائمی حل ہے جس سے عوام کی بھرپور خدمت کی جاسکتی ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے بارشوں سے بڑی تعداد میں شہریوں کی ہلاکت پر کہا ہے کہ اس سال تو جو کچھ ہونا تھا وہ ہو گیا مگر اگلے سال ایسا نہیں ہوگا۔ کراچی کے عوام ان کے اس بیان پر حیرت زدہ ہیں کہ آخر اگلے سال تک وہ کراچی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ایسے کون سے طلسماتی اقدامات اٹھانے جا رہے ہیں جس سے شہر کے فرسودہ نکاسی آب کے نظام کو درست کرلیں گے اور اگر وہ واقعی ایسے اقدامات لے سکتے ہیں تو پھر انھوں نے اس میں دیر کیوں کردی؟ انھوں نے اگر پچھلے سال کی بارش کے بعد سے ہی اس کام کا آغاز کردیا ہوتا تو شہر ہولناک سیلابی کیفیت سے محفوظ رہتا اور جو قیمتی جانیں بارش سے تلف ہوگئیں وہ محفوظ رہتیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پیپلزپارٹی نے ہمیشہ اس شہر کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے بیان بازی سے عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے۔
کاش کہ پیپلز پارٹی اب اپنے رویے میں تبدیلی پیدا کرے اور اس شہر کی پرخلوص خدمت کرنے والوں کا ساتھ دے۔ بہرحال یہ تاریخی حقیقت ہے کہ جمشید نسرانجی کے بعد اس شہر کی پرخلوص خدمت کرنے والوں میں مصطفیٰ کمال کا نام ہی عوام کی زبان پر آتا ہے۔ اکثر لوگوں کی دلی خواہش ہے کہ ایسے شخص کو ایک بار پھر اس شہر کی خدمت کرنے کا کیوں نہ موقعہ فراہم کیا جائے۔