فصلوں کی زیادہ پیداوار کیلیے بڑے پیمانے پر آرگینک لیکیویڈ فارمولے کے استعمال کا فیصلہ
ہمیں کیمیائی کھادوں اور زہروں کے استعمال کو کم کرکے آرگینک طریقے کی طرف لوٹنا ہوگا، زرعی ماہرین
پاکستانی زرعی ماہرین نے گندم اور چاول کی فصلوں میں آرگینک لیکیوئڈ فارمولے کے کامیاب تجربوں کے بعد بڑے پیمانے پر دیگر فصلوں کی بھی بہتر اور زیادہ پیداوار کے حصول کے لئے سمندری اورعام جڑی بوٹیوں ، مختلف درختوں کے پتوں کی مدد سے تیار کئے گئے آرگائنک لیکیوئڈ فارمولے کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
زرعی ماہر سید بابر بخاری نے بتایا کہ وہ گزشتہ چند برسوں سے چاول اور گندم کے علاوہ مختلف پھلوں کے باغات اور نرسریوں کی تیاری میں اس فارمولے کو استعمال کرچکے ہیں۔ اس سال بھی گوجرانوالہ، لاہور، نارووال، ننکانہ صاحب، شیخوپورہ سمیت مختلف اضلاع میں سیکڑوں ایکڑ رقبے پر چاول کی کاشت کے دوران آرگینک لیکیوئڈ فارمولا استعمال کیا گیا تھا جس سے چاول کی پیداوارعام فصل کے مقابلے میں کئی گنا بہتر ہے اس سے 35 سے 40 فیصد زیادہ پیداوارحاصل ہوگی۔ اس سے قبل گندم اور چاول کی فصلوں کی محدود پیمانے پرکاشت کا کامیاب تجربہ کیا جاچکا ہے۔
سید بابر بخاری نے بتایا کہ ہمیں روایتی کیمیائی کھادوں اور زہروں کے استعمال کے رحجان کو کم کرکے آرگینک طریقے کی طرف لوٹنا ہوگا، اس سے ہم روایتی طریقوں کی نسبت زیادہ بہتر، صحت مند اوراضافی پیداوارحاصل کرسکتے ہیں جس کی اس وقت ہمارے ملک کو ضرورت ہے، کم رقبے سے زیادہ پیداوارحاصل کرنا ہوگی اس کے ساتھ ساتھ پانی کی بچت بھی لازمی جزوہے۔ اس فارمولے سے تیار ہونے والے فصلوں کا ناصرف ملک کی نامور لیباریٹریوں سے تجزیہ کروایا گیا ہے بلکہ فیصل آباد زرعی یونیورسٹی کے ماہرین سمیت زرعی شعبے پر تحقیق کرنے والی کئی شخصیات ان فصلوں اور ان سے حاصل پیداوار کا تجزیہ اور معائنہ کرچکی ہیں اوران کی طرف سے ملنے والے تصدیقی سرٹیفکیٹ ہمارے پاس موجود ہیں۔اس فارمولے سے تیارگندم میں گلوٹن کی مقدارنہ ہونے کے برابرہے،جوایسے افراد کے لئے انتہائی مفید ہے جنہیں گلوٹن سے الرجی ہوسکتی ہے۔ اسی گندم سے اب ہم بیکری کی مختلف اشیا تیارکررہے ہیں ، پاکستان میں پہلی بار گلوٹن فری بسکٹ، کیک ، بریڈ اوردیگربیکری مصنوعات تیارہونے لگی ہیں۔
