سانحہ بلدیہ پر بننے والی فلم’ڈسکاؤنٹ ورکرز‘ انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں پیش ہوگی

فلم 11 ستمبر کو کراچی میں جلی ہوئی فیکٹری کے مقام پر دکھائی جانی تھی لیکن کورونا کے باعث نمائش موخر کردی گئی

فلم 11 ستمبر کو کراچی میں جلی ہوئی فیکٹری کے مقام پر دکھائی جانی تھی لیکن کورونا کے باعث موخر کردی گئی

کراچی میں 8 سال قبل ہونے والے سانحہ بلدیہ پر بننے والی فلم 'ڈسکاؤنٹ ورکرز' انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں پیش کی جائے گی۔

کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں 8 سال قبل ایک کپڑا بنانے والی فیکٹری میں خوفناک آتشزدگی کے باعث فیکٹری میں کام کرنے والے سینکڑوں ملازمین لقمہ اجل بن گئے تھے۔ اس موضوع پر پاکستان اور جرمنی کے اشتراک سے بننے والی فلم ''ڈسکاؤنٹ ورکرز'' کا پریمیئردنیا کے سب سے بڑے انسانی حقوق کے''ون ورلڈ فلم فیسٹیول'' میں 11 ستمبر ہوگا۔

رواں ماہ 11 ستمبر کو سانحہ بلدیہ کو 8 سال ہوجائیں گے اور یہ فلم اس سانحے کی آٹھویں برسی کے موقع پر یورپی ملک چیک ری پبلک کے شہر پراگ میں منعقد ہونے والے فلم فیسٹیول میں دکھائی جائے گی۔

''ڈسکاؤنٹ ورکرز'' ایک فیچر ڈاکیومنٹری فلم ہے جس میں سعیدہ خاتون سمیت ان تمام لوگوں کی کہانی دکھائی گئی ہے جنہوں نے اپنے بچوں کو اس سانحے میں کھودیا تھا۔ اس کے علاوہ فلم میں دکھایا گیا ہے سعیدہ خاتون انصاف کے لیے کراچی کی عدالتوں سے لے کر یورپی عدالتوں اور جرمنی کے مختلف شہروں میں جدوجہد کرتی ہیں اور کپڑے کے ایک جرمن برانڈ ''کے آئی کے '' کےآؤٹ لیٹ کے باہر مظاہرہ کرتی ہیں۔ ان کمپنیوں نے بلدیہ فیکٹری کو سیفٹی سرٹیفکیٹ جاری کیاتھا۔


یہ فلم پاکستانی اور جرمن پروڈکشن کے اشتراک سے بنائی جارہی ہے جب کہ اس کی ہدایت کاری بھی پاکستانی فلمساز عمار عزیز اور جرمن فلمساز کرسٹوفر پاٹز نے کی ہے اور فلم کو ویرونیکا جنتکوانے پروڈیوس کیا ہے۔ اس فلم میں عام محنت کش طبقے کا قریب سے مشاہدہ کیا گیا ہے۔

فلم کے ہدایت کار عمار عزیز کا کہنا ہے کہ فلم سانحہ بلدیہ کی برسی کے موقع پر کراچی میں جلی ہوئی فیکٹری کے مقام پر دکھائی جانی تھی لیکن کورونا وبا کے باعث فلم کی نمائش صورتحال بہتر ہونے تک موخر کردی گئی ہے۔

ہدایت کار عمار عزیز نے کہا جب بھی ہم اس فلم کے بارے میں بات کرتے ہیں تو پہلا سوال یہ سامنے آتا ہے کہ کیا آگ کے مبینہ ذمہ دار سیاسی پارٹی کے کارکنان کو بے نقاب کردیا گیا ہے۔ بات یہ ہے کہ پاکستانی ریاست، جرمن برانڈ کے آئی کے اور اطالوی آڈیٹنگ کمپنی آر آئی این اے نے حادثے سے محض تین ہفتے قبل فیکٹری کو بین الاقوامی ایس اے 8000 سرٹیفیکٹ دیاتھا جس میں کام کرنے کی جگہ پر پیشہ ورانہ صحت اور حفاظت کی ضمانت دی جاتی ہے۔

یاد رہے کہ آگ لگنے کا واقعہ کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں ایک کپڑا بنانے والی فیکٹری علی انٹرپرائزز میں 2012 میں پیش آیا تھا جہاں فیکٹری کے ملازمین جرمن برانڈ ''کے آئی کے'' کیلئے کپڑا بنارہے تھے۔ اس حادثے میں 260 ملازمین جھلس کر لقمہ اجل بن گئے تھے۔

Load Next Story