پاکستان کو دولخت اور مشرقی بازو کو بنگلا دیش بنے آج 42 سال ہوگئے

آج اس سانحے کو 42 برس گزر گئے ہیں لیکن یہ ایک ایسا سیاہ باب ہے جسے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔

اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ اس المناک واقعے میں کئی سبق پوشیدہ ہیں، فوٹو:فائل

طاقت کے نشے میں دھت حکمرانوں کی مجرمانہ غفلت اور اقتدار کی ہوس میں اندرونی اور بیرونی عناصر ے ہاتھوں آلہ کاروں کی بدولت پاکستان کو دولخت ہوئے آج 42 برس ہوگئے لیکن اس کے کردار آج بھی زندہ و جاوید ہیں اور غلطیوں پر معافی طلب کرنے کے بجائے اس کا الزام دوسروں پر تھوپ کر اپنا دامن اجلا دکھانے کی کوششوں میں مگن ہیں۔

قیام پاکستان تاریخ انسانی کا انتہائی جراتمندانہ تجربہ تھا تاہم اس کے ساتھ قوم کو دو بازوؤں کے درمیان ایک ہزار میل سے زائد کا زمینی فاصلہ، مختلف نسل اور زبان کے باوجود ایک مشترک پہچان اور یکساں نظریات کی بنا پر ایک قوم بن کر رہنے کا چیلنج ملا لیکن بحیثیت پاکستانی قوم ہم اس چیلنج میں سرخرو نہ ہوسکے۔ 1965 کی جنگ میں بھارت کو جنگی میدان میں ناکوں چنے چبوانے والا ملک 6 برس بعد ہی دو لخت ہوگیا۔


21 مارچ 1948 کو اردو کو ملک کی سرکاری زبان قرار دینے کے اعلان نے بنگالی نوجوانوں میں اپنی حق تلفی کا پہلا احساس پیدا ہوا جس کے بعد 1953 میں خواجہ ناظم الدین کی غیر آئینی برطرفی نے ان کے غم و غصے میں اضافہ کردیا اور وقت کے ساتھ ساتھ پیش آنے والے مختلف واقعات اور ہوس پرست حکمرانوں کے اقدامات کی بدولت کروڑوں عوام کے دلوں میں نفرتوں کے بیج نے ایک تناور درخت کی شکل اختیار کرلی اور بالآخر عوامی لیگ کے شیخ مجیب الرحمان نے اپنے مشہور 6 نکات کا اعلان کیا جن میں ایک ایسے سیاسی نظام کی وکالت کی گئی تھی جس میں مرکزی حکومت محصولات کے اختیارات کے بغیر امور خارجہ اور امور دفاع کی دیکھ بھال کرتی رہے، مجیب نے اپنے پروگرام کو ''صوبائی خود مختاری'' کے حوالے سے پیش کیا جبکہ مغربی پاکستان کے لوگوں نے اسے علیحدگی کی تحریک سمجھا۔

ملک کے دوسرے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل یحیٰی خان کی جانب سے 1970 میں ملک میں پہلی مرتبہ ایک شخص ایک ووٹ کی بنیاد پر عام انتخابات کرائے گئے تو انہی 6 نکات کی بدولت عوامی لیگ کو ناصرف مشرقی پاکستان بلکہ پورے پاکستان میں فیصلہ کن برتری حاصل ہوگئی، شیخ مجیب الرحمان کا کہنا تھا کہ ان کی پارٹی کو چونکہ سب سے زیادہ سیٹیں ملی ہیں لہٰذا حکومت سازی کی دعوت اسے دی جانی چاہیے کیونکہ وہ دوسری پارٹیوں کو ساتھ ملا کر حکومت بنا سکتا ہے جبکہ دوسری طرف پیپلز پارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو کا کہنا تھا کہ ان کی پارٹی کے بغیر حکومت نہیں بنائی جاسکتی یہاں فیصلہ کن کردار اس وقت کے صدر جنرل یحیٰ خان کے ہاتھ میں تھا جنہوں نے حکومت سازی کی دعوت دینے کے بجائے فیصلے میں غیر معمولی تاخیر کر دی اس کا نتیجہ بنگال میں فوجی کاروائی کی صورت میں نکلا، بھارت حالات کے اس نہج تک پہنچنے کا منتظر تھا ۔ سرحد پار بھارتی فوجی کاروائیوں میں تیزی آتی گئی جو جلد کھلی جنگ میں تبدیل ہو گئی ۔ یوں بنگلا دیش بننے کی راہ ہموار ہوتی چلی گئی ۔ اور بالآخر 16دسمبر 1971ء کو مشرقی پاکستان میں پاک فوج نے بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور مشرقی پاکستان بنگلا دیش کے روپ میں ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے وجود میں آیا۔

آج اس سانحے کو 42 برس گزر گئے ہیں لیکن یہ ایک ایسا سیاہ باب ہے جسے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ پاکستان کیوں دولخت ہوا اس بارے میں لوگوں، سیاست دانوں اور تجزیہ کاروں کے درمیان مختلف آراء پائی جاتی ہیں لیکن اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ اس المناک واقعے میں کئی سبق پوشیدہ ہیں۔
Load Next Story