وہ خطہجہاں اُسترے بنتے ہیں
مہاراجہ سے چٹھی لکھوا کے ماموں لاٹ صاحب کے سامنے حاضر ہو گئے۔
کھڑک سنگھ، پٹیالہ کے مہاراجہ کے ماموں اور ایک لمبی چوڑی جاگیر کے مالک تھے۔ جاگیرداری کی یکسانیت سے اُکتاکے بھانجے سے کہا، تیرے شہر میں سیشن جج کی کرسی خالی ہے۔ اس دور میں کرسی کا آرڈر وائسرائے جاری کرتے تھے۔ تو لاٹ صاحب کے نام چٹھی لکھ دے اور میں سیشن جج کا پروانہ لے آتا ہوں۔
مہاراجہ سے چٹھی لکھوا کے ماموں لاٹ صاحب کے سامنے حاضر ہو گئے۔ وائسرائے نے پوچھا، نام؟ بولے، کھڑک سنگھ۔ تعلیم؟ بولے کیوں سرکار؟ میں کوئی اسکول میں بچے پڑھانے کا آرڈر لینے آیا ہوں۔ وائسرائے ہنسے، بولے سردار جی، قانون کی تعلیم کا پوچھا ہے۔ آخر آپ نے اچھے بروں کے درمیان تمیز کرنی ہے۔ کھڑک سنگھ بولے، سرکار اتنی سی بات کے لیے گدھا بھر وزن کی کتابوں کی کیا ضرورت ہے؟ یہ کام میں برسوں سے پنچائیت میں کرتا آیا ہوں اور ایک نظر میں اچھے بُرے کی تمیز کر لیتا ہوں۔ وائسرائے نے درخواست لی اور حکم نامہ جاری کر دیا۔ اب کھڑک سنگھ جسٹس کھڑک سنگھ بن کر پٹیالہ تشریف لے آئے۔
خدا کی قدرت پہلا مقدمہ ہی جسٹس کھڑک سنگھ کی عدالت میں قتل کا آگیا۔ ایک طرف چار قاتل کٹہرے میں کھڑے تھے، دوسری طرف ایک روتی ہوئی عورت کھڑی آنسو پونچھ رہی تھی۔ جسٹس کھڑک سنگھ نے کرسی پر بیٹھنے سے پہلے دونوں طرف کھڑے لوگوں کو اچھی طرح دیکھ لیا۔ اتنے میں پولیس آفیسر آگے بڑھا اور جسٹس کھڑک سنگھ کے سامنے کچھ کاغذات رکھے اور کہنے لگا، مائی لارڈ یہ عورت کرانتی کور ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ان چاروں نے ملکر اس کے خاوندکا خون کیا ہے۔
کیوں مائی؟ جسٹس کھڑک سنگھ نے پولیس افسرکی بات بھی پوری نہیں سنی اور عورت سے پوچھنے لگے کیسے مارا تھا؟ عورت نے ایک ایک کی طرف اشارہ کر کے تفصیل بتائی کہ میرے سر کے تاج کو جان سے مار دیا۔ جسٹس کھڑک سنگھ نے غصے سے چاروں ملزموں کو دیکھا اور کہا کیوں بھئی، تم نے بندہ مار دیا؟نہ جی نہ میرے ہاتھ میں تو بیلچہ تھا کسی نہیں، دوسرا ملزم بولا جناب میرے پاس برچھا نہیں تھا ایک سوٹی کے آگے درانتی بندھی تھی پتے جھاڑنے والی۔ جناب ہمارامقصد تو نہ اسے مارنا تھا، نہ زخمی کرنا تھا۔ تمہاری ایسی کی تیسی، مقصد بھی تھا کوئی تمہارا؟ کرتا ہوں تم سب کا بندوبست، جسٹس کھڑک سنگھ بولے۔ کاغذوں کے پلندے کو پکڑ کر اپنے آگے کیا اور فیصلہ لکھنے ہی لگے تھے کہ ایک دم سے عدالت کی ایک کرسی سے کالے کوٹ والاآدمی اُٹھ کر تیزی سے سامنے آیا، اور بولا، مائی لارڈ آپ پوری تفصیل تو سنیں۔ میرے یہ موکل تو صرف سمجھانے کے لیے اس کی زمین پر گئے تھے۔ ان کے ہاتھ میں تو صرف ڈنڈے تھے، ڈنڈے بھی کہاں وہ توکماد سے توڑے ہوئے گنے تھے۔
