خیبر پختونخوا کابینہ میں توسیع کا مرحلہ بالآخر مکمل ہو گیا

صوبائی کابینہ میں توسیع کے اس مرحلے میں سابق صوبائی وزیر شہرام ترکئی کوکابینہ میں دوبارہ شامل کیا گیا ہے۔

صوبائی کابینہ میں توسیع کے اس مرحلے میں سابق صوبائی وزیر شہرام ترکئی کوکابینہ میں دوبارہ شامل کیا گیا ہے۔ فوٹو : فائل

خیبرپختونخوا کابینہ میں توسیع کا مرحلہ بالآخر مکمل ہو ہی گیا ہے جس کے ساتھ ہی انتظار کی وہ گھڑیاں بھی ختم ہوئیں کہ جن کا ایک عرصے سے انتظار کیا جا رہا تھا،کابینہ میں توسیع کے موقع پر سابق صوبائی وزیر شہرام ترکئی کے ساتھ قبائلی ضلع باجوڑ سے تعلق رکھنے والے رکن اسمبلی انور زیب کے نام بھی قرعہ نکلا ہے۔

انور زیب کی شمولیت سے صوبائی کابینہ میں قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے وزراء کی تعداد دو ہوگئی ہے جبکہ مجموعی طور پر حکومتی ٹیم میں تین ارکان قبائلی اضلاع کی نمائندگی کر رہے ہیں جن میں انور زیب اور اقبال وزیر کے علاوہ غازی غزن جمال شامل ہیں۔

یقینی طور پر وزیراعلیٰ محمود خان کی جانب سے قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے تین ارکان کو اپنی ٹیم میں شامل کرنے سے اب قبائلی اضلاع کو حکومتی ٹیم میں خاطر خواہ نمائندگی حاصل ہوگئی ہے اور وہاں سے تعلق رکھنے والے یہ نمائندے بہتر انداز میں اپنے علاقوں اور متعلقہ اضلاع کے مسائل کو اسمبلی کے فورم پر پیش کرنے کے ساتھ انھیں حل کرنے کے لیے بھی اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں جس سے قبائلی اضلاع کی وہ محرومیاں دور کرنے میں مدد ملے گی کہ جو عشروں سے چلی آرہی ہیں جن کی وجہ سے وہاں کے باسیوں کو متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

صوبائی کابینہ میں توسیع کے اس مرحلے میں سابق صوبائی وزیر شہرام ترکئی کوکابینہ میں دوبارہ شامل کیا گیا ہے، شہرام ترکئی اسی سال جنوری کے مہینہ میں اس وقت کابینہ سے باہر کر دیئے گئے تھے جب وزیراعلیٰ محمودخان کو اپنی ہی صفوں سے بغاوت کی بو آئی اور انہوں نے اس پاداش میں تین صوبائی وزراء کو اٹھاکر باہر کردیا،کچھ حلقے یہ توقع کررہے تھے کہ اب ان تینوں سابق وزرائ کی واپسی ہوگی تھی اکٹھی ہی ہوگی کیونکہ ان کے حال کے ساتھ ان کا مستقبل بھی اب ایک دوسرے سے جڑ گیا ہے لیکن صورت حال اس کے برعکس رہی اور شہرام ترکئی اپنے طور پر معاملات طے کرتے ہوئے حکومتی صفوں میں واپس آکھڑے ہوئے ہیں جبکہ عاطف خان اور شکیل احمد باہر رہ گئے ہیں جنھیں اپنے طور پر ہی معاملات طے کرنے ہوں گے۔

جہاں تک وزراء کا تعلق ہے تو ان کے حوالے سے ردوبدل ضرور ہوگا کیونکہ شہرام ترکئی کی واپسی کے بعد اب انھیں کوئی نہ کوئی محکمہ بھی حوالے کیا جانا ہے، اسی حکومت میں پہلے انھیں محکمہ بلدیات کا قلمدان حوالے کیا گیا تاہم جب بعد میں دیگر دو وزراء کے ہمراہ ان کی پوزیشن بھی مشکوک ہونا شروع ہوئی تو ان سے بلدیات کا محکمہ لیتے ہوئے محکمہ صحت کا قلمدان حوالے کر دیا گیا اس لیے اب جبکہ ان کی کابینہ میں واپسی ہوئی ہے تو اب بھی انھیں کوئی نہ کوئی بڑا محکمہ ہی حوالے کیا جائے گا اور غالب امکان یہی ہے کہ ان سطور کی اشاعت تک انھیں کسی نہ کسی محکمہ کا قلمدان سونپا جاچکا ہو گا۔


