وقت کے مطابق فیصلہ کریں
موجودہ حالات کے تناظر میں ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن ہر رکاوٹ کو توڑنے کے موڈ میں ہے اور یہ بہت خطرناک کھیل ہے۔
ہماری اشرافیہ اقتدار کو اپنا خاندانی حق سمجھتی ہے اور اسی ذہنیت کے حوالے سے اقتدار سے باہر رہنے کو اپنے اوپر ظلم گردانتی ہے۔
آج کے دور میں جیسی بھی ہو جمہوریت کو وقت کی ضرورت سمجھا جاتا ہے لیکن مغلیہ دور کے اسیر جمہوریت کو یعنی عوامی جمہوریت کو سرے سے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں بلکہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں کہ یہ ان پڑھ اور روٹی سے محروم خستہ حال عوام حکومت کو کیسے چلا سکتے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ جمہوریت میں اقتدار میں آنے کا راستہ انتخابات ہیں اور انتخابات دولت اور سماجی حیثیت سے جیتے جاتے ہیں۔
اس ظالمانہ نظام کی وجہ سے غریب آدمی نہ انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے نہ حکومت میں آسکتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اشرافیہ حکومت کے ذریعے عوام پر مسلط ہے اور بڑی چالاکی سے جمہوریت کے نام پر خاندانی حکمرانیوں کو مضبوط کر رہی ہے۔ ذرا اس ملک کی سیاسی پارٹیوں پر نظر ڈالیں، بڑی اشرافیائی جماعتیں ہی نہیں متوسط طبقات پر مشتمل مڈل کلاس کی جماعتوں میں بھی خاندانی نظام کا زہر پھیلتا جا رہا ہے اور نچلے طبقات اس نظام میں معاون بنے ہوئے ہیں۔
یہ سرمایہ دارانہ جمہوریت کی بھی توہین ہے لیکن ایسا ہو رہا ہے اور خاندانی نظام مستحکم ہو رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تعلیم یافتہ ترقی یافتہ ملکوں میں طبقات کا خیال نہیں کیا جاتا بلکہ اہلیت کی بنیاد پر سیاست میں آگے بڑھنے کے چانس موجود ہوتے ہیں ۔اس حوالے سے ہماری جمہوریت پر نظر ڈالیں تو ہماری جمہوریت نااہلوں اور دولت مندوں کا اکھاڑہ نظر آتی ہے لیکن یہ کوئی سیاسی فارمولا نہیں بلکہ بالادست طبقات کی سازشوں کا نتیجہ ہے۔
لیکن ہمارے سامنے دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک بھارت کی مثال موجود ہے جہاں ایک پست طبقے سے تعلق رکھنے والا نریندر مودی وزیر اعظم کی حیثیت سے دو ٹرم پوری کرنے جا رہا ہے، یہ نہ ترقی یافتہ معاشروں کا کمال ہے نہ صرف دولت کی جادوگری ہے بلکہ نچلے طبقات کے شعور کی جادوگری ہے، اگر پاکستان میں عوام خاندانی جمہوریت سے آزاد ہو جاتے ہیں تو پاکستان کا وزیر اعظم بھی ''باہر والا'' ہو سکتا ہے۔
اصل مسئلہ اشرافیہ کے سیاست اور حکومت سے اشرافیہ کو نکال باہر کرنے کا ہے اور یہ کام اس لیے مشکل ہے کہ پاکستانی عوام کی نفسیات کو ان خطوط پر ڈھالا گیا ہے کہ عوام کا فرض حکمرانوں کے حکم کی تعمیل کرنا ہے، حکمران بننا نہیں ہے۔ پاکستان میں اس نفسیات کو اتنا گہرا کر دیا گیا ہے کہ عام آدمی سیاسی رہنما یا حکمران بننے کے حوالے سے سوچ بھی نہیں سکتا، یہی سائیکی کی پرورش کرکے ہماری اشرافیہ بلا خوف و خطر حکومت کر رہی ہے، اس سسٹم کو سپورٹ کرنے کے لیے سابقہ مغلیہ دور کی حکمرانیوں کی مثال دی جاتی ہے۔
ہمارے عوام کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں آ سکتی کہ وہ سیاسی لیڈر اور حکمران ہو سکتے ہیں۔ اس حوالے سے اہل علم اہل فکر کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ عوام کو اس احساس کمتری سے باہر نکالیں اور ان میں یہ شعور اور حوصلہ پیدا کریں کہ وہ سیاسی لیڈر بھی بن سکتے ہیں اور حکمران بھی بن سکتے ہیں۔