پھر ایک منٹ جسٹس کھڑک سنگھ نے کالے کوٹ والے کو روکا اور پولیس افسر کو بُلا کر پوچھا یہ کالے کوٹ والا کون ہے؟ سرکار یہ وکیل ہے، ملزمان کا وکیلِ صفائی، پولیس افسر نے بتایا۔ یعنی یہ بھی انھی کا بندہ ہوا نا جو ان کی طرف سے بات کرتا ہے، جسٹس کھڑک سنگھ نے وکیل سے کہا۔ ادھر کھڑے ہو جاؤ قاتلوں کے ساتھ۔ اتنی بات کی اور کاغذوں کے پلندے پر ایک سطری فیصلہ لکھ کر دستخط کر دیے۔ جسٹس کھڑک سنگھ نے فیصلہ لکھا تھا کہ چار قاتل اور پانچواں انکا وکیل، پانچوں کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے۔ پٹیالے میں تھرتھلی مچ گئی، کھڑک سنگھ آگیا ہے جو قاتل کے ساتھ وکیل کو بھی پھانسی دیتا ہے۔ کہتے ہیں جب تک جسٹس کھڑک سنگھ سیشن جج رہے، پٹیالہ ریاست میں قتل نہیں ہوا۔
یہ فرضی کہانی ہے، قصیدہ ہے، افسانہ ہے یاحقیقت۔ اس سے کسی کی کوئی دلچسپی نہیں۔ صرف اس کے مقصد پر نظر ہے۔ اسے پڑھ کر سوچ رہا ہوں کہ کیا جس خطے میں رہ رہا ہوں، وہاں کسی قسم کے انصاف کا کوئی شائبہ تک موجود نہیں ہے۔ انصاف، دراصل ریاست کی بے پناہ قوت کے سہارے کھڑا ہوتا ہے۔ مگر ہمارے ملک کے ناقص ترین نظام میں یہ توازن بھی موجود نہیں ہے۔
یہی منٹو نے بیان کیا ہے۔ برصغیرکے ان ذہین ترین لوگوں میں سے تھا، جو سماجی مشکلات اور اندوہ کو انتہائی باریکی سے محسوس کر سکتے تھے۔ اس کے بعد اپنے قلم سے اسے لفظوں کا شہکار بنا ڈالتے تھے۔ منٹو کے پائے کا کوئی اُردو لکھاری کم ازکم ابھی تک سامنے نہیں آپایا۔ افسانے ''ٹوبہ ٹیک سنگھ'' میں لکھتا ہے کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں استرے بنتے ہیں۔
آج سے تیس سال پہلے جب پہلی بار اس افسانے کو پڑھا، تو کچھ بھی سمجھ نہیں آیا۔ ویسے اکثر چیزیں تو اب بھی پلے نہیں پڑتیں۔ مگر اب زندگی کا سورج غروب ہونے کو ہے۔ تو ادراک معمولی ساپختہ ہو گیا ہے۔ جب اسی افسانے کو تین سال پہلے دوبارہ پڑھا تو تھوڑا سا سمجھ میں آیا۔ چند ہفتے اسی افسانے کو تقریباً دو گھنٹے مسلسل پڑھتا رہا، تو یہ جملہ کافی حد تک سمجھ میں آیا، کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں اُسترے بنتے ہیں۔ منٹو اتنا جہان دیدہ انسان تھا اور معاشرہ پر اس کی نظر اتنی گہری تھی کہ یہ الفاظ ساٹھ برس پہلے کے ملک کے متعلق لکھ رہاتھا۔ پر صاحبان! عام آدمی کے لیے انصاف نہ اس وقت تھا اور نہ ہی آج ہے۔
ہمارے اَن گنت مسائل میں سے سب سے بڑا مسئلہ موجودہ نظامِ عدل ہے۔ ایک ادنیٰ پولیس فورس، ناقص ترین تفتیش، جانوروں کے باڑے سے بھی گھٹیا جیل اور ایک محیرالعقول حد تک بے تدبیر عدل پر ختم ہو جاتا ہے۔ گراوٹ اور بدبو ہر جگہ موجود ہے۔ مجھے واقعی علم ہی نہیں ہے کہ ملک پر حکومت کس کی ہے۔ اسے جاننے کے لیے مجھے کسی قسم کا کوئی شوق بھی نہیں ہے۔ صرف یہ محسوس کرتا ہوں کہ کوئی بھی بادشاہ اور قاضی ہمارے ملک میں عدل قائم نہیں کر سکا۔ ہر ایک نے نعرے لگائے، لوگوں کو کسی نہ کسی نعرے کے تحت بیوقوف بنایا۔ پیسے بٹورے اور پھر نظروں سے غائب۔ اس کے بعدکوئی دوسرا جادوگر سامنے آجاتا ہے۔
