سینٹ ضمنی الیکشن اپوزیشن حکومت کو ٹف ٹائم دینے کیلئے متحرک
اپوزیشن جماعتیں اس انتخاب میں جام حکومت کو ٹف ٹائم دینے کیلئے سرگرم دکھائی دے رہی ہیں۔
بلوچستان کا سیاسی موسم آہستہ آہستہ گرم ہونا شروع ہوگیا ہے۔ میر حاصل خان بزنجو کے انتقال کے بعد سینٹ کی خالی ہونے والی نشست پر مختصر عرصے کیلئے ضمنی انتخاب میں حکومت اور متحدہ اپوزیشن آمنے سامنے آگئے ہیں۔
مارچ2021ء کے سینٹ انتخابات سے قبل اس ضمنی انتخاب میں بھی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کانٹے دار مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے۔ سیاسی حلقے اس ضمنی انتخاب کو دونوں کے درمیان ''وارم اپ'' میچ قرار دے رہے ہیں ۔
گو کہ حکومتی اتحاد کا پلڑا بھاری نظر آرہا ہے لیکن اپوزیشن جماعتیں بھی اس انتخاب میں جام حکومت کو ٹف ٹائم دینے کیلئے سرگرم دکھائی دے رہی ہیں۔12 ستمبر کی شام کو آنے والا یہ نتیجہ یقیناً اگلے معرکے کے حوالے سے دونوں کی سیاسی پوزیشنوں کو کچھ واضح کر دے گا۔
تاہم بعض سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ مارچ2021ء کا معرکہ اور اُس کے نتائج کچھ مختلف ہو سکتے ہیں؟ کیونکہ حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی میں ٹکٹ کے حصول کیلئے ابھی سے زبردست لابنگ ہو رہی ہے اور پارٹی کے بعض ارکان صوبائی اسمبلی کے ساتھ ساتھ بعض قریبی عزیز و اقارب اور2018ء کے عام انتخابات میں ہارنے والے پارٹی اُمیدوار سرگرم ہیں کہ اُنہیں سینٹ کے ان انتخابات کیلئے پارٹی ٹکٹ مل جائے جبکہ وزیراعلیٰ جام کمال نے حکومت سازی کے وقت اپنی اتحادی جماعتوں سے بھی اس حوالے سے کچھ وعدے کر رکھے ہیں؟۔ ایسی صورت میں وزیراعلیٰ جام کمال کو یقیناً پارٹی کے اندر اور حکومت کی اتحادی جماعتوں کے حوالے سے مشکلات کا سامناکرنا پڑ سکتا ہے ۔
ان سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ جام کمال کی اتحادی جماعتیں بھی اس صورتحال کا بھرپور فائدہ اُٹھانے کی پوزیشن میں ہیں جنہیں وزارتوں اور محکموں سمیت بعض دیگر حکومتی اُمور کے حوالے سے پہلے ہی وزیر اعلیٰ جام کمال سے بعض شکایات ہیں۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں بھی اس تمام صورتحال کا بغور جائزہ لے رہی ہیں اور اُن کا دعویٰ ہے کہ وہ حکومتی جماعت کے بعض ناراض ارکان سمیت اتحادیوں سے بھی رابطے میں ہیں اور وہ مارچ2021ء کے سینٹ کے الیکشن میں ''سرپرائز'' دے سکتی ہیں۔
ان سیاسی مبصرین کے مطابق سینٹ کے انتخابات سے چھ سات ماہ قبل ہی بلوچستان کا سیاسی موسم گرم ہوگیا ہے اور کئی سیاسی شخصیات جس طرح سے سرگرم ہیں اُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ2021ء کے سینٹ کے ان انتخابات میں زبردست معرکہ آرائی ہوگی، بعض سیاسی مبصرین ان خدشات کا بھی اظہار کر رہے ہیں کہ اس مرتبہ بھی بلوچستان سے سیاسی جماعتوں کے علاوہ آزاد اُمیدوار بھی میدان میں اُتریں گے۔
ان سیاسی مبصرین کے مطابق دیگر تین صوبوں کی سیاسی پوزیشن کچھ واضح ہے، نمبر آف گیم کے بھی کافی حد تک اندازے لگائے جا رہے ہیں، تاہم بلوچستان میں ابھی صورتحال واضح نہیں اس لئے اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں (ن) لیگ اور پی پی پی بلوچستان میں بھی مورچہ لگائے بیٹھی ہیں اور اُن کی کوشش ہوگی کہ وہ آزاد اُمیدواروں کو میدان میں اُتاریں ۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بلوچستان اسمبلی میں (ن) لیگ کی صرف ایک نشست ہے جبکہ پی پی پی کے پاس کوئی نشست نہیں۔ بعض سیاسی حلقوں میں یہ بات بھی وثوق سے کہی جا رہی ہے کہ پی پی پی بلوچستان کے عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے صوبے سے کسی ایک پارٹی کے رہنما کو سندھ سے سینٹ کا ٹکٹ دے کر کامیاب کرا سکتی ہے؟ سیاسی مبصرین کے مطابق ملک کی ان دو بڑی سیاسی جماعتوں کی بلوچستان میں خصوصی دلچسپی مارچ2021ء کے انتخابات میں سیاسی پنجہ آزمائی کو مزید بڑھاوا دے سکتی ہے اور اس میں کوئی شک و شبے والی بات نہیں ہوگی کہ بلوچستان سے ''سرپرائز نتائج''آسکتے ہیں؟۔
دوسری جانب اپوزیشن جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کی اپوزیشن جماعتوں خصوصاً پیپلز پارٹی سے قربتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کے بعد بلاول بھٹو زرداری اور بی این پی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ بھی سیاسی حلقوں میں زیر بحث ہے جبکہ دن بدن سردار اختر جان مینگل کا تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف لہجہ بھی تلخ ہوتا جا رہا ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی اور جمعیت علماء اسلام اس وقت بلوچستان اسمبلی میں ایک مضبوط اپوزیشن اتحاد بنا کر جام حکومت کو گرانے کیلئے کوشاں ہیں۔
بلوچستان کی متحدہ اپوزیشن یہ بھی دعویٰ کر چکی ہے کہ وہ جام حکومت کو گرانے کیلئے نمبر آف گیم کے قریب پہنچ چکی ہے۔ تاہم دوسری جانب متحدہ اپوزیشن کے ان دعوؤں کو نظر انداز کرتے ہوئے وزیراعلیٰ جام کمال مطمئن دکھائی دے رہے ہیں، بعض سیاسی حلقوں میں یہ بات بھی بڑے وثوق سے کہی جا رہی ہے کہ حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی میں بھی اختلافات ہیں جو کہ سینٹ کے انتخابات میںمزید بڑھ سکتے ہیں؟ وزیراعلیٰ جام کمال اپنی جماعت کے اندر معاملات کو کیسے سنبھالتے ہیں اور اتحادیوں کے دباؤ میں سے کیسے اپنے آپ کو نکالتے ہیں یہ اُن کی سیاسی بصیرت اور قائدانہ صلاحیتوں کے حوالے سے ایک بڑا امتحان ہوگا۔
دیکھنا یہ ہے کہ آیا جام کمال اس امتحان سے نکل بھی پاتے ہیں یا نہیں؟ کیونکہ بقول بعض ''سیاسی گرووں'' کے اُن کے پاس اس وقت کوئی ایسی سیاسی ٹیم نہیں جس سے وہ مشورہ لے سکیں، ان سیاسی گرووں کے مطابق جام کمال خود بھی کسی سے ایسے مشورے لینے کے حق میں نہیں ہیں؟
اور وہ سمجھتے ہیں کہ سیاست اُنہیں وراثت میں ملی ہے وہ سیاسی داؤ پیچ کا مقابلہ کر سکتے ہیں جس کا اُنہوں نے عملی مظاہرہ بھی کر کے دکھایا ہے اور گذشتہ چند دنوں میں اُنہوں نے سیاست میں کچھ ایسے سیاسی پتے کھیلے ہیں جس کے باعث پارٹی کے اندر ان کے مد مقابل سمجھے جانے والے سیاسی حریف اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو بھی تنہا رہ گئے ہیں اور ان کے قریبی ساتھی سمجھے جانے والے سردار سرفراز ڈومکی کو گذشتہ دنوں اپنی کابینہ میں شامل کرتے ہوئے انہیں ایک اہم وزارت بھی تفویض کی ہے جبکہ انکی اتحادی جماعت اے این پی جس کے حوالے سے یہ کہا جا رہا تھا کہ شاید وہ حکومت سے علیحدہ ہوجائے نے ان کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا ہے ۔
مارچ2021ء کے سینٹ انتخابات سے قبل اس ضمنی انتخاب میں بھی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کانٹے دار مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے۔ سیاسی حلقے اس ضمنی انتخاب کو دونوں کے درمیان ''وارم اپ'' میچ قرار دے رہے ہیں ۔
گو کہ حکومتی اتحاد کا پلڑا بھاری نظر آرہا ہے لیکن اپوزیشن جماعتیں بھی اس انتخاب میں جام حکومت کو ٹف ٹائم دینے کیلئے سرگرم دکھائی دے رہی ہیں۔12 ستمبر کی شام کو آنے والا یہ نتیجہ یقیناً اگلے معرکے کے حوالے سے دونوں کی سیاسی پوزیشنوں کو کچھ واضح کر دے گا۔
تاہم بعض سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ مارچ2021ء کا معرکہ اور اُس کے نتائج کچھ مختلف ہو سکتے ہیں؟ کیونکہ حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی میں ٹکٹ کے حصول کیلئے ابھی سے زبردست لابنگ ہو رہی ہے اور پارٹی کے بعض ارکان صوبائی اسمبلی کے ساتھ ساتھ بعض قریبی عزیز و اقارب اور2018ء کے عام انتخابات میں ہارنے والے پارٹی اُمیدوار سرگرم ہیں کہ اُنہیں سینٹ کے ان انتخابات کیلئے پارٹی ٹکٹ مل جائے جبکہ وزیراعلیٰ جام کمال نے حکومت سازی کے وقت اپنی اتحادی جماعتوں سے بھی اس حوالے سے کچھ وعدے کر رکھے ہیں؟۔ ایسی صورت میں وزیراعلیٰ جام کمال کو یقیناً پارٹی کے اندر اور حکومت کی اتحادی جماعتوں کے حوالے سے مشکلات کا سامناکرنا پڑ سکتا ہے ۔
ان سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ جام کمال کی اتحادی جماعتیں بھی اس صورتحال کا بھرپور فائدہ اُٹھانے کی پوزیشن میں ہیں جنہیں وزارتوں اور محکموں سمیت بعض دیگر حکومتی اُمور کے حوالے سے پہلے ہی وزیر اعلیٰ جام کمال سے بعض شکایات ہیں۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں بھی اس تمام صورتحال کا بغور جائزہ لے رہی ہیں اور اُن کا دعویٰ ہے کہ وہ حکومتی جماعت کے بعض ناراض ارکان سمیت اتحادیوں سے بھی رابطے میں ہیں اور وہ مارچ2021ء کے سینٹ کے الیکشن میں ''سرپرائز'' دے سکتی ہیں۔
ان سیاسی مبصرین کے مطابق سینٹ کے انتخابات سے چھ سات ماہ قبل ہی بلوچستان کا سیاسی موسم گرم ہوگیا ہے اور کئی سیاسی شخصیات جس طرح سے سرگرم ہیں اُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ2021ء کے سینٹ کے ان انتخابات میں زبردست معرکہ آرائی ہوگی، بعض سیاسی مبصرین ان خدشات کا بھی اظہار کر رہے ہیں کہ اس مرتبہ بھی بلوچستان سے سیاسی جماعتوں کے علاوہ آزاد اُمیدوار بھی میدان میں اُتریں گے۔
ان سیاسی مبصرین کے مطابق دیگر تین صوبوں کی سیاسی پوزیشن کچھ واضح ہے، نمبر آف گیم کے بھی کافی حد تک اندازے لگائے جا رہے ہیں، تاہم بلوچستان میں ابھی صورتحال واضح نہیں اس لئے اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں (ن) لیگ اور پی پی پی بلوچستان میں بھی مورچہ لگائے بیٹھی ہیں اور اُن کی کوشش ہوگی کہ وہ آزاد اُمیدواروں کو میدان میں اُتاریں ۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بلوچستان اسمبلی میں (ن) لیگ کی صرف ایک نشست ہے جبکہ پی پی پی کے پاس کوئی نشست نہیں۔ بعض سیاسی حلقوں میں یہ بات بھی وثوق سے کہی جا رہی ہے کہ پی پی پی بلوچستان کے عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے صوبے سے کسی ایک پارٹی کے رہنما کو سندھ سے سینٹ کا ٹکٹ دے کر کامیاب کرا سکتی ہے؟ سیاسی مبصرین کے مطابق ملک کی ان دو بڑی سیاسی جماعتوں کی بلوچستان میں خصوصی دلچسپی مارچ2021ء کے انتخابات میں سیاسی پنجہ آزمائی کو مزید بڑھاوا دے سکتی ہے اور اس میں کوئی شک و شبے والی بات نہیں ہوگی کہ بلوچستان سے ''سرپرائز نتائج''آسکتے ہیں؟۔
دوسری جانب اپوزیشن جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کی اپوزیشن جماعتوں خصوصاً پیپلز پارٹی سے قربتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کے بعد بلاول بھٹو زرداری اور بی این پی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ بھی سیاسی حلقوں میں زیر بحث ہے جبکہ دن بدن سردار اختر جان مینگل کا تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف لہجہ بھی تلخ ہوتا جا رہا ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی اور جمعیت علماء اسلام اس وقت بلوچستان اسمبلی میں ایک مضبوط اپوزیشن اتحاد بنا کر جام حکومت کو گرانے کیلئے کوشاں ہیں۔
بلوچستان کی متحدہ اپوزیشن یہ بھی دعویٰ کر چکی ہے کہ وہ جام حکومت کو گرانے کیلئے نمبر آف گیم کے قریب پہنچ چکی ہے۔ تاہم دوسری جانب متحدہ اپوزیشن کے ان دعوؤں کو نظر انداز کرتے ہوئے وزیراعلیٰ جام کمال مطمئن دکھائی دے رہے ہیں، بعض سیاسی حلقوں میں یہ بات بھی بڑے وثوق سے کہی جا رہی ہے کہ حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی میں بھی اختلافات ہیں جو کہ سینٹ کے انتخابات میںمزید بڑھ سکتے ہیں؟ وزیراعلیٰ جام کمال اپنی جماعت کے اندر معاملات کو کیسے سنبھالتے ہیں اور اتحادیوں کے دباؤ میں سے کیسے اپنے آپ کو نکالتے ہیں یہ اُن کی سیاسی بصیرت اور قائدانہ صلاحیتوں کے حوالے سے ایک بڑا امتحان ہوگا۔
دیکھنا یہ ہے کہ آیا جام کمال اس امتحان سے نکل بھی پاتے ہیں یا نہیں؟ کیونکہ بقول بعض ''سیاسی گرووں'' کے اُن کے پاس اس وقت کوئی ایسی سیاسی ٹیم نہیں جس سے وہ مشورہ لے سکیں، ان سیاسی گرووں کے مطابق جام کمال خود بھی کسی سے ایسے مشورے لینے کے حق میں نہیں ہیں؟
اور وہ سمجھتے ہیں کہ سیاست اُنہیں وراثت میں ملی ہے وہ سیاسی داؤ پیچ کا مقابلہ کر سکتے ہیں جس کا اُنہوں نے عملی مظاہرہ بھی کر کے دکھایا ہے اور گذشتہ چند دنوں میں اُنہوں نے سیاست میں کچھ ایسے سیاسی پتے کھیلے ہیں جس کے باعث پارٹی کے اندر ان کے مد مقابل سمجھے جانے والے سیاسی حریف اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو بھی تنہا رہ گئے ہیں اور ان کے قریبی ساتھی سمجھے جانے والے سردار سرفراز ڈومکی کو گذشتہ دنوں اپنی کابینہ میں شامل کرتے ہوئے انہیں ایک اہم وزارت بھی تفویض کی ہے جبکہ انکی اتحادی جماعت اے این پی جس کے حوالے سے یہ کہا جا رہا تھا کہ شاید وہ حکومت سے علیحدہ ہوجائے نے ان کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا ہے ۔