تاہم صورت حال یہ ہے کہ انھیں محکمہ بلدیات کا قلمدان اگر سونپا جاتا ہے تو یہ محکمہ معاون خصوصی کامران خان بنگش کے پاس ہے جن کے پاس محکمہ اطلاعات کی اضافی ذمہ داریاں بھی ہیں اور اطلاعات یہی ہیں ان کے پاس اطلاعات کا قلمدان تو رہے گا تاہم بلدیات کا محکمہ لے لیا جائے گا تاہم دوسری جانب یہ بھی خبر گرم ہے کہ شہرام ترکئی کو بلدیات کی بجائے محکمہ تعلیم کی ذمہ داریاں سونپی جا سکتی ہیں اور بلدیات کے محکمہ کا قلمدان اکبر ایوب خان کو مل سکتا ہے جو اس وقت محکمہ تعلیم کو سنبھالے ہوئے ہیں ۔

کابینہ میں ضلع باجوڑ کی نمائندگی کرنے والے انور زیب کی پوزیشن اس حوالے سے واضح نظر آرہی ہے کہ انھیں سابق صوبائی وزیر شکیل احمد کے چھوڑے ہوئے محکمہ مال کا قلمدان مل سکتا ہے جس کے ساتھ ہی یہ بھی اطلاعات ہیں کہ چونکہ تیمور سلیم جھگڑا خزانہ اور صحت کے دو بڑے محکمے چلا رہے ہیں اس لیے ان سے ایک محکمہ واپس لیاجا سکتا ہے جس کے ساتھ ہی صوبائی وزیر خوراک قلندر خان لودھی کا محکمہ بھی تبدیل کیے جانے کی شنید ہے کیونکہ محکمہ خوراک کے حوالے سے گزشتہ دنوں جو صورت حال بنی وہ بھی اپنی جگہ موجود ہے اور اس وقت بھی روٹی کی قیمت کے حوالے سے مشکلات موجود ہیں۔

تاہم ان سطور کو سپرد قلم کرتے وقت تک کی صورت حال یہ ہے کہ اس ضمن میں مشاورت جاری ہے۔ اور مشاورت کا سلسلہ پارلیمانی سیکرٹریوں کی تقرری کے حوالے سے بھی جاری ہے کیونکہ جہاں ابھی صوبائی کابینہ میں مزید ایک وزیر کو شامل کرنے کی گنجائش موجود ہے وہیں پارلیمانی سیکرٹریوں کا تقرر بھی ہونا ہے جس کے لیے پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والی خواتین ارکان کے نام بھی زیر غور ہیں۔

جہاں ایک جانب حکومتی صفوں میں ردوبدل کا یہ سلسلہ جاری ہے تو وہیں دوسری جانب ختم نبوت کے سلسلے میں پشاور میں دو دنوں کے اندرجماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام کے زیر اہتمام دو بڑے پروگراموں کے انعقاد سے سیاسی فضاء متحرک ہوئی ہے۔

جماعت اسلامی کا جلسہ صرف ان کا اپنا ہی جلسہ تھا یہی وجہ ہے اس کے روح رواں امیر جماعت اسلامی سراج الحق ہی تھے جبکہ دوسری جانب جمعیت علماء اسلام نے دیگر جماعتوں کو بھی اپنے پروگرام میں شرکت کی دعوت دی جس کی وجہ سے ماضی کے صفحات میں گم ہوتے ہوئے متحدہ مجلس عمل کی قیادت ایک ہی سٹیج پر یکجا نظر آئی، اگرچہ یہ بات واضح ہے کہ ایم ایم اے اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے اور اس کا احیاء ممکن نہیں، تاہم اس پروگرام کے توسط سے اتنا ضرور ہوا ہے کہ ایم ایم اے میں شامل جماعتوں کی قیادت یکجا ہوگئی اور مولانا فضل الرحمٰن جو حالات پر نظررکھنے میں کمال رکھتے ہیں وہ اس اکٹھ کا بھی حکومت مخالفت تحریک کے حوالے سے کسی نہ کسی حوالے سے ضرور فائدہ لینے کی کوشش کریں گے ۔

چونکہ مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے چھوٹی جماعتوں کے اجلاس کے انعقاد سے دوبڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی پر اتنا دباؤ آیا کہ وہ حکومت مخالف تحریک شروع کرنے کے سلسلے میں رہبر کمیٹی اجلاس میں شرکت پر آمادہ بھی ہوئیں اور ساتھ ہی حکومت مخالف تحریک کے لیے میدان میں نکلنے کے سلسلے میں بھی انہوں نے عندیہ دیا ہے اس لیے پشاور میں منعقد ہونے والے پروگرام کا مولانا فضل الرحمٰن ، حکومت مخالف تحریک کے حوالے سے ضرورفائدہ لینا چاہیں گے ۔
Load Next Story