بڑے بڑے ارفع دماغ، ہمیں دلفریب نعرے دیتے رہتے ہیں۔ ڈکٹیٹرشپ اور سول حکومت کے درمیان فرق کو اُجاگر کرتے رہتے ہیں۔ مگر عام آدمی کے لیے تو ان دونوں میں کسی قسم کی کوئی تفریق نہیں ہے۔ اسے تو صرف اور صرف اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے بروقت اقدامات اور فعال نظام چاہیے۔ اور یہی وہ نکتہ ہے، جہاں ہم عدم توجہ کا شکار ہو جاتے ہیں۔
عام آدمی بلکہ خاص آدمی کو اس عنصرسے کوئی دلچسپی نہیں کہ سیاست کے ہیٹ سے سفید کبوتر نکلتا ہے یا چتکبرہ خرگوش یا کوئی رنگین سانپ بل کھاتا ہوا باہر آجاتا ہے۔ اسے فکر ہے تو اپنی زندگی کی۔ اپنے مسائل کے برق رفتاری سے حل ہونے کی۔ یہ حددرجہ تدبر اور فکر کی منزل ہے۔ یقین فرمائیے۔ پاکستان کے ستر فیصد لوگوں کو ملک کے صدر کا نام یاد نہیں ہو گا۔ نوے فیصد لوگ ملک کے پہلے وزیراعظم کا نام نہیں بتاسکتے۔ مگر سو فیصد لوگ یہ ضرور بتائینگے کہ زمین بیچنے کے لیے فرد حاصل کرتے ہوئے محکمہ مال کو پیسے دینے پڑتے ہیں۔ تمام لوگ یک زبان ہو کر چلائینگے کہ تھانے میں ان کی کوئی شنوائی نہیں ہے۔
بائیس کروڑ لوگ ببانگ دہل کہیں گے کہ انھیں عدالتوں سے انصاف کی کوئی توقع نہیں ہے۔ بڑے محکموں کی گزارش نہیں کر رہا۔ کسٹم، انکم ٹیکس کے افسرکتنے امیر و کبیر ہیں۔ اس کا تصور شائد عام لوگ کر ہی نہیں سکتے۔ مگر جن بدقماش محکموں سے انکو روز واسطہ پڑتا ہے، وہاں انھیں ذلت کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ دھکوں کے علاوہ ان کے مقدر میں کچھ بھی نہیں آتا۔
مشورہ دینے کی حیثیت توخیرہے ہی نہیں۔ کیونکہ نہ کوئی سنتا ہے اور نہ کوئی ادارہ یا حاکم سننا چاہتا ہے۔ صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ملک کے روایتی مشاورتی عمل کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے، وزیراعظم، دوسرے اداروں سے پُرخلوص مکالمہ کریں۔ عدلیہ کے سربراہ بھی ہمارے ملک کے شہری ہیں۔
ان سے مشاورت کی جائے کہ نظامِ عدل کو کس طرح بہترکیا جائے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسکو مکمل طور پر رَد کر کے ایک نئے انصاف کے ادارہ کی بنیاد ڈالی جائے۔ جس میں حددرجہ قابلِ فخر انصاف ہوتا ہوا نظر آئے۔ انتظامیہ تو اس وقت صرف اور صرف ڈھٹائی سے لوگوں کی جیب کاٹنے پر لگی ہوئی ہے۔ اسکو کیسے درست کیا جائے۔ یہ تو خالصتاً وزیراعظم اور وزراء اعلیٰ کا کام ہے۔ مگر اس معاملے میں بھی موجودہ اور سابقہ حکمران ناکام رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ جسٹس کھڑک سنگھ کا عدالتی انصاف صرف اور صرف ایک قصہ ہو۔ مگر سوچیے یہ کتنا موثر قصہ ہے۔ چھوڑ دیجیے۔ مگر منٹوکی یہ بات تو بالکل درست ہے کہ یہ وہ خطہ ہے جہاں اُسترے بنتے ہیں۔
مہاراجہ سے چٹھی لکھوا کے ماموں لاٹ صاحب کے سامنے حاضر ہو گئے۔ وائسرائے نے پوچھا، نام؟ بولے، کھڑک سنگھ۔ تعلیم؟ بولے کیوں سرکار؟ میں کوئی اسکول میں بچے پڑھانے کا آرڈر لینے آیا ہوں۔ وائسرائے ہنسے، بولے سردار جی، قانون کی تعلیم کا پوچھا ہے۔ آخر آپ نے اچھے بروں کے درمیان تمیز کرنی ہے۔ کھڑک سنگھ بولے، سرکار اتنی سی بات کے لیے گدھا بھر وزن کی کتابوں کی کیا ضرورت ہے؟ یہ کام میں برسوں سے پنچائیت میں کرتا آیا ہوں اور ایک نظر میں اچھے بُرے کی تمیز کر لیتا ہوں۔ وائسرائے نے درخواست لی اور حکم نامہ جاری کر دیا۔ اب کھڑک سنگھ جسٹس کھڑک سنگھ بن کر پٹیالہ تشریف لے آئے۔
خدا کی قدرت پہلا مقدمہ ہی جسٹس کھڑک سنگھ کی عدالت میں قتل کا آگیا۔ ایک طرف چار قاتل کٹہرے میں کھڑے تھے، دوسری طرف ایک روتی ہوئی عورت کھڑی آنسو پونچھ رہی تھی۔ جسٹس کھڑک سنگھ نے کرسی پر بیٹھنے سے پہلے دونوں طرف کھڑے لوگوں کو اچھی طرح دیکھ لیا۔ اتنے میں پولیس آفیسر آگے بڑھا اور جسٹس کھڑک سنگھ کے سامنے کچھ کاغذات رکھے اور کہنے لگا، مائی لارڈ یہ عورت کرانتی کور ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ان چاروں نے ملکر اس کے خاوندکا خون کیا ہے۔
کیوں مائی؟ جسٹس کھڑک سنگھ نے پولیس افسرکی بات بھی پوری نہیں سنی اور عورت سے پوچھنے لگے کیسے مارا تھا؟ عورت نے ایک ایک کی طرف اشارہ کر کے تفصیل بتائی کہ میرے سر کے تاج کو جان سے مار دیا۔ جسٹس کھڑک سنگھ نے غصے سے چاروں ملزموں کو دیکھا اور کہا کیوں بھئی، تم نے بندہ مار دیا؟نہ جی نہ میرے ہاتھ میں تو بیلچہ تھا کسی نہیں، دوسرا ملزم بولا جناب میرے پاس برچھا نہیں تھا ایک سوٹی کے آگے درانتی بندھی تھی پتے جھاڑنے والی۔ جناب ہمارامقصد تو نہ اسے مارنا تھا، نہ زخمی کرنا تھا۔ تمہاری ایسی کی تیسی، مقصد بھی تھا کوئی تمہارا؟ کرتا ہوں تم سب کا بندوبست، جسٹس کھڑک سنگھ بولے۔ کاغذوں کے پلندے کو پکڑ کر اپنے آگے کیا اور فیصلہ لکھنے ہی لگے تھے کہ ایک دم سے عدالت کی ایک کرسی سے کالے کوٹ والاآدمی اُٹھ کر تیزی سے سامنے آیا، اور بولا، مائی لارڈ آپ پوری تفصیل تو سنیں۔ میرے یہ موکل تو صرف سمجھانے کے لیے اس کی زمین پر گئے تھے۔ ان کے ہاتھ میں تو صرف ڈنڈے تھے، ڈنڈے بھی کہاں وہ توکماد سے توڑے ہوئے گنے تھے۔
پھر ایک منٹ جسٹس کھڑک سنگھ نے کالے کوٹ والے کو روکا اور پولیس افسر کو بُلا کر پوچھا یہ کالے کوٹ والا کون ہے؟ سرکار یہ وکیل ہے، ملزمان کا وکیلِ صفائی، پولیس افسر نے بتایا۔ یعنی یہ بھی انھی کا بندہ ہوا نا جو ان کی طرف سے بات کرتا ہے، جسٹس کھڑک سنگھ نے وکیل سے کہا۔ ادھر کھڑے ہو جاؤ قاتلوں کے ساتھ۔ اتنی بات کی اور کاغذوں کے پلندے پر ایک سطری فیصلہ لکھ کر دستخط کر دیے۔ جسٹس کھڑک سنگھ نے فیصلہ لکھا تھا کہ چار قاتل اور پانچواں انکا وکیل، پانچوں کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے۔ پٹیالے میں تھرتھلی مچ گئی، کھڑک سنگھ آگیا ہے جو قاتل کے ساتھ وکیل کو بھی پھانسی دیتا ہے۔ کہتے ہیں جب تک جسٹس کھڑک سنگھ سیشن جج رہے، پٹیالہ ریاست میں قتل نہیں ہوا۔
یہ فرضی کہانی ہے، قصیدہ ہے، افسانہ ہے یاحقیقت۔ اس سے کسی کی کوئی دلچسپی نہیں۔ صرف اس کے مقصد پر نظر ہے۔ اسے پڑھ کر سوچ رہا ہوں کہ کیا جس خطے میں رہ رہا ہوں، وہاں کسی قسم کے انصاف کا کوئی شائبہ تک موجود نہیں ہے۔ انصاف، دراصل ریاست کی بے پناہ قوت کے سہارے کھڑا ہوتا ہے۔ مگر ہمارے ملک کے ناقص ترین نظام میں یہ توازن بھی موجود نہیں ہے۔
یہی منٹو نے بیان کیا ہے۔ برصغیرکے ان ذہین ترین لوگوں میں سے تھا، جو سماجی مشکلات اور اندوہ کو انتہائی باریکی سے محسوس کر سکتے تھے۔ اس کے بعد اپنے قلم سے اسے لفظوں کا شہکار بنا ڈالتے تھے۔ منٹو کے پائے کا کوئی اُردو لکھاری کم ازکم ابھی تک سامنے نہیں آپایا۔ افسانے ''ٹوبہ ٹیک سنگھ'' میں لکھتا ہے کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں استرے بنتے ہیں۔
آج سے تیس سال پہلے جب پہلی بار اس افسانے کو پڑھا، تو کچھ بھی سمجھ نہیں آیا۔ ویسے اکثر چیزیں تو اب بھی پلے نہیں پڑتیں۔ مگر اب زندگی کا سورج غروب ہونے کو ہے۔ تو ادراک معمولی ساپختہ ہو گیا ہے۔ جب اسی افسانے کو تین سال پہلے دوبارہ پڑھا تو تھوڑا سا سمجھ میں آیا۔ چند ہفتے اسی افسانے کو تقریباً دو گھنٹے مسلسل پڑھتا رہا، تو یہ جملہ کافی حد تک سمجھ میں آیا، کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں اُسترے بنتے ہیں۔ منٹو اتنا جہان دیدہ انسان تھا اور معاشرہ پر اس کی نظر اتنی گہری تھی کہ یہ الفاظ ساٹھ برس پہلے کے ملک کے متعلق لکھ رہاتھا۔ پر صاحبان! عام آدمی کے لیے انصاف نہ اس وقت تھا اور نہ ہی آج ہے۔
ہمارے اَن گنت مسائل میں سے سب سے بڑا مسئلہ موجودہ نظامِ عدل ہے۔ ایک ادنیٰ پولیس فورس، ناقص ترین تفتیش، جانوروں کے باڑے سے بھی گھٹیا جیل اور ایک محیرالعقول حد تک بے تدبیر عدل پر ختم ہو جاتا ہے۔ گراوٹ اور بدبو ہر جگہ موجود ہے۔ مجھے واقعی علم ہی نہیں ہے کہ ملک پر حکومت کس کی ہے۔ اسے جاننے کے لیے مجھے کسی قسم کا کوئی شوق بھی نہیں ہے۔ صرف یہ محسوس کرتا ہوں کہ کوئی بھی بادشاہ اور قاضی ہمارے ملک میں عدل قائم نہیں کر سکا۔ ہر ایک نے نعرے لگائے، لوگوں کو کسی نہ کسی نعرے کے تحت بیوقوف بنایا۔ پیسے بٹورے اور پھر نظروں سے غائب۔ اس کے بعدکوئی دوسرا جادوگر سامنے آجاتا ہے۔
