آکاس بیل کا پودا اپنے میزبان کی ’جاسوسی‘ بھی کرتا ہے ماہرین

آکاس بیل کا طفیلی پودا ہماری سوچ سے بھی بڑھ کر ’مکار‘ اور ’عیار‘ ثابت ہورہا ہے

آکاس بیل کا طفیلی پودا ہماری سوچ سے بھی بڑھ کر ’مکار‘ اور ’عیار‘ ثابت ہورہا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

چینی ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ بدنامِ زمانہ طفیلی پودا ''آکاس بیل'' (ڈوڈر پلانٹ) اتنا مکار ہے کہ وہ صرف اپنے میزبان کے غذائی اجزاء اور پانی ہی استعمال نہیں کرتا بلکہ اس کی ''جاسوسی'' بھی کرتا رہتا ہے تاکہ جیسے ہی میزبان پودے میں پھول لگنے کا وقت آئے تو یہ بھی خود پر پھول اُگانے کی تیاری کرلے۔

واضح رہے کہ آکاس بیل میں جڑیں اور پتّے نہیں ہوتے بلکہ وہ کسی موٹے دھاگے کی طرح اپنے میزبان (ہوسٹ) پودے کے گرد لپٹ کر اس کی شاخوں میں اپنی باریک نلکیاں (ٹیوبز) داخل کردیتی ہے جن کے ذریعے وہ اس پودے کی غذا اور پانی چوس کر مزید بڑھتی اور پھیلتی رہتا ہے۔

ایک پودے کو چوس کر ختم کرتے دوران ہی آکاس بیل کسی دوسرے قریبی پودے پر حملہ آور ہوجاتی ہے اور یوں وہ دوسرے پودوں کی جان لے کر اپنی بقاء کو یقینی بناتی ہے۔

یہ خبر بھی پڑھیے: طفیلی پودے 'جین کی چوری' بھی کرتے ہیں، تحقیق


اب تک کی تحقیق سے یہ تو معلوم ہوچکا تھا کہ آکاس بیل اپنے میزبان پودے کے جین بھی چوری کرتی رہتی ہے تاکہ اپنے ''طفیلی پن'' کو بہتر سے بہتر بناتی چلی جائے، لیکن یہ معما حل نہیں ہوسکا تھا کہ پتے اور جڑیں نہ ہوتے ہوئے بھی آکاس بیل خود کو پھول اُگانے کےلیے کیسے تیار کرلیتی ہے؟

کسی بھی پودے میں پتّے اگر اس کےلیے غذا بنانے کا کام کرتے ہیں تو ساتھ ہی ساتھ اسے بدلتے موسم سے باخبر رکھتے ہوئے، پھول دینے کے مخصوص وقت سے بھی آگاہ رکھتے ہیں۔ اس خاص وقت اور ماحول کا احساس ہوتے ہی پودا خود کو تیار کرتا ہے اور اس میں پھول اُگنے کا مرحلہ شروع ہوجاتا ہے۔

چینی ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ آکاس بیل اپنے میزبان پودے کے پتوں میں پیدا ہونے والے ''تبدیلی کے کیمیائی سگنلوں'' کی بھی جاسوسی کرتی رہتی ہے اور جیسے ہی اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا میزبان پودا، پھول دینے کی تیاری کررہا ہے تو وہ بھی اسی کے ساتھ پھول دینے کی تیاری شروع کردیتی ہے۔

اس دریافت سے ظاہر ہوتا ہے کہ آکاس بیل صرف ایک طفیلی پودا (پیراسائٹ پلانٹ) ہی نہیں بلکہ یہ نہایت شاطر اور مکار قسم کا پودا بھی ہے جو انتہائی باریک بینی کے ساتھ اپنے میزبان کی جاسوسی تک کرنے کی صلاحیت رکھتا۔

یہ تحقیق ''پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز'' کی ویب سائٹ پر گزشتہ ہفتے شائع ہوئی ہے۔
Load Next Story