سانحہ بلدیہ فیکٹری کو 8 سال گزر گئے متاثرین انصاف کے منتظر
رئیس کی شادی کو صرف 4 ماہ ہوئے تھے، 11 ستمبر کو پیدا ہوا اور اسی تاریخ کو خالق حقیقی سے جا ملا، بھائی رشید
سانحہ بلدیہ فیکٹری کو 8 سال بیت گئے تاہم متاثرین اب تک عدالتی فیصلے کے منتظر ہیں، بلدیہ ٹاؤن کی گارمنٹس فیکٹری میں لگنے والی خوفناک آگ میں260 افراد زندہ جل گئے تھے۔
بلدیہ ٹاؤن میں حب ریور روڈ پر واقع گارمنٹس فیکٹری علی انٹرپرائززمیں بھتہ نہ دینے پر11 ستمبر 2012 کوآگ لگائی گئی تھی جس کے نتیجے میں کام کرنے والے 260 افراد زندہ جل گئے تھے، فیکٹری کے باہر موجود بے بسی کی تصویر بنے ان کے لواحقین اپنے پیاروںکی چیخ و پکار سن کر بھی کچھ نہیں کر سکے اور اپنے پیاروں کو جلتا ہوا دیکھتے رہے۔
سانحے میں بلدیہ ٹاؤن گجرات کالونی کا رہائشی 27 سالہ رئیس احمد بھی جاں بحق ہوگیا تھا جس کی جس کی شادی کو صرف4ماہ ہی ہوئے تھے، ریئس احمد معمول کے مطابق صبح 9 بجے ملازمت پر فیکٹری گیا مگر واپس نہ لوٹ سکا، وہ اپنے جائے پیدائش 11 ستمبر کے دن ہی خالق حقیقی سے جا ملا تھا۔
مرحوم کے بڑے بھائی رشید احمدنے ایکسپریس سے گفتگوکرتے ہوئے کہاکہ بھائی کوزندہ جلتا ہوا دیکھنے کے مناظرآج بھی میری آنکھوں کے سامنے گھومتے ہیں، اسے بچانے کے لیے کچھ نہیں کرسکے، ہر 11 ستمبر کو تمام زخم تازہ ہوجاتے ہیں،چھوٹے بھائی رئیس کوماں باپ کے انتقال کے بعد ہم بھائیوں نے پال پوس کر بڑاکیا تھا وہ دوپہر کوکھانا کھانے گھر آیا تھا اورہم نے شام کواس کی سالگرہ منانے کا پلان بنایاتھا، شام کو اطلاع ملی کہ فیکٹری میںآگ لگ گئی ہے جب تک میںفیکٹری پہنچاتب تک سب کچھ ختم ہوچکا تھا، حکومت ہم سے معاوضہ لے لے لیکن ہمارا بھائی ہمیں واپس لوٹا دے۔
دوسرے بڑے بھائی شفیق احمد کا کہنا تھا کہ جب بھی بلدیہ فیکٹری کے سامنے سے گزرتے ہیں ہمارے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں،کسی کو قصور وار نہیں کہہ سکتے، عالم ہی کچھ اور تھا ہم بے بس کھڑے تھے، لوگوں کی چیخ و پکار سن کربھی کچھ نہیںکر پا رہے تھے۔
بدقسمت عمران مشین آپریٹر تھا جسے موت گھر سے فیکٹری کھینچ لائی تھی
فیکٹری میں زندگی کی بازی ہارنے والا بدقسمت 32 سالہ عمران خان ولد اکبرخان فیکٹری میں مشین آپریٹرتھا جس کو دوپہر فیکٹری سے گھرآنے کے بعد موت واپس فیکٹری کھینچ کرلے گئی تھی۔
مرحوم عمران خان کے بڑے بھائی آصف خان کا کہنا تھا ہمیں میڈیا کے ذریعے واقعے کی اطلاع ملی تھی، دوپہر کھانے کے لیے بھائی گھر آیا تھا، پیمنٹ کا دن تھا ٹھیکیدار سے پیسے لینے اس لیے وہ واپس فیکٹری چلا گیا تھا، حکومت کو چاہیے کہ وہ فیکٹری میں جاں بحق ہونیوالے ہرفرد کے گھر میں سے کسی ایک فردکیلیے نوکری کا بندوبست کرے۔
عدالت نے بلدیہ فیکٹری کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا، 17 ستمبر کو سنایا جائے گا
انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے 3 سال 7 مہینے کے بعد کارروائی مکمل ہونے پر سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے جو 17 ستمبر کو سنایا جائے گا۔
بلدیہ ٹاؤن میں حب ریور روڈ پر واقع گارمنٹس فیکٹری علی انٹرپرائززمیں بھتہ نہ دینے پر11 ستمبر 2012 کوآگ لگائی گئی تھی جس کے نتیجے میں کام کرنے والے 260 افراد زندہ جل گئے تھے، فیکٹری کے باہر موجود بے بسی کی تصویر بنے ان کے لواحقین اپنے پیاروںکی چیخ و پکار سن کر بھی کچھ نہیں کر سکے اور اپنے پیاروں کو جلتا ہوا دیکھتے رہے۔
سانحے میں بلدیہ ٹاؤن گجرات کالونی کا رہائشی 27 سالہ رئیس احمد بھی جاں بحق ہوگیا تھا جس کی جس کی شادی کو صرف4ماہ ہی ہوئے تھے، ریئس احمد معمول کے مطابق صبح 9 بجے ملازمت پر فیکٹری گیا مگر واپس نہ لوٹ سکا، وہ اپنے جائے پیدائش 11 ستمبر کے دن ہی خالق حقیقی سے جا ملا تھا۔
مرحوم کے بڑے بھائی رشید احمدنے ایکسپریس سے گفتگوکرتے ہوئے کہاکہ بھائی کوزندہ جلتا ہوا دیکھنے کے مناظرآج بھی میری آنکھوں کے سامنے گھومتے ہیں، اسے بچانے کے لیے کچھ نہیں کرسکے، ہر 11 ستمبر کو تمام زخم تازہ ہوجاتے ہیں،چھوٹے بھائی رئیس کوماں باپ کے انتقال کے بعد ہم بھائیوں نے پال پوس کر بڑاکیا تھا وہ دوپہر کوکھانا کھانے گھر آیا تھا اورہم نے شام کواس کی سالگرہ منانے کا پلان بنایاتھا، شام کو اطلاع ملی کہ فیکٹری میںآگ لگ گئی ہے جب تک میںفیکٹری پہنچاتب تک سب کچھ ختم ہوچکا تھا، حکومت ہم سے معاوضہ لے لے لیکن ہمارا بھائی ہمیں واپس لوٹا دے۔
دوسرے بڑے بھائی شفیق احمد کا کہنا تھا کہ جب بھی بلدیہ فیکٹری کے سامنے سے گزرتے ہیں ہمارے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں،کسی کو قصور وار نہیں کہہ سکتے، عالم ہی کچھ اور تھا ہم بے بس کھڑے تھے، لوگوں کی چیخ و پکار سن کربھی کچھ نہیںکر پا رہے تھے۔
بدقسمت عمران مشین آپریٹر تھا جسے موت گھر سے فیکٹری کھینچ لائی تھی
فیکٹری میں زندگی کی بازی ہارنے والا بدقسمت 32 سالہ عمران خان ولد اکبرخان فیکٹری میں مشین آپریٹرتھا جس کو دوپہر فیکٹری سے گھرآنے کے بعد موت واپس فیکٹری کھینچ کرلے گئی تھی۔
مرحوم عمران خان کے بڑے بھائی آصف خان کا کہنا تھا ہمیں میڈیا کے ذریعے واقعے کی اطلاع ملی تھی، دوپہر کھانے کے لیے بھائی گھر آیا تھا، پیمنٹ کا دن تھا ٹھیکیدار سے پیسے لینے اس لیے وہ واپس فیکٹری چلا گیا تھا، حکومت کو چاہیے کہ وہ فیکٹری میں جاں بحق ہونیوالے ہرفرد کے گھر میں سے کسی ایک فردکیلیے نوکری کا بندوبست کرے۔
عدالت نے بلدیہ فیکٹری کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا، 17 ستمبر کو سنایا جائے گا
انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے 3 سال 7 مہینے کے بعد کارروائی مکمل ہونے پر سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے جو 17 ستمبر کو سنایا جائے گا۔