’’ٹرانسفارمیشن پلان‘‘ کراچی کے مسائل حل ہوں گے

ہمارے یہاں تاریخ اور حادثات سے سبق سیکھنے کی کوئی روایت نہ تھی۔



KABUL: حالیہ سال مون سون کی بارشیں کچھ زیادہ کیا برسیں ملک کا سارا نظام ڈانواں ڈول ہو گیا اور تمام بڑے اور جدید شہر انتظامی بدحالی کا شکار نظر آئے ۔ یہ ملک بھر میں بیڈ گورننس کے تسلسل کا کچا چٹھا بیان کرتے نظر آئے۔دیگر قوموں کے لیے ایسے مواقع قومی المیے سے کم نہیں ہوتے اور وہ متحد ہوکر سر جوڑ کر بیٹھ جاتی ہیںاور گذشتہ تمام پالیسیاں اور طرز حکمرانی کو ترک کرکے تمام سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر نئی اور جدید مگر یکجہتی پر مبنی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں ۔

لیکن ہمارے یہاں تاریخ اور حادثات سے سبق سیکھنے کی کوئی روایت نہ تھی ۔ کچھ دن قبل جب کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کے حوالے سے وزیر اعظم عمران خان نے ایک ویڈیو لنک اجلاس کا انعقاد کیا تو اُس میں صرف اپنی پارٹی پی ٹی آئی سے وابستہ وفاقی وزراء اور گورنر سندھ کو شامل کیا جب کہ صوبہ کے آئینی نگران اعلیٰ وزیر اعلیٰ سندھ کو اس میں شامل ہی نہیں کیاگیا ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی صوبہ کے دارالحکومت کے ترقیاتی و تعمیراتی اُمور سے متعلق فیصلے کیے جائیں اور اُس صوبہ کی اتھارٹی کو ہی شامل نہ کیاجائے ؟

ماضی کو چھوڑ کر اگر ہم آج کی کراچی کی صورتحال پر نظر ڈالیں تو بھی یہ باتیں سوائے کراچی کو تباہی و بربادی کے کچھ نہیں دے سکتیں۔ جو شہر گذشتہ 35سال سے لسانی فسادات کا گڑھ رہنے کے بعد بڑی مشکل سے امن کی سرحدوں کو چھو رہا ہے ایسے میں غیر آئینی و غیرجمہوری اور غیر اخلاقی بیانات جلتی پر تیل کا کام کررہے ہیں۔یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ وفاقی حکومت نے کراچی کے حوالے سے کوئی منصوبہ بنایاہو ۔

ابھی ایک سال قبل ہی کی بات ہے کہ مارچ 2019میں بھی کراچی کے نئے ماسٹر پلان کی منظوری دی اور اس کے لیے 102ارب روپے مختص کرنے کا فیصلہ اور اعلان کیا۔ جس کے تحت یہی آج والے مسائل جیسے ٹرانسپورٹ ، گرین لائین منصوبہ، لیاری ایکسپریس وے کی توسیع، سرکلر ریلوے کی بحالی، نکاسی آب ، کچرہ و صفائی ستھرائی ، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ اور کورنگی ٹریٹمنٹ پلانٹ و آراو پلانٹس وغیرہ وغیرہ کی اسکیموں پر کام کرنا تھا۔ جوکہ ایک سال گذرجانے پر بھی شروع نہ ہوسکا ۔ جب کہ انھیں دنوںایک وفاقی وزیر کی جانب سے کراچی کو صاف ستھرا بنانے کے لیے کچرہ اُٹھانے کی مہم چلائی گئی اور اُس کے نام پر اہلیان ِ کراچی سے اربوں روپے چندہ لیا ۔

اس لیے درج بالا تمام باتوں کے پیش نظر وزیر اعظم کو ہمارا مشورہ ہے کہ اس ٹرانسفارمیشن پلان کو واضح طور پر صرف کراچی کے مسائل کے حل کی مد میں رکھتے ہوئے وفاق کی جانب سے ایک خطیر رقم مختص کرکے صوبہ کی جمہوری حکومت کے ذریعے اسے پایہ تکمیل کو پہنچائیں ۔ تو کچھ آسرا ہے ، ورنہ ہمیں نہیں لگتا کہ اس پلان سے کراچی کے کوئی مسائل حل ہوپائیں گے۔

کہتے ہیں کہ'' ڈوبتے ہوئے کو تنکے کا سہارا بھی اچھا لگتا ہے '' اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظم کی جانب سے ٹرانسفارمیشن پلان کاجو اعلان کیا گیا ہے وہ بہت اچھی بات ہے کہ دیر سے ہی سہی مگر پاکستانی حکمرانوں کو اس ''منی پاکستان '' کہلانے والے شہر کا کوئی خیال تو آیا مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ ترقیاتی کاموں کے ساتھ ساتھ یہاں سیاسی و سماجی اور انتظامی ہم آہنگی کو بھی اولیت دی جائے کیونکہ ماضی گواہ ہے کہ کراچی کی اس تباہی کا سبب وہ رسہ کشی ہے جو 73سال سے یہاں کے وسائل اور مسائل کے نام پر جاری ہے ۔

