مسئلہ دال چاول آٹے کا ہے

ہم خام مال کو برآمد کرنے کی بجائے مصنوعات میں تبدیل کرکے خودکفالت کی جانب جا سکتے ہیں۔

zb0322-2284142@gmail.com

ویسے تو انسان کو زندہ رہنے کے لیے کھانا پکانا پڑتا ہے اورکھانا پکانے کے لیے درجنوں چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ جیساکہ پیاز، لہسن، ادرک، نمک، مسالہ جات، تیل، گیس یا لکڑی، ہلدی، مرچ وغیرہ وغیرہ۔ ان کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ،یہ بات سب کو معلوم ہے۔ کم ازکم راقم سے زیادہ۔

کراچی کے مختلف علاقوں میں اس وقت لہسن، ادرک چار اور پانچ سوروپے کلو، سرخ مرچ 800 روپے کلو، پیاز اورآلو 60 روپے کلو، دودھ 120 روپے لیٹر، گائے کا گوشت 750 روپے کلو، خوردنی تیل کم سے کم 250 روپے کلو، چینی 110 روپے کلو، بازار میں فروخت ہو رہی ہیں۔

دواؤں کی قیمتیں دوگنی ہوگئی ہیں۔ سبزیاں 100 سے 160 روپے کلو، پھل 100 سے 200 روپے کلو۔ یہ ساری چیزیں چھوڑی جاسکتی ہیں (نیم فاقہ کشی کی شکل میں) لیکن آٹا، دال اور چاول کو نہیں چھوڑا جاسکتا ہے۔ آٹا 45 روپے کلو تھا اب 70 روپے، دالیں 150 سے 200 روپے کلو اور چاول 100 سے 170 روپے کلو ہے۔ حکومتی اعدادو شمار کے مطابق مہنگائی میں 8.05 فیصد کا اضافہ ہوا ہے جب کہ غیر جانبدار اعداد وشمارکے مطابق 12 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ 6 ماہ میں ملک بھر میں 11 لاکھ مزدور بے روزگار ہوئے ہیں۔

زمانہ قدیم میں غذا کا استعمال جنگلوں سے حاصل سبزیوں، پھلوں، جانوروں اور اجناس کے ذریعے ضرورتیں پوری کی جاتی تھیں۔ بعدازاں چین میں سبزیوں کا سوپ اور ہندوستان میں کھچڑی کا استعمال عام تھا۔ ''تاریخ میں کیا ہوا'' نامی کتاب کے مصنف برطانیہ کے معروف انقلابی تاریخ دان لکھتے ہیں کہ احرام مصر کی تعمیر کرنے والے غلام مزدوروں کو کھانے کے لیے صرف روٹی ملتی تھی۔ اس کے خلاف شاید معلوم تاریخ میں غلام مزدوروں کی پہلی ہڑتال تھی۔ ان کا مطالبہ تھا کہ روٹی کے ساتھ پیاز بھی چاہیے۔

آج پاکستان میں اس سے کوئی بہتر حالت نہیں ہے۔ لوگ نیم فاقہ کشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ جب آٹا 70 روپے کلو، چاول 150 روپے کلو اور دالیں 250 روپے کلو (اوسطاً) ہوں گی تو عوام کی صورت حال یہی ہوگی۔ حکومت نے اعلان کیا ہوا ہے کہ ایک غیر ہنرمند مزدور کی کم ازکم تنخواہ ساڑھے سترہ ہزار روپے ہوگی جب کہ 90 فیصد مزدوروں کو 12 سے 15 ہزار روپے سے زیادہ تنخواہیں نہیں ملتیں، آپ خود سوچیں کہ جو مزدور دال، سبزی، پھل وغیرہ ایک کلو کرکے خریدتا تھا وہ ایک پاؤ کرکے خریدتا ہے اور دکاندار بھی خود پاؤ کے حساب سے قیمت بتاتا ہے۔ اس لیے کہ اسے یہ معلوم ہے کہ عوام کی قوت خرید کم ہو گئی ہے۔

جب لوگوں کو ضرورت کی غذا کم ملے گی تو صحت بھی کم زور ہوگی اور قوت مدافعت بھی کم ہوگی۔ اسی لیے مختلف امراض میں جب مزدور مبتلا ہوتے ہیں تو زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ درحقیقت طبقاتی تقسیم کا کارنامہ ہے۔ پاکستان کے علاوہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی تیزی سے بے روزگاری، غذائی قلت، مہنگائی، بیماری، بے گھری اور غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یورپ، امریکا، جاپان، چین، سعودی عرب اور ترکی میں بھی شرح نمو میں کمی آگئی ہے اور بے روزگاری میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔


امریکا میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بے روزگاری کی شرح 11 فیصد ہے جب کہ غیر جانبدار اعداد و شمارکے مطابق 16 فیصد ہے۔ یورپ کا سب سے ترقی یافتہ ملک جرمنی ہے، یہاں 60 لاکھ لوگ بے روزگار ہیں، جاپان میں 5 فیصد یعنی 13 کروڑ کی آبادی میں 65 لاکھ، چین میں تقریباً 18 کروڑ لوگ بے روزگار ہیں، سعودی عرب اور ترکی میں 12.5 فیصد لوگ بے روزگار ہیں۔ ان بے روزگاریوں کے خلاف آئے روز ان ملکوں میں ہڑتالیں ہوتی ہیں۔ فرانس کی پیلی جیکٹ تحریک اور اسرائیل کی بے روزگاری کے خلاف چلنے والی تحریک اس کی بہترین مثالیں ہیں۔

اسرائیل میں 21 فیصد لوگ بے روزگار ہیں جب کہ نوجوانوں میں 30 فیصد بے روزگار ہیں۔ سعودی عرب لاکھوں غیر ملکی مزدوروں کو فارغ کرچکا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ غیر ملکوں سے لاکھوں فوج کو واپس بلانے کا اعلان کیا ہے اور مشرق وسطیٰ اور افغانستان سے ایک حد تک فوجیں واپس بلا لی ہیں، یہ ہے عالمی صورتحال۔

اب پاکستان کی کیا حالت ہوگی، آپ خود جائزہ لے سکتے ہیں۔ قرضوں، امدادوں سے کب تک کام چلے گا۔ ہماری حکومت جاگیرداری کا خاتمہ کر کے زرعی زمین، بے زمین کاشتکاروں اور کم زرعی زمین رکھنے والوں میں تقسیم کردے تو کسانوں کی بے روزگاری ختم ہو سکتی ہے اور سرکار، خود انحصار فیکٹریاں، ملیں، کارخانے قائم کرکے کروڑوں مزدوروں کو روزگار فراہم کیا جاسکتا ہے، مگر ہماری حکومت میں جب سارے اسمبلی ممبران جاگیردار اور سرمایہ دار ہوں گے تو وہ کیونکر زمین کسانوں میں تقسیم کریں گے اور ملیں، کارخانے قائم کریں گے۔

پاکستان میں ایک ایک جاگیردار یا بڑے زمیندار کے پاس لاکھوں ایکڑ زمین ہے جب کہ ان کے علاقوں میں لاکھوں کسان بے روزگار ہیں۔ 1917 سے 1921 تک جنوبی یوکرین میں independent Anarchist Territory قائم ہوئی تھی۔ یہاں ''کسان آرمی'' یا ''بلیک آرمی'' تشکیل دی گئی تھی جس کے کمانڈر نیستورمیخانو تھے۔

انھوں نے کسانوں میں برابری کی بنیاد پر زمینیں بانٹ دی تھیں۔ جس کے نتیجے میں پانچ سال تک جنوبی یوکرائن گندم اور چاول میں خود کفیل رہا، جب کہ کسان آرمی اتنی طاقتور ہوگئی کہ پروشیا، آسٹرو ہنگری، زار روس اور ریڈ آرمی کو پسپا کیا اور ہزاروں کی تعداد میں گرفتارکیا۔ پاکستان معدنیات، اجناس اور خام اشیا سے بھرا پڑا ہے، اگر انھیں ہم ملٹی نیشنل کمپنیوں کے حوالے کرنے کے بجائے خود مصنوعات میں تبدیل کریں تو ہم تمام اشیا ضروریہ حاصل کرسکتے ہیں اور غذائی قلت سے نجات بھی پا سکتے ہیں، کسی ملک کی ترقی اور عوام کی خوشی کے لیے ضروری ہے کہ میٹالوجیکل،کیمیکل اور الیکٹرانکل مل، کارخانے قائم کریں۔

ہم خام مال کو برآمد کرنے کی بجائے مصنوعات میں تبدیل کرکے خودکفالت کی جانب جا سکتے ہیں اور زمین کی تقسیم سے پیداوار میں اضافہ ہوگا بلکہ ہم غذا میں بھی خود کفیل ہو جائیں گے۔ عجیب بات ہے کہ ہم ایٹم بم تو بنا لیتے ہیں، مگرگندم برآمد کرتے ہیں۔ مصنوعات کی پیداوار کرنے کی بجائے اسمبلنگ اور مینوفیکچرنگ کرکے ملٹی نیشنل کمپنیوں کی دولت میں اضافہ کرتے ہیں۔ ''نیستورمیخانو'' کی سرگرمیوں کو انٹرنیٹ پر پڑھیں۔ مسئلہ خود حل ہو جائے گا۔
Load Next Story