سید بابر بخاری نے بتایا کہ انہوں نے 15 سال تک امریکا میں مختلف زرعی تحقیقاتی اداروں کے ساتھ کام کیا جس کے بعد انہوں نے اپنی محنت سے آرگینک لیکیوئڈ فارمولا تیار کیا ہے۔ اس کی تیاری میں مختلف سمندری اورعام جڑی بوٹیاں، مختلف درختوں خاص طور پر نیم کے پتے استعمال کئے جاتے ہیں۔ ان اجزا کو باہم ملاکران سے لیکیوئڈ حاصل ہوتا ہے۔ اس لیکیوئڈ کو پھر جس زمین پر کوئی فصل کاشت کرنا ہوتی ہے وہاں ایک بارکاشت سے پہلے اورایک بار کاشت کے بعد استعمال کیاجاتا ہے، ایک ایکڑاراضی میں دولیٹر آرگائنک لیکیوئڈ پانی میں ملا کراس زمین کو سیراب کیا جاتا ہے۔ اس فارمولے کی وجہ سے اس زمین کے اندر کینچوے پیدا ہونا شروع ہوجاتے ہیں جو وہاں پہلے سے موجود مٹی کو کھاتے ہیں اور پھر انتہائی زرخیز فضلہ خارج کرتے ہیں جو اس زمین کی زرخیزی کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ عام طور پر ہم زمین کی اوپری پانچ سے 6 انچ سطح کو ہی بار بار استعمال کرتے ہیں، زمین کی وہ سطح اپنی زرخیزی کم کردیتی ہے لیکن جب اس زمین میں کینچوے پیدا ہوتے ہیں تو وہ زمین کی سطح کو مزید گہرائی میں نرم کردیتے ہیں۔ نیچے کی زرخیز مٹی اوپر آجاتی ہے اس طرح زمین کی طاقت بڑھنے سے فصل زیادہ بہتر اور پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس لیکیویڈ میں ایسے اجزا بھی شامل ہوتے ہیں جو کیمیائی کھادوں اور زہروں کا کام دیتے ہیں، فصل بیماریوں اور کیڑوں سے محفوظ رہتی ہے اور زیادہ صحت مند ہوتی ہے۔
ایک اور زرعی ماہراحمد مقصود کا کہنا تھا چاول کی کاشت کے لئے بہت زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس فارمولے کی وجہ سے ناصرف چاول کی کاشت کا روایتی طریقہ تبدیل کیا ہے بلکہ پانی کی بھی 50 فیصد بچت کی گئی ہے، اس فارمولے کو پہلے پانی میں شامل کرکے زمین کو سیراب کیا گیا اورزمین نرم ہونے کے بعد کیاریوں کی شکل میں چاول کی پنیری کاشت کی گئی جبکہ روایتی طریقہ میں کھیت کے اندر پانی جمع کرکے فصل بوئی جاتی ہے۔
زرعی ماہر سید بابر بخاری نے بتایا کہ وہ گزشتہ چند برسوں سے چاول اور گندم کے علاوہ مختلف پھلوں کے باغات اور نرسریوں کی تیاری میں اس فارمولے کو استعمال کرچکے ہیں۔ اس سال بھی گوجرانوالہ، لاہور، نارووال، ننکانہ صاحب، شیخوپورہ سمیت مختلف اضلاع میں سیکڑوں ایکڑ رقبے پر چاول کی کاشت کے دوران آرگینک لیکیوئڈ فارمولا استعمال کیا گیا تھا جس سے چاول کی پیداوارعام فصل کے مقابلے میں کئی گنا بہتر ہے اس سے 35 سے 40 فیصد زیادہ پیداوارحاصل ہوگی۔ اس سے قبل گندم اور چاول کی فصلوں کی محدود پیمانے پرکاشت کا کامیاب تجربہ کیا جاچکا ہے۔
سید بابر بخاری نے بتایا کہ ہمیں روایتی کیمیائی کھادوں اور زہروں کے استعمال کے رحجان کو کم کرکے آرگینک طریقے کی طرف لوٹنا ہوگا، اس سے ہم روایتی طریقوں کی نسبت زیادہ بہتر، صحت مند اوراضافی پیداوارحاصل کرسکتے ہیں جس کی اس وقت ہمارے ملک کو ضرورت ہے، کم رقبے سے زیادہ پیداوارحاصل کرنا ہوگی اس کے ساتھ ساتھ پانی کی بچت بھی لازمی جزوہے۔ اس فارمولے سے تیار ہونے والے فصلوں کا ناصرف ملک کی نامور لیباریٹریوں سے تجزیہ کروایا گیا ہے بلکہ فیصل آباد زرعی یونیورسٹی کے ماہرین سمیت زرعی شعبے پر تحقیق کرنے والی کئی شخصیات ان فصلوں اور ان سے حاصل پیداوار کا تجزیہ اور معائنہ کرچکی ہیں اوران کی طرف سے ملنے والے تصدیقی سرٹیفکیٹ ہمارے پاس موجود ہیں۔اس فارمولے سے تیارگندم میں گلوٹن کی مقدارنہ ہونے کے برابرہے،جوایسے افراد کے لئے انتہائی مفید ہے جنہیں گلوٹن سے الرجی ہوسکتی ہے۔ اسی گندم سے اب ہم بیکری کی مختلف اشیا تیارکررہے ہیں ، پاکستان میں پہلی بار گلوٹن فری بسکٹ، کیک ، بریڈ اوردیگربیکری مصنوعات تیارہونے لگی ہیں۔
سید بابر بخاری نے بتایا کہ انہوں نے 15 سال تک امریکا میں مختلف زرعی تحقیقاتی اداروں کے ساتھ کام کیا جس کے بعد انہوں نے اپنی محنت سے آرگینک لیکیوئڈ فارمولا تیار کیا ہے۔ اس کی تیاری میں مختلف سمندری اورعام جڑی بوٹیاں، مختلف درختوں خاص طور پر نیم کے پتے استعمال کئے جاتے ہیں۔ ان اجزا کو باہم ملاکران سے لیکیوئڈ حاصل ہوتا ہے۔ اس لیکیوئڈ کو پھر جس زمین پر کوئی فصل کاشت کرنا ہوتی ہے وہاں ایک بارکاشت سے پہلے اورایک بار کاشت کے بعد استعمال کیاجاتا ہے، ایک ایکڑاراضی میں دولیٹر آرگائنک لیکیوئڈ پانی میں ملا کراس زمین کو سیراب کیا جاتا ہے۔ اس فارمولے کی وجہ سے اس زمین کے اندر کینچوے پیدا ہونا شروع ہوجاتے ہیں جو وہاں پہلے سے موجود مٹی کو کھاتے ہیں اور پھر انتہائی زرخیز فضلہ خارج کرتے ہیں جو اس زمین کی زرخیزی کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ عام طور پر ہم زمین کی اوپری پانچ سے 6 انچ سطح کو ہی بار بار استعمال کرتے ہیں، زمین کی وہ سطح اپنی زرخیزی کم کردیتی ہے لیکن جب اس زمین میں کینچوے پیدا ہوتے ہیں تو وہ زمین کی سطح کو مزید گہرائی میں نرم کردیتے ہیں۔ نیچے کی زرخیز مٹی اوپر آجاتی ہے اس طرح زمین کی طاقت بڑھنے سے فصل زیادہ بہتر اور پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس لیکیویڈ میں ایسے اجزا بھی شامل ہوتے ہیں جو کیمیائی کھادوں اور زہروں کا کام دیتے ہیں، فصل بیماریوں اور کیڑوں سے محفوظ رہتی ہے اور زیادہ صحت مند ہوتی ہے۔
ایک اور زرعی ماہراحمد مقصود کا کہنا تھا چاول کی کاشت کے لئے بہت زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس فارمولے کی وجہ سے ناصرف چاول کی کاشت کا روایتی طریقہ تبدیل کیا ہے بلکہ پانی کی بھی 50 فیصد بچت کی گئی ہے، اس فارمولے کو پہلے پانی میں شامل کرکے زمین کو سیراب کیا گیا اورزمین نرم ہونے کے بعد کیاریوں کی شکل میں چاول کی پنیری کاشت کی گئی جبکہ روایتی طریقہ میں کھیت کے اندر پانی جمع کرکے فصل بوئی جاتی ہے۔