یہ مسائلِ کراچی جوتے پڑنا ٹھہر گیا ہے
موجودہ حکومت کی کارکردگی صرف پریس کانفرنسوں اور ’’ٹوئٹر ہینڈلز‘‘ پر ہی دکھائی دیتی ہے
آئے بھی ''وہ'' گئے بھی ''وہ'' لیکن فسانہ ختم کرنے کے بجائے ''کراچی ٹرانسفارمیشن پلان'' کے نام سے ایک نیا فسانہ چھیڑ کر واپس چلے گئے۔ یوں لگتا ہے جیسے ہمارے ''خاں صاحب'' کراچی کے دورے پر نہیں بلکہ دورہ پڑنے پر کراچی آئے تھے، کیونکہ ان کے تاثرات اور اعلانات میں ''باسی کڑہی میں اُبال'' کی جھلک نمایاں تھی۔ کراچی کے پیدائشی، رہائشی، اس شہر سے دیرینہ محبت رکھنے والے اور کسی حد تک ''باخبر'' فرد کی حیثیت سے کم از کم مجھے تو اس 1,100 ارب روپے کے پیکیج سے خیر کی کوئی امید نہیں۔ دیکھنا صرف یہ ہے کہ اس پیکیج کی خطیر رقم اور کس کس کو ''پشتینی رئیس'' بناتی ہے۔
البتہ، گزشتہ روز وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی جناب اسد عمر کے ''جوتے پڑیں گے'' والے بیان سے بالکل متفق ہوں۔
کراچی پر سیاست کی تو پی ٹی آئی اور پی پی دونوں کو جوتے پڑیں گے، اسد عمر
روحِ میر تقی میر سے معذرت:
جب سے سنی ہیں ''اُن'' کی باتیں، چین ملا آرام پڑا
جوتا پڑنا ٹھہر گیا ہے، صبح پڑا یا شام پڑا
بات کچھ یوں ہے کہ ابھی ''کراچی ٹرانسفارمیشن پلان'' کی گرد بھی نہیں بیٹھی تھی کہ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی، دونوں میں بیان بازی کا ایک نیا مقابلہ شروع ہوگیا۔ درمیان میں کراچی کے ''ورثاء'' نے بھی پریس کانفرنس کر ڈالی جو پہلے ہی اس شہر کی تاریخ میں بدترین اور سب سے نکما میئر تعینات کرکے مسلسل گالیوں اور بددعاؤں کی زد پر ہیں۔ ان تمام واقعات کا ترتیب وار جائزہ لیں تو معاملہ بالکل صاف ہوجاتا ہے:
متحدہ قومی موومنٹ عملاً 1984 سے کراچی کی سیاست پر قابض ہے اور یہاں کے ہر اچھے برے میں اس کا کردار سب سے نمایاں رہا ہے۔ 2018 کے انتخابات میں ذلت آمیز شکست کا انتقام، متحدہ نے کراچی کے شہریوں سے یوں لیا کہ ایک طرف میئر صاحب کی ''میرے پاس اختیار نہیں، میرے پاس بجٹ نہیں'' کی گردان مزید تیز ہوگئی تو دوسری جانب ''اپنوں'' کے علاقوں کو کھدیڑ کر رکھ دیا۔ اب گیارہ سو ارب روپے کے ''کراچی ٹرانسفارمیشن پلان'' کی شکل میں انہیں بھی کچھ امید نظر آئی ہے اور وہ ایک بار پھر ''اپنوں کے ہمدرد'' بن کر سب کے سامنے آنے کی کوشش کررہے ہیں... روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر!
کراچی سے شدید ترین اور دیرینہ نفرت رکھنے والی پیپلز پارٹی یہاں کے باسیوں کو ''یقین'' دلانا چاہتی ہے کہ وہ سندھ کے موجودہ دارالحکومت کی محبت بلکہ ''عشق'' میں غرق ہے اور یہاں کے حالات درست کرنے کےلیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرے گی۔ یہ اس لیے بھی ہے کیونکہ بصورتِ دیگر اگلے انتخابات میں لیاری، اولڈ ٹاؤن اور ملیر جیسے علاقے بھی پیپلز پارٹی کے ہاتھ سے مکمل طور پر نکل سکتے ہیں۔
مان لیا کہ سائیں مراد علی شاہ بہت پڑھے لکھے اور ''پروگریسیو مائنڈڈ'' آدمی ہیں لیکن حیرت تب ہوتی ہے جب وہ ''کراچی واسی'' ہوتے ہوئے بھی اس شہر کے بارے میں ''بہ اندازِ لاڑکانوی'' بات کرتے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم ہو، کراچی میں مقامی اداروں کو بااختیار بنانا ہو یا پھر اس شہر کے مسائل صحیح معنوں میں حل کرنے ہوں، کراچی کے ہر معاملے میں پیپلز پارٹی کی سیاسی بددیانتی اس قدر نمایاں ہے کہ چھپائے نہیں چھپتی۔ یقین نہ آئے تو کراچی میں لاڑکانہ کے من پسند ''وائسرائے افتخار شالوانی'' کی بطور ایڈمنسٹریٹر تعیناتی ہی دیکھ لیجیے۔ اس کے علاوہ، بلدیاتی انتخابات سے ذرا پہلے نئی حلقہ بندیاں بھی سندھ حکومت کا متعصب کردار نمایاں کررہی ہیں۔
2018 کے انتخابات میں کراچی سے غیرمعمولی کامیابی حاصل کرنے والی پی ٹی آئی نے اس شہر سے طوطا چشمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کراچی میں اپنی سیاسی قبر خود ہی کھود ڈالی، تدفین اگلے انتخابات میں متوقع ہے۔ خان صاحب کی کوشش ہوتی ہے کہ انہیں کراچی آنا ہی نہ پڑے اور وہ ''دور بیٹھے'' بیانات و احکامات صادر کرتے رہیں۔ لیکن شومئی قسمت کہ کبھی کبھی حالات کا جبر انہیں اس شہر کا ''دورہ'' کرنے پر مجبور کر ہی دیتا ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے، خان صاحب جس خلوص و محبت کے ساتھ افغانستان کا تذکرہ کرتے ہیں، اس کا عشرِ عشیر بھی کراچی کےلیے ان کے لب و لہجے اور بدن بولی (باڈی لینگویج) میں دکھائی نہیں دیتا۔ اگر کراچی کےلیے کچھ ''اچھے الفاظ'' یاد بھی کرلیے ہوں اور لہجے پر بھی کسی حد تک قابو پالیا ہو، تب بھی ان کے ماتھے کی شکنیں اس شہر کے بارے میں ان کے ''حقیقی جذبات'' کی چغلی کھاتی ہیں۔ جمیل الدین عالی مرحوم یاد آگئے: ''کراچی کا نام سنتے ہی اسلام آباد والوں کی آنکھوں میں خون اُتر آتا ہے۔''
خیر، موجودہ حکومت کی کارکردگی صرف پریس کانفرنسوں اور ''ٹوئٹر ہینڈلز'' پر ہی دکھائی دیتی ہے۔ ایسے میں وفاقی حکومت کی جانب سے ''کراچی ٹرانسفارمیشن پلان'' کا اعلان، اپنی گرتی ہوئی سیاسی ساکھ بچانے کی کوشش سے کچھ مختلف نظر نہیں آتا۔
کراچی کا ''حق دار'' ایک طبقہ اور بھی ہے لیکن وہ تقدیس و تکریم کے ایسے بلند مقام پر فائز ہے کہ اس پر بات کرنا گویا اپنے ہی پر جلانے، کالی ویگو بلانے اور اپنا نام ''گمشدگان'' کی فہرست میں لکھوانے کے مترادف ہے۔ امید ہے کہ اس بارے میں میری خاموشی اور مصلحت میں پوشیدہ خوف کو سمجھتے ہوئے درگزر فرمائیں گے۔
سطورِ بالا میں کراچی کے چند زمینی حقائق پیش کیے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے دوسرے عوامل ہیں جن پر بعد میں کچھ لکھنے کا ارادہ ہے۔
آج کی تحریر کا اختتام جناب اسد عمر سے اتفاقِ رائے پر ختم کروں گا کیونکہ کراچی کے حالات سدھرنے کی تقریباً ہر امید اب آخری سانسیں لے رہی ہے۔ کچھ دن مزید ٹھہر جائیے، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی اور متحدہ کو خوب جوتے پڑیں گے؛ اور جنہیں جوتے نہیں پڑیں گے، انہیں جھولیاں پھیلا پھیلا کر بددعائیں ضرور دی جائیں گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
البتہ، گزشتہ روز وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی جناب اسد عمر کے ''جوتے پڑیں گے'' والے بیان سے بالکل متفق ہوں۔
کراچی پر سیاست کی تو پی ٹی آئی اور پی پی دونوں کو جوتے پڑیں گے، اسد عمر
روحِ میر تقی میر سے معذرت:
جب سے سنی ہیں ''اُن'' کی باتیں، چین ملا آرام پڑا
جوتا پڑنا ٹھہر گیا ہے، صبح پڑا یا شام پڑا
بات کچھ یوں ہے کہ ابھی ''کراچی ٹرانسفارمیشن پلان'' کی گرد بھی نہیں بیٹھی تھی کہ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی، دونوں میں بیان بازی کا ایک نیا مقابلہ شروع ہوگیا۔ درمیان میں کراچی کے ''ورثاء'' نے بھی پریس کانفرنس کر ڈالی جو پہلے ہی اس شہر کی تاریخ میں بدترین اور سب سے نکما میئر تعینات کرکے مسلسل گالیوں اور بددعاؤں کی زد پر ہیں۔ ان تمام واقعات کا ترتیب وار جائزہ لیں تو معاملہ بالکل صاف ہوجاتا ہے:
متحدہ قومی موومنٹ عملاً 1984 سے کراچی کی سیاست پر قابض ہے اور یہاں کے ہر اچھے برے میں اس کا کردار سب سے نمایاں رہا ہے۔ 2018 کے انتخابات میں ذلت آمیز شکست کا انتقام، متحدہ نے کراچی کے شہریوں سے یوں لیا کہ ایک طرف میئر صاحب کی ''میرے پاس اختیار نہیں، میرے پاس بجٹ نہیں'' کی گردان مزید تیز ہوگئی تو دوسری جانب ''اپنوں'' کے علاقوں کو کھدیڑ کر رکھ دیا۔ اب گیارہ سو ارب روپے کے ''کراچی ٹرانسفارمیشن پلان'' کی شکل میں انہیں بھی کچھ امید نظر آئی ہے اور وہ ایک بار پھر ''اپنوں کے ہمدرد'' بن کر سب کے سامنے آنے کی کوشش کررہے ہیں... روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر!
کراچی سے شدید ترین اور دیرینہ نفرت رکھنے والی پیپلز پارٹی یہاں کے باسیوں کو ''یقین'' دلانا چاہتی ہے کہ وہ سندھ کے موجودہ دارالحکومت کی محبت بلکہ ''عشق'' میں غرق ہے اور یہاں کے حالات درست کرنے کےلیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرے گی۔ یہ اس لیے بھی ہے کیونکہ بصورتِ دیگر اگلے انتخابات میں لیاری، اولڈ ٹاؤن اور ملیر جیسے علاقے بھی پیپلز پارٹی کے ہاتھ سے مکمل طور پر نکل سکتے ہیں۔
مان لیا کہ سائیں مراد علی شاہ بہت پڑھے لکھے اور ''پروگریسیو مائنڈڈ'' آدمی ہیں لیکن حیرت تب ہوتی ہے جب وہ ''کراچی واسی'' ہوتے ہوئے بھی اس شہر کے بارے میں ''بہ اندازِ لاڑکانوی'' بات کرتے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم ہو، کراچی میں مقامی اداروں کو بااختیار بنانا ہو یا پھر اس شہر کے مسائل صحیح معنوں میں حل کرنے ہوں، کراچی کے ہر معاملے میں پیپلز پارٹی کی سیاسی بددیانتی اس قدر نمایاں ہے کہ چھپائے نہیں چھپتی۔ یقین نہ آئے تو کراچی میں لاڑکانہ کے من پسند ''وائسرائے افتخار شالوانی'' کی بطور ایڈمنسٹریٹر تعیناتی ہی دیکھ لیجیے۔ اس کے علاوہ، بلدیاتی انتخابات سے ذرا پہلے نئی حلقہ بندیاں بھی سندھ حکومت کا متعصب کردار نمایاں کررہی ہیں۔
2018 کے انتخابات میں کراچی سے غیرمعمولی کامیابی حاصل کرنے والی پی ٹی آئی نے اس شہر سے طوطا چشمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کراچی میں اپنی سیاسی قبر خود ہی کھود ڈالی، تدفین اگلے انتخابات میں متوقع ہے۔ خان صاحب کی کوشش ہوتی ہے کہ انہیں کراچی آنا ہی نہ پڑے اور وہ ''دور بیٹھے'' بیانات و احکامات صادر کرتے رہیں۔ لیکن شومئی قسمت کہ کبھی کبھی حالات کا جبر انہیں اس شہر کا ''دورہ'' کرنے پر مجبور کر ہی دیتا ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے، خان صاحب جس خلوص و محبت کے ساتھ افغانستان کا تذکرہ کرتے ہیں، اس کا عشرِ عشیر بھی کراچی کےلیے ان کے لب و لہجے اور بدن بولی (باڈی لینگویج) میں دکھائی نہیں دیتا۔ اگر کراچی کےلیے کچھ ''اچھے الفاظ'' یاد بھی کرلیے ہوں اور لہجے پر بھی کسی حد تک قابو پالیا ہو، تب بھی ان کے ماتھے کی شکنیں اس شہر کے بارے میں ان کے ''حقیقی جذبات'' کی چغلی کھاتی ہیں۔ جمیل الدین عالی مرحوم یاد آگئے: ''کراچی کا نام سنتے ہی اسلام آباد والوں کی آنکھوں میں خون اُتر آتا ہے۔''
خیر، موجودہ حکومت کی کارکردگی صرف پریس کانفرنسوں اور ''ٹوئٹر ہینڈلز'' پر ہی دکھائی دیتی ہے۔ ایسے میں وفاقی حکومت کی جانب سے ''کراچی ٹرانسفارمیشن پلان'' کا اعلان، اپنی گرتی ہوئی سیاسی ساکھ بچانے کی کوشش سے کچھ مختلف نظر نہیں آتا۔
کراچی کا ''حق دار'' ایک طبقہ اور بھی ہے لیکن وہ تقدیس و تکریم کے ایسے بلند مقام پر فائز ہے کہ اس پر بات کرنا گویا اپنے ہی پر جلانے، کالی ویگو بلانے اور اپنا نام ''گمشدگان'' کی فہرست میں لکھوانے کے مترادف ہے۔ امید ہے کہ اس بارے میں میری خاموشی اور مصلحت میں پوشیدہ خوف کو سمجھتے ہوئے درگزر فرمائیں گے۔
سطورِ بالا میں کراچی کے چند زمینی حقائق پیش کیے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے دوسرے عوامل ہیں جن پر بعد میں کچھ لکھنے کا ارادہ ہے۔
آج کی تحریر کا اختتام جناب اسد عمر سے اتفاقِ رائے پر ختم کروں گا کیونکہ کراچی کے حالات سدھرنے کی تقریباً ہر امید اب آخری سانسیں لے رہی ہے۔ کچھ دن مزید ٹھہر جائیے، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی اور متحدہ کو خوب جوتے پڑیں گے؛ اور جنہیں جوتے نہیں پڑیں گے، انہیں جھولیاں پھیلا پھیلا کر بددعائیں ضرور دی جائیں گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