سرحدی علاقوں میں رہنے والے بزرگوں کو 1965 کی پاک بھارت جنگ آج بھی یاد
وہ جنگ بہت خوفناک تھی ہمارا سب کچھ تباہ ہوگیا تھا لیکن ہم نے ہمت نہیں ہاری، بھسئن گاؤں کے بزرگ کی یادیں
پاک بھارت سرحدی علاقوں میں رہنے والے بزرگوں کو 1965 میں لڑی گئی پاک بھارت جنگ کے واقعات آج بھی یاد ہیں۔
لاہور کے مشرق میں بہنے والی بی آر بی نہر سے بارڈر تک زیادہ ترعلاقے بھارت کے قبضے میں تھے اس کے باوجود پاک فوج نے اپنے سے کئی گنا بڑی فوج کا ڈٹ کا مقابلہ کیا اور انہیں عبرتناک شکست دی تھی، بھارتی فوج نے اپنے مرنے والے درجنوں فوجیوں کو پاکستانی علاقے میں ہی چتا جلا کر ان کی آخری رسومات ادا کیں.
لاہور کا سرحدی علاقہ بھسین پاک بھارت سرحد سے چند کلومیٹر دور ہے ، 1965 کی پاک بھارت جنگ کے دوران یہ علاقہ بھارت کے قبضے میں چلا گیا تھا تاہم پاک فوج نے گاؤں کا قبضہ ایک دن بعد ہی واپس لے لیا تھا، مقامی بزرگوں کے مطابق 6 ستمبرکی صبح تین،چاربجے فائرنگ شروع ہوئی تھی۔
ایک بزرگ عبدالغفورنے بتایا جب راوی کی طرف سے فائرنگ کی آوازیں آنا شروع ہوئیں تو ہم یہ سمجھے تھے کہ شاید رینجرز والے اسمگلروں پر فائرنگ کررہے ہیں لیکن فائرنگ کا سلسلہ جب بڑھنا شروع ہوا تو پھر سمجھ گئے کہ جنگ لگ گئی ہے۔ سب سے پہلے پاکستانی طیاروں نے بھارت کی فوج کو جواب دیا ، ہمارے جہازوں نے بھارت میں موجود پل کنجری پربم پھینکے تھے جس سے دشمن کوکافی نقصان پہنچا تھا۔
ایک اوربرزگ محمدصادق نے بتایا انیس سوپینسٹھ کی جنگ کے وقت ان کی عمر تین سال کے لگ بھگ تھی، ہم لوگ صبح کی نماز کے لئے اٹھ چکے تھے کہ بھارتی فوج نے حملہ کردیا۔ بی آربی نہریہاں قریب ہی ہے، ہماری فوج نے سب سے پہلے نہرپربنایا گیا پل توڑدیا تھا تاکہ انڈین فوج نہرعبورنہ کرسکے ۔ جو لوگ نہرسے ادھر رہ گئے تھے انہیں پھرفوجیوں نے نہرمیں تار باندھ کر دوسرے کنارے پہنچایا، خود ان کے خاندان کے کئی لوگوں نے اس طرح نہرعبورکی تھی
محمد صادق کا کہنا تھا گاؤں کے زیادہ تربزرگ ،خواتین اوربچے نقل مکانی کرگئے تھے ، کچھ نوجوان بھی چلے گئے۔ جو باقی تھے وہ اپنی فوج کی مدد کررہے تھے، کوئی انہیں گولے پکڑاتا توکوئی ان کے لئے گولیوں کے بکس اٹھاکرلاتا، فوجیوں کے لئے مورچے تیارکرتے رہے تھے ہم لوگ جبکہ گھروں میں جو کچھ کھانے کو موجود تھا وہ بھی فوج کولاکردے رہے تھے۔ بھسین گاؤں کے قریب جس جگہ ہم موجود ہیں یہاں کافی کھلی جگہ تھی اورقریب ہی میوبرادری کا ڈیرہ تھا ، ان لوگوں نے جانوروں کے گوبرسے تیارکئے گئے اپلوں کے ڈھیرلگارکھے تھے ،خشک ایندھن بھی یہاں موجود تھا، بھارتی فوج کے جو لوگ مارے گئے تھے ان کو یہاں ایک ہی جگہ جلا دیا گیا تھا
ایک بزرگ محمداحمد خان نے بتایا سترہ دن بعد جنگ تو ختم ہوگئی تھی لیکن وہ لوگ تقریبا 9 بعد واپس آئے تھے اپنے گھروں میں ، یہاں سب کچھ تباہ ہوچکا تھا، گھر، مکان ، دکانیں کچھ بھی باقی نہیں بچا تھا۔ بھارتی فوج نے لکڑی کے دروازے ،کھڑکیاں اورچھتیں سب تباہ کردی تھیں۔ جب ہم لوگ واپس آئے تویہاں کھیتوں میں بھارتی فوجیوں کی تعفن شدہ لاشیں، ہڈیاں اوراسلحہ پڑا تھا۔
محمداحمد خان کہتے ہیں وہ جنگ بہت خوفناک تھی ، ہمارا سب کچھ تباہ ہوگیا تھا۔ یہاں کئی خاندان ایسے ہیں جو 1947 میں اپنا سب کچھ بھارت میں چھوڑکریہاں آکرآباد ہوئے تھے اوراب ایک بارپھران کا سب کچھ تباہ ہوگیا تھا۔ لیکن بارڈر ایریا میں بسنے والے ان بہادراورجفاکش لوگوں نے ہمت نہیں ہاری اورنئے سرے سے اپنے گھرتعمیرکئے۔ اس جنگ میں ہزاروں مویشی بھی مارے گئےتھے
ان بزرگوں کا کہنا ہے کہ اس وقت توہمارے پاس لڑنے کے لئے صرف لاٹھیاں اورکلھاڑیاں تھیں مگرآج لوگوں کے پاس خود کا لائسنس والا اسلحہ ہے ، اب اگر انڈیا نے پاکستان پرحملے کی حماقت کی توفوج سے پہلے بارڈر ایریا میں بسنے والے عوام اس کو منہ توڑ جواب دیں گے۔
لاہور کے مشرق میں بہنے والی بی آر بی نہر سے بارڈر تک زیادہ ترعلاقے بھارت کے قبضے میں تھے اس کے باوجود پاک فوج نے اپنے سے کئی گنا بڑی فوج کا ڈٹ کا مقابلہ کیا اور انہیں عبرتناک شکست دی تھی، بھارتی فوج نے اپنے مرنے والے درجنوں فوجیوں کو پاکستانی علاقے میں ہی چتا جلا کر ان کی آخری رسومات ادا کیں.
لاہور کا سرحدی علاقہ بھسین پاک بھارت سرحد سے چند کلومیٹر دور ہے ، 1965 کی پاک بھارت جنگ کے دوران یہ علاقہ بھارت کے قبضے میں چلا گیا تھا تاہم پاک فوج نے گاؤں کا قبضہ ایک دن بعد ہی واپس لے لیا تھا، مقامی بزرگوں کے مطابق 6 ستمبرکی صبح تین،چاربجے فائرنگ شروع ہوئی تھی۔
ایک بزرگ عبدالغفورنے بتایا جب راوی کی طرف سے فائرنگ کی آوازیں آنا شروع ہوئیں تو ہم یہ سمجھے تھے کہ شاید رینجرز والے اسمگلروں پر فائرنگ کررہے ہیں لیکن فائرنگ کا سلسلہ جب بڑھنا شروع ہوا تو پھر سمجھ گئے کہ جنگ لگ گئی ہے۔ سب سے پہلے پاکستانی طیاروں نے بھارت کی فوج کو جواب دیا ، ہمارے جہازوں نے بھارت میں موجود پل کنجری پربم پھینکے تھے جس سے دشمن کوکافی نقصان پہنچا تھا۔
ایک اوربرزگ محمدصادق نے بتایا انیس سوپینسٹھ کی جنگ کے وقت ان کی عمر تین سال کے لگ بھگ تھی، ہم لوگ صبح کی نماز کے لئے اٹھ چکے تھے کہ بھارتی فوج نے حملہ کردیا۔ بی آربی نہریہاں قریب ہی ہے، ہماری فوج نے سب سے پہلے نہرپربنایا گیا پل توڑدیا تھا تاکہ انڈین فوج نہرعبورنہ کرسکے ۔ جو لوگ نہرسے ادھر رہ گئے تھے انہیں پھرفوجیوں نے نہرمیں تار باندھ کر دوسرے کنارے پہنچایا، خود ان کے خاندان کے کئی لوگوں نے اس طرح نہرعبورکی تھی
محمد صادق کا کہنا تھا گاؤں کے زیادہ تربزرگ ،خواتین اوربچے نقل مکانی کرگئے تھے ، کچھ نوجوان بھی چلے گئے۔ جو باقی تھے وہ اپنی فوج کی مدد کررہے تھے، کوئی انہیں گولے پکڑاتا توکوئی ان کے لئے گولیوں کے بکس اٹھاکرلاتا، فوجیوں کے لئے مورچے تیارکرتے رہے تھے ہم لوگ جبکہ گھروں میں جو کچھ کھانے کو موجود تھا وہ بھی فوج کولاکردے رہے تھے۔ بھسین گاؤں کے قریب جس جگہ ہم موجود ہیں یہاں کافی کھلی جگہ تھی اورقریب ہی میوبرادری کا ڈیرہ تھا ، ان لوگوں نے جانوروں کے گوبرسے تیارکئے گئے اپلوں کے ڈھیرلگارکھے تھے ،خشک ایندھن بھی یہاں موجود تھا، بھارتی فوج کے جو لوگ مارے گئے تھے ان کو یہاں ایک ہی جگہ جلا دیا گیا تھا
ایک بزرگ محمداحمد خان نے بتایا سترہ دن بعد جنگ تو ختم ہوگئی تھی لیکن وہ لوگ تقریبا 9 بعد واپس آئے تھے اپنے گھروں میں ، یہاں سب کچھ تباہ ہوچکا تھا، گھر، مکان ، دکانیں کچھ بھی باقی نہیں بچا تھا۔ بھارتی فوج نے لکڑی کے دروازے ،کھڑکیاں اورچھتیں سب تباہ کردی تھیں۔ جب ہم لوگ واپس آئے تویہاں کھیتوں میں بھارتی فوجیوں کی تعفن شدہ لاشیں، ہڈیاں اوراسلحہ پڑا تھا۔
محمداحمد خان کہتے ہیں وہ جنگ بہت خوفناک تھی ، ہمارا سب کچھ تباہ ہوگیا تھا۔ یہاں کئی خاندان ایسے ہیں جو 1947 میں اپنا سب کچھ بھارت میں چھوڑکریہاں آکرآباد ہوئے تھے اوراب ایک بارپھران کا سب کچھ تباہ ہوگیا تھا۔ لیکن بارڈر ایریا میں بسنے والے ان بہادراورجفاکش لوگوں نے ہمت نہیں ہاری اورنئے سرے سے اپنے گھرتعمیرکئے۔ اس جنگ میں ہزاروں مویشی بھی مارے گئےتھے
ان بزرگوں کا کہنا ہے کہ اس وقت توہمارے پاس لڑنے کے لئے صرف لاٹھیاں اورکلھاڑیاں تھیں مگرآج لوگوں کے پاس خود کا لائسنس والا اسلحہ ہے ، اب اگر انڈیا نے پاکستان پرحملے کی حماقت کی توفوج سے پہلے بارڈر ایریا میں بسنے والے عوام اس کو منہ توڑ جواب دیں گے۔