وزیر اعظم کی کراچی آمد کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے

امید ہے کہ ان شااللہ کراچی کے قدیم و سنگین مسائل اور اہل کراچی کے آلام و مصائب اپنے اختتام کی جانب گامزن ہونے لگیں گے


یوسف ابوالخیر September 07, 2020
امید ہے کہ ان شااللہ کراچی کے قدیم و سنگین مسائل اور اہل کراچی کے آلام و مصائب اپنے اختتام کی جانب گامزن ہونے لگیں گے۔ (فوٹو: اے پی پی)

کراچی میں غیر متوقع تباہ کن بارشوں کے بعد سب کو انتظار تھا کہ کب کراچی سے منتخب ہونے والے وزیراعظم صاحب کراچی آئیں اور مصیبت میں گھرے اہل کراچی کی دادرسی کا انتظام ہو۔ انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور کراچی سے قومی اسمبلی کی نشست جیتنے والے سربراہ مملکت جناب عمران خان بالآخر کراچی تشریف لے ہی ائے۔

دیر آید درست آید کے مصداق، ان کی آمد میں تاخیر اس زاویے سے تو خیر قابل جواز رہی کہ وزیراعظم موصوف فوری طور پر بغیر کسی پلاننگ کے منہ اٹھا کے کراچی آنے اور زرداری و شہباز المعروف شوباز شریف کی طرح لانگ شوز پہن کے بارش میں کھڑے ہو کر فوٹو سیشن کرواکر واپس چلے جانے کے بجائے پوری منصوبہ بندی اور بھرپور تیاری کے ساتھ آئے؛ اور سیاسی شعبدہ بازی کرتے دکھائی دینے کے بجائے کراچی ٹرانسفارمیشن کمیٹی کے اجلاس، کاروباری برادری اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ میٹنگ، کراچی چیمبر آف کامرس کا دورہ اور اتحادی جماعتوں کے ساتھ ملاقات جیسی سنجیدہ سرگرمیوں میں مصروف رہے۔

گورنر ہاؤس میں وزیر اعلیٰ سندھ اور ان کی ٹیم سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ طویل نشست میں معالات طے کرنے کے بعد میڈیا کے سامنے آئے اور مختصر مگر جامع انداز میں بریفنگ دی۔ اپنی بریفنگ میں انہوں نے سیاسی پنڈتوں اور ''میڈیائی دانشوڑوں'' کے تُکے پوری طرح غلط ثابت کرتے ہوئے کراچی کےلیے آٹھ سو ارب کے بجائے گیارہ سو ارب روپے کے پیکیج کی نوید سنا دی۔

انہوں نے نہ صرف کراچی کے تمام بڑے اور سنگین مسائل کا خلاصہ پیش کیا، بلکہ ان کے حل کے عملی اقدامات اور ان کےلیے درکار وسائل کی دستیابی سمیت، تمام نکات کا پورا تخمینہ اور متوقع ذرائع آمدن سب کے سامنے پیش کردیئے۔ ان کے تحت وفاق، صوبہ، چینی قرضے کا حصہ، ورلڈ بینک اور سی پیک فنڈز سے سیکڑوں ارب روپے کراچی کےلیے مختص کیے گئے ہیں جو شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم پلاننگ کے تحت شہرِ قائد پر خرچ کیے جائیں گے۔ اور لانگ ٹرم بھی نصف صدی پر محیط نہیں، بلکہ دو سے تین برس کی ہوگی، ان شااللہ۔

میڈیا بریفنگ کے دوران بھی ون مین شو بننے کے بجائے سب کو ساتھ لے کر بیٹھے، سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے سب سے بڑے سیاسی حریف وزیراعلیٰ سندھ کو ''رائٹ ہینڈ'' ثابت کرتے ہوئے ''دائیں بازو'' میں بٹھایا اور سارا کریڈٹ خود لینے کے بجائے وفاق اور صوبے کی مشترکہ کاوشوں کا برملا اعتراف کیا۔ اور تو اور، منصوبوں پر عمل درآمد کےلیے جو اِمپلیمنٹیشن کمیٹی بنائی، اس کا سربراہ بھی اصولی طور پر وزیرِ اعلی سندھ ہی کو نامزد کیا۔

اس سے قبل ایک اور بات قابلِ ذکر ہے کہ وزیر اعظم کی آمد سے قبل کراچی سے تعلق رکھنے والے وفاقی کابینہ کے انتہائی اہم وزیر نے، جو وزیراعظم کے دستِ راست بھی سمجھے جاتے ہیں، کے الیکٹرک کے ہیڈ آفس کا بھی دورہ کیا اور ان کے دفتر کے باہر میڈیا سے گفتگو میں کے ای انتظامیہ کو دبے لفظوں میں یہ پیغام بھی دے دیا کہ بہت ہوگیا اندھیر نگری چوپٹ راج، اب اگر معاملات درست نہ ہوئے تو اس سفید ہاتھی کو سیٹھوں سرمایہ داروں کی کی مٹھی سے آزاد کروا کر واپس قومی تحویل میں بھی لیا جاسکتا ہے۔

صحافت کے طالب علم اور ایک لکھاری کی حیثیت سے میں عوام کو جھوٹے سنہرے خواب اور سبز باغ دکھانے کا قائل نہیں، مگر سچی بات یہ ہے کہ آثار و قرائن اس بار حقیقی معنوں میں امید افزا نظر آرہے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ محض اعلانات اور کمیٹی کا قیام کافی و شافی نہیں کہ اس ملک میں یہ کوئی نئی بات نہیں۔ خود وزیر اعظم صاحب کا ایک سو باسٹھ ارب کا لولی پاپ قوم بھولی نہیں۔ مگر اس بار جس طرح جامع منصوبہ بندی، فوج سمیت تمام قومی و صوبائی اداروں اور محکموں کو آن بورڈ لینا، فنڈز جنریشن اور ایلوکیشن تک کی تفصیلات کے علاوہ وزیراعظم نے واقعی ایک بڑے کے طور پر وفاق و صوبے کی کوآرڈنیشن کو باؤنڈ کیا ہے۔ اس سے امید تو یہی نظر آرہی ہے کہ ان شااللہ کراچی کے قدیم اور سنگین مسائل اب حل پذیری اور اہل کراچی کے آلام و مصائب اپنے اختتام کی جانب گامزن ہونے لگیں گے۔

ایک کراچی واسی کی حیثیت سے میری خواہش اور تمنا ہے کہ کراچی سے منتخب ہونے والے وزیراعظم عمران خان نے صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر جو خاکہ بنایا ہے، وہ اس میں رنگ بھرنے میں بھی کامیاب ہوجائیں اور میرا کراچی جو کبھی عروس البلاد ہوا کرتا تھا، وہ ایک بار پھر سے حقیقی معنوں میں روشنیوں کا شہر اور رنگ و نور کا مسکن بن جائے؛ کہ کراچی کی خوشحالی سے پورے ملک کی ترقی و خوشحالی وابستہ ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں