آٹا بحران بے قابو حکومتی ساکھ خطرات کا شکار

وفاقی حکومت نے ڈھائی ماہ قبل پنجاب حکومت پر دباو ڈال کر فلور ملز کو قبل از وقت سرکاری گندم کا اجراء شروع کروایا۔

وفاقی حکومت نے ڈھائی ماہ قبل پنجاب حکومت پر دباو ڈال کر فلور ملز کو قبل از وقت سرکاری گندم کا اجراء شروع کروایا۔ فوٹو : فائل

PESHAWAR:
تحریک انصاف کی پہلی حکومت خیبر پختونخوا میں بنی تھی اور کہتے ہیں کہ پہلی محبت بہت عزیز ازجان ہوتی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ تحریک انصاف کی وفاق ، پنجاب اور سندھ سمیت بلوچستان میں بھی حکومت موجود ہے لیکن حکومتی معاملات میں جو فوقیت خیبر پختونخوا حکومت کو دستیاب ہے، پنجاب اس سے محروم ہے۔

پنجاب ملک میں سب سے زیادہ مقدار میں گندم پیدا کرتا ہے اور اپنے عوام کے علاوہ خیبر پختونخوا کی آٹا ضروریات کی تکمیل بھی کرتا ہے جبکہ وفاقی ادارہ''پاسکو'' بھی پنجاب کی 14 تحصیلوں سے لاکھوں ٹن گندم خرید کر سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سمیت افواج پاکستان کی آٹا ضروریات پوری کرتا ہے لیکن آج پنجاب کی گندم ضروریات کی تکمیل کیلئے کوئی آگے نہیں بڑھ رہا ۔

وفاقی حکومت نے ڈھائی ماہ قبل پنجاب حکومت پر دباو ڈال کر فلور ملز کو قبل از وقت سرکاری گندم کا اجراء شروع کروایا، اس کیلئے 9 لاکھ ٹن کی مقدار بھی وفاق نے طے کی تھی اور پنجاب کو یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ وفاقی حکومت سرکاری سطح پر گندم امپورٹ کر کے پنجاب کی ضروریات پوری کرے گی لیکن اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کے پہلے ٹینڈر میں منظور ہونے والی گندم مقدار میں سے بھی پاسکو، سندھ اور کے پی کو ایلوکیشن کی گئی ہے جبکہ نئے ٹینڈر میں بھی سندھ اور کے پی کو گندم دی جائے گی۔

پنجاب حکومت تین مرتبہ باضابطہ طور پر گندم امپورٹ کی درخواست کر چکی ہے، وزیر اعلی سردار عثمان بزدار نے زبانی اور تحریری طور پر وزیر اعظم سے اس معاملے پر بات کی ہے لیکن آج کے دن تک پنجاب کی گندم قلت دور کرنے کیلئے کوئی پیش رفت ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ہے جبکہ گزشتہ روز محکمہ خوراک کو 9 لاکھ ٹن گندم اجراء کی جو اجازت دی گئی تھی وہ مقدار بھی مکمل ہو چکی ہے لیکن پنجاب حکومت کا یہ عالم ہے کہ نئی ریلیز پالیسی کی منظوری کیلئے بھیجی گئی سمری ابھی حکمرانوں کی میز پر قطار میں لگی ہوئی ہے ۔

فی الوقت تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ پنجاب کی ضرورت کیلئے گندم امپورٹ کا امکان نہیں ہے اور محکمہ خوراک کو اپنے پاس موجود 34 لاکھ ٹن گندم کے مطابق آگے بڑھنا ہوگا۔ حکومت نے گندم آٹا کے حوالے سے بہت اہم بنیادی غلطیاں کی ہیں جن کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ سب سے بڑ ی غلطی تو گندم خریداری مہم کے دوران سرزد ہوئی جب فلورملز کو دیوار سے لگا دیا گیا اور خود حکومتی پہلوان بھی اپنا ہدف مکمل نہ کر سکے جبکہ جو گندم خریدی گئی وہ بھی اس قدر دھونس اور جبر کے ساتھ خریدی گئی کہ اوپن مارکیٹ تہس نہس ہو گئی۔

اس کے بعد جب قبل از فروخت ریلیز کا فیصلہ ہوا تو سرکاری قیمت کے تعین میں سنگین غلطی بلکہ اسے حماقت کہنا جائز ہوگا سرزد ہوئی۔ سینئر وزیر عبدالعلیم خان سمیت پورا محکمہ خوراک اس بات کا حامی تھا کہ سرکاری گندم کی قیمت 1600 یا 1650 روپے مقرر کی جائے تا کہ نجی شعبہ بڑی مقدار میں گندم امپورٹ بھی کر سکے اور مقامی مارکیٹ میں آٹا کی دستیابی بھی معمول پر رہے لیکن وفاقی حکومت اور پنجاب کابینہ کے چند وزراء کی ضد پر 1475 روپے کی غیر حقیقی قیمت مقرر کی گئی اور آٹا قیمت 860 روپے مقرر کردی گئی۔آج پورے پنجاب میں دستیابی کی بات کی جائے تو 860 روپے والے آٹا کی دستیابی 45 فیصد سے زیادہ نہیں ہے یہ الگ بات کہ حکومت ڈھول بجاتی رہتی ہے کہ 860 والا آٹا ہر جگہ وافر دستیاب ہے۔

محکمہ خوراک نے آبادی کی بنیاد پر ملز کا کوٹہ مقرر کیا ہے لیکن اس میں بھی کئی خامیاں ہیں جیسا کہ اٹک اور رحیم یار خان کی ملز کو 13 بوری فی باڈی کوٹہ دیا گیا ہے لیکن سب کو معلوم ہے کہ اٹک کی ملیں زیادہ تر آٹا پشاور بھیج رہی ہیں اور حیران کن بات یہ ہے کہ ڈپٹی کمشنر اٹک نے ملوں سے دوستی نبھانے کیلئے حکومت کو اٹک کا گندم کوٹہ بڑھانے کا لیٹر بھی لکھ دیا ہے ۔


