تعلیم ایک صنعت
ایک ایسی صنعت جس میں نقصان کا کوئی امکان نہیں اور آمدنی بھی کسی کارخانے سے زیادہ ہے۔
دنیا کے وہ ملک بھی جو تعلیم کو اعلیٰ درجہ تک سرکاری ذمے داری سمجھتے ہیں اور مفت تعلیم دیتے ہیں ان کے ہاں بھی پرائیویٹ اسکول موجود ہیں لیکن ان کے مقابلے میں سرکاری اسکولوں کا معیار بھی اتنا کم نہیں کہ پرائیویٹ تعلیم دینے والے تعلیمی ادارے ان سے بہت آگے ہوں مگر اس کے مقابلے میں ہمارے ہاں تو تعلیم ایک صنعت بن گئی ہے۔
ایک ایسی صنعت جس میں نقصان کا کوئی امکان نہیں اور آمدنی بھی کسی کارخانے سے زیادہ ہے، اس لیے مقصد تعلیم دینا نہیں مال کمانا رہ گیا ہے اور اس کا علم ہم سب کو ہے۔ ہر گھر کی ایک ہی کہانی ہے کیونکہ ہمارے سرکاری اسکولوں کا معیار پرائیویٹ اسکولوں سے بہت کم ہے، اس لیے ہم سب کے بچے ان پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھتے ہیں اور ان کی فیسیںہم بھرتے ہیں جن کا ریکارڈ سرکار کے پاس موجود ہے لیکن یہ پرائیویٹ اسکول سرکار کی بات نہیں مانتے اوروالدین کو ڈرا دھمکا کر اپنی مرضی کی فیسیں وصول کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔
پنجاب کی حد تک تعلیم کی بات کی جائے تو سرکار کی سرپرستی میں چلنے والے اسکولوں میں تعلیم کے حالات کچھ اچھے نہیں رہے حالانکہ یہ وہی درسگاہیں ہیں جنھوں نے ہر شعبے میں اپنے وقت کے عالم فاضل باکمال لوگ کی ذہنی آبیاری کی۔انگریز کی جانب سے سرکاری اسکولوں اور کالجوں کی داغ بیل ڈالی گئی اور آج بھی ان میں سے بیشتر اسکول اور کالج طالبعلموں کو بہترین تعلیم دے رہے ہیں اور ان میں داخلہ کے لیے طالب علموں کو اپنی تعلیمی قابلیت کی انتہاء چاہیے ہوتی ہے ۔
بڑھتی آبادی اور تعلیمی میدان میں جدت کے تقاضوں کوپورا کرنے کے لیے سرکاری سرپرستی میں چلنے والے اسکولوں کی تعداد میں اضافہ بھی نہیں کیا گیا اور نہ ہی کسی حکومت نے تعلیم کے اس سستے ذریعے کی جانب توجہ دی جس میں پاکستان کے اس طبقہ کے نونہال تعلیم حاصل کرتے ہیں جن کی پرائیویٹ اسکولوں کی فیسیں بھرنے کی استعداد نہیں ہے۔وہ تو بھلا ہو پرویز الٰہی کا جنھوں نے اپنے وزارت اعلیٰ کے دور میں میٹرک تک تعلیم مفت کر دی بلکہ درسی کتب کی مفت فراہمی کا بھی بندوبست کیا۔
ان کے بعد شہباز شریف نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے دانش اسکولوں کی داغ بیل ڈالی جن کا بڑاچرچا رہا لیکن شہباز شریف کی حکومت کے خاتمے کے بعد ان کی کوئی سن گن نہیں مل سکی۔ شہباز شریف نے اعلیٰ تعلیمی معیار کے حامل طالب علموں میں لیپ ٹاپ بھی تقسیم کیے ۔ یعنی یہ کہا جا سکتا ہے کہ ماضی کی حکومتوں نے کسی حد تک تعلیمی میدان میں طالب علموں کی اشک شوئی کرنے کی کوشش کی ۔
پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے صوبے میں اسپتالوں کے ساتھ مختلف تعلیمی ادارے قائم کرنے کا خوش آیند اعلان کیا ہے۔ تحریک انصاف حکومت کے ایجنڈے میں صحت اور تعلیم کو بنیادی اہمیت دی گئی تھی لیکن دوسال کا عرصہ کرنے کے باوجودابھی تک حکومت کی جانب سے کوئی قابل ذکر عملی اقدامات ان دونوں شعبوں میں نظر نہیں آئے۔
سرکاری سرپرستی میں چلنے والے موجودہ تعلیمی اداروں کی بہتری کے لیے اگر اقدامات کر لیے جائیں توپرائیویٹ تعلیمی اداروں نے جو دھاندلی مچا رکھی ہے اور والدین کے تعلیمی شوق کو وہ اپنی نفع خوری کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں، ان کی شاید کچھ بچت ہوجائے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب تعلیم پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں اور اس کے بھاری رقوم مختص کی گئی ہیں، اب سرکاری اسکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ کرام پر منحصر ہے کہ وہ بھاری تنخواہیں وصول کرنے کے ساتھ تعلیم معیار کو کیسے بلند کرتے ہیں ۔
پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے والدین پر بہت بوجھ ڈال رکھا ہے، ان کی فیسیں بہت زیادہ ہیں لیکن اس کے ساتھ تعلیم کا معیار بھی سب اسکولوں میں ان بھاری فیسوں والا نہیں ہے اور حکومت کی جرات نہیں کہ ان حد سے بڑھی ہوئی فیسوں میں کمی کا اشارہ بھی کر سکے۔ صورتحال یوں ہے کہ لاہور میں بعض پرائیویٹ تعلیمی ادارے بچوں کی ابتدائی جماعتوں کی فیس بھی ہزاروںمیں وصول کررہے ہیں۔
میں ان بڑے تعلیمی اداروں کا ذکر نہیں کر رہا جن کی فیسیں کئی ہزار ماہانہ ہیں بلکہ کئی اسکول تو غیر ملکی کرنسی میں فیسیں وصول کرتے ہیں۔ بچوں کی تعلیم کا شوق اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ والدین ہر قیمت اور قربانی پر اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانا چاہتے ہیں کیونکہ یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ اگر کوئی بچہ زیور تعلیم سے آراستہ نہیں ہے تو زندگی کی دوڑ میں کہیں نہیں ہے۔ بس اسی نیک قومی خواہش کا ناجائز فائدہ اٹھایا جارہا ہے۔
حکومت کا جس طرح بازار کی قیمتوں پر کوئی کنٹرول نہیں اور دکاندار منہ مانگی قیمتیں وصول کرتے ہیں اسی طرح منہ مانگی فیسیں بھی وصول کی جاتی ہیں۔ پرائیویٹ تعلیم اس قدر نفع بخش کاروبار بن چکا ہے کہ اگر حکومت ان تعلیمی اداروں سے حساب کتاب لے اور ان کی ترقی کا جائزہ لے تو پتہ چلے گا کہ ایک سے دوسری عمارت بن رہی ہے اور لاکھوں نہیں کروڑوں کی آمدن ہے ۔
ایک سرکاری اسکول کی ہیڈ مسٹرس نے سرکاری تعلیمی اداروں کے معیار کی کمی پر ایک جامع و مانع تبصرہ کیا تھا کہ محکمہ تعلیم کے اعلیٰ افسران کے بچے کسی سرکاری اسکول میں تعلیم حاصل نہیںکرتے۔ اس تبصرے کے بعد اس موضوع پر مزید کچھ کہنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ اگر ہمارے سرکاری تعلیمی اداروں میں معیار نہیں تو حکومت کی طرف سے ان کی تعداد میں اضافہ بے معنی ہے۔ تعلیم ہمارا قومی مسئلہ ہے اس کے بغیر ہم آگے ایک قدم بھی نہیں بڑھ سکتے۔