بڑے بڑے ارفع دماغ، ہمیں دلفریب نعرے دیتے رہتے ہیں۔ ڈکٹیٹرشپ اور سول حکومت کے درمیان فرق کو اُجاگر کرتے رہتے ہیں۔ مگر عام آدمی کے لیے تو ان دونوں میں کسی قسم کی کوئی تفریق نہیں ہے۔ اسے تو صرف اور صرف اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے بروقت اقدامات اور فعال نظام چاہیے۔ اور یہی وہ نکتہ ہے، جہاں ہم عدم توجہ کا شکار ہو جاتے ہیں۔
عام آدمی بلکہ خاص آدمی کو اس عنصرسے کوئی دلچسپی نہیں کہ سیاست کے ہیٹ سے سفید کبوتر نکلتا ہے یا چتکبرہ خرگوش یا کوئی رنگین سانپ بل کھاتا ہوا باہر آجاتا ہے۔ اسے فکر ہے تو اپنی زندگی کی۔ اپنے مسائل کے برق رفتاری سے حل ہونے کی۔ یہ حددرجہ تدبر اور فکر کی منزل ہے۔ یقین فرمائیے۔ پاکستان کے ستر فیصد لوگوں کو ملک کے صدر کا نام یاد نہیں ہو گا۔ نوے فیصد لوگ ملک کے پہلے وزیراعظم کا نام نہیں بتاسکتے۔ مگر سو فیصد لوگ یہ ضرور بتائینگے کہ زمین بیچنے کے لیے فرد حاصل کرتے ہوئے محکمہ مال کو پیسے دینے پڑتے ہیں۔ تمام لوگ یک زبان ہو کر چلائینگے کہ تھانے میں ان کی کوئی شنوائی نہیں ہے۔
بائیس کروڑ لوگ ببانگ دہل کہیں گے کہ انھیں عدالتوں سے انصاف کی کوئی توقع نہیں ہے۔ بڑے محکموں کی گزارش نہیں کر رہا۔ کسٹم، انکم ٹیکس کے افسرکتنے امیر و کبیر ہیں۔ اس کا تصور شائد عام لوگ کر ہی نہیں سکتے۔ مگر جن بدقماش محکموں سے انکو روز واسطہ پڑتا ہے، وہاں انھیں ذلت کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ دھکوں کے علاوہ ان کے مقدر میں کچھ بھی نہیں آتا۔
مشورہ دینے کی حیثیت توخیرہے ہی نہیں۔ کیونکہ نہ کوئی سنتا ہے اور نہ کوئی ادارہ یا حاکم سننا چاہتا ہے۔ صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ملک کے روایتی مشاورتی عمل کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے، وزیراعظم، دوسرے اداروں سے پُرخلوص مکالمہ کریں۔ عدلیہ کے سربراہ بھی ہمارے ملک کے شہری ہیں۔
ان سے مشاورت کی جائے کہ نظامِ عدل کو کس طرح بہترکیا جائے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسکو مکمل طور پر رَد کر کے ایک نئے انصاف کے ادارہ کی بنیاد ڈالی جائے۔ جس میں حددرجہ قابلِ فخر انصاف ہوتا ہوا نظر آئے۔ انتظامیہ تو اس وقت صرف اور صرف ڈھٹائی سے لوگوں کی جیب کاٹنے پر لگی ہوئی ہے۔ اسکو کیسے درست کیا جائے۔ یہ تو خالصتاً وزیراعظم اور وزراء اعلیٰ کا کام ہے۔ مگر اس معاملے میں بھی موجودہ اور سابقہ حکمران ناکام رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ جسٹس کھڑک سنگھ کا عدالتی انصاف صرف اور صرف ایک قصہ ہو۔ مگر سوچیے یہ کتنا موثر قصہ ہے۔ چھوڑ دیجیے۔ مگر منٹوکی یہ بات تو بالکل درست ہے کہ یہ وہ خطہ ہے جہاں اُسترے بنتے ہیں۔