ڈپٹی کمشنر کو شاید ادراک نہیں کہ اٹک میں سرکاری گندم پہنچانے پر کتنے کروڑ روپے کا ٹرانسپورٹیشن خرچہ ہو رہا ہے۔ اسی طرح رحیم یار خان گندم کی پیداوار والے تین بڑے اضلاع میں سے ایک ہے لیکن اسے بھی اٹک کے برابر کوٹہ دیا گیا ہے اور سرکاری گندم آٹا پسائی کی بجائے اوپن مارکیٹ میں فروخت ہو رہی ہے ۔ سیالکوٹ کی مثال ہی لے لیں کہ اسے 62 بوری فی باڈی کوٹہ مل گیا (آبادی کے تناسب سے) اور وہاں کی ملوں کو یہ کوٹہ ہضم کرنا مشکل ہو گیا اور پھر وہی ہوا کہ گندم اوپن میں بکی یا آٹا پشاور گیا۔

پنجاب کیلئے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وفاقی حکومت اسے خیبر پختونخوا سرحد پر چیک پوسٹیں قائم کرنے نہیں دے رہی جس کی وجہ سے سرکاری سبسڈائزڈ گندم کا آٹا ہزاروں ٹن روزانہ کی مقدار میں پنجاب سے باہر جا رہا ہے اور پنجاب حکومت یومیہ کروڑوں روپے کی سبسڈی دوسرے صوبوں میں جانے والے آٹا پر برداشت کرنے کے علاوہ اپنے صوبہ میں آٹا قلت کا بھی سامنا کر رہی ہے ، جبکہ وفاقی حکومت پنجاب کو سرکاری گندم اور آٹا کی قیمت بڑھانے کی اجازت بھی نہیں دے رہی ہے۔

مصدقہ ذرائع کے مطابق خیبر پختونخوا حکومت امپورٹڈ گندم لینے کی بجائے پاسکو سے گندم لینا چاہتی ہے خواہ وہ مہنگی ہی کیوں نہ ہو لیکن وفاقی دباو پر وہ بھی مجبور ہے۔ عالمی منڈی میں گندم کی قیمت 250 ڈالر فی ٹن تک جا پہنچی ہے اس تمام صورتحال میں سب سے سنگین غذائی بحران پنجاب کے سامنے آرہا ہے لیکن اسے بچانے کیلئے وفاقی حکومت آگے نہیں بڑھ رہی ہے۔

اکتوبر میں پنجاب کے اندر آٹا کی قیمت بڑھنے کے علاوہ قلت بھی پیدا ہو گی کیونکہ محکمہ خوراک اپنا کوٹہ 16 ہزار ٹن یومیہ سے بڑھا نہیں سکتا اور اس مقدار میں اوپن بارڈر کے ساتھ صوبے کی ضروریات مکمل نہیں ہو سکتیں جبکہ اوپن مارکیٹ میں گندم 2200 روپے من تک جا پہنچی ہے اور فلورملز پر ڈیلرز اور خریداروں کی جانب سے شدید دباو ہے کہ وہ 15 کلو کی پیکنگ میں سپر آٹا فراہم کریں۔

ابھی تک پنجاب حکومت آٹا بحران کی شدت بڑھنے سے روکنے میں جہاں تک کامیاب ہوئی ہے وہ صرف اور صرف 15 کلو پیکنگ کی وجہ سے ہے اگر یہ پیکنگ بند کردی جائے تو عوام کو 860 والا آٹا ڈھونڈنے کیلئے بہت اذیت اور دقت برداشت کرنا پڑے گی ۔ ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ پنجاب حکومت ٹارگٹڈ سبسڈی کے ''سحر'' میں جکڑی ہوئی ہے اور سمجھتی ہے کہ یہ سکیم گیم چینجر ہو گی لیکن وہ غلط فہمی کا شکار ہو کر ایک اندھے کنویں میں گرنے والی ہے کیونکہ یہ سکیم کسی صورت کامیاب نہیں ہو گی اور سب سے اہم یہ کہ حکومت کو اس کے شدید سیاسی نقصانات برداشت کرنا ہوں گے، خود سرکاری حکام بھی اس مجوزہ سکیم کو بدنام زمانہ سستی روٹی سکیم کا ''ری میک'' قرار دے رہے ہیں ۔

فلورملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین عاصم رضا نے بھی واضح کر دیا ہے کہ فلورملز اس سکیم کا حصہ نہیں بنیں گی۔ دوسری جانب نیب اور اینٹی کرپشن محکمہ خوراک کے معاملات میں بہت فعال اور متحرک ہیں اور بہت گہرائی میں معاملات کی تحقیق و پڑتال کی جا رہی ہے بعض اہم ترین شواہد بھی ہاتھ لگ چکے ہیں اور اس وقت پورا محکمہ ایک خوف کے عالم میں ہے ۔کہتے ہیں چند گندی مچھلیاں سارا تالاب گندا کر دیتی ہیں اسی طرح گنتی کے چند کرپٹ ملازمین اور افسروں نے ہزاروں ملازمین کو بھی پریشان کر رکھا ہے۔

نیب اور اینٹی کرپشن حکام کو بھی چاہیئے کہ انوسٹی گیشن اور ہراسمنٹ میں فرق قائم رکھیں۔کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ان دونوں اداروں کے بعض افسروں نے ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کیلئے محکمہ خوراک کو میدان جنگ بنا ڈالا ہے۔
Load Next Story