ایک تو ماضی گواہ ہے اوردوسرا یہ کہ موجودہ دور میں خود وفاق کی کارکردگی بھی صفر ہے بلکہ کئی اُمور میں تو تباہ کن ثابت ہوئی ہے ، جس پر سپریم کورٹ نے بھی سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔ علاوہ ازیں خود کراچی میں حالیہ برساتوں میں وفاقی اداروں کے ماتحت علاقے تو شہر کے دیگر علاقوں سے زیادہ انتظامی نااہلی کا شکار نظر آئے۔ اور پھر موجودہ وفاقی حکومت کی جانب سے یہاں کسی ایک پروجیکٹ یا ادارے کے قیام کی کوئی مثال تو بتادیں جو کراچی کی خوبصورتی اور ترقی میں معاون ہو۔

کراچی کو پاکستان بنتے ہی وفاقی دارالحکومت بنادیا گیا اور دراصل خوبصورت و خوشبوؤں کے شہر کراچی کی تباہی کا دور وہیں سے شروع ہوا، کیونکہ دارالخلافہ کے نام پر نہ صرف ملک کے دیگر صوبوں بلکہ آس پاس کے ممالک سے بھی لوگوں کو مذہب اور وفاق کے نام پر کراچی میں بڑے پیمانے پر آباد کیا گیا ۔ یوں غیر فطری طریقے سے بڑھنے والی آبادی کے بوجھ نے کراچی کے انفرااسٹرکچر اور سماجی نظام کو درہم برہم کردیا۔

اس وفاقی دورانیے میں نہ تو کوئی نئی تعمیرات کی گئیں اور نہ ہی انفرااسٹرکچر کو وسیع و مضبوط کرنے پر کوئی توجہ دی گئی ۔ پھر اس پر سونے پر سہاگہ یہ کہ 1958میں ملکی دارالخلافہ کو اسلام آباد منتقل کردیا گیا لیکن اُس کی آڑ میں یہاں بسائے گئے لوگوں کی اپنے اپنے علاقے یا پھر نئے دارالخلافہ یعنی اسلام آباد منتقلی کا فرض پورا نہ کرتے ہوئے ان بیرونی لوگوں کی آبادی کا تمام تر بوجھ کراچی پر ڈال دیا گیا ۔ آج کراچی سے منتخب 30کے قریب ایم این ایز آپ کی حکومت کا حصہ ہیں ، ایسے میں کیا وفاقی بجٹ میں کراچی سمیت سندھ کے لیے آئینی حصہ کے مطابق موجودہ حکومت نے کوئی ترقیاتی اسکیمیں دی ہیں ؟

لیکن تبدیلی کے نام پر ووٹ لے کر آنیوالے آپ لوگوں کو چاہیے کہ 73سالوں سے جاری سندھ کے ساتھ یہ ناانصافی اور ظلم کی داستان کو ''ختم شدہ'' کریں ناکہ ظلم و بربریت اور نفرت کے نئے ابواب تحریر کرنے کا باعث بنیں ۔ آپ تو آئے تھے پاکستان بھر کو انصاف دلانے ، آپ تو آئے تھے تمام پاکستانیوں کو موتی کی طرح اتحاد کی مالا میں پرونے ، پھر یہ کیاہوا کہ آپ بھی سابقہ آمروں کی طرح سندھ اور سندھ کے عوام سے سلوک کرنے لگے؟ یہ کسی طور پر بھی ملک خاص طور پر کراچی کے حق میں نہیں ۔ البتہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے کراچی کے حالیہ دورے میں تاجروں کو کرائی گئی یقین دہانی سے کچھ اُمید کی کرن نظر آرہی ہے ۔ انھوں نے کراچی کی بحالی کے لیے مرکزی و صوبائی حکومت کے نمایندوں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دینے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آیندہ تین سالوں میں شہر کو مکمل طور پر تبدیل کیاجائے گا۔

اگر پی ٹی آئی حکومت کراچی سمیت سندھ بھر کو اون کرتی ہے اور کم از کم کراچی ٹرانسفارمیشن پلان میں تمام اسٹیک ہولڈرس کی شمولیت خاص طور پر سندھ حکومت کی انتظامی شراکت کو یقینی بناتے ہوئے شہر کی صفائی ستھرائی ، ترقی و تعمیر ، تجاوزات ہٹانے پر عملدرآمد کے ساتھ ساتھ شہر میں سماجی ، سیاسی اور انتظامی ہم آہنگی کے نظام کی تشکیل میں بھی کردار ادا کرے تو کم از کم یہ ایک تبدیلی پی ٹی آئی کے تبدیلی والے نعرے کی لاج رکھ دے گی جوآنیوالے دنوں میں کراچی سمیت سندھ بھر بلکہ پاکستان بھر کی ترقی وتعمیر ،استحکام اور ملکی سالمیت و بھائی چارے کو فروغ بھی دے گا۔ لیکن یہ ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس لیے اب تو بس اللہ سے یہی دعا ہے کہ یا اللہ کراچی کی خیر ہو۔۔۔!!!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں