جناح کا نام ایک عظیم قوم کی تشکیل کرنے والے راہ نما کی حیثیت سے ہمیشہ زندہ رہے گا

بابائے قوم کو دنیا کی نام ور سیاسی شخصیات، دانش وروں اور عالمی اخبارات کا خراج ِ عقیدت

بابائے قوم کو دنیا کی نام ور سیاسی شخصیات، دانش وروں اور عالمی اخبارات کا خراج  ِ عقیدت ۔ فوٹو : فائل

قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی 72 سالہ زندگی کے دوران تقریباً 44 سال تک ہندوستان کے مسلمانوں کی ترقّی، خوش حالی، سیاسی بالادستی اور آزادی کے لیے جدوجہد کی۔ اس عرصہ میں اگرچہ اُن کو بعض مراحل پر اپنے اور غیروں کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا مگر ان کی بے پناہ قائدانہ صلاحیتوں اور ناقابلِ تسخیر سیاسی کردار نے 1937 میں یہ بات طے کردی تھی کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے بلاشرکت غیرے وہی قائداعظم ہیں۔

قائداعظم کی ان ہی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے شاعرِ مشرقِ علّامہ اقبال نے جون 1937 میں قائداعظم کے نام ایک خط میں تحریر کیا کہ ''اس وقت جو طوفان شمال مغربی ہندوستان اور شاید پورے ہندوستان میں برپا ہونے والا ہے اس میں صرف آپ ہی کی ذات گرامی سے قوم محفوظ راہ نمائی کی توقع کا حق رکھتی ہے۔

''یہ ایک حقیقت ہے کہ تاریخ کے اس انتہائی نازک موڑ پر جب ہندوستان کے مسلمان اپنی بقا اور سلامتی کی جانب سے بڑی حد تک مایوس ہوچکے تھے۔ قائداعظم محمدعلی جناح نے تدبر، فراست، غیر متزلزل عزم، سیاسی بصیرت اور بے مثل قائدانہ صفات سے کام لے کر مسلمانوں کو ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح متحد کردیا اور سات سال کی مختصر مدّت میں مطالبہ پاکستان کی ایسی وکالت کی کہ 14 اگست 1947 کو پاکستان معرض وجود میں آگیا۔

برِّصغیر میں ایک آزاد مسلم مملکت کے قیام کا وہ دیرینہ خواب جو اسلامیانِ ہند گذشتہ دو صدیوں سے دیکھتے چلے آرہے تھے۔ 14 اگست 1947 کو شرمندہ تعبیر ہوا۔ اس خواب کی تعبیر ایک فرد واحد کی چشمِ کرشمہ ساز کا نتیجہ تھی اور وہ فردِواحد قائداعظم محمدعلی جناح تھے۔

1948 بابائے قوم قائداعظم محمدعلی جناح کی زندگی کا آخری سال تھا۔ اگرچہ آپ نے اپنی سیاسی زندگی نہایت سرگرمی اور تندہی سے گزاری مگر آپ کی زندگی کے آخری دس سال جن میں آپ کو بڑھتی ہوئی عمر اور گرتی ہوئی صحت کے پیش نظر مکمّل آرام کی ضرورت تھی نہایت ہنگامہ خیز سال تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد نومولود سلطنت کے مسائل ایسے نہ تھے جن کو قائداعظم نظرانداز کردیتے یا دوسروں پر چھوڑ دیتے چنانچہ آپ نے ان مسائل کی جانب بھرپور توجّہ دی۔

پاکستان کی داخلہ اور خارجہ پالیسی کا تعین اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ملک کے مختلف علاقوں کا دورہ کرکے وہاں کے عوام کے مسائل معلوم کرنا اور پھر ان کے تدارک کے لیے اقدامات، قومی معیشت کا فروغ و استحکام، تعلیمی نظام کو موثر بنانا، سرحدوں کا دفاع، آئین ساز اسمبلی، سرکاری مُلازمین اور مسلح افواج کو نہ صرف اُن کے فرائض سے آگاہ کرنا بلکہ اُن کو یہ باور کرانا کہ قوم اُن سے کیا توقعات رکھتی ہے۔

ان تمام اُمور سے قائداعظم نے حتی المقدور عہدہ برآ ہونے کی بھرپور کوشش کی۔ بقول پروفیسر شریف المجاہد ''تمام حالات و واقعات کا دیانتداری سے تجزیہ کیا جائے تو یہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ یہ نوزائیدہ قوم اپنی ہنگامہ خیز پیدائش کے فوراً بعد ہی پیش آنے والے تباہ کن اور ہولناک بحران میں بھی محض اس لیے زندہ سلامت رہی کہ اس دور میں قائداعظم اُمورِمملکت کے نگراں تھے۔ پاکستان کے عوام کو اُن پر جو بے پناہ اعتماد تھا، لوگوں کے دلوں میں اُن کے لیے جو زبردست عقیدت و محبّت تھی۔

قائداعظم نے اُسی کو بروئے کار لاکر اپنی قوم کو درپیش مشکلات و مصائب سے نمٹنے کے لیے حوصلہ عطا کیا۔ اُسے ان تباہیوں، بربادیوں اور ہول ناکیوں کا نئی توانائیوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کا عزم عطا کیا۔ آزادی نے عوام کے سینوں میں حبّ الوطنی کے جن جذبات کو بھڑکایا تھا اُن کی حدّت اور حرارت اور توانائی کا رُخ تعمیری سرگرمیوں کی سمت موڑ دیا۔

بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح کی بے مثل قیادت اور سیاسی بصیرت کو نہ صرف مسلمانانِ ہند نے ہمیشہ فخر کی نگاہ سے دیکھا بلکہ دنیا کے تمام راہ نماؤں نے اُن کی شخصیت اور عظمت کردار کو ہمیشہ خراجِ تحسین وعقیدت پیش کیا۔ برطانیہ کے وزیراعظم کلیمنٹ ایٹلی نے قائداعظم کے انتقال پر اپنے تعزیتی بیان میں قائداعظم کو دُنیا کے عظیم راہ نماؤں میں نمایاں اور ممتاز قرار دیا اور کہا کہ وہ اپنے مقصد سے گہری وابستگی پر یقین رکھتے تھے اور اسی یقین نے اُن کو حصولِ پاکستان کی صورت میں عظیم کام یابی سے ہم کنار کیا۔

برطانوی پارلیمنٹ کے معروف رکن اور مدبر سراسٹیفورڈ کرپس نے کہا کہ وہ بحیثیت انسان راست بازی اور دیانت داری کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز تھے۔ اُن کے ساتھ گفتگو کرنا متعدد وجوہات کی بنا پر دشوار ترین تھا کیوں کہ وہ اپنے مقصد اور موقف پر غیرمتزلزل یقین رکھتے تھے۔ بہت نفیس اور خوش اخلاق تھے۔ ا

پنے موقف کے حق میں دوسروں کو ہموار کرنا اور دوسروں کے اُٹھائے ہوئے سوالات کا مدّلل جواب دینے کے لیے پوری رات جاگنے کے لیے تیار رہنا اُن کی فطرت ثانیہ تھی۔ وزیرہند سرپیتھک لارنس کا خیال ہے کہ جناح کا نام ایک عظیم قوم کی تشکیل کرنے والے راہ نما کی حیثیت سے تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔


امریکا کے صدر ہیری ٹرومین نے قائد کے حوالے سے کہا کہ محمدعلی جناح نہ صرف پاکستان کے خواب کو تعبیر سے ہم کنار کرنے والے بلکہ ایک مملکت کے معمار اور دنیا کی سب سے بڑی قوم کے بابائے قوم تھے۔ اُن کی مقصد سے وابستگی جاں نثاری اور بے مثل قیادت کی یادیں آئندہ آنے والے دنوں میں بھی پاکستان کے عوام کی راہ نمائی کرتی رہیں گی۔

امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ جارج مارشل نے قائداعظم کی خصوصیات گنواتے ہوئے کہا کہ اُن کی راست بازی، دیانت داری، خلوص اور ناقابلِ تسخیر عزم کی اُن کے سیاسی دوست اور دشمن سب ہی قدر کرتے رہے۔ محمدعلی جناح کو تنظیمی اور سیاسی اُمور میں جو مہارت حاصل تھی اس نے اُن کو نہ صرف ایشیا بلکہ دنیا کے عظیم مدبروں کی صف میں ہمیشہ نمایاں رکھا۔

بمبئی کے وزیراعلیٰ اور قائداعظم کے ذاتی دوست پی جی کھیر نے قائداعظم محمدعلی جناح کو ایک تاریخ ساز شخصیت قرار دیا اور کہا کہ اُن کی قوتِ فیصلہ، خود اعتمادی اور بے مثل سیاسی بصیرت و وکالت نے اُن کو قابلِ رشک راہ نما بنا دیا تھا۔

سیکریٹری آف اسٹیٹ برائے ہند ایڈون سموئل مانیٹگو نے 1917 میں قائداعظم محمدعلی جناح کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ نہایت ہوشیار آدمی ہیں اور افسوس کہ اُن کو ان کے اپنے ہی ملک ہندوستان کے اُمور حکومت میں کوئی دخل حاصل نہیں ہے۔

1946-47 میں صوبہ سرحد کے گورنر سر اولف کیرو کا کہنا ہے کہ محمدعلی جناح ایک سیاست داں سے بھی بڑھ کر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شخص اُن کے بارے میں صائب رائے رکھتا ہے۔ اُن کی مکمّل شخصیت قابلِ رشک ہے۔

اسٹیٹس مین کے ایڈیٹر آئین اسٹیفن نے اپنی کتاب میں قائداعظم کو ایک قوم کا معمار قرار دیتے ہوئے کہا کہ مستقبل کے مورّخ محمدعلی جناح کو بسمارک اور کیور کا ہم پلّہ قرار دیں گے۔

پروفیسر رش بروک ولیمز نے جو لندن ٹائمز کے ایڈیٹوریل اسٹاف میں بھی شامل تھے قائداعظم کی رحلت پر اُن کے بارے میں اظہارِخیال کرتے ہوئے لکھا کہ وہ ایک عظیم راہ نما تھے۔ ایک ایسے راہ نما جنہوں نے برِّصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ میں ایک انقلاب برپا کردیا۔

قائداعظم کے انتقال پر سرپیتھک لارنس نے کتنی معنٰی خیز بات کہی تھی کہ ''گاندھی ایک قاتل کے ہاتھوں مارے گئے لیکن جناح نے پاکستان سے گہری وابستگی اور لگاؤ کی راہ میں اپنی جان دے دی۔''

لندن ٹائمز نے لکھا، ''وہ ان لوگوں کے لیے اس قوم کے لیے جو ان کی راہ نمائی میں یہاں تک آئی تھی۔ قائداعظم سے بھی بڑھ کر، سربراہ مملکت سے بھی زیادہ سربلند اور اس اسلامی مملکت کے جس کی بنیاد خود انہوں نے رکھی تھی، معمار سے بھی کچھ زیادہ ہی حیثیت رکھتے تھے۔''

قائداعظم بلاشبہ ہندوستان کی جدید تاریخ کے معمار تھے۔ ایک تاریخ ساز شخصیت۔ ایک ایسی شخصیت جس کی عصرِحاضر میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ بقول سروجنی نائیڈو جناح ''عصرِحاضر کی سب سے سربرآور دہ اور جاذب نظر شخصیت تھے۔''

قائداعظم محمدعلی جناح کی شخصیت آج بھی اپنے سیاسی کردار کے آئینہ میں سماجی علوم کے ماہرین کے لیے ایک اہم ترین شخصیت ہے۔ ایک ایسی شخصیت جس کی تفہیم کے بغیر ہندوستان کی جدید تاریخ کا نہ ابلاغ ممکن ہے اور نہ ہی پاکستان کی اُن کے تصوّر کے مطابق ترقّی و خوش حالی یقینی بنائی جاسکتی ہے۔
Load Next Story