ہمارے عوام کی یہ نفسیات اتنی گہری اور مضبوط ہے کہ اسے توڑنے کے لیے ایک دانشورانہ مربوط اور منظم مہم کی ضرورت ہے جس میں ادیب اس حوالے سے عوام کو انکریج کرنے والی کہانیاں لکھیں، شاعر عوام کو بیدار کرنے والی شاعری کریں اور میڈیا عوام میں جاگرتی پیدا کرنے والا مواد ڈالیں اور لیفٹ کے لیڈر عوام کو طبقاتی احساس کمتری سے نکالنے کے لیے منظم کوششیں کریں۔
سب سے پہلے ایلیٹ نے اپنے آپ کو عزت و احترام کے جن شیشوں میں بند کرکے بٹھایا ہے۔ ان شیشوں کو توڑ ڈالیں اور ایلیٹ کے موقع پرستانہ کردار کو عوام کے سامنے لائیں جب تک ایلیٹ احترام اور عقیدت کے شیشوں میں بند رہے گی، عوام میں اس کے لیے تعظیم اور کشش باقی رہے گی اور جب تک عوام میں ایلیٹ کی عزت و احترام باقی رہے گا، وہ عوام کے سروں پر سوار رہے گی۔ لہٰذا ایک منظم مہم کے ذریعے اس عزت و احترام کا جنازہ نکال دیا جائے۔
آج کل ایلیٹ کلاس بہت دباؤ میں ہے، اس کے پاس عوام کی طاقت نہیں ہے صرف پیڈ کارکن ہیں جو دیہاڑی پر کام کرتے ہیں، اس دوران ایلیٹ یعنی اشرافیہ نے بھاری رقوم خرچ کرکے عوام کو سڑکوں پر لانے کی ہر ممکنہ کوشش کی لیکن اسے ناکامی کا ہی منہ دیکھنا پڑا۔ ایلیٹ کو اس حقیقت کا اندازہ تو ہوگیا ہے کہ اب عوام مشکل ہی سے سڑکوں پر آئیں گے، تاہم مریم نواز بڑے منظم طریقے سے آہستہ آہستہ اپنی منزل کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ سیاست میں ہار کو جیت میں بدلنے کے لیے تحریکوں کو خون کا بلیدان بھی دینا پڑتا ہے اور لگتا ہے کہ اپوزیشن اس کی تیاری کر رہی ہے۔
موجودہ حالات کے تناظر میں ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن ہر رکاوٹ کو توڑنے کے موڈ میں ہے اور یہ بہت خطرناک کھیل ہے۔ ایسے موقع پر عمران خان کو عوام میں آنے کی ضرورت ہے، اگر پہلے کی طرح عوام کے بیچ میں آتے ہیں تو ان کے کارکنوں کا حوصلہ بڑھتا ہے اور عام عوام میں بھی اس تحریک کا حصہ بننے کی خواہش پیدا ہو سکتی ہے، اب یہ کام عمران خان کا ہے کہ وہ وقت کے مطابق فیصلہ کریں۔
آج کے دور میں جیسی بھی ہو جمہوریت کو وقت کی ضرورت سمجھا جاتا ہے لیکن مغلیہ دور کے اسیر جمہوریت کو یعنی عوامی جمہوریت کو سرے سے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں بلکہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں کہ یہ ان پڑھ اور روٹی سے محروم خستہ حال عوام حکومت کو کیسے چلا سکتے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ جمہوریت میں اقتدار میں آنے کا راستہ انتخابات ہیں اور انتخابات دولت اور سماجی حیثیت سے جیتے جاتے ہیں۔
اس ظالمانہ نظام کی وجہ سے غریب آدمی نہ انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے نہ حکومت میں آسکتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اشرافیہ حکومت کے ذریعے عوام پر مسلط ہے اور بڑی چالاکی سے جمہوریت کے نام پر خاندانی حکمرانیوں کو مضبوط کر رہی ہے۔ ذرا اس ملک کی سیاسی پارٹیوں پر نظر ڈالیں، بڑی اشرافیائی جماعتیں ہی نہیں متوسط طبقات پر مشتمل مڈل کلاس کی جماعتوں میں بھی خاندانی نظام کا زہر پھیلتا جا رہا ہے اور نچلے طبقات اس نظام میں معاون بنے ہوئے ہیں۔
یہ سرمایہ دارانہ جمہوریت کی بھی توہین ہے لیکن ایسا ہو رہا ہے اور خاندانی نظام مستحکم ہو رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تعلیم یافتہ ترقی یافتہ ملکوں میں طبقات کا خیال نہیں کیا جاتا بلکہ اہلیت کی بنیاد پر سیاست میں آگے بڑھنے کے چانس موجود ہوتے ہیں ۔اس حوالے سے ہماری جمہوریت پر نظر ڈالیں تو ہماری جمہوریت نااہلوں اور دولت مندوں کا اکھاڑہ نظر آتی ہے لیکن یہ کوئی سیاسی فارمولا نہیں بلکہ بالادست طبقات کی سازشوں کا نتیجہ ہے۔
لیکن ہمارے سامنے دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک بھارت کی مثال موجود ہے جہاں ایک پست طبقے سے تعلق رکھنے والا نریندر مودی وزیر اعظم کی حیثیت سے دو ٹرم پوری کرنے جا رہا ہے، یہ نہ ترقی یافتہ معاشروں کا کمال ہے نہ صرف دولت کی جادوگری ہے بلکہ نچلے طبقات کے شعور کی جادوگری ہے، اگر پاکستان میں عوام خاندانی جمہوریت سے آزاد ہو جاتے ہیں تو پاکستان کا وزیر اعظم بھی ''باہر والا'' ہو سکتا ہے۔
اصل مسئلہ اشرافیہ کے سیاست اور حکومت سے اشرافیہ کو نکال باہر کرنے کا ہے اور یہ کام اس لیے مشکل ہے کہ پاکستانی عوام کی نفسیات کو ان خطوط پر ڈھالا گیا ہے کہ عوام کا فرض حکمرانوں کے حکم کی تعمیل کرنا ہے، حکمران بننا نہیں ہے۔ پاکستان میں اس نفسیات کو اتنا گہرا کر دیا گیا ہے کہ عام آدمی سیاسی رہنما یا حکمران بننے کے حوالے سے سوچ بھی نہیں سکتا، یہی سائیکی کی پرورش کرکے ہماری اشرافیہ بلا خوف و خطر حکومت کر رہی ہے، اس سسٹم کو سپورٹ کرنے کے لیے سابقہ مغلیہ دور کی حکمرانیوں کی مثال دی جاتی ہے۔
ہمارے عوام کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں آ سکتی کہ وہ سیاسی لیڈر اور حکمران ہو سکتے ہیں۔ اس حوالے سے اہل علم اہل فکر کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ عوام کو اس احساس کمتری سے باہر نکالیں اور ان میں یہ شعور اور حوصلہ پیدا کریں کہ وہ سیاسی لیڈر بھی بن سکتے ہیں اور حکمران بھی بن سکتے ہیں۔
ہمارے عوام کی یہ نفسیات اتنی گہری اور مضبوط ہے کہ اسے توڑنے کے لیے ایک دانشورانہ مربوط اور منظم مہم کی ضرورت ہے جس میں ادیب اس حوالے سے عوام کو انکریج کرنے والی کہانیاں لکھیں، شاعر عوام کو بیدار کرنے والی شاعری کریں اور میڈیا عوام میں جاگرتی پیدا کرنے والا مواد ڈالیں اور لیفٹ کے لیڈر عوام کو طبقاتی احساس کمتری سے نکالنے کے لیے منظم کوششیں کریں۔
سب سے پہلے ایلیٹ نے اپنے آپ کو عزت و احترام کے جن شیشوں میں بند کرکے بٹھایا ہے۔ ان شیشوں کو توڑ ڈالیں اور ایلیٹ کے موقع پرستانہ کردار کو عوام کے سامنے لائیں جب تک ایلیٹ احترام اور عقیدت کے شیشوں میں بند رہے گی، عوام میں اس کے لیے تعظیم اور کشش باقی رہے گی اور جب تک عوام میں ایلیٹ کی عزت و احترام باقی رہے گا، وہ عوام کے سروں پر سوار رہے گی۔ لہٰذا ایک منظم مہم کے ذریعے اس عزت و احترام کا جنازہ نکال دیا جائے۔
آج کل ایلیٹ کلاس بہت دباؤ میں ہے، اس کے پاس عوام کی طاقت نہیں ہے صرف پیڈ کارکن ہیں جو دیہاڑی پر کام کرتے ہیں، اس دوران ایلیٹ یعنی اشرافیہ نے بھاری رقوم خرچ کرکے عوام کو سڑکوں پر لانے کی ہر ممکنہ کوشش کی لیکن اسے ناکامی کا ہی منہ دیکھنا پڑا۔ ایلیٹ کو اس حقیقت کا اندازہ تو ہوگیا ہے کہ اب عوام مشکل ہی سے سڑکوں پر آئیں گے، تاہم مریم نواز بڑے منظم طریقے سے آہستہ آہستہ اپنی منزل کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ سیاست میں ہار کو جیت میں بدلنے کے لیے تحریکوں کو خون کا بلیدان بھی دینا پڑتا ہے اور لگتا ہے کہ اپوزیشن اس کی تیاری کر رہی ہے۔
موجودہ حالات کے تناظر میں ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن ہر رکاوٹ کو توڑنے کے موڈ میں ہے اور یہ بہت خطرناک کھیل ہے۔ ایسے موقع پر عمران خان کو عوام میں آنے کی ضرورت ہے، اگر پہلے کی طرح عوام کے بیچ میں آتے ہیں تو ان کے کارکنوں کا حوصلہ بڑھتا ہے اور عام عوام میں بھی اس تحریک کا حصہ بننے کی خواہش پیدا ہو سکتی ہے، اب یہ کام عمران خان کا ہے کہ وہ وقت کے مطابق فیصلہ کریں۔