کون سا دو قومی نظریہ

ہماری ابتدائے رپورٹنگ کے زمانے میں جن استادوں کی خدمت میں حاضری کا اعزاز رہا، ان میں سے ایک مشہور و معروف رپورٹر۔۔۔


Abdul Qadir Hassan December 16, 2013
[email protected]

ہماری ابتدائے رپورٹنگ کے زمانے میں جن استادوں کی خدمت میں حاضری کا اعزاز رہا، ان میں سے ایک مشہور و معروف رپورٹر میاں محمد شفیع بھی تھے جو م ش کے نام سے مشہور تھے۔ ایک دن دفتر کی سیڑھیوں میں ان سے ملاقات ہو گئی۔ انھوں نے مجھے روکا اور کہا کہ دیکھو رپورٹر کے اندر بھی ایک خبر ہوتی ہے۔ اتنا کہہ کر وہ حسب عادت تیزی کے ساتھ سیڑھیاں اتر گئے اور مجھے کنفیوژن اور ابہام کی کیفیت میں مبتلا کر گئے۔

میں نے رات کی ڈیوٹی پر موجود اپنے نیوز ایڈیٹر سے پوچھا کہ میاں صاحب نے مجھے اس الجھن میں ڈال دیا ہے کہ رپورٹر کے اندر بھی ایک خبر ہوتی ہے، اس کا مطلب کیا ہے جواب میں انھوں نے تفصیل کے ساتھ میاں صاحب کی بات کی وضاحت کی کہ کوئی خبر کس طرح بنی اور کس طرح سامنے آئی، اس کا پس منظر کیا تھا اور کیا حالات تھے جنہوں نے کسی خبر کو جنم دیا۔ یہ سب باتیں رپورٹر کے ذہن میں ہونی چاہئیں۔ اس وقت وہ ایک بڑے لیڈر کا بیان ایڈٹ کر رہے تھے۔ انھوں نے اسی کو میرے سامنے رکھ کر کہا کہ انھوں نے یہ بیان کیوں دیا ہے جب تک اس بیان کو جاری کرنے کی وجہ باقی رہے گی تب تک یہ بیان زندہ رہے گا۔ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے جب تک کوئی عمل باقی رہے گا اس کا ردعمل بھی سامنے آتا رہے گا۔ خبر بنتی رہے گی۔

عملی صحافت میں میاں صاحب (م ش) کی اس بات کے اسرار کھلتے رہے اور اس کی وجہ سے ایکسکلوزیو خبریں آتی رہیں جن کا سورس میرا ذہن ہوتا تھا۔ خبر باہر سے نہیں میرے اندر سے پیدا ہوتی تھی اور آج کوئی رپورٹر اگر غور کرے تو اسے یہ صورت حال واضح طور پر دکھائی دے گی۔ ان دنوں کوئی 66 برس بعد پہلی مرتبہ پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں پر نہیں اس کی نظریاتی سرحدوں پر حملہ شروع ہوا ہے ورنہ سقوط ڈھاکہ تک بھارت نے ہمیشہ پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں پر لشکر کشی کی لیکن اب اس نے جغرافیائی سرحدوں کو چھوڑ کر اسے اندر سے کھوکھلا کرنے کے لیے اس کی نظریاتی سرحدوں پر یلغار شروع کر دی ہے۔

پاکستان دنیا کا پہلا ملک ہے اور اب تک وہ پہلا ہی ہے جو زمینی حدود کی وجہ سے نہیں نظریاتی حدود کی وجہ سے وجود میں آیا ہے ورنہ سرزمین ہند کے جس حصے پر پاکستان ہے وہاں پہلے اس نام سے کوئی آزاد ملک نہیں تھا۔ اس لیے جب پاکستان کا وہ بنیادی دو قومی نظریہ کمزور کر دیا جائے گا پاکستان اتنا ہی کمزور ہو جائے گا۔ پاکستان پر نظرثانی حملہ اس وجہ سے بھی کہا گیا ہے کہ اب اس پر فوجی حملہ آور کے لیے سخت خطرناک ہو سکتا ہے۔ ایٹم بم کے وجود نے اس ملک کی جون ہی بدل دی ہے اور اب یہ ڈھاکہ کی طرح ایک آسان محاذ نہیں ہے اگرچہ یہاں بھی اب سیاستدانوں کی ایک ایسی نسل تیار ہو گئی ہے جو سابقہ مشرقی پاکستان کی یاد دلاتی ہے۔ یحییٰ خان، بھٹو اور شیخ مجیب کی قماش کے لوگ دکھائی دینے لگ گئے ہیں۔

یہ ایک لمبی اور ضروری بحث ہے، موقع ملا تو دل کی بھڑاس ضرور نکالیں گے فی الحال میں یہ خبر دینا چاہتا ہوں کہ بھارت امریکا کی سرپرستی اور خوشدلانہ تعاون کی وجہ سے شیر بن رہا ہے اور پاکستان کی حکومت کو اپنے دباؤ میں رکھے ہوئے ہے۔ ایک عجیب خبر چھپی ہے کہ 'پاکستانی' ملا عبدالقادر کی پھانسی پر حکومت پاکستان اس لیے خاموش رہی کہ اس سے بھارت کے ساتھ امریکا بھی ناراض ہو سکتا ہے یعنی وہ خبر جو میں اپنے ذہنی سورس کی وجہ سے سمجھ رہا تھا وہ اب اخبارات میں چھپ رہی ہے۔

تھوڑا سا پس منظر بیان کریں تو جب برطانیہ عظمیٰ عالمی جنگ میں کمزور ہو گیا تو اس نے اپنی وسیع و عریض مقبوضات سے دست برداری کا فیصلہ کر لیا اور امریکا سے بات کر کے اس کو اپنا جانشین مقرر کر کے یہ مقبوضات اپنے سمیت اس کے سپرد کردیں اور خود جزائر برطانیہ تک سمٹ گیا۔ آپ یاد کریں کہ امریکا نے پاکستان میں اپنے خاص اسٹائل میں قبضے کا آغاز کیا۔ ہماری فوج کو اپنے تابع کیا، اسلحہ دیا اور صرف اسلحہ ہی نہیں فوج کو چھاؤنیاں بھی بنا کر دیں مثلاً ہماری کھاریاں چھاؤنی امریکا کی تعمیر کی ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشی میدان میں بھی امریکا نے پاکستان کو اپنا محتاج کر لیا۔ امریکی ڈالر کا تماشا ہم دیکھ رہے اور امریکی زیر اثر ادارے آئی ایم ایف کا ہماری معیشت پر قبضہ، یہ سب ہمارے سامنے ہے۔ تفصیلات بہت ہیں لیکن مختصراً اتنا سمجھ لیں کہ اب انگریزی سامراج کی جگہ امریکا نے لے لی ہے۔ یہ بھی ہمارے سامنے ہے کہ امریکا اس خطے میں بھارت کو اپنا تھانیدار بنا رہا ہے۔

امریکا کا یہ پرانا طریق کار ہے کہ وہ دنیا کے مختلف خطوں میں جہاں بس چلتا ہے وہاں اپنا ایجنٹ مقرر کر دیتا ہے۔ ایک مدت تک شاہ ایران اس خطے کا بھی بادشاہ تھا۔ ایران میں خمینی انقلاب نے شاہ ایران کو بے دخل کر دیا۔ امریکا اس مذہبی انقلاب کا جائزہ لیتا رہا اور اب برسوں بعد اس انقلاب کے نمایندے امریکا کے ساتھ معاہدے کر رہے ہیں۔ ع بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے۔ ہمارے ہاں پاکستان میں امریکا کو کسی کا سامنے نہیں تھا۔ بہت آسان صورت حال تھی۔ مارشل لاء لگے تو امریکا کی علانیہ منظوری کے ساتھ۔ ہمارے بعض فوجی حکمران تو امریکا کے ریٹائر جرنیلوں تک سے بھی اپنے انقلاب کی اجازت لیتے رہے ہیں جیسے پرویز مشرف نے اپنے کسی ٹونی جرنیل سے لی تھی جو ان دنوں افریقہ کے کسی ملک میں تھا اور ریٹائرمنٹ کے موڈ میں کسی ملک میں سیرکر رہا تھا۔ ہمارے ہاں کھلے بندوں یہ پوچھا جاتا ہے کہ حکمران کو امریکا نے منظور کر لیا ہے یا نہیں۔ خواہ وہ منتخب وزیراعظم ہو یا فوجی آمر۔ آج کے پاکستان پر امریکا کی بالادستی ایک مسلمہ واقعہ ہے۔

امریکا نے اپنے ہاتھ پاؤں اس قدر پھیلا لیے ہیں کہ اب اسے دنیا کے اس حصے میں بھی اپنا کام کرنے کے لیے پھر کسی ایجنٹ کی ضرورت ہے جو فی الوقت شاہ ایران کی جگہ بھارت ہے اور پاکستان کے لیے بھارت کیا ہے کسی پاکستانی کو یہ بات سمجھنے میں دقت نہیں ہوتی۔ ہمارے جیسے کمزور لالچی اور بے ضمیر پاکستانیوں کے سامنے امریکا کھڑا ہو تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔ دو قومی نظریہ تو بہت دور کی بات ہے حالات جتنی اجازت دیں گے یہ بنیادی باتیں عرض کرتے رہیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