کورونا سے متاثر 95 فیصد افراد میں کوئی علامات ظاہر نہیں ہوتیں تحقیق

اپریل اور جون کے دوران کووڈ-19 کے کیسز میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا، تحقیق


Staff Reporter September 07, 2020
اپریل اور جون کے دوران کووڈ-19 کے کیسز میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا، تحقیق . فوٹو: فائل

عالمی وباء کورونا کے دوران آغا خان یونیورسٹی کے تحقیق کاروں کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق کورونا وائرس سے گزرنے والے ہر 10 میں سے 9 یا اس سے زیادہ افراد میں مرض کی کوئی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔

آغا خان یونیورسٹی کے اساتذہ نے شہر کے مختلف حصوں میں مرض کے پھیلاﺅ کے حوالے سے تحقیق کی اور ایسے علاقوں کی نشاندہی کی جہاں اپریل اور جون کے دوران کووڈ-19 کی منتقلی کے زیادہ یا کم کیسز سامنے آئے۔

تحقیق کے مطابق 95 فیصد افراد کے خون کے ٹیسٹ میں کووڈ-19 مثبت آیا، ان افراد میں مرض سے لڑنے والے جراثیمی اجسام اینٹی باڈیز کی موجودگی کی جانچ کے لیے ٹیسٹ کیا گیا اور علم ہوا کہ انہیں مرض کی کوئی علامات محسوس نہیں ہوئیں، مثلاً کھانسی، بخار یا گلے میں خراش، دیگر الفاظ میں یہ تمام افراد اے سمٹومیٹک تھے، پاکستان میں اے سمٹومیٹک کیسز کی شرح ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے، اے سمٹومیٹک افراد کو اسپتال جانے کی ضروت نہیں ہوتی اور یہی وجہ ہے پاکستان کے اسپتالوں میں اس طرز کا دباﺅ دیکھنے میں نہیں آیا جیسے اسپین یا برطانیہ کے اسپتالوں میں دیکھنے میں آیا، ان نتائج سے یہ بھی نشاندہی ہوتی ہے کہ بچوں اور نوبالغان میں بھی مرض کا شکار ہونے کے امکانات بالغ افراد کے مساوی ہوتے ہیں، مزید یہ کہ مردوں اور خواتین میں انفیکشن کا خطرہ مساوی ہے۔

اس تحقیق سے یہ بھی تصدیق ہوئی کہ اس سال اپریل اور جون کے دوران کووڈ-19 کے کیسز میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا، کم متاثرہ علاقوں مثلاً ابراہیم حیدری میں یہ شرح 0.2 سے بڑھ کر 8.7 ہو گئی جبکہ زیادہ متاثرہ علاقوں مثلاً صفورہ گوٹھ، فیصل کنٹونمنٹ، پہلوان گوٹھ اور ڈالمیا/شانتی نگر میں یہ شرح 0.4 سے بڑھ کر 15.1 ہو گئی، یہ نتائج وفاقی حکومت کی جانب سے کی جانے والی سیروپریویلینس تحقیق سے ہم آہنگ ہیں، سیروپریویلینس تحقیق میں اینٹی باڈی ٹیسٹنگ کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ 11 فیصد پاکستانی آبادی اس مرض کا شکار ہوئی۔

اے کے یو کے اسسٹنٹ پروفیسر اور اس تحقیقی مطالعے کے معاون تفتیش کار ڈاکٹر عمران نثار نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا "کم متاثرہ علاقوں میں اینٹی باڈی کی سطح میں آنے والی یہ تیزی بتاتی ہے کہ ایسے علاقے جہاں ٹیسٹنگ کی سہولیات کم ہیں وہاں وائرس کا پھیلاﺅ بغیر کسی جانچ اور نگرانی کے جاری رہا ہے۔

اس تحقیقی مطالعے کے پہلے دو مراحل میں 2000 سے زائد افراد شامل ہوئے، تحقیق کار اس وقت تیسرے سیرو سروے میں مصروف ہیں اور ستمبر میں اس کے چوتھے مرحلے کو مکمل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، یہ سروے عید الاضحیٰ کے دوران لاک ڈاﺅن میں کمی کے اثرات اور محرم کے دوران جلوسوں کے باعث کورونا وائرس کی منتقلی کے اثرات کا جائزہ لینے میں مددگار ثابت ہوں گے۔

اے کے یو کی ایسوسی ایٹ پروفیسر اور مطالعے کی معاون تفتیش کار ڈاکٹر فائزہ جہاں نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا "اینٹی باڈی ٹیسٹنگ یا سیروپریویلینس کووڈ-19 کے پھیلاﺅ کی درست صورتحال فراہم کرتی ہے کیونکہ ان کی مدد سے مرض کے حامل خاموش یعنی اے سمٹومیٹک کیسز کے متعلق معلومات حاصل ہو سکتی ہے، یہ جاننا کہ کیسے، کب اور کس ماحول میں کووڈ-19 کے کیسز میں اضافہ ہوتا ہے، بے حد اہم ہے تاکہ مرض کے پھیلاﺅ کا توڑ تلاش کیا جاسکے اور صحت عامہ اور انفیکشن سے تحفظ کے لیے موثر اقدامات کیے جا سکیں۔

اے کے یو کی ڈاکٹر نادیہ انصاری اور ڈاکٹر مشعل امین کے علاوہ امریکہ میں موجود بین الاقوامی اشتراک کار ڈاکٹر بیلے فوسڈک اور ڈاکٹر ڈینیئل بیریمور نے بھی اس مطالعے میں اہم کردار ادا کیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں