کراچی کے نام پر دیگ تیار

سی پیک ہو یا کراچی پیکیج، یہ ہمارے لیے نہیں۔ یہ دیگ کچھ دنوں میں بڑے آرام سے اپنے اپنوں میں بٹے گی


محمد عارف میمن September 08, 2020
کل اس سے بھی بدتر حالات ہونے والے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

روزانہ میڈیا پر کوئی نہ کوئی ایسی خبر ضرور سننے کو ملتی ہے جس سے مستقبل کا سوچ کر ہی خوف آتا ہے۔ آج صورت حال اگر ایسی ہے تو پھر آنے والے وقتوں میں کیا کچھ نہیں ہوگا؟ کہتے ہیں امید پر دنیا قائم ہے، مگر یقین کیجئے پاکستان میں روزانہ ایک امید دم توڑتی جارہی ہے۔ انصاف یہاں نہیں ملتا، روٹی یہاں مہنگی ہے، غربت یہاں بڑھ رہی ہے۔ پہلے لوگ بچوں کو فروخت کرتے کہ ان کی پرورش نہیں کرپارہے ہیں، انہیں دو وقت کی روٹی نہیں دے پارہے ہیں، لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ غریب کنبے سمیت خودکشی پر مجبور ہوچکا ہے۔ تبدیلی آئے ہوئے ابھی دو سال ہوئے ہیں لیکن ان دو سال میں غریب کی دنیا ہی اجڑ چکی ہے۔

وزیراعظم عمران خان بار بار فرماتے ہیں کہ ملک ترقی کی جانب چل پڑا ہے۔ مشکلات ضرور آئیں گی، مگر آگے آسانیاں ہیں۔ غریب کیسے مان لے کہ یہ مشکلات عارضی ہیں؟ اور آگے آسانیاں آنے والی ہیں؟ ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، جنہیں دو وقت کی روٹی بھی بمشکل میسر ہورہی ہے۔ آٹا 65 روپے کلو فروخت ہورہا ہے، چینی 100 روپے کلو تک جاپہنچی ہے۔ کوئی بھی سبزی 100 روپے کلو سے کم دستیاب نہیں۔ تیل، گھی 200 روپے کلو سے آگے بڑھ چکے ہیں۔ لیکن حکومت بار بار یہ لالی پاپ دے رہی ہے کہ آگے آسانیاں ہیں؟ یہ آسانیاں کس کےلیے ہوں گی، یہ ابھی تک حکومت نے واضح نہیں کیا۔

سندھ اور وفاق کی لڑائی میں کراچی دربدر ہوچکا ہے۔ وزیراعظم نے ایک مرتبہ 160 ارب کا اعلان کیا تھا اور اب کراچی کےلیے 1100 ارب روپے کا اعلان کیا ہے۔ تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ رقم کہاں کہاں خرچ ہوگی؟ کیا یہ پورے کراچی میں خرچ ہوپائے گی یا صرف چند مخصوص علاقوں تک محدود رہے گی؟ کیوں کہ کراچی اکثر علاقے بشمول مضافاتی علاقے آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، نہ سڑکیں ہیں، نہ سیوریج کا کوئی نظام میسر ہے۔

سپریم کورٹ نے کراچی کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ حکومت نااہل ہے۔ سپریم کورٹ نے غلط نہیں کہا تھا، درحقیقت کچھ ایسا ہی ہے۔ وفاق اور سندھ دونوں نے مل کر کراچی کو ڈبو دیا ہے۔ بارشیں ختم ہونے کے باوجود کئی علاقوں میں اب بھی پانی موجود ہے، جہاں کوئی سرکاری مشینری نظر نہیں آتی، لوگ اپنی مدد آپ کے تحت گھروں سے پانی نکالنے میں مصروف ہیں۔ کے الیکٹرک کے حوالے سے محترم عدالت نے ریمار کس دیے کہ انہوں نے کراچی کو لوٹ لیا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک کی گنجائش نہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہاں قانون کمزور ہونے کی وجہ سے یہ سب ہورہا ہے۔ جس کا جو دل چاہتا ہے وہ کام کر جاتا ہے۔ اس قانون کو مضبوط کرنے کےلیے پارلیمنٹ نے آج تک کوئی اقدام نہیں کیے، بلکہ جو بھی ترمیم کی گئی اپنے اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی۔ کراچی والے انصاف کی شکل دیکھتے رہ جاتے ہیں اور حکمران اپنا کام کر جاتے ہیں۔

اب ہمیں مر جانا چاہیے، کیوں کہ یہاں نہ انصاف میسر ہے اور نہ ہی بنیادی سہولیات۔ تو پھر ایسی زندگی کا کیا فائدہ جہاں دو وقت کی روٹی کےلیے 18،18 گھنٹے سخت محنت کی جائے اور اس کے بعد بھی وہ روٹی میسر نہ ہو۔ اب نہ کراچی والوں کو انصاف پر بھروسہ رہا، نہ ہی حکومتوں پر۔ عدالتیں حکومتی کیسوں سے باہر نکل نہیں سکتیں اور غریب انصاف کےلیے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتا ہے۔

روزانہ پارلیمنٹ میں محفل سجتی ہے، مگر یہ محفل صرف اور صرف اپنے اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کےلیے سجائی جاتی ہے۔ باہر بڑے بڑے حرفوں میں کلمہ طیبہ لکھا ہے مگر اندر جو کام ہورہا ہے وہ پورا پاکستان دیکھ رہا ہے۔ یہاں سے آج تک کسی کو انصاف نہیں ملا، یہاں سے آج تک عوام کےلیے کبھی آواز بلند نہیں ہوئی، یہاں سے آج تک کسی نے نہیں سنا کہ غریب کا ذکر کیا گیا اور اس کی مشکلات کے حل کےلیے کوئی قانون بنایا گیا ہو۔ یہاں صرف اس بات پر بحث کی جاتی ہے کہ فلاں نے فلاں کے لیڈر کے خلاف ایسے الفاظ کیوں استعمال کیے۔ یہاں اس پر بحث کی جاتی ہے کہ بجٹ میں ہمیں کتنا کمیشن ملنے والا ہے۔ یہاں اس پر بحث ہوتی ہے کہ اب مزید پانچ سال کےلیے کون سا گیم کھیلا جائے۔ ان اسمبلیوں میں عوام کےلیے کچھ نہیں رکھا۔

ہر سال بجٹ میں نالوں کی صفائی کےلیے پیسہ مختص ہوتا ہے لیکن جب بھی بارشیں ہوتی ہیں تو ان پیسوں کو بھول کر مزید پیسوں کی صدائیں سنائی دیتی ہیں۔ بلاول بھٹو نے ٹھیک کہا ہے کہ یہ کسی کے باپ کا پیسہ نہیں، مگر یہ بھی یاد رکھیں کہ یہ پیسہ ان کے باپ کا بھی نہیں۔ یہ خالص عوام کا پیسہ ہے جو دن رات محنت کرکے سیاستدانوں کا پیٹ بھر رہے ہیں۔ خود بھوکے سوتے ہیں لیکن ہر چیز پر ٹیکس پابندی سے دے رہے ہیں۔ غریب بجلی کا بل دو ماہ نہ بھرے تو کے الیکٹرک والے گھر آکر ذلیل کرتے ہیں اور لائٹ بند کرنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ غریب کھائے یا بھوکا رہے، اس سے حکومت اور انتظامیہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انہیں صرف غریب کے پیسوں سے مطلب ہوتا ہے کہ وہ چاہے چوری کرے یا ڈاکہ ڈالے لیکن ہمیں پیسہ چاہیے۔ کبھی فیول ایڈجسمنٹ کی مد میں تو کبھی لیٹ فیس کی مد میں بھاری رقم عوام سے نکالی جاری ہے۔ نیپرا نے بھی خوب مذاق کیا ہے کراچی کے عوام سے، 20 کروڑ روپے جرمانہ عائد کرکے سائیڈ پکڑلی۔ اب یہ 20 کروڑ روپے کے الیکٹرک عوام سے 20 ارب کرکے نکالے گی اور کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہوگا۔ وزیراعظم نے بھی بجلی مہنگی کرنے کی منظوری دے کر ثابت کردیا کہ کے الیکٹرک اس وقت ملک کا سب سے طاقتور ترین ادارہ بن چکا ہے، جس کے سامنے سپریم کورٹ کے احکامات کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔

آخر میں صرف اتنا ہی کہنا چاہوں گا کہ اب حالات کی بہتری کی امیدیں لگانے والے اپنی آنکھیں کھولیں اور دیکھ لیں کہ آج ہم کہاں کھڑے ہیں۔ کل اس سے بھی بدتر حالات ہونے والے ہیں۔ سی پیک ہو یا کراچی پیکیج، یہ ہمارے لیے نہیں۔ یہ دیگ کچھ دنوں میں بڑے آرام سے اپنے اپنوں میں بٹے گی اور ہم اپنا